عروج اسلام میں بچوں کی تربیت کا اہم کردار!

نگارش: شفیع احمدقاسمی اِجرا،مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

            ”تربیت“ کے معنیٰ پالناپوسناہے اوریہاں تربیت سے مرادبچوں کوآہستہ آہستہ اُن پسندیدہ عادتوں اور خصلتوں کاحامل بنانے میں مدددیناہے،جودنیاوآخرت میں اُن کی فلاح اورکامرانی کے لیے ضروری ہیں۔

(بچوں کی تربیت:ص۲۸)   

            بچے اللہ تعالیٰ کاعطیہ اورعظیم نعمت ہیں۔ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اوراُن کے دل کا سرورہیں۔یہ ہمارے مستقبل کے معمارہیں۔دیرسویریہی ملک وقوم کی قیادت اورمذہب وملت کی پیشوائی کااہم فریضہ انجام دینے والے ہیں۔اِس لیے کسی بھی قوم کی ترقی اِس بات پرانحصارکرتی ہے کہ اس کے نونہالوں کی پرورش وپرداخت بہترطریقے پرہو۔یہی وجہ ہے کہ اسلام؛ جو کہ مہدسے لحدتک انسانی زندگی کے تمام گوشوں کے لیے ایک جامع نظامِ حیات پیش کرتاہے ۔اورماں باپ کوجوکہ بچوں کی تربیت وپرورش کے ذمہ دارہیں، مخاطب بنا کر قرآن کریم کی زبان سے یہ حکم دیتاہے کہ﴿ ٰٓیاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ﴾۔

            ترجمہ:کہ اے ایمان والو!بچاوٴاپنے آپ کواوراپنے اہل وعیال کوایسی آگ سے ، جس کاایندھن آدمی اور پتھرہوں گے۔

            مذکورہ آیت کی تفسیرکرتے ہوئے دامادِرسولِ مقبول،شوہرِبتول،شیرخدا حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں: ”کہ اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے کی صورت یہ ہے کہ اُنھیں دین کی تعلیم دی جائے اوراُن کی تادیب وتربیت پرتوجہ صرف کی جائے“۔

نیٹ ورک ایریاسے باہر ہے:

            موجودہ معاشرے اورحالات میں بچوں کی دینی و اسلامی تربیت اوراُن کی صحیح رہ نمائی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔اِس کے اسباب میں جہاں ہماری روزمرہ کی کچھ بے جامشغولیات اوربے تحاشادولت بٹورنے کی سبقت وہوس میں عدیم الفرصتی کا شکوہ ہے ،وہیں پردین سے حددرجہ غفلت اوردوری بھی ہے ۔سائنسی ایجادات اورنئے نئے انکشافات واختراعات کی مہربانی سے ایک اورچیزبھی اِس فہرست میں شامل ہوچکی ہے ۔اوروہ ہے ”موبائل فون“ یا ”ایمان کا خون“ ۔آج حال یہ ہے کہ ہماری اکثریت ہرجگہ اِسی بات کاآنسو بہارہی ہے کہ ہماری اولادبگڑرہی ہے،ہماری بات نہیں مانتی،بری صحبت میں پڑ گئی ہے،نشے کی لَت لگ گئی ہے وغیرہ۔اگرہم حالات پر غورکریں تواِس کی وجہ یہی سمجھ میںآ تی ہے کہ آج موبائل فون اورنیٹ کی برکت سے اولاد؛ والدین کے (Network)یااُن کے (Coverage Area)سے باہر ہورہی ہے ۔

موبائل پکڑادو:

            آج ہماری حالت اورہرگھرکی کہانی یہ بنی ہوئی ہے کہ جہاں بچہ رویا؛فوراًہی گاناسیٹ کرکے کان سے موبائل لگادیا۔اگر کسی طرح کی ضدکی توہاتھ میں موبائل تھماکر(One Side) ہوجاتے ہیں۔اب ہم خودایک طرح سے روحانی سکون محسوس کرتے اور نونہالوں کوبھی آزاد چھوڑدیتے ہیں۔ اور پھراُن کی طرف پلٹ کریہ دیکھنے اور نگرانی کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے کہ بچہ موبائل کے دریامیں ڈوب کر کیا کررہاہے اورکون ساخوب صورت گل کھلا رہاہے؟اب خودہی فیصلہ کرلیجیے کہ اگریہی صورت ِحال ہو گی توہمارے لاڈلے ہمارے نیٹ ورک ایریا سے باہر نہیں جائیں گے تو پھر کہاں جائیں گے؟لیکن اللہ کاشکرہے کہ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں بھی اولادکو سیدھی لائن پرلانے کے لیے ہماری کوشش جاری رہتی ہے ۔

نتیجہ الٹاہی نکلتاہے :

            اللہ رب العزت اپنی قدرت کے کرشمے دکھانے ،بندوں کواسباقِ معرفت دینے کے لیے کبھی کبھی ایسے واقعات دنیاکے نقشہ پرظاہرفرماتے رہتے ہیں کہ بسااوقات والدین اپنی اولادکوسدھارنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں ۔ دین کی سیدھی پٹری پراُن کوچلاناچاہتے ہیں،اُن کی صحیح تربیت اوراُن کودین داربنانے کی بڑی محنت کرتے اورہرقسم کے پاپڑبیلتے ہیں،لیکن دیکھایہ جاتاہے کہ رزلٹ اکثر الٹاہی نکلتاہے۔”مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی“ اولاد سدھرتی نہیں،دین داربنتی نہیں، بل کہ اور زیادہ ہی بگڑتی چلی جاتی ہے، کوئی نصیحت کار گر ہی نہیں ہوتی ،بل کہ ایسامحسوس ہوتاہے کہ ساری نصیحت سرکے اوپرسے گذررہی ہے۔ حصولِ شفاکے لیے دوا پلانے کی کوشش کروتواُلٹی ؛یعنی(قے)ہونے لگتی ہے۔ اولاد اپنے ناصح کو اپنا کٹّردشمن سمجھتی ہے ۔نصیحت اور خیر خواہی کی باتوں کوایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال باہر کر دیتی ہے۔وہ تواٹھتے بیٹھتے بزبان حال یہی کہتی ہے کہ

ناصحا ! مت کر نصیحت ، دل میرا گھبرائے ہے

میں اُسے سمجھوں گا دشمن ، جو مجھے سمجھائے ہے

            اور بعض والدین ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ کسی بھی قسم کی پابندی نہیں لگاتے،اُن کی صحیح تربیت پرکچھ بھی محنت نہیں کرتے،دین داراورباکرداربنانے کے لیے کوئی توجہ نہیں دیتے ،بل کہ اُن کو الٹا بے لگام چھوڑدیتے ہیں؛ کوئی روک ٹوک نہیں کرتے۔پھربھی اولادنیک،پرہیزگاراورصالح بن کر اُن کی آخرت کے لیے نافع اورتاقیام قیامت ؛صدقہٴ جاریہ بن جاتی ہے ،جیساکہ آگے چل کراِس کی صراحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کی جائے گی۔   

اب دیکھو کیاہوتاہے ؟

            شیطان ایسے واقعات سے عوام کوفریب اوردھوکا دیناشروع کرتاہے ۔اوریوں خلوص کی سندکے ساتھ گمراہ کرتااورالٹی سیدھی پٹی پڑھاتاہے کہ دیکھوایسی غلطی خواب میں بھی مت کرنا۔اولادپرکبھی بھولے سے بھی پابندی نہیں رکھنی چاہیے،بل کہ اُن کوآزادہندستان تاقبرستان چھوڑدینا چاہیے۔پابندی رکھنے کی وجہ سے اولاد گھبر ا کربگڑجاتی ہے ،باغی اور خودسرہوجاتی ہے ۔اوروہ والدین سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اوراُن کوآزادی کی نیلم پری دینے سے زندگی کی راہوں میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ خوشی ومسرت کے مارے اُن کا ذہن انڈیاگیٹ کی طرح کھل جاتا ہے اورایسی صورت میں صحیح اور غلط کی تمیز،نفع ونقصان اوربھلے برے کی پہچان اُن میں پیداہوجاتی ہے ، اِس لیے وہ خودبہ خودہی سدھرنے اوراچھے کام کرنے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیں!کہ یہ تلبیسِ ابلیس اور خوب صورت شیطانی دھوکا ہے۔ ایسے حالات جب بھی پیش آئیں تویہ سوچناچاہیے کہ ہم تو اللہ کے بندے اوراُس کے غلام ہیں۔اوربندے کا کام صرف یہ ہے کہ وہ مالک کے ہر حکم کی تعمیل کرے ،وہ جس طرف چلنے کوکہے اسی طرف کو چل پڑے،ہرحکم پر بلاچوں وچرا”سمعنا واطعنا“ کہتارہے۔ آگے اس پر نتیجہ مرتب ہونا یانہ ہونااُسی مالک کے قبضے میں ہے؛کیوں کہ اُن کی شان؛بہ زبانِ قرآن﴿اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ہے۔ ہماراکام فقط حکمِ الٰہی کی تعمیل ہے ۔اسی لیے رب رحمن نے قرآن میں صاف لفظوں میں فرمادیا ہے: ﴿اِنَّکَ لَاتَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ۔﴾ (القصص:۵۶)

            ترجمہ: آپ جس کوچاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ۔

نتائج اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہیں:  

            اب تاریخ وسیرت کی کتابیں اٹھاکر دیکھ لیجیے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے اوربیوی کو، حضرت لوط علیہ السلام اپنی بیوی کو، حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے ابا محترم ”آزر“کواورسرکارِدوعالم محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب چچا”ابو طالب“کوراہِ ہدایت پر نہیں لا سکے، اُن کواسلام اورصراطِ مستقیم کی پٹری پرنہ ڈال سکے توپھرہم کیاہیں اورکس کھیت کی مولی ہیں؟اورہماری حیثیت ہی کیاہے؟یہ بات یادرکھیں کہ ایسے واقعات سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدر ت ظاہر فرما کر یہ سبق دیتے ہیں کہ نتائج ہمارے قبضے میں ہیں نہ کہ تمہارے۔اِس قانونِ الٰہی کے تحت اگروالدین کی مقدوربھر کوشش کے باوجود اولادنہیں سدھری توبھی انہیں اپنی کوشش اورمحنت کااِن شاء اللہ پورا اجر ملے گا۔﴿اِنَّ اللّٰہَ لَایُضِیْعُ اَجْرَالْمُحْسِنِیْنَ۔﴾میں یہی تسلی دی گئی ہے ۔

ہماراکام ؛کوشش ہے:

            اللہ تعالیٰ اُن کی محنت اوراجرکوہرگزضائع نہیں فرمائیں گے۔ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ شاہ راہِ زندگی کے ہر موڑپر ہم اولادکی خالص اسلامی اوردینی ماحول میں تعلیم وتربیت کی فکراورکوشش کرتے رہیں۔ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ ارشاد: ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًااِلَّا وُسْعَھَا﴾ہمیں اسی بات کا پابند بنا رہا ہے کہ ہمارے ذمہ صرف اپنی مقدوربھرکوشش کرنا ہے ۔اور نتیجہ اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے۔ ”السعی منا و الاتمام من اللّٰہ

آج کے مسلمان کی غفلت:

            مگرآج کامسلمان دولت کاپجاری اوراتنابے فکراہوچکاہے کہ بچوں کی اسلامی تربیت کی خاطرپانچ منٹ بھی دینے کو تیارنظر نہیںآ تا۔ فضول باتیں کرتا رہے گا، خرافات میں وقت گزاردے گا،کھانے کے دسترخوان پر اگر ۱۵/ منٹ لگتے ہوں تو ایک گھنٹہ لگادینااُس کے لیے آسان ہے، اپنے مزے کے لیے اِدھراُدھرکے سارے کام کرتا رہے گا، دوستوں اوریاروں میں بیٹھ کر لغویات وفضولیات کی مجلسیں جماتا اور سجاتارہے گا،فیس بک ،واٹس ایپ، انسٹا گرام اور ٹوئیٹر سے چیٹ کرتا رہے گا۔مگربچوں کی تربیت ؛جواُس کی ذمہ داری ہے، اس کی کوئی فکردل میں نہیں ہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں: ”مانحل والد ولدامن نحل افضل من ادب حسن“کہ کوئی باپ اپنی اولادکواچھی تربیت سے بڑھ کرکوئی دولت نہیں دیتا۔

(ترمذی)

مرنے کے بعدبھی ثواب :

            یہ بات یادرکھیں کہ اگربچوں کی صحیح تربیت ہوگئی تووالدین کے لیے دنیامیں راحت وسکون کاذریعہ تو بنیں گے ہی اوروالدین کے مرنے کے بعد بھی جوکام نیک اولاد کرے گی اس کاثواب والدین کوملتارہے گا،خدائی بینک اکاوٴنٹ میں نیکیوں کے خزانے جمع ہوتے رہیں گے؛کیوں کہ نیک اولادماں باپ کے لیے صدقہٴ جاریہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اذاماتَ الانسانُ اِنقطعَ عملُہ الامن ثلاثٍ:صدقة جاریة او علمٍ ینتفعُ بہ او ولدصالح یدعولہ“یعنی جب انسان مرکراِس دنیاسے چلاجاتاہے ،تواس کے اعمال اور ثواب کاسلسلہ ختم ہو جاتاہے ، مگرتین چیزیں ایسی ہیں کہ جن کاثواب مرنے کے بعدبھی ملتاہی رہتاہے ۔ایک ہے صدقہٴ جاریہ،دوسرے وہ علم؛ جس سے لوگوں کونفع پہنچتا رہے اورتیسرے صالح اولادجواُس کے لیے مرنے کے بعدبھی دعاکرتی رہے ۔

چھکاکاڈیزائن:

            غیروں کی تواِس تعلق سے کوئی بات نہیں کرناچاہیے ۔کیوں کہ ہم اشرف المخلوقات اورمسجودِ ملائکہ کہلانے والے مسلمان بھی؛جوایک مکمل نظام حیات رکھتے ہیں،آج کل کے مشینی ایجادات اورترقی یافتہ دور یازندگی کی بھاگ دوڑمیں جس طرح بچوں کی تربیت کررہے ہیں،اُسے ہم میں کاہرآدمی جانتاہے،اِسی لیے کسی کو کچھ بتانے اوراِس پرزیادہ کہنے سننے اورقلم کو حرکت دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اِسی تربیت کے تعلق سے استاذ محترم مولانا سید محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشین خانقاہ رحمانی مونگیر (بہار) اور امیر شریعت مسلم پرسنل لاء بورڈ کیاہی خوب فرماتے ہیں:

             ”کہ بچہ ابھی پاوٴں پرکھڑابھی نہیں ہوتاکہ چھکاکا ڈیزائن (Design) دینے لگتاہے“۔(حیات ولی)

            اگرہم اپنے گھروں میں بچوں کی اندازِ تربیت کاٹھنڈے دل سے جائزہ لیں،توپھراستاذمحترم کی بات میں پوری سچائی نظرآئے گی ۔یہ کسی ایک گھرکی نہیں،بل کہ ہر گھر کی کہانی ہے،نہیں کوئی لن ترانی ہے ۔

ڈبل رات ہے:

            اتنی اہمیت والاکام ؛اورآج کامسلم معاشرہ پانچ منٹ کاوقت دینے کوتیارنہیں،اِس لیے کہ”الوقت اثمن من الذہب“۔اگرکچھ سکھاتے بھی ہیں توکیا؟جب آتی ہے ”شب رات“ڈبل رات۔ شب بھی رات ہے اوررات بھی رات ہے ۔ڈبل ہوگئی نا،توجب یہ رات آتی ہے توجناب عالی!بچوں سے کہتے ہیں کہ بیٹا! آج خوب دعامانگو،اللہ سے بہت سارے پیسے مانگو ۔یہ بندہٴ خدا اوردولت کالالچی پیسے ہی مانگے گا۔ یہ نہیں کہ اپنی دعامیں سِرے سے اُنہی کومانگ لے ،جوتما م پیسے اورخزانوں کا بلاشرکتِ غیر مالک ومختارہے؛ کیوں کہ جب بادشاہِ وقت ہی اپنا ہوجائے ،توپھر دنیا کے خزانے بھی اپنے ، آخرت کے خزانے بھی اپنے۔ صحت کے بھی ، راحت کے بھی ،کسی نعمت کا کوئی بھی خزانہ اُس کے قبضے سے باہر نہیں ہے،جب وہ مل گیاتویہ سمجھ لوکہ سب مل گیا۔ ہمارے سروں پرغفلت کی چادر ایسی تنی ہوئی ہے کہ یہ توجہ اوردھیان نہیں کہ نافرمانیاں چھوڑکر مالک ہی کو راضی کر لیں، سب کے بجائے صرف رب کوخوش کرلیں۔ایسی تربیت کرنے کی بجائے انہیں ہمیشہ کی بربادی کے غار میں دھکیل دیتے ہیں ۔یہ ہے ہماری تربیت کانرالاانداز!

 سب سے پہلی درس گاہ:

            تربیت کے تعلق سے اہل دانش اورمفکرین کاخیال یہ ہے کہ سب سے پہلی درس گاہ ماں کی گودہوتی ہے۔ماں باپ بچوں کو جس سانچے میں ڈھالناچاہیں ڈھال سکتے ہیں۔اِس بات کی تائیدتاجداربطحاصلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد”کل مولودیولدعلی الفطرة فابواہ یہودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ“ سے بھی ہوتی ہے ؛کیوں کہ اُن کاذہن کورے کاغذکی مانندہوتاہے ،جس پرآج کا ڈالاگیانقش آگے چل کر ”نقش کالحجر“ثابت ہوتاہے ۔وہ آگے چل کر ویساہی بنے گا،جیساماں باپ چاہیں گے؛

جیساکہ کسی شاعرنے بھی نقشہ پیش کیاہے ۔

بچوں کے ماں کی گود بھی مکتب سے کم نہیں

یہ وہ مدرسہ ہے ، جس میں حاجت لوح و قلم نہیں

ایسی مائیں کہاں ہیں؟:

            آج ہے کوئی ماں؛جویہ کہے کہ میں بچے کایقین اللہ کے ساتھ بناتی ہوں؟ہے کوئی ماں جویہ کہے کہ میں تو صبح وشام کھاناکھلاتے ہوئے اپنے بچے کوترغیب دیتی ہوں کہ ہرحال میں سچ بولناہے ؟اِن چیزوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی۔باپ ذراسی نصیحت یاکسی غلطی پرذراسی گوشمالی کردے توماں فوراً کہتی ہے:بڑاہوگاتوٹھیک ہوجائے گا؛حالاں کہ بچپن کی بری عادتیں پچپن تک رہتی ہیں۔آج تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اولادجب بڑی ہوتی ہے تووہ اپنے باپ سے یوں نفرت کرتی ہے ،جیسے پاپ سے نفرت کی جاتی ہے ۔

ایک وقت وہ بھی تھا:

            کہ عورت صبح کی نماز پڑھاکرتی تھی۔اوربچوں کواپنی گودمیں لے کرکبھی سورہٴ یٰسین پڑھ رہی ہوتی تھی، کبھی سورہ ٴواقعہ پڑھ رہی ہوتی تھی۔اُس وقت بچے کے دل میں انوارات اتررہے تھے۔آج وہ مائیں کہاں گئیں، جوصبح کے وقت بچے کوگودمیں لے کرقرآن پڑھاکرتی تھیں؟آج توسورج نکل جاتاہے ،مگربچہ بھی سویا ہوا ہوتا ہے اورماں بھی سوئی ہوئی خراٹے لے رہی ہوتی ہے۔شام کاوقت ہوتاہے ،بچے کوماں نے گودمیں ڈالااورہاتھ میں ٹی وی کاریموٹ سنبھالا۔اُدھرسینے سے لگاکردودھ پلا رہی ہے ،ساتھ ہی بیٹھی ٹی وی پرڈرامہ بھی دیکھ رہی ہے۔

اے ماں!:

            جب توڈرامے میں غیرمحرم کودیکھے گی،موسیقی سنے گی اورغلط کام کرے گی۔اورایسی حالت میں بیٹے کو دودھ پلائے گی توبتا!تیرابیٹا جنیدبغدادی کیسے بنے گا؟ تیرابیٹاعبدالقادر کیسے بنے گا؟

(حیرت انگیز معلومات: ص۱۵۴)

 تربیتِ اولادکے لیے کچھ رہ نمااصول:

            (۱)اُن کی تعلیم وتربیت کی فکرکریں(۲)روزانہ گھرمیں خود قرآن کی تلاوت کااہتمام کریں (۳) گھر میں تہجد اوردیگرنوافل کااہتمام کریں(۴)اولادکے سامنے صحابہٴ کرام اوراسلافِ امت کی کہانیاں سنائیں (۵) غلط اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب کریں(۶)اُنھیں اچھے نام سے پکاراکریں(۷)ان کی عزت نفس کاخیال رکھیں (۸) اکابر علما سے ان کی ملاقات کرائیں(۹)دینی مدارس اوراسلامی شعائر سے ان کوواقف کرائیں (۱۰) اسلام کی تاریخ ان کو بتائیں۔ مسجد حرام،مسجدنبوی اورمسجداقصیٰ کااُن کے سامنے تذکرہ کریں(۱۱)اُن کے دوستوں اورکلاس ساتھیوں کے بارے میں جانیں کہ وہ کس کے ساتھ رہتے ہیں(۱۲)ان کے سامنے اپنی بیوی یا خاندان کے دیگر افراد سے جھگڑاوغیرہ نہ کریں (۱۳) انھیں نمازوں کے لیے اپنے ساتھ لے کرجائیں۔خصوصاً جمعہ اور عیدین کا خوب اہتمام کریں۔              اللہ ہمیں سمجھنے اورپھراس پرعمل کی توفیق مرحمت کرے آمین!