طالبات کی فکری، اخلاقی، دعوتی اور معاشرتی تربیت

طالبات کی فکری، اخلاقی، دعوتی اور معاشرتی تربیت

بیان: حضرت مولانا مفتی ابوبکر جابر قاسمی صاحب       

ناظم ادارہ کہف الایمان حیدرآباد         

            (اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے زیر اہتمام اور جامعہ عائشہ نسوان حیدرآباد کے زیر ِانتظام سہ روزہ تربیتی ورکشاپ برائے معلمین و معلمات مدارس بنات کا انعقاد بہ تاریخ ۲۷ تا۹ ۲ محرم۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵ تا۷ ۱ اگست ۲۰۲۳ء عمل میں آیا تھا، جس کی ایک نشست میں حضرت مولانا مفتی ابوبکر جابر قاسمی مدظلہ ناظم ادارہ کہف الایمان بورابنڈہ حیدرآباد بھی مدعو تھے، آپ کو یہ عنوان دیا گیا تھا: طالبات کی فکری، اخلاقی، دعوتی اور معاشرتی تربیت، یہ عنوان در حقیقت چار موضوعات پر مشتمل تھا اور وقت طلب تھا؛ لیکن حضرت موصوف نے دریا بکوزہ کے مصداق اپنا محاضرہ پیش فرمایا، اور صرف پندرہ منٹ میں چاروں موضوعات پر جامع و مختصر تقریر فرمائی۔یہی بیان تحریری شکل میں ترتیب و تہذیب کے بعد پیش خدمت ہے۔ از مرتب: محمد عبد العلیم قاسمی، خادم کہف الایمان)

            نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم، اما بعد!

            محترم سامعین کرام اور شعبہ تدریس سے وابستہ عظیم و معزز افراد و خواتین!

             مدارس بنات یا مدارس بنین میں بالعموم نہ کتب خانے کا اہتمام ہوتا ہے، نہ محاضرات اور لکچرز کی فکر ہوتی ہے، اضافی کاموں کی تلافی ضرور کی جاسکتی ہے، اگر مدرسہ میں مناسب کتب خانے کا اور ماہرین کے مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ تکمیل بخاری کے جلسے، مختلف قسم کے روایتی جلسے، مقرروں کی بھرمار؛ اس میں تو دل چسپی لی جاتی ہے؛ لیکن حساس روز مرہ کی زندگی سے جڑے ہوئے عناوین پر محاضرات اور لکچرز کا اہتمام نہیں ہو پاتا، حالاں کہ یہ اشد ضروری ہے، کسی بھی میدان میں علمی و عملی قناعت انسان کی ترقی کو روک دیتی ہے، پردہ، حجاب اور حیا اکابر سے تعلق اور رابطے کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے؛ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بگڑتے حالات میں سلگتے مسائل پر اکابر سے جو بر وقت رہبری لی جانی چاہیے وہ ہم لے نہیں پاتے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ سے لے کر حضرت حجة الاسلام نانوتوی رحمہ اللہ تک ان کے گھر کی خواتین کے شیوخ سے تزکیائی رابطہ کا ذکر کتابوں میں موجود ہے۔ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے لکھا ہے کہ آپ کی ہمشیرہ نے شعور کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت کی درخواست کی تھی، جس کو آپ نے قبول فرمالیا۔ مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ کے پورے خانوادے کا حضرت تھانوی کی خانقاہ میں آنا جانا لگا رہتا تھا، کسی شیخ اور اہل اللہ سے رابطے کا لزوم ہمارے نصاب و نظام میں زبردست انقلاب اور تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے، جس عنوان پر گفتگو کا مکلف بنایا گیا ہے اس کے چار پہلو ہیں: فکری، اخلاقی، دعوتی اور معاشرتی۔

طالبات کی فکری تربیت:

