طلبہ اپنی ذمہ داری نبھائیں ورنہ…!

مفتی عبد القیوم مالیگانوی / استاذ جامعہ اکل کوا

کھویاہواسرمایہ:

            تلاش علم اور جستجوئے حکمت ؛بالفاظ حدیث ’’ الحکمۃ ضالۃ المومن فحیث وجدہا فہو احق بہا‘‘ ’’علم وحکمت مومن کا کھویاہوا سرمایہ ہے ، سوجہاں پائے وہ اس کا حق دار ہے۔‘‘ کے مطابق عظیم ترین عبادت ہے ۔ یعنی اسے لپک کر بے تابی کے ساتھ حاصل کرے؛کیوں کہ یہی اس گرانقدر دولت اور بیش بہا خزانہ کی قدر و عزت ہے۔

دنیانے یہ بھی دیکھا:

            لیکن جوشئ جتنی قیمتی،انمول اورغیرت مند ہوتی ہے ،اسے پانے اور حاصل کرنے میں اتنی ہی نزاکت اورمحنت بھی درکار ہوتی ہے؛ چوں کہ علم اللہ کی صفت اوربہت ہی غیور ہے ۔ اس کے ساتھ بے اعتنائی اور بے نیازی اس کے نازک مزاج دل کو پارہ پارہ اور بہت دوری کا ہی نہیں،بل کہ محرومی کا باعث بنادیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کسی زمانہ میں اسی ملک کے ایک خطے میں؛ اس صفت الٰہی کی تعظیم و تکریم اور خدمت کی گئی تو دنیا اس خطۂ ارضی سے سیراب ہوئی اور زمانہ کی قیادت سے سرفراز ہوئی اور دنیا نے اپنی آنکھوںسے یہ بھی دیکھاکہ ملک وقوم کی زمامِ قیادت بھی اس نے ہی سنبھالی۔ لیکن جب ناقدری وناسپاسی کا دور شروع ہوا تو پھر حالت کیاہوئی ؟وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور پھرارشادرب العباد{وتلک الایام نداولہابین الناس }کاجب ظہورہواتوایک دن ایسابھی آیاکہ اللہ نے اپنی صفت کی عزت وتکریم اورخدمت و تعظیم کے لیے دوسری سر زمین کو منتخب فرمالیا ۔ جس کی برکت سے یہ سرزمین علما ، صلحا ، مشائخین ، محدثین سے آباد و شاداب ہوگئی ۔ اور آج بہت کام یاب طریقہ سے مدارس ومکاتب کی تحریک اور خدمت ِ انسانیت کی ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔

کچھ پتانہیں:

            اس حقیقت کے باوجود ؛آج طلبۂ مدارس اپنی تعلیمی وتربیتی ذمہ داریوں کے ساتھ نہ صرف نا سمجھی برت رہے ہیں ، بل کہ اس سے یکسرغافل اورخوابِ خرگوش میںمدہوش ہیں ۔ اور اپنی غفلت اور خرمستیوں میں ایسے مگن ہیں کہ نہ گزرے کل پر افسوس ہے نہ آئندہ کی فکر ۔ یہاں تک کہ منزل کا بھی کوئی پتہ نہیں ۔گویاکہ

’’منزل ہے کوئی اپنی نہ کوئی ٹھکاناہے‘‘

حاضری میںغیرحاضر:      

            مدرسہ کے مقررہ اوقات پر درس گاہ کی حاضری وہ بھی پوری بے دلی کے ساتھ اور حاضری میں بھی غیرحاضری کی کیفیت ۔یعنی حضور ی نہیں ؛بل کہ جیسے فضول بیٹھے ہوں ۔

میںیہاں ہوں میرا جسم بھی ہے یہاں

میری حسرت میرادل مدینے میںہے

یہ بھی ہمارااحسان ہے:

