(مفتی ) محمد فاروق الفلاحی بروڈوی ثم المدنی
استاذ حدیث وتفسیر جامعہ اکل کوا
نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم أما بعد!
موت کی حقیقت اور حیاتِ دنیوی کی فنائیت آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں:
فاعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
﴿کل نفس ذائقة الموت﴾وقال تعالیٰ : ﴿وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد ﴾وقال تعالیٰ: ﴿وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علٰی عقبیہ فلن یضر اللّٰہ شیئا وسیجزی اللّٰہ الشاکرین۔ وما کان لنفس ان تموت الا باذ ن اللّٰہ کتابا موٴجلا ومن یرد ثواب الدنیا نوٴتہ منہا ومن یرد ثواب الآخرة نوٴ تہ منہا وسنجزی الشاکرین﴾
جیسی زندگی ویسی موت اور جیسی موت ویسا حشر:
وقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ” تموتون کما تحیون وتحشرون کما تموتون۔“
معزز قارئین کرام !
یہ دنیا فانی ہے اور اس میں ہر آنے والا فانی ہے۔یہ اسلامی حقیقت اوراس کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ لیکن زندگی وہ لوگ جی جاتے ہیں ، جو اپنی زندگی کو لوگوں کے لیے وقف کیے ہوتے اور جاتے جاتے بھی بہت سے امور ،اسباق اور کام دے کر جاتے ہیں۔ ہم سب ہی مولانا عبد الرحیم صاحب کی تعزیت کے مستحق ہیں۔ہمارا حال وہی ہے جوحضرت یعقوب علیہ السلام کے وصال پرلوگوں کا تھا۔ مولانا علی میاں ندوی نے اس کی منظر کشی کی ہے :” کل صغیر فقد اباہ وکل کبیر فقد أخاہ “ہمارے رفیق مکرم اور برادر محترم حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی- نو ر اللّٰہ مرقدہ وشکر اللّٰہ سعیہ وجزاہ الجزاء الاوفیٰ والأحسن۔کے ا س دنیا سے داعی اجل کو لبیک کہہ کر رب سے اشتیاق اوررب سے ملاقات کی تمناوٴں والی زندگی گزارنے بعد بارگاہ الٰہی میں پہنچ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
محبت کا تقاضہ محب کے مشن کو جاری رکھنا ہے:
کتاب وسنت میں بھی پیغام ہے کہ نبی علیہ السلام ایک مشن کے لیے آئے تھے ۔ اس مشن کا بقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد بھی ہے اور اس کو باقی رکھنے ہی میں حضور سے محبت وعقیدت اوراس کے عزم کا اعتراف ہے۔ اللہ کا تکوینی نظام ہے کہ کچھ شخصیات کو کچھ مشن کے لیے ہی پیدا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت کچھ لوگوں کو طئی زمان و طئی مکان دونوں نصیب فرماتے ہیں۔
مولانا مرحوم کو من جانب اللہ طئی زمان و طئی مکان حاصل تھا:
میری اپنی رائے اور گمان کے اعتبار سے حضرت مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے طئ مکان بھی دیا تھا کہ وہ مختصر وقت میں کئی صوبوں اور شہروں کی مسافت طے کر کے پھر اپنے میدان ِعمل میں دائرہٴ کار پر ہم سب کے پیارے ادارہ جامعہ اکل کوا تشریف لے آیا کرتے تھے۔اور طئ زمان بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو عطا فرمایا ،جو اُن کے انتقال کے بعد سمجھ میںآ رہا ہے کہ ۵۵/ ۵۶/ سال کی کم عمری میں مولانا نے زبردست اور کثیر افراد تیار کرکے بالخصوص طلبہٴ عزیز اور بالعموم امت اسلامیہ کی خدمت میں پیش فرمایا۔اور تین چیزوں کی داغ بیل ڈال گئے، جن کو پورا کرنا ہم سب کی ذمہ داری رہے گی۔
بلبل جامعہ اور عندلیب حفلات:
حضرت مولانا مرحوم جامعہ کے ماہر استاذ اور بے مثال مربی تھے ۔ آپ کے چلے جانے کے بعد ہماری ذمے داری ہے کہ آپ کے مشن پر چلتے رہیں۔ میں قارئین شاہراہ اور خصوصاً طلبہ جامعہ سے یہ سچ بات کہتا ہوں کہ مولانا بلبل جامعہ اور عندلیب حفلات تھے۔ حضرت مولانا وستانوی صاحب- اطال اللّٰہ عمرہ وبارک اللّٰہ فی صحتہ وعافیتہ– کے فکر حسین اور مولانا عبد الرحیم فلاحی کی ذہن رسا اور اساتذہٴ جامعہ کی جہد مسلسل اور معاونین،محسنین کا حسن تعاون کے مجموعہ اور کرتب سے جامعہ بام عروج تک پہنچا۔
مولانا مرحوم کی چند عمدہ اوصاف اور خصوصیات:
حضرت طلبہ میں حسن ِانتظام اورذوق زیبائش کے بہت ہی زیادہ متمنی تھے۔ اورجامعہ کے طلبہ میں یہ سب چیزیں ان ہی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں۔ جامعہ کے سبھی حضرات کے متفق علیہ اور معتمد تھے۔ سب سے بڑی بات جو میں نے ان کی زندگی میں دیکھی وہ اپنے کاموں کے بہت دھنی اور نہایت ہی مصروف ترین انسان، اسلاف کی روایات اور علمائے دیوبند کے منہج کے محافظ اور ضامن تھے۔ ترجمان جامعہ اور مسابقات کے مدیر تھے۔ اللہ نے انہیں عجیب صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ فلاح دارین میں حضرت الاستاذ مولانا سید ذوالفقار کے زیر تربیت رہ کر اپنے ملکہٴ خطابت کو سنوارا ، پھر جامعہ اکل کوا تشریف لاکر اسے ابھارا ، نکھارا اور پھر حضرت وستانوی# کی منشائے تربیت کو سمجھ کر مسجد میمنی کو اپنی تربیت گاہ بنایا۔ اور مولانا وستانوی صاحب زیدت معالیہم ؛کی منشائے تعلیم کو سمجھ کر درس گاہوں کو اپنی تعلیم کے ذریعہ تزئین ورونق بخشی۔ وہ درس گاہیں، وہ مسجد میمنی، وہ جامعہ کا ایک ایک ذرہ، ایک ایک پتہ ،ایک ایک اینٹ مولانا کے حق میںآ ج بھی اپنی زبان حال سے یہ صدا دے رہے ہیں۔
مولانا کی زندگی صحیح معنی میں اس شعر کی تصویرتھی
اِدھر ڈوبا اُدھر نکلا
اُدھر ڈوبا اِدھر نکلا
عندلیب جامعہ:
کبھی وہ مسجد میمنی میں چلتے پھرتے طلبہ کو مزین و منظم اندا ز میں بٹھاتے،کبھی تہجد کے وقت تلاوت وذکر سے فضائے جامعہ کومعطر اور منور کرتے ہوئے طلبہ کو جگا کر مسجد کی طرف رخ کراتے نظر آتے ،کبھی رجوع الی اللہ کی کیفیت اور تلقین کرتے ہوئے فجر میں نظر آتے ، کبھی درس گاہ کی طرف تشریف لے جانا ،کبھی دارالضیوف میں آنے والے مہمانوں کا پرتپاک استقبال ،ان کا اکرام اور مصلحت کے پیش نظر ان کی باز پرس کرنا اور ان کی صحیح تربیت کرنا۔ تو کبھی مطبخ کی طرف جاکر طلبہ عزیز کے باب میں فکر کرنا ، کبھی میدانِ تصنیف و تالیف کے ذریعہ امت کی فکر کرنا۔تو کبھی فجر سے پہلے ہی طلبہ کی تفسیر اور حدیث کے پیغام کو سننا اور مسجد میں سنوا کر ان کی تربیت کرنا اور ان کو کچھ کام سونپنا ۔
کام لینا یہ کام کرنے سے بڑا ملکہ ہے
بے شک کام کرنا ایک بہت بڑا ملکہ ہے ، لیکن کام لینا یہ اس سے بھی بڑا ملکہ ہے۔ اس میں مولانا ایک ممتاز فرد تھے۔ یہ فکران میں جامعہ فلاح دارین اور پھر مولانا وستانوی صاحب دامت برکاتہم کے ذریعہ منتقل ہوئی تھی۔ اور رجال سازی کا گر ان میں اپنے مربی ومیدان تربیت کے بطل عظیم ہمارے استاذ الاساتذہ اور حضرت کے برادر مکرم حضرت مولانا عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم ، بارک اللہ فی صحتہ و حیاتہ (مضمون کی طباعت کے وقت آپ بھی اپنے بھائی کے جوار میں مدفون مولائے حقیقی کے جوار رحمت میں پہنچ چکے ہیں