            فکری مسائل یا بالفاظ دیگر اعتقادی مسائل اس زمانے میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں، داخلی طور پر بھی اور خارجی طور پر بھی۔ اس زمانے میںْ میرے اور آپ کے لیے جو دستیاب میسر کتابیں ہیں، ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کے افادات کا مجموعہ ”اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے“ مفید ترین کتاب ہے۔ حضرت نے ملکی اور عالمی سطح پر جو شبہات عام طور پر معترضین ِاسلام کی جانب سے کیے جاتے ہیں، ان کا مسکت جواب دیا ہے؛ اسی طرح حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی تصنیف ”اسلام پر بے جا اعتراضات “ بھی اہم ترین کتاب ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی ہمت و توفیق اور عزم و حوصلہ دے تو پڑوسی ملک کے مایہ ناز موٴرخ و محقق مولانا اسماعیل ریحان صاحب کی ان کتابوں کا بھی ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، جو اسلام کے خلاف نظریاتی جنگ کے موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ مستشرقین کس نہج پر کام کرتے ہیں، سامراجیوں نے کیسے کام کیا، عیسائی تنظیمیں مالدار اور غریب ملکوں میں کیسے پہنچتی ہیں اور وہاں اپنا اثر و رسوخ کیسے جماتی ہیں، گلوبلائزئشن کے اثرات دنیا پر کس طرح مرتب ہورہے ہیں، اور پھر قرآن پر اعتراض ،حلالہ پر اعتراض اور دیگر مسائل شرعیہ پر اعتراض! آئینی مسائل کا پہلو ہے اور ملکی مسائل کا بھی، جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں وہاں غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط اور رواداری کے حدود، یہ سارے فکری اور نظریاتی مسائل ہیں جن سے واقفیت از حد لازم ہے۔

             کاش! مدرس ان تمام مسائل سے دوران ِدرس تعرض کرلیتا اور متعلمین کو ان سے آگاہ کرتا، تو کیا ہی بہتر ہوتا؛ لیکن نصاب کی تکمیل اور وقت کی قلت اور دیگر اعذار کی بنا پر ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سورہٴ یوسف کے اندر اس قسم کے بہت سے مسائل کا حل موجود ہے۔ اقلیتی ملک میں بہ تدریج تبدیلی کا تصور اس سورہ میں واضح طور پر مل جاتا ہے۔ سورہٴ ممتحنہ میں غیر مسلموں سے تعلقات کی نوعیت اور رواداری کے حدود صاف بیان کیے گئے ہیں، تشبہ کے موضوع پر قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کی کتاب پڑھنی چاہیے، ہمارے ملک میں ایک حساس مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن علاقوں میں فسادات رونماہوتے ہیں ،جہاں آبرو ریزی اور عصمت دری کی جاتی ہے وہاں دفاع اور شہادت کے کیا احکام ہوں، ترجیحات کا تعین بھی ایک اہم چیز ہے۔ علماء نے فقہ الاولویات کے موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، یہ سب فکری مسائل ہیں، جن کے بارے میں ذہن سازی کیے بغیر اور معاملے کے نشیب و فراز سے واقف کرائے بغیر اگر ہم کسی عالمہ کو میدان میں لاتے ہیں، تو وہ روز مرہ کی زندگی سے جڑی نہیں رہ سکتی ہیں، آنے والوں کی کما حقہ رہبری نہیں ہوسکتی ہے۔

طالبات کی اخلاقی تربیت:

            دوسرا پہلو ہے: اخلاقی، اس سلسلے میں حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کی کتابوں سے استفادہ کیا جانا چاہیے، دو چیزیں ہیں جن کو ہم مختلف الفاظ میں تعبیر کرسکتے ہیں: حدودِ شریعت اور مزاج ِشریعت، انصاف اور احسان، قانون اور اخلاق، عزیمت اور رخصت، حقوق مانگنا اور حقوق دینا، پوری شریعت کا اگر مطالعہ کیا جائے اور گہرائی و گیرائی سے پڑھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شریعت ِاسلامی حدود شریعت کی ترغیب نہیں دیتی؛ بلکہ مزاج شریعت کی ترغیب دیتی ہے، انصاف کی نہیں احسان کی ترغیب دیتی ہے، قانون کی نہیں! اخلاق کی؛ رخصت کی نہیں! عزیمت کی؛ اور حقوق لینے کی نہیں؛ بلکہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

            اس نہج پر طالبات کی اخلاقی تربیت کی جانی چاہیے، زندگی میں یہ موضوع ہی نہ آئے کہ بچے کو دودھ پلانا میرا فرض نہیں ہے، ساس کی خدمت میری ذمہ داری نہیں ہے، ہماری طالبات سے جو عالمات بن کر گویا مستقبل میں خواتین کا رہبر بننے والی ہیں، ان سے اس قسم کی لچر ذہنیت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ سیر الصحابیات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنا چاہیے، صحابیات امور ِخانہ داری میں کس طرح دل چسپی لیتی تھیں اور خاندان کی تعمیر میں ان کا کیا کردار رہتا تھا، اس کا مطالعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

             حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے نکاح باکرہ لڑکی کے بجائے ثیبہ عورت سے کیا اور اس کا مقصد یہ بتلایا کہ والدین فوت ہوچکے ییں،میری چھوٹی بہنیں ہیں ،ان کی پرورش کے لیے ثیبہ عورت ہی مناسب معلوم ہوئی، مجھے بیوی سے زیادہ اس ماں کی ضرورت ہے جو ان بچیوں کی صحیح پرورش کرسکے۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۸۶۹۲)وہاں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے بہنوں کی پرورش میری ذمہ داری نہیں ہے۔

             فتح مکہ کے موقعہ پر ایک واقعہ پیش آیا جو ایک نمونہ اور مثال ہے۔ حضرت حمزہ کی دختر کے بارے میں جھگڑا ہورہا ہے، تین صحابی اس کی پرورش کے سلسلے میں جھگڑرہے ہیں، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں مجھے پرورش کے لیے دے دیا جائے، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنا نام پیش کررہے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس کے طلب گار ہیں۔ (ابوداوٴد، حدیث نمبر: ۸۷۲۲) موجودہ معاشرے اور نبوی معاشرے میں کتنا فرق آچکا ہے، یہاں جھگڑا ہے کہ ہمیں خدمت کی ذمہ داری نہ دی جائے اور وہاں تنازعہ ہے کہ خدمت کی ذمہ داری ہمارے حوالے کی جائے، اخلاقی اعتبار سے یہی جذبہ طالبات کے اندر پیدا کرنا چاہیے۔

طالبات کی دعوتی تربیت:

            تیسرا پہلو ہے: دعوتی۔ دعوت مسلمانوں میں بھی ضروری ہے ان کو پورے دین پر لانے کے لیے اور غیر مسلموں میں بھی ضروری ہے ان کو دامن ِاسلام سے وابستہ کرنے کے لیے۔ مسلمانوں میں دعوت کی۶/ ذمہ داری بحمد اللہ تبلیغی جماعتیں کرتی ہیں، بہت سی کمزوریوں اور داخلی انتشار و اختلاف کے باوجود یہ مفید تر ذریعہ ہے، ہمیں کمیوں سے صرف ِنظر کرتے ہوئے، اس تحریک سے جڑکر صحیح ڈگر پر اس کو لے جانے اور تبلیغ کے قالب میں علمی روح ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور مسلم خواتین کو دین سے واقف کرانا چاہیے؛ اسی طرح غیر مسلموں میں انفرادی طور پر دعوت کا کام کیا جانا چاہیے، سماجی زندگی میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، جیسے ہماری ملازمہ، یا ٹیچر یا ساتھ کام کرنے والی کولیگ، ان سب کے سامنے بے ضرر انداز میں دعوت ِاسلام پیش کی جاسکتی ہے۔ اپنی عملی زندگی سے ان کے سامنے اسلام کی ستھری تعلیم پیش کی جاسکتی ہے، دعوت کا میدان اس زمانے میں مرتد طبقہ بھی ہے، جنہیں ارتداد کی لہر نے اسلام سے خارج کردیا ہے، نت نئے فتنوں کا شکار ہوکر وہ گمراہ ہوچکے ہیں۔

             آپ کے آس پاس فیاضیت سے متاثر لوگ ہیں، شکیلیت سے متاثر لوگ ہیں، دیندار انجمن سے متاثر لوگ ہیں، آپ کے آس پاس وہ بیٹیاں ہیں جنہوں نے غیر مسلم سے شادی رچالی ہے، ان سب کو دوبارہ اسلام سے جوڑنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اور ایک میدان بالغات کے مکاتب کا بھی ہے، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کا بھی یہی کہنا ہے: بڑے بڑے مدرسوں کے بجائے مکاتب کا قیام زیادہ اہم اور ضروری ہے؛ بلکہ فرض عین کے درجے میں ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے اثرات سے حفاظت کا ایک موثر ذریعہ یہی مکاتب ہیں، آج بھی بہت سی بندیاں ہیں جنہوں نے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بالغات کے مکاتب قائم کیے ہیں، بخاری پڑھانا ہی معراج نہ سمجھیں اور مشکوة پڑھانا ہی زندگی کی منزل نہ سمجھیں! ترجیحات اور ضروریات کے اعتبار سے خدمت کا جو موقع مل جائے، اس کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔ محارم کے ساتھ دیہاتوں کا دورہ بھی کرنا چاہیے، سسرال اور میکے کی لڑکیوں کو اپنے سے مربوط رکھنا چاہیے، نکاح سے قبل بچیوں کی تربیت اور خلع و طلاق کے موقع پر لڑکیوں کی کونسلنگ، یہ سارے دعوتی میدان ہیں۔

طالبات کی معاشرتی تربیت:

            موضوع کا آخری جزو ہے: معاشرت۔ بچیوں کی مدارس میں تو تربیت ہوتی ہے، آٹھ اٹھ سال یا پانچ پانچ سال تک کے لیے؛ لیکن اس دوران ذمہ داران ِمدارس کا والدین سے صحیح طور پر رابطہ نہیں رہتا ہے، جن کی چلتی ہے ان کی کوئی ذہن سازی نہیں اور جن کی نہیں چلتی ان کی مسلسل تربیت۔ چند دن پہلے حضرت مولانا خواجہ نذیر الدین سبیلی دامت برکاتہم نے ایک واقعہ سنایا، جو اسی بستی اور اسی علاقے کا ہے: لڑکیوں نے والد کو سمجھایا کہ یہ رسومات مت کیجیے، باپ نے نہیں مانا، بچیوں نے کہا: اچھا ایسا کیجیے کہ شادی کے دن ہمیں مدرسہ ہی چھوڑدیجیے، ہم سے رسومات دیکھی نہیں جائیں گی اور آپ سے چھوڑی نہیں جائیں گی، ایسا کرتے ہیں ہم مدرسے میں ہی رہ جاتے ہیں اور آپ شادی کی پوری رسوم انجام دے لیجیے، باپ تو باپ ہوتا ہے اور بیٹیاں بیٹیاں ہوتی ہیں، دل تو پسیج ہی جاتا ہے، باپ نے آکر حضرت ناظم صاحب سے کہا: آپ نے تربیت کی، آپ نے بچیوں کا ذہن بنایا، اب آپ ہی نکاح کیجیے!

            والدین سے رابطے کے بغیر لڑکیوں کی تربیت، خاندان سے رابطے کے بغیر بچیوں کی تربیت کی جائے، تو عملی زندگی میں اس تربیت کا اثر نمایاں طور پر ظاہر نہیں ہوسکتا ہے، رسومات کے خاتمے میں ایسی بچیاں کردار ادا نہیں کرسکتی ہیں، امور خانہ داری کو بھی دین کا حصہ سمجھنا چاہیے، اپنی تدریس، اپنی تحریر اور زور بیانی کا زعم ذہن و دماغ پر اتنا سوار نہ ہوجائے کہ امور ِخانہ داری میں دل چسپی ختم ہوجائے، خانہ آبادی کے ساتھ اور خاندانی زندگی کو پورا وقت دینے کے ساتھ اضافی طور پر یہ دینی خدمات انجام دینا ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ یہ پہلو بہت فرمایا کرتے تھے کہ والدین کے حقوق کو تو سنایا جاتا ہے؛ لیکن حدود کا ذکر نہیں کیا جاتا،یہ بھی تو بتلایا جانا چاہیے کہ اطاعت ِوالدین کے حدود کیا ہیں، معاشرتی زندگی میں جو برائیاں ہیں جیسے: خود کشی، نشہ، جہیز، سود اور ضبط ولادت کی۔ آندھرا کے ایک ضلع میں میری حاضری ہوئی، تقریباً پورے ضلع کی اہم مساجد میں حاضری ہوئی، مصلیوں سے پوچھا کہ کتنے بچے ہیں؟ اکثر سے یہی جواب ملا: دو بچے ہیں۔ اخیر میں حیرانی ہوئی تو میں نے ایک صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا: ہمارے پاس دو سے زائد بچوں کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، ضبط ِولادت اور برتھ کنٹرولنگ کا نظریہ اتنا مسلط کردیا گیا ہے کہ اہل ِعلم طبقہ، اہل ِدعوت طبقہ اور دین پسند طبقہ تک اس سے متاثر ہے۔ موہوم وجوہات سے اور نا معلوم قسم کی بنیادوں پر اس کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔

            تو یہ معاشرتی اور اصلاحی عناوین ہیں، جن کے سلسلے میں عنوان وار طالبات کی ذہن سازی کی جانی چاہیے۔

آخری بات:

            کہاں مسائل پیدا نہیں ہوتے؟ کہاں ٹکراوٴ نہیں ہوتا؟ کہاں تنازعہ کھڑا نہیں ہوتا؟ دور ِنبوی میں بھی گھریلو اور معاشرتی تنازعات بپا ہوتے تھے؛ لیکن اس دور کا امتیاز یہ تھا کہ دربار ِنبویﷺ میں وہ کیسز لائے جاتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حل فرمایا کرتے تھے، کیا ہم بھی اسی اسوہ اور نمونہ کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے خاندانی تنازعات اور جھگڑوں کو کسی اللہ والے کے پاس نہیں لے جاسکتے؟ کیا ہم اپنی ذاتی زندگی میں کسی اللہ والے کی ثالثی پر راضی ہیں، کیا ہم کسی صاحب دل سے خود سپردگی کا تعلق رکھتے ہیں؟ اگر یہ رنگ ہمارے اندر طالبات نے نہیں دیکھا ہے، تو ان کے اندر بھی نہیں آئے گا۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو عمل کی توفیق نصیب فرمائیں۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حضرت موصوف نے جن کتب کی جانب اپنے بیان میں رہ نمائی فرمائی ہے ان کی فہرست:

۱۔ اسلام اور دور حاضر کے شبہات و مغالطے۔ افادات: مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم، مرتب: مفتی عمیر انور۔

۲۔ نظریاتی جنگ کے اصول۔مولانا اسماعیل ریحان صاحب۔

۳۔ نظریاتی جنگ کے محاذ۔ مولانا اسماعیل ریحان صاحب۔

۴۔ التشبہ فی الاسلام۔ قاری طیب صاحب رحمہ اللہ۔

۵۔ اسلام پر بے جا اعتراضات۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔

اسی طرح خود مقرر محترم کی ان کتابوں کا مطالعہ مفید رہے گا، سہولت کے لیے پی ڈی ایف کی لنک بھی ہم رشتہ کردی جارہی ہے:

۱۔ مسنون معاشرت۔

https://t.me/darulmuallifeen/23708

۲۔ اطاعت والدین کے حدود۔

 ttps://t.me/darulmuallifeen/19409

۳۔ دعوت و تبلیغ احکام و مسائل

https://t.me/darulmuallifeen/26479

۴۔ مسنون نکاح  https://t.me/darulmuallifeen/25856