طلبا واساتذہ کے ساتھ حسنِ سلوک

مفتی عبدالقیوم مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا

معدوم ہوتی جارہی ہے:

            ہدایات ربانیہ اور تعلیمات ِاسلامیہ میں اخلاقیات کے احکامات وافر مقدار میں موجود ہیں؛ بل کہ حسنِ سلوک اور حسن ِاخلاق عبادات کے مقابل اہم ترین عبادت ہے۔یہی انسان کی شخصیت اور اس کے کردار کو نکھارتا اور اس کو مقبولِ عام وخاص بناتاہے، جس میں چھوٹوں کے ساتھ ذرہ نوازی، حوصلہ افزائی اور بڑوں کے ساتھ اکرام واحترام، پھر اپنے معاصرین کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ بھی شامل ہے۔ اس میں بالخصوص چھوٹوں اور طلبا کے ساتھ ذرہ نوازی آسان نہیں؛ بل کہ بہت مشکل بات ہے، جو اِس دورِ نفسا نفسی میں معدوم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اللہ رب العزت غریق ِرحمت فرمائے میرے استاذ ومربی؛ بل کہ میرے محسن وخیر خواہ؛ حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحی مظاہری رحمہ اللہ کو، جنھیں اپنے خوردوں اور طلبا کے ساتھ نا صرف جذبہٴ رحم وخیر خواہی تھا؛ بل کہ وہ طلبا کو پدرانہ شفقت اور بلند حوصلوں سے نوازتے اورہر وقت قطب نما کی طرح صحیح سمت متعین کرتے۔ طلبا کے پراگندہ اوربکھرے گیسووٴں کو سنوارتے اوربے ثبات قدموں کو لڑکھڑانے سے بچانے اور علم وتعلیم کی یک سوئی کے لیے حتی المقدور سعیٴ جمیل کے ساتھ ضرورت محسوس ہونے پر کتابوں اور مالی تعاون کی قربانی بھی پیش فرماتے تھے۔

توجہات کا محور:

            خصوصاً ذہین وزیرک طلبا کو اپنی توجہات کا محور بنا کر، ان کی خوابیدہ صلاحیت کو بھانپتے ہوئے، ان کی ہدایت وراہ بری اورمسائل کو حل کرنے میں کوشاں رہتے۔ ہر گل کی خوش بو کو محسوس کرکے اس کے مزاج ومذاق اور اس کی نزاکت وطبیعت کو مد نظر رکھ کر، اس پھول کی آب یاری اورنگہ بانی فرماتے؛ تاکہ کوئی بھی پھول اور پودا گردوپیش کے حالات اورمسموم ہواؤں کے تھپیڑوں سے مرجھانہ جائے اورکوئی اپنے وجود ہی کو ثابت نہ کرسکے۔

صدقہٴ جاریہ:

            حضرت مرحوم کے ۳۴/ سالہ طویل وحسین دور تعلیم وتربیت میں سیکڑوں نہیں؛ بل کہ ہزاروں کلیاں کھلیں اور مسکرائیں، پھر خوش بودار پھول بن کر اپنے سارے گلستاں کے لیے خوش بو بکھیرنے لگیں۔کتنے ننھے منے پودے تھے، جو آپ کی توجہات اورراہ بری ونگرانی میں تناور درخت ہوئے او راپنے رسیلے پھلوں سے دوسروں کے لیے سامانِ لذت وفرحت اوراپنے گھنے سایوں سے نہ جانے کتنے تھکن سے چور مسافروں کے لیے آرام وراحت کا ذریعہ بنے اورآج بھی اپنے اپنے گلستانوں، ویرانوں اور صحراؤں میں اپنی جہد مسلسل او رضیا پاشیوں سے جنگل کومنگل اورویرانے کوآباد کررہے ہیں، جو حضرت مرحوم کے لیے صدقہٴ جاریہ ہے۔

منزل آسان:

            اپنے محبوب جامعہ میں جب میرے تعلیم کے ابتدائی مراحل تھے، حضرت مرحوم نے اپنی نگاہِ عقاب اوردور بینی سے ذہانت وفراست کو محسوس کرتے ہوئے، اپنی خاص توجہ اور عنایت کا مرکز بنایا۔ پھر فراغت تک ۵/ سالہ دورِ تعلیم وتعلم میں مختلف زاویوں سے اپنی عنایتیں اور محبتیں پیش کرتے رہے اور بالیقین آپ کی ہر موقع پر مناسب راہ بری اور برموقع توجہ سے بڑا حوصلہ اور ہمت ملتی رہی اور اللہ کے کرم اور آپ کی پدرانہ، مشفقانہ اندازِ تربیت نے تکمیلِ علم اور منزل تک پہنچنا آسان بنادیا۔ اس کے بعد بھی آپ کی توجہ اور عنایتیں بند نہیں ہوئیں؛ بل کہ تعلیم وتعلم کا روایتی سلسلہ اختتام پذیر ہوااور دو رِ تدریس کا آغاز ہوا توبھی آپ نے مفید مشورے اور ضروری راہ بری سے گریز نہیں کیاحتی کہ آپ مجھے سلسلہٴ زواج کے مبارک اور ضروری بندھن میں جوڑنے کے لیے بھی کافی کوشاں تھے اور اس لائن میں بھی مناسب نشان دہی فرمائی تھی؛ لیکن مقدر کا جوڑا جہاں ہوتاہے، وہیں انسان مربوط ہوتاہے۔

            اس کے بعد جب اللہ رب العزت نے مجھے تدریس کے ساتھ تقریروتفسیر اور خدمتِ خلق جیسے عظیم کاموں کی توفیق بخشی، اس موقع پر بھی آپ کتابوں اور تفاسیر کی راہ نمائی کرتے رہے اوراچھی جگہ کام کے مواقع بھی دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میرے لیے رمضان میں تفسیر وموعظت کے لیے عروس البلاد؛ممبئی کی مشہور جگہ ”فائن ٹچ“کی بڑی مسجد منتخب فرمائی اور ذمہ داروں سے بات بھی کی۔چوں کہ نندوربار مرکز میں میرا سلسلہٴ درسِ قرآن متواصل تھا، اس سبب سے میں نے نئی جگہ جانے سے معذرت کیا؛ لیکن آپ کی فکر اپنے روحانی وعلمی فرزند کے لیے برابر جاری رہی اور انکار پر آپ کوکوئی ناراضگی بھی نہیں ہوئی؛ بل کہ وسعت ِقلبی کے ساتھ فرمایا: ٹھیک ہے! صوفی جی جہاں آپ کا نظام ہو، بہتر ہے۔اللہ رب العزت بھی آپ کے ساتھ اپنی وسعتوں کا معاملہ فرمائے!

بحیثیت قاضیٴ نکاح:

            حضر ت کی طرح سفر میں بھی آپ اپنے خرد وشاگردوں اوراساتذہ کا بھر پور؛ بل کہ حضر سے زیادہ سفر میں خیال فرماتے تھے، جس کا راقم الحروف کو کئی مرتبہ تجربہ ہوا۔ویسے تو حضرت الاستاذ نے از راہ محبت کئی مرتبہ از خود اسفار میں اپنی رفاقت ومعیت کے شرف سے سرفراز کیاتھا۔ایک مرتبہ گجرات کے ایک چھوٹے گاؤں”سنجلی“ میں آپ کے شاگرد کا نکاح تھا، جس میں آپ بہ طور خاص قاضیٴ نکاح اور ضیف خاص کی حیثیت سے مدعو تھے۔ یہ میر ی سعادت ہی تھی کہ اس سفر میں میں بھی مدعو تھا، جس کی خبر حضرت مرحوم کو پہلے سے تھی۔ چناں چہ وقت مقرر آنے پر پیشگی فکر فرماتے ہوے سفرکا ٹائم اور تیاری سے متعلق آگاہ فرمایا اور حسن ِاتفاق اور مزید سعادت کہ اس سفر میںآ پ کے رفیقِ تدریس، استاذ محترم حضرت مفتی محمدجعفر ملی رحمانی صاحب بھی تھے۔ سفر آپ کی گاڑی سے ہونا تھا، چناں چہ بہ وقت دوپہر اکل کوا سے نکلناہوا اوربڑی طویل مسافت؛ بل کہ راستوں کی مکمل معلومات نہ ہونے سے کچھ بھٹکنے کے بعد، ہم بڑی تکان کے ساتھ متعین مقام ”سنجلی“ پہنچے۔ تمام ساتھی تھکن سے چور تھے، کھانے پینے سے زیادہ نیند اور بستر سب کی اولین ترجیح تھی؛ لیکن میزبان کی رعایت اوران کے اصرار کے بعد مناسب کھانا تناول کیا اور فوراً بعد ہی اللہ کا نام لے کر آرام کی نیند سوگئے۔ صبح سویرے اٹھ کر نمازِ فجر اداکی، آپ کی آمد کی خبر چوں کہ پہلے سے ہوچکی تھی، چناں چہ آس پاس کے مدرسہ والوں کے ساتھ ساتھ مقامی علما اور آپ کے خوشہ چیں،بڑے ذوق وشوق سے آپ کی زیارت وملاقات اور استفادہ کے لیے جمع ہوگئے، جن کے درمیان آپ نے ناصحانہ گفتگو فرمائی۔

             اس کے بعد علاقہ کے احوال اور وہاں پر جامعہ اور حضرت وستانوی مد ظلہ العالی کی مختلف دینی وسماجی سرگرمیوں کا معاینہ اور جائزہ بھی لیا۔دوسرا دن چوں کہ سید الایام؛جمعہ تھا، لہٰذا تمام ساتھیوں نے جلد غسل سے فراغت حاصل کی اور نمازِ جمعہ سے قبل آپ کا وعظ ہوا۔ نماز کے فوراً بعد آپ جس کے لیے مدعو تھے، یعنی نکاح پڑھایا۔ قبل النکاح بھی آپ نے اپنے مخصوص انداز اور ظریفانہ طبیعت؛ بل کہ نئے نکات کی جستجو کرتے ہوئے گاؤں کے نام” سنجلی“ کا آپریشن کیا اور اس کے اصل ماخذ ومرجع کی تلاش کرتے ہوئے عجیب وغریب وجہِ تسمیہ بیان فرمائی۔

عجیب وجہِ تسمیہ:

             فرمایاکہ:سنجلی اصل میں سنگ ولی تھا۔ کسی موقع پر اس بستی سے کوئی ولی گذراتھا، جس نے اپنی معرفت ومحبت کے پتھر پھینکے تھے؛ اس لیے بدل کر یہ ”سنجلی“ ہوگیا۔ نکاح کے بعد جلدہی میزبان نے کھانے کا انتظام کیا۔ بعد طعام فوراًرخصت ہوئے اورواپسی میں حضرت نے اپنے رفقائے سفر کا خیال رکھتے ہوئے بعد العشا بھروچ میں بازارکا رخ کیااور سب کو خریداری کرنے کا موقع دیا ۔راستہ میں شام کے کھانے کے لیے لب سڑک ایک عالی شان ہوٹل پر گاڑی رکوائی اور پر تکلف کھانے کا انتظام فرمایا۔ ہوٹل کے مالک حضرت کے شنا سا اور قدر داں تھے، بہت دوستی کے ماحول میں انھوں نے ضیافت فرمائی۔ کھانے کے بعد حضرت نے بڑے اصرار کے ساتھ بل اداکیا اور ساتھیوں سے کہا: جوطبیعت ہو، آپ منگواسکتے ہیں! بہر حال پورے سفر میں آپ نے ایک مرتبہ بھی ناگواری کا اظہارنہیں کیااور نہ ہی اپنے ساتھیوں کے راحت وآرام اورضروری لوازمات سے غافل ہوئے۔ یوں کہاجاسکتاہے کہ اپنے راحت وآرام سے زیادہ اپنے ساتھیوں کی راحت کا زیادہ خیال فرمایا۔

وسعتِ قلب کی ضرورت:

            یہ تھا سفر میں آپ کا حسنِ سلوک؛ جس کے لیے بڑے ظرف اور وسعت قلب کی ضرورت ہے کہ آدمی بڑا ہوکر بھی اپنے معاصرین؛ بل کہ چھوٹوں کے لیے چھوٹا بن جائے اور اپنے کو ان پر نچھاورکردے۔ اللہ آپ کے ساتھ اپنی قدر دانی کا معاملہ فرمائے۔

ختامہ مسک:

            اگر طلبا کے ساتھ حسنِ سلوک کے واقعات بھی جمع کیے جائیں تو یقینا ایک کتاب بلامبالغہ مرتب ہو جائے گی۔ اس لیے مضمون کو طوالت سے محفوظ کرتے ہوئے میں اب حیاتِ فلاحی کے آخری خوش گوار؛ بل کہ ”ختامہ مسک“ کے مصداق ایام ِبابرکت وباسعادت کا تذکرہ مناسب سمجھتاہوں، جو واقعی ہم سب کے لیے قابلِ عبرت ہونے کے ساتھ قابل تقلید بھی ہیں۔

            لاک ڈاوٴن کا زمانہ شروع ہوچکاتھا۔ اگرایک طرف طلبا اپنے گھروں کی طرف کوچ کے لیے بے قرار تھے تو منتظمین انھیں سنبھالنے اوربہ حفاظت روانگی کی کوششوں میں مصروف تھے۔لیکن حضرت فلاحی اپنی دھن میں مستغرق اپنے سفرِ آخرت کے لیے توشہٴ راہ کے لیے بے چین، طلبا کی بہترین تربیت اور امورخیر میں انہماک کے لیے مصروفِ عمل تھے۔ آپ نے عالمیت کے طلبہ سے مسجدِ میمنی میں ایک مسابقتی پروگرام ترتیب دیتے ہوئے فرمایاکہ مغرب کی نماز میں پڑھی جانے والی آیات قرآنیہ کی تفسیر وتوضیح تفاسیر متقدمہ ومستندہ سے، جو بھی بہترین لکھ کر لائے گا، اس کو عمدہ انعام اول، دوم وسوم کی شکل میں دیا جائے گا اورآپ روزانہ عنوان بھی متعین فرمادیتے تھے۔ماشاء اللہ! آپ کی توجہ اور محنت سے طلبا بے کاری سے بچ کر قرآنِ کریم سے ایسے مربوط ہوئے کہ تالہ بندی کے اس بے چینی کے ماحول میں جامعہ کے کتب خانے عاشقینِ قرآن سے معمور اورکتابوں کی محبت اورتفسیری نکات وجواہر کی تلاش کرنے میں مگن رہے۔ پھر آپ نے تمام کے لکھے ہوے تفسیری نوٹس کا جائزہ لے کر خطیر انعامات سے فائقین کو نوازا، جس سے طلبا میں جذبہٴ مطالعہ اور شوقِ کتب بینی اور لکھنے پڑھنے کا جذبہ اورزیادہ پروان چڑھا۔ ربِ کریم کو آپ کی یہ محبت طلبا وقرآن کے ساتھ ایسی بھائی کہ اب خالق بھی اپنے بندے کو ملنے کے لیے بے قرار ہوگیا اور ”من أحب لقاء اللہ، أحب اللہ لقائہ“ کی عملی صورت سامنے آ گئی۔چناں چہ آپ نے آخری عنوان ؛جس پر خامہ فرسائی کی طلبا کو دعوت دی وہ تھا :”آوٴ جنت کی سیر کریں“ اللہ اکبر!

ایک زندہ جاوید:

            یہ عنوانِ تفسیر آپ کے لیے حقیقی سیرِ جنت کا جلی عنوان ہوگیا اور دوسرے ہی دن پھر آپ اپنی طبیعت کو چیک کرانے، جو کچھ ناساز اور مضمحل تھی، کھروڈ تشریف لے گئے۔ اورسفر کے دوسرے دن صبح۸/ بجے کے قریب اپنی آخری سانسیں مالکِ حقیقی کے حوالے فرمادی۔ اور ارشادِباری:﴿یاأیتہا النفس المطمئنة ارجعی إلی ربک راضیةً مرضیةً ﴾کا مصداق بن گئے۔گویا کہ جاتے جاتے اپنے طلبا کو دینی ودنیاوی، علمی وروحانی دونوں غذا دیتے گئے، جوساری زندگی کا مشن اور کام تھا۔ اب اس کے صلے اور بدلے کا وقت آچکا تھا۔ انعام دینے والا کام یاب ہوکر خود اپنا انعام لینے رب کے پاس پہنچ گیا اورایسی ادائیں چھوڑگیا، جو بہت یاد آتی اور ہمیں تڑپاکربے چین کرتی رہیں گی۔حسنِ سلوک اور اخلاق کی بلندگی سے معمور ”حیاتِ فلاحی“ ایک زندہ جاوید کتاب بن گئی اور ہمیں بتاگئی کہ جیو توایسے جیو کہ

ساری زندگی اسی احتیاط میں گذری

کہ یہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہوا

            ربِ کریم آپ کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس کا داخلہ بے حساب مقدر فرمائے اورہمیں آپ کی حیاتِ نفع بخش سے سیکھ کر اسے مفیدسے مفید تر بنانے کی توفیق نصیب فرمائے! آمین!