            اوقات صلاۃ میں مسجد میں آنا نہیں ہے، بل کہ اُن کوہانک کر لا یا جاتا ہے ۔نماز کی ادائیگی کیاکرلی ،گویا ذمہ داران مدرسہ پر ایک طرح کا احسان کرنا ہے۔ اوراگر نماز نہ پڑھنے پرانتظامیہ کی جانب سے پوچھ تاچھ ہو تو پھر تماشادیکھیں کہ وہاںپربے شمار اور بے بنیاد جھوٹی باتوں کا انبارلگانے میںکوئی کسرنہیںچھوڑتے ۔نہ طلبِ علم کا چسکہ، نہ ہی عبادت کا ذوق ، نہ تلاوت کاشوق؛پھر علم سے محروم ، عبادت میں مجبور اور طبیعت میں فتور ہی فتور بھرا ہوتوپھر کیسے آئے گا سکون؟

فرصت نہیں:

            وہ راتیں جو ہمارے اسلاف اور متقدمین علم کے شائقین کے لیے مطالعہ ومذاکرہ اورکتابوں کی ورق گردانی کے لیے کسی جنت کی نعمت سے کم نہیں تھیں۔ آج بد ذوقی اوربے فکری کایہ عالَم ہے کہ ’’انہیں کھانے پکانے اور موج مستی میں مشغول کر دیأ گیا،اُن کو کھانے پکانے سے فرصت نہیں‘‘اِس کے علاوہ وہ راتیں گھومنے پھرنے اوردوستی، یاری ؛بل کہ لغویات وفضولیات ا ورخرافات معصیات میں انہماک کے ساتھ گزررہی ہیں ، جن راتوں نے نہ جانے کتنے لعل و گہر ، ہیرے وجواہرات ، زندہ دل اور بیدار مغز جیالوںکو امت کے لیے جنم دیا ۔جن کے علم کی حرارت ،ایمان کی حلاوت ، سحر کی تلاوت ، دنوں کی محنت، راتوںکی عبادت ،قومی سیادت وقیادت نے امت کو سہارا اور سنبھالا دے کر وراثت نبوت کا حق ادا کردیا اور رفقائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ صحابہ کی رفاقت وپاسداری کی سچی داستانوں کوقیامت تک کے لیے زندہ اور آباد کردیا ۔ آج وہی راتیں بالعموم نسلِ نو اوربالخصوص مدارس اسلامیہ اور اسکول وکالج کے طلبا کے فساد وبگاڑ اور تضییعِ اوقات کاسامان اورذریعہ بنی ہوئی ہیں ۔

فرق نہیںہے مردعورت میں:

            ہم سادگی کولات مارکرتکلفات والی زندگی کے خوگراورعاشق بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ؛ جن کی پاکیزگی پرفرشتوںکوبھی رشک آتاہے،کائنات کی ہرمخلوق اُن کے حق میںدعاکے نذرانے پیش کرنے میں فخرمحسوس کرتی ہے،وہ کپڑے عمدہ اورایسے ڈیزائن والے پہننے لگے ہیںکہ بے ساختہ زبان پرآتاہے کہ

فرق نہیں ہے مرد عورت میں

وقت ہے گویا خود حیرت میں

 موبائل بڑی سائزکا اور مہنگا ہوناچا ہیے ۔اتنے ہی پرکہانی ختم نہیںہوجاتی ہے ،بل کہ اب تو مدرسہ کے کھانے پر قناعت ہی نہیں۔اِس لیے بعد عشا تقریباً نصف رات کھانا پکانے اور مل کر کھانے کی فضا بھی عام ہوگئی ہے۔جس میں اپنے مطالعہ ومذاکرہ کے قیمتی ڈیڑھ سے دو گھنٹے آرام سے ضائع کردیے جاتے ہیں ۔ مزید دیر رات کھاکر سوجانے سے معدہ کی خرابی ، بد ہضمی اور دیگر جسمانی امراض کے بھی شکار ہوتے ہیں۔ نیز رات میں ان غیرضروری کاموں میں شرکت نے نیند بھی ادھوری کردی ، جس کا لازمی اثر صبح کی نماز میں سستی اور درس گاہ میں اونگھنا اورسونا ہے ۔ ہر دوجانب نقصان ہی نقصان ہے ، جس کی تلافی کے لیے زندگی میںیہ لمحات اور اوقات کبھی بھی واپس نہیں آسکتے ہیں۔

آس کوبدل کریاس کردیا:

            طلبا کے اِس طرزِ زندگی اور اس مجرمانہ غفلت نے جہاں منتظمین ِمدرسہ اور اربابِ جامعہ کو ٹھیس پہنچائی اور ان کی محنتوں کا گلا گھونٹا، وہیں پر وہ والدین؛ جو بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے ساتھ اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر انہیں رخصت کرتے ہیں اوروہ باپ جو بیٹے کی ساری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مزدوری اور محنت کرکے سر کا پسینہ پیروں میں لاتا ہے، ان کی آس کو حسرت ویاس سے بدل دیا ۔

وہ تویہی کہیںگے:

            ذرا سوچیں کہ اگر ذمہ داروں کی طرح آپ کے والدین کو بھی آپ کی اِن غفلتوں اور مستیوں کی خبر ہوجائے تو اُن کے دل پر کیا گزرے گی اورکس قدر وہ بے چین اور بے قرار ہوںگے ؟ ان کے علاوہ ہم تھوڑااحساس ان مخیرین اور اہل خیر حضرات کا بھی کریں، جو خدمت دین واسلام کے پرخلوص جذبہ کے سا تھ ہماری جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محنت اور مشقت کی کمائی کا بڑا حصہ ہمارے لیے نچھاورکردیا اور کرتے ہیں؛ ہماری ان حرکتوں اور بے مقصدیت سے انہیں کتنا دکھ پہنچے گا؟ اور آئندہ ہمارے حق میں وہ کس طرح کی رائے قائم کریںگے؟ یقینا وہ بددل ہوکر یہی کہیںگے کہ’’ جن پر تکیہ تھا،وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ ۔

ہم اُن کی بات ہی نہیںکرتے:

            ہم آپ سے اس وقت ان اسلاف اور متقدمین کی بات نہیں کرتے ہیں ، جنہوں نے اپنے اوقات کی حفاظت کی خاطر اور تحصیلِ علوم کے لیے روٹی کو چباکر کھانے کے بجائے پانی میں بھگوکر کھانا پسند کیا ۔ ستو کو پانی میںگھول کر پی لیا۔ کھانا نہ ملنے کی صورت میں درختوں کے پتوں کو بھی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کر لیا ۔ یقینا یہ  مجاہدات ہمارے لیے نہ ممکن ہیں اور نہ ہی اللہ نے اپنے فضل سے ہمیں ایسے حالات سے دوچار کیا ہے ، بل کہ ہم ماضی قریب کے بہت مشہور ومعروف ،عالم ربانی ،جامعہ فلاح دارین کے شیخ الحدیث اور بانیٔ جامعہ؛ حضرت رئیس محترم کے استاذ ومربی حضرت مولانا سید ذوالفقار احمدقاسمیؔ، نروری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا یہ قابلِ عبرت ونصیحت پہلو ملاحظہ کریں :کہ اپنی حیاتِ بیش قیمت کے۴۷؍ سال فلاح دارین ترکیسر میں کتاب وسنت کے اسرار ورموز سمجھانے ،طلبا اور فلاح دارین کے لیے بغیر اہل خانہ کے تنہا گزار دیے۔ اور اتنی طویل مدت میں جامعہ فلاح دارین ہی کے معمولی اور سادہ کھانے پر اکتفا کیا ، بل کہ پختہ روایت یہ ہے کہ اس مدرسہ کے سادہ کھانے کو مزید مرچ مصالحہ اور تیل وغیرہ سے مرغن اور لذیذ بنانے کی اجازت بھی نہ دی ۔ یہ ہے اقلہم تکلفاً کی زندہ تصویر؛ جس نے صحابہ والی صفت کو روشن کردیا۔ گویاکہ زبانِ حال سے ہم سب کو یہ کہہ گئے اورہمیںسبق دے گئے کہ’’ خور دن برائے زیستن نہ کہ زیستن برائے خوردن‘‘ ۔ کہ کھانا زندگی کی بقا اورحفاظت کے لیے ہے۔ زندگی کھانے اور لذتوں کے لیے نہیں ، بل کہ یہ زندگی تو رضائے الٰہی کے حصول اور بندگانِ خدا کی خدمت اور مقاصدِ انسانیت کی تکمیل کے لیے ہے ؛تاکہ بوقت مرگ یہ مژدہ جانفزا سنایا جائے {یایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی إلی ربک راضیۃ مر ضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی }کہ جس روحِ نفیس کے انتظار میں مالک و مولیٰ بے قرار ہوں اور حور و غلمان ،جس کے استقبال کے لیے صف بستہ کھڑے ہوں۔اے کاش ! ہم طلبہ واساتذہ بھی ان بزرگوں کے نقشِ قدم پر چل کر کام یابی وکامرانی کی ان بلندیوں کو حاصل کریں، جو اُن کی زندگیوں کا ہدف اور مطمح نظر ہوا کرتا تھا۔

حضرت شیخ یونس جون پوریؒ کاواقعہ:

             اسی طرح ہمارے اپنے دور کے ایک دوسرے بزرگ صاحب علم و فن جنھیں دور حاضر نے امام المحدثین اور بخاریٔ وقت سے ملقب کیا؛ مراد حضرت مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہوں نے علم کی لذت میں دنیا کی ساری لذتوں کو خیرباد کہا ، بل کہ لذتِ نکاح وزواج سے بھی اپنے کو جدا رکھا اور اپنے پیش رو بزرگوں اور ان کی یادوں کو ایسے زندہ کیا کہ ماضی کے محنت و مجاہدہ کے واقعات پہلے سے زیادہ متیقن ہوگئے۔ اور ’’العلماء العُذَّاب الذین آثروا العلم علی الزواج ‘‘میں ان کا بھی شمار ہوگیا۔سنہ ۱۹۹۷ء میں جامعہ میں حاضری کے موقع پر حضرت شیخ ؒ نے خود اپنا یہ واقعہ بتلایا کہ بچو! زمانۂ طالب علمی میں ہمیں چپل بھی میسر نہیں ہوئی ۔ فرمایا کہ ابتدا میں میرے پاس ایک ٹوپی بھی نہیں تھی ، کسی کوڑا دان اور کھلیان پر ایک میلی کچیلی ٹوپی مل گئی اسے دھوکر میں نے ۴؍ سال تک استعمال کیا ۔ یہ سادگی اور تنگی کے وہ حالات ہیں ،جو ہم جیسے لذت پرستوں،پیٹ کے بندوں اور پر تکلف زندگی والوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں اور ہمیں اپنی حقیقت اور اصل مقام بتلا رہے ہیں ۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ زمانہ ٔطالب علمی میں ہم کسی بھی چیز کے ایسے خوگر اور عادی نہ بنیں کہ جس کے بغیر ہماری زندگی مشکل اور بے چینی وبے قراری کاشکارہوجائے۔ جس کے بغیر ہمیں کسی پل سکون نہ ملے ، بل کہ ہمیں ابھی سے ہر چیز میں محنت و مشقت اورمجاہدہ کا عادی ہونا چاہیے ۔ تاکہ عسر و یسر ،خوش حالی وتنگی ؛ہر حال میں جینے کا حوصلہ پیدا ہو اور ہماری کیفیت ایسی ہوکہ جسے ہم علم و علما کی زبان میں قناعت کہہ سکتے ہیں ۔ یقینا صفت قناعت یعنی جو میسر ہو، اُس پر بلا چوں وچرا اکتفا کرنا ایسی دولت ہے ،جس میں زندگی کو پر سکون گزارنے کا راز مضمر ہے ۔ پھر اس تربیت کے نتیجہ میں ہمارا حال ایسا ہوجائے کہ خواجہ عزیز الحسن مجذوب ؒ کی زبانی ہم بھی کہیں’’یہاں ایسے رہے کہ ویسے رہے، وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے‘‘   ؎

نہ فراق اچھا ہے ، نہ  وصال اچھا ہے

یار جس حال میں رکھے وہ حال اچھاہے

ذرااِس پربھی دھیان دیں:

            عزیز طلبائے گرامی قدر !  اس پر بھی دھیان دیں کہ امت آپ سے کافی پرامید اورمتمنی ہے۔اور کام کے میدان ابھی بھی تشنہ اور خالی ہیں ۔ جید الاستعداد علما ، بیدار مغز فضلا اور امت کی ہما جہتی رہبری کے قابل افراد کی سخت ضرورت اور حاجت ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ لوگ قدر نہیں کرتے اوراب قدر شناش لوگوںکی دنیاسے رخصتی ہوچکی ہے ، بل کہ آج بھی ہیرے کو پرکھنے والے جوہری اور گوہر کی قدر کرنے والے شاہ؛ نیز خوش بو کے پہچاننے والے عنبری امت میں موجود ہیں ؛لیکن شرط یہی ہے کہ ہم محنت ومجاہدہ کی بھٹی سے تپ کر ایسے نکھر جائیں، بل کہ علوم و فنون سے سنورکرایسے شفاف ہو جائیںکہ کسی طرح کا کوئی گردو غبار ، میل کچیل ، داغ دھبہ ہمارے علم وعمل اور اخلاق پر باقی نہ رہے ۔

خودکوپہچاناتورب کوپہچانا:

            خدا کے لیے اپنی حقیقت کو پہچانیے ۔اِس لیے کہ ’’من عرف نفسہ فقدعرف ربہ‘‘۔ اس لیے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے ۔ اپنے مستقبل کو تابناک اور امت کے لیے مفید وکار آمد بنانے کا عزمِ مصمم کیجیے اور اپنی ایک منزل اور ہدف طے کر کے اس کو حاصل کرنے کی فکر اور محنت کو بروئے کار لائیے ۔ورنہ وقت ایک دھار دار تلوار ہے، اگر آپ اسے نہیں کاٹوگے تو وہ آپ کو ضرور کاٹ دے گا ۔’’الوقت کالسیف ان لم تقطعہ قطعک ‘‘ نیز وقت کا بہاؤ سیلِ رواں سے بھی زیادہ تیز رفتار ہے ،جسے روکنے والا زمانہ میں آج تک نہ پیدا ہوا ہے اورنہ صبحِ قیامت تک ہوگا ، یہ کسی کے روکے نہیں رکتا ۔ کسی کے تھامے نہیں تھمتا، بل کہ نحوستِ اعمال کی وجہ سے آج یہ سیال سرمایہ بہت بے برکتی کا شکار ہوچکا ہے ۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق سال مہینے کی طرح ، مہینہ ہفتہ کی مانند اور ہفتہ دن کی طرح اور دن گھنٹہ کے جیسا اور گھنٹہ منٹوں کے مثل گزر رہا ہے ۔اورہم ہیںکہ تیلی کے بیل کی طرح وہیںکھڑے ہیں۔

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

قیمت وصول کرلیں:

            وقت پگھلنے والے برف کی مانند ہے ۔ دانائی اورعقلمندی یہی ہے کہ اس کے پگھل کر ختم ہونے سے قبل ہی اس کے دام وصول لیے جائیں۔ ورنہ یہی ہوگاکہ ختم ہوکر مفید و نافع ہونے کے بجائے سب کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث بنے گا ۔ اور ضابطۂ قرآن {اما الزبد فیذہب جفاء واماما ینفع الناس فیمکث فی الارض } کے مطابق فضول چیز ختم ہوجاتی ہے اورمٹ جاتی ہے؛ لیکن انسانیت کے لیے نافع اور مفید چیز کو مِن جانب اللہ بقائے دوام حاصل ہوتاہے ۔ اگر ہم بھی محنت ومجاہدہ، صبرو ضبط کے راستے سے علوم کے ماہر ، اعلی صفات کے حامل ، کردار کے غازی ، اعمال میں راسخ ، اللہ ورسول کے عاشق بن جائیںگے تو پھر ہم بھی انسانیت کے لیے نافع ہوںگے اور ہمارا ذکر ہمیشہ رہے گا ۔ نیز زمانہ اور اہل زمانہ ہمیں اور ہمارے کارناموں ،بل کہ ہماری یادوں کو بھی فراموش نہ کرسکے گا ۔ بل کہ فنا کے بعد بھی بقا کی منزلیں طے ہوںگی ، کیوں کہ ذکر جمیل ،اوصاف جمیلہ کے بعد ہوا کرتا ہے۔

تمنا ہے کہ اس دنیا میں کچھ کام کر جائیں

اگر ہو سکے تو خدمت اسلام کر جائیں

            اللہ رب کریم مجھے آپ کو اپنی حقیقت کو پہچان کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم!