عالمِ اسلامی میںفکری و اعتقادی اصلاح کا آغاز:

                عالمِ اسلامی میں اس اعتقادی اصلاح کی تحریک کا آغاز بھی سلاجقہ ہی کے دور میں شروع ہوا، بغداد پر ان کے قبضہ کے بعد سلاجقہ نے ہر دومیدان میں یعنی فکری وعسکری اصلاحات کی کوششیں تیز کردیں۔ ایک طرف نظام الملک نے مدارسِ اسلامیہ کا جال سلاجقہ کے مقبوضہ پورے خطے میں پھیلا دیا اور نظام الملک الطوسی کا ہاتھ بٹانے میں علما کی بڑی تعداد رہی ہے۔ مثلاً: امام الحرمین الجوینی، ابو اسحق شیرازی، امام قشیری، امام غزالی رحمہم اللہ وغیرہم۔

                مگر بدقسمتی سے نظام الملک کی شہادت کے بعد عالمِ اسلامی ایک بار پھر بحران کا شکار ہو گیا، اس بے اعتنائی کے دور میں دو طرح کے علما وجود میں آئے۔ ملک کے سیاسی اکھڑے پچھڑے ایک طبقہ نے کنارہ کشی اختیار کرلی اور گوشہ نشین ہوگئے ۔دوسرا طبقہ وہ تھا جس نے پہلے خود اپنی اصلاح کی اور اس کے بعد حکومت سے علاحدہ ہو کر اپنی اصلاح دو میدانوں میں کی۔(۱) حُکَّام کی اصلاح حکمت کے ساتھ اوردینی فکر کو ان میں زندہ کیا۔ (۲)عامۃ المسلمین میںجو فکری بگاڑ تھا ،اس کی اصلاح کی کوشش دو طریقے سے کی ،وعظ ونصیحت اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ۔ ان کے سرخیل امام غزالیؒ ، ابراہیم الشباک جرجانیؒ، ابو القاسم اسماعیل بن عبد الملک الحاکمیؒ یہ دونوں بھی امام جوینیؒ کے شاگرد اور امام غزالیؒ کے رفیقِ کار تھے۔

القدس کی بازیابی اور امام غزالی کا اہم رول:

                امامِ غزالی نے شکست پر آہ وبکا کے بجائے اس کا علاج تلاش کیا اور وہ تھا امت کی فکری واعتقادی اصلاح؛ جو اساسی اور بنیادی سبب ہے۔

                اسی لیے کہا جاتا ہے کہ امامِ غزالیؒ نے جو تحریری کارنامہ انجام دیا، اس کے چند امتیازی پہلو تھے:

امام غزالی کی تحریک کے امتیازی پہلو:

                (۱) آپ نے اپنی کتابوں میں دشمن کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کرنے پر زور نہیں دیا؛ جیساکہ بظاہر حالات ایسے تھے کہ جہاد پر ابھارا جاتا؛ مگر آپ دوربیں اور دور اندیش تھے، آپ نے محسوس کیا کہ جہاد سے پہلے ایمان کی پختگی زیادہ ضروری ہے؛ لہٰذا آپ نے ایمان میں قوت پیدا کرنے کیـ لیے جدوجہد اور محنت کی،یہی وجہ ہے کہ دشمن کے بارے میں لعن و طعن اور ملامت آپ کی کتابوں میں نہیںملے گی۔

                (۲) آپ نے امت کو اپنا ذاتی احتساب کرنے کی دعوت دی اور خود کو برئ الذمہ نہ قرار دیتے ہوئے اپنی پسپائی کا ذمہ دار حملہ آور کو نہ قرار دیتے ہوئے اپنی اندرونی کمزوری کو قراردیا؛ کیوں کہ اصل سبب تو عقیدے میں فتورتھا اور عقیدے میں کمزوری کے ہوتے ہوئے جہاد بھی نفع بخش نہیں ہوسکتا تھا، آج جو لوگ اپنے اندرون کی اصلاح کی فکر نہ کرتے ہوئے محض جہاد کا نام لیتے ہیں، انہیں امام غزالی کے طرزِ عمل سے کچھ سیکھنا چاہیے۔(۱)

                (۳)امام غزالیؒ نے اپنی جدوجہد کا آغاز اسلام کے اصل اور بنیادی کام سے کیا اور وہ ہے فکری وذہنی اصلاح؛ لہٰذا آپ نے سیاست اور عسکریت کا راستہ اولاً اختیار نہیںکیا؛ کیوں کہ سلاجقہ کے تجربہ میں امام صاحب یہ بھانپ چکے تھے کہ ڈائریکٹ سیاسی اصلاح کارگر ثابت نہیں ہوتی؛ جیسا نظام الملک کے بعد ہی وہ طاقت بکھرگئی۔(۲)

                امام غزالی ؒنے سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح کی اور پھر دوسروں میں تبدیلی لانے کا بیڑا اٹھایا اور آپ کے بعد آپ کے رفقابھی اسی ڈگر پر چلتے رہے؛ یہاں تک کہ نور الدین زنگی،اسدالدین شیر کو وا ، صلاح الدین ایوبی جیسی نسل کا ظہور ہوا، جس کی تفصیل آئندہ آئے گی ان شاء اللہ!

                (۴) معاملات کی اصلاح اور علاج بھی آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے شروع کی اور آپ نے قومیت سے بالکل تعرض نہیں کیا ؛کیوں کہ سانحۂ قدس سے پہلے مسلمان جس پستی اور تنزلی کا شکار ہوچکے تھے ، اس کا ایک اہم سبب عربیت ترکیت وغیرہ قومیتوں میں مسلمانوں کا تقسیم ہونا بھی تھا اور آج بھی مسلمانوں کی یہی صورتِ حال ہے، عربیت وعجمیت میںبٹے ہوئے ہیں؛ پھر عربیت میں بھی مختلف قومیتوں میں مثلاً :عمانی ،اماراتی، قطری، بحرینی، کویتی، سعودی، یمنی ، مصری، اردنی، لبنانی، فلسطینی، سوری،عجمی،ترکی، ہندی، ایرانی، پاکستانی، بنگالی، چینی، البانی، تاجکی، اوزبکی، ترکمانی، افغانی، اندونیشی، مالمینری وغیرہ۔ اللہ صحیح سمجھ عطافرمائے!


(۱) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جہاد کے منکر یا مخالف تھے یا پیچھے ہٹا کرتے تھے بل کہ اسوۂ نبویؐ کے مطابق آپ نے بھی نبوی طریقہ ہی اختیار کیا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ سال تک ایمان کی مضبوطی کی محنت کی او رجب ایمان میں پختگی آگئی اورظاہری و باطنی ہر اعتبار سے جہاد کے قابل ہوئے تب مدینہ میں آکر جہاد کا آغاز کیا۔(۲) ہکذاظہر جیل صلاح الدین میں تفصیل دیکھیں۔

موجودہ حالات اور مطالعۂ سیرتِ امام غزالی کی افادیت:

                آج کے حالات میں ضرورت ہے کہ ہمارے عمائدین امام غزالیؒ کی سیرت کا تفصیل سے مطالعہ کریں اور ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں ؛کیوں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی معاشرے کے داخلی امراض کے علاج پر اپنی توجہ مرکوز کی اور اس زمانے کی حالات کے اعتبار سے ایسا اسلوب اختیار کیا، جو اُن لوگوں پر اثر انداز ہوسکے اور آپ اس میں کامیاب رہے الحمد اللہ۔  فجزاہ اللہ خیرا عن الأمۃ الإسلامیۃ۔

                بعض نادان معاصرین امام غزالیؒ کی انقلابی خدمات کو یہ کہہ کر مستر د کردیتے ہیں کہ وہ صوفی تھے، مگر یہ ان کی تاریخ سے جہالت کا نتیجہ ہے، آپ نے تو امت میں تصوف، عقیدہ ، فقہ و فلسفہ کی راہ سے جو بگاڑ آیا تھا اسے دور کیا، اور اسلام کے صحیح اعتقادات وافکار اور موقف کو بڑے مضبوط اور ٹھوس انداز میں ثابت کیا۔ تعجب ہے اس تنقید کرنے والے گروہ پر؛ جو عصرِحاضر میں فلسفۂ مغرب سے آنے والے بگاڑ کو دور کرنے کے بجائے مسلمانوں ہی میں اہلِ حدیث ،اشاعرہ اور ماتریدیہ کی تفریق میں لگا ہوا ہے اور امت کو متحد کرنے کے بجائے منتشر کرنے کے درپے ہے۔ اللہ صحیح سمجھ عطا فرمائے!

امام غزالی کا اصل کارنامہ تعلیمی وفکری میدان کی اصلاح:

                امام غزالیؒ کا اصل کام یہ رہا ہے کہ آپ نے اپنے دور کے فکری اور تعلیمی رجحانات پر اولاً مکمل تحقیق کی اور پھر علم ِکلام سے اپنے کام کا آغاز کیا اور اس کے بعد فلسفہ کا رخ کیا اور اس کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیا؛ بل کہ اکھاڑ پھینکا اور کمال یہ کہ انہیں کے اصول کی روشنی میں آپ اسماعیلیہ اور باطنیہ کے مطالعہ کی طرف آئے اور پھر تصوف کی طرف مائل ہوئے اور ان تمام مراحل میں آپ نے نقد وتمحیص سے کام لیا اور تمام برائیوں اور خرابیوں کا انتہائی مستحکم انداز میں رد کیا، ہمیں بھی اسی منہاج پرکام کرنا چاہیے جو یہ ہے:

                (۱) فکری وتعلیمی رجحانات کا ناقدانہ مطالعہ۔

                (۲)علمِ کلامِ جدید کو صحیح اسلامی اصول پر مدون کرنا۔

                (۳)فلسفۂ جدیدہ کا انہیں کے اصول کی روشنی میں مضبوط رد۔

                (۴)ایسے فرقوں کا رد جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں، مگر کفر یہ اعتقادات کے حامل ہیں۔ نہ کہ وہ فرقے جو اسلامی ہیں اور ایسے عقائد کے حامل ہیں جو قطعی اور اتفاقی ہیں، مگر جزوی طور پر معدودے چند مسائل میں اہلِ سنت سے اختلاف رکھتے ہیں۔

                (۵)تصوف میںجو بگاڑ در آیا ہے اس سے امت کو واقف کرانا ۔

                (۶)فقہ، اصولِ فقہ، قواعد الفقہ اور مقاصد ِشرعیہ وغیرہ میں جو بے اعتدالیاںہوئیں ہیں، ان کی نشاندہی کرنا، امید کی جاسکتی ہے کہ اس طرز پر اگر کام کیا جائے گا،تو آئندہ ایسی نسل وجودمیں آئے گی، جو بیت المقدس کی بازیابی کرے گی ۔ ان شاء اللہ!

امام غزالی نے امت کے اہم ترین طبقات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا:

                امام غزالیؒ نے امت کے ان طبقات کی اصلاح کی طرف خاص توجہ دی ،جن کی اصلاح پر امت کی سربلندی موقوف تھی اور وہ یہ ہیں:

                (۱) طبقۂ علما کی اصلاح (علمائے سوء و علمائے حق کے اوصاف۔تفصیل سے ذکر کیے)

(۲) عبادت گزاروں کی اصلاح (۳) صوفیہ کی اصلاح (۴) مالداروں اور اغنیا کی اصلاح (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا احیا (۶) سلاطین کی اصلاح (۷) مادیت کا عالمانہ رد اور مقابلہ (۸) اجتماعی عدل کی دعوت  (۹) انحرافِ فکری کا سدِ باب ۔

تحریک غزالی کے دوررس اثرات:

                تاہم سب سے اہم اثر جو امامِ غزالیؒ نے چھوڑا، وہ دو امور کی صورت میں نمایاںہیں:

                امرِاول: ’’الانسحاب‘‘ یعنی عامۃ الناس کی اصلاح سے پہلے خود اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوناتھا؛ تاکہ دو چیزوں کا تحقق ہوسکے:

                 (۱) اپنے اس معاشرے میں، جس میں آپ نے پرورش پائی تھی، جو افکار اور اعتقادات پائے جاتے تھے ،جس میں عصبیت اور تفرقہ بازی عام تھی، اس کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھناور منقح کرنا۔

                 (۲)باطنی امراض کے تشخیص کے لیے تصوف اور زہد اختیار کرنا؛ تاکہ نفسانیت سے اپنے آپ کو بچایا جاسکے، اس کے بعد آپ کا طریقہ مختلف مذاہب اور اسلامی جماعتوں کے لیے مثال بن گیا۔اور ان لوگوں نے مذہبی اختلافات ونزاعات کو خیرباد کہہ کر اپنے ’’نفسِ خاصہ‘‘ کی طرف توجہ کی۔پھر جب ان کا تزکیۂ نفس ہوگیا تو وہ جدید معاشرہ کی طرف ’’پلٹ‘‘ آئے‘ تاکہ اس میں تعاون ومحبت کی نیت سے حصہ لیں، نہ کہ فرقہ بازی اور دنیوی مفاد کے لیے اسے ارزاں فروخت کرنے لگیں۔ اسی طریقہ کی بدولت فقہا اور صوفیہ میں ایسے گروہ پیدا ہوگئے جن کا قوی رجحان اس ایمان کی طرف تھا کہ مذہبی فرقوں کی کتب کے بجائے قرآن وسنت سے استنباط و جد وجہد کے ذریعے صحیح فیصلوں کی کامیابی حاصل کی جائے۔

                امرِ ثانی:  وہ یہ کہ امام غزالیؒ کی کوششوں سے منحرف فکر کے رجحانات مثلاً باطنیہ، فلاسفہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور عوام میں فکر اور عقیدے کی صحیح سوجھ بوجھ پیدا ہوگئی۔(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۱۵۷تا۱۵۸)

فکرِ غزالی نے ایک با اثر نسل کے ظہور میں اہم رول ادا کیا:

                تحریکِ اصلاح میں‘ جس کی قیادت مدرسہ غزالی اور اس کی توسیعی شاخوں نے کی، کے اثرات زندگی کے مختلف میدانوں میں ظاہر ہوئے۔ ایک جدید نسل نے جنم لیا، جس کی ذاتی تکوین اور عملی رویہ کو اسلامی تعلیمات واخلاق کے سانچے میں ڈھالا گیا تھا اور یہ نسل فرقہ وارانہ تعصّبات اور دنیاوی شہوات میں ملوث نہیں تھی۔

                جب اس جدید نسل کے عناصر پھیلے اور انہوں نے سیاسی، عسکری، تربیتی، اجتماعی اور اقتصادی اداروں میں جگہ پالی اور اپنی جدوجہد کو ان میں مرکوز کیا تو حیاتِ اسلامی کی اندرونی مشکلات اور بیرونی خطرات کا سامنا کرنے میں ان کی سیاست اور جدوجہد کے اثرات ظاہر ہونے لگے۔(عہد ایوبی کی نسلِ نواور القدس کی بازیابی:۲۲۰)

امام غزالی کی تحریک کے نتیجہ میں مملکت زنگیہ کا ظہور:                 امام غزالیؒ کے تجدیدی اور اصلاحی کارنامے نے نسل نو پر جو اثرات مرتب کیے اس کے نتیجہ میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی اور مملکۂ زنگیہ کا ظہور ہوا