عالی صفات مولانا سید محمد شاہد الحسنی ۱۴۴۵ھ
عبداللہ خالد قاسمی خیر آبادی#
جمعہ کا دن تھا، ربیع الاول ۱۴۴۵ ئھ کی ۲۰ اور اکتوبر۳ ۲۰۲ء ء کی ۶ تاریخ تھی، عصر کی نماز ہو چکی تھی، لوگ نماز مغرب کی تیاری کر رہے تھے، احادیث میں مذکور ایک روایت کے مطابق ساعت مستجا بہ شروع ہو چکی تھی، اسی مسعود ساعت میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے ممتاز و مایہ ناز فرزند مخدوم گرامی منزلت حضرت مولانا سید محمد شاہد الحسنی اپنی زندگی کی تمام تر علمی صلاحیت اور ذہنی توانائی صرف کر کے لائق ِتحسین خدمات انجام دے کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالی مولانا محمد شاہد صاحب کو اپنی خصوصی رحمتوں سے نہال فرمائے، جنت کی باغ و بہار ان کامقدر فرمائے۔
مولانا مرحوم کو جو خاندانی نجابت، دادھیالی و نانیہالی وجاہت و شرافت، بزرگان دین اور علمائے عظام کی شفقت و قرابت، ذاتی طور پر علمی ذوق اور اس کی لطافت سے جو حصہ وافر ملا تھا، اس نے آپ کے خمیر کو مسِ خام سے ایسا کندن بنا دیا تھا، جس کی آب و تاب اور درخشندگی سے پورا ایک عالم منور ہوا اور ان شاء اللہ تاریخ کا انمٹ حصہ بن کر دیر تک اپنی ضیا پاشی کرتا رہے گا۔
حضرت مولانا کے سانحہٴ ارتحال سے واقعةًمدرسہ مظاہر علوم کے ایک عہد ِزریں کا خاتمہ ہو گیا ہے، اس لئے حضرت مولانا کی زندگی کا ہر لمحہ اور ان کی تگ و دو کی ہر آخری کوشش مظاہر علوم اور اس کی تاریخ سے وابستہ تھی۔ مولانا سید محمد شاہد صاحب پوری تندہی اور اولوالعزمی کے ساتھ بیک وقت تین محاذوں پر مصروف ِعمل رہے، جس کی مثال آج کے اس دور میں بہت ہی مشکل ہے۔
۱- اللہ تعالی نے آپ کو تصنیف و تالیف کا خاص وصف عطا فرمایا تھا، جب بھی سہارنپور ہوتے ،مسلسل تصنیف و تالیف میں اپنے کو مشغول رکھتے ،نتیجہ آپ کے گہر ِبار قلم سے بہت سی ایسی کتا بیں وجود میں آئیں جو اپنے موضوع پر انتہائی وقیع اور جامع ہیں۔ خاص طور پر مظاہر علوم، علمائے مظاہر علوم، خدمات ِمظاہر علوم پر ایسا دستاویزی مواد ارباب ِتحقیق اور دنیا کے سامنے انھوں نے پیش کر دیا ہے کہ مستقبل میں مظاہر علوم کی تاریخ پر لکھنے اور بولنے والا کوئی بھی فرد اس سے مستغنی ہر گز نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ تاریخ مظاہر اور خدمات مظاہر کے سلسلہ میں آپ شاہ کلید کی حیثیت رکھتے ہیں۔
۲۔مولانا کی زندگی میں اسفار بہت ہیں، ابھی کسی تالیف کا مسودہ تیار کرا رہے ہیں اورابھی اپنا بیگ اور بریف کیس اٹھایا اور سفر پر روانہ ہور ہے ہیں، یہ اسفار کبھی کسی مدرسہ کے جلسہٴ دستار بندی کے لئے ہوتا،کبھی کسی علمی موضوع پر کسی کا نفرنس میں شرکت اور اپنا مقالہ پیش کرنے کے لیے ،کہیں کتب احادیث کے ختم کی تقریب میں تو کبھی مظاہر علوم کے انتظام و معاملات کے سلسلہ میں۔
۳۔ان چوطرفہ مشغولیات کے ساتھ مدرسہ کے داخلی و خارجی معاملات و مسائل پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، طلبہ کے مسائل، تعلیمی سرگرمیوں پر نظر، اس کے استحکام کے لئے مسلسل کوشش،مدرسہ کے مالیاتی نظام کو باریک بینی سے دیکھنا اور اس کے سلسلہ میں صائب اور درست فیصلے کرنا۔
یہ وہ امتیازی خصوصیات تھیں جن کی بنا پر برملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مظاہر علوم کی تاریخ میں ایسی جفا کش محنتی اور تدبیر و تدبر کی حامل شخصیت کم گزری ہے، اس لیے کہ مولانا الحسنی اکابر مظاہر علوم کی مختلف صفات کے جامع تھے۔
آپ کے والد گرامی مولانا حکیم سید محمد الیاس صاحب تھے۔
۲۶ ربیع الاول ۱۳۷۰ئھ/ ۲۱ جنوری۱۹۵۱ءء، جمعہ کے روز نانا محترم حضرت مولانا محمد زکر یا شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے مکان کچہ گھر سہارنپور میں آپ کی ولادت ہوئی۔
۱۹ذی الحجہ۳۷۵ ۱ئھ/ ۲۸ / جولائی۹۵۶ ۱ء ء شنبہ کے روز حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کی خانقاہ میں تعلیم کا آغاز ہوا اور۸ ۲ شعبان۳۷۹ ۱ئھ/۶ ۲ فروری۹۶۰ ۱ء ء جمعہ کے روز مولانا محمد یوسف صاحب کے سامنے مولانا انعام الحسن، مولانا حکیم سید محمد ایوب وغیرہ کی موجودگی میں حفظ ِکلام پاک کی تکمیل ہوئی۔
۱۵شوال ۱۳۸۵ئھ / ۶ فروری ۱۹۶۶ءء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے درجہ متوسطہ میں با قاعدہ داخلہ ہوا۔ اور اسی سال رمضان میں اپنی خاندانی مسجد مسجد حکیمان میں پہلی محراب سنائی۔
۲۵شوال۳۸۸ ۱ئھ/۵ ۱ جنوری۹۶۹ ۱ءء میں حضرت مولانا انعام الحسن کاندھلوی کی صاحبزادی مسماة صادقہ خاتون سے عقد مسنون ہوا۔ شعبان۳۹۰ ۱ئھ / اکتوبر۹۷۰ ۱ءء میں دورہ ٴحدیث سے فراغت ہوئی۔ امسال دورہ کے اسباق کی ترتیب یہ تھی بخاری و مسلم حضرت مولانا محمد یونس صاحب# جونپوری کے پاس، ابوداوٴد و نسائی مولانا محمد عاقل صاحب# کے پاس، ترمذی مولانا مفتی مظفر حسین صاحب #کے پاس، طحاوی شریف مولانا اسعد اللہ صاحب# کے پاس پڑھی۔
نزول آب کی وجہ سے حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحب اپنا درس بخاری موقوف فرما چکے تھے۔
۲۵ شعبان ۱۳۹۰ھء /۷ ۲ اکتوبر ۱۹۷۰ء ء اہلیہ محترمہ رخصت ہو کر آپ کے گھر آئیں۔ فراغت کے بعد شوال۳۹۰ ۱ئھ/ دسمبر۹۷۰ ۱ءء میں فنون میں داخلہ لے کر بیضاوی، تفسیر مدارک، درمختار، ملاحسن، دیوانِ متنبی وغیرہ پڑھ کر شعبان ۱۳۹۱ئھ/ اکتوبر۹۷۱ ۱ءء میں فنون کی تکمیل کی۔ فنون سے فراغت کے بعد اسی سال اپنے نانا جان حضرت مولانا شیخ محمد زکریاصاحب کے ہاتھ پر بیعت کی شوال۳۹۲ ۱ئھ میں مظاہر علوم میں تدریس کے لئے تقرر ہوا اور پہلے سال مرقات اور نفحة الیمن آپ سے متعلق رہیں۔
گویا ۱۹۷۲ءء سے باقاعدہ تدریس کا تعلق مظاہر علوم سے قائم ہوا اور تا ایں دم مختلف اتار چڑھاؤ کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہا، چنانچہ امسال بھی ترجمہٴ قرآن پاک کا سبق آپ سے متعلق رہا؛ لیکن اعذار اور بیماری کی وجہ سے آپ نے وہ سبق مولانا سید محمد عثمان #(پیر صاحب) کے حوالہ کر دیا تھا۔
نصف صدی سے زائد اس طویل عرصہ میں مولانا سید محمد شاہد صاحب #نے مظاہر علوم کے لیے وہ عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں، جو تاریخ ِمظاہر کا ایک اہم باب ہے اور مظاہر علوم کا مؤرّخ جلی عنوان سے آپ کی خدمات کو لکھے گا۔
پچاس کے قریب کتا بیں آپ کی قلمی یادگار ہیں۔ جس میں بعض بعض کئی جلدوں میں ہیں۔۱۹۹۳ئھ سے جامعہ مظاہر علوم کے امین ِعام تھے۔ اس وقت اپنی حالات زندگی حیاتِ مستعار کے نام سے لکھ رہے تھے جس کی تین جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ چوتھی اور آخری جلد زیر تصنیف تھی، جامعہ مظاہر علوم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے باہمی تعلقات پر ایک دستاویزی کتاب و علمی آبشار طباعت کے لئے پریس جا چکی ہے۔
۲۱ ربیع الاول۴۴۵ ۱ھء شنبہ کی صبح بعد فجر آپ کا جنازہ مدرسہ مظاہر علوم کے صحن میں لایا گیا اور ہزاروں سوگواروں کے آخری دیدار کے بعد ساڑھ چھ بجے آپ کے چچا اور مظاہر علوم کے شیخ الحدیث و ناظم حضرت مولانا سید محمد عاقل مدظلہ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور آبائی قبرستان باغ حکیمان میں آپ کوہمیشہ ہمیش کے لئے دفن کر دیا گیا۔ آپ کے انتقال پُر ملال کے بعد ملک و بیرون ملک سے مظاہر علوم اور آپ سے منتسبین ہزاروں کی تعداد میں آئے اور آپ کے فرزند ارجمند مولانا مفتی سید محمد صالح سے ملاقات کی اور تعزیتِ مسنونہ پیش کی۔ مظاہر علوم سہارنپور کی مجلس شوری نے باہمی اتفاق رائے سے مولانا مفتی سید محمد صالح کو ان کی جگہ عارضی طور پر امین عام (سکر یٹری مدرسہ) منتخب کر دیا ہے اور الحمد للہ اس وقت وہ اپنے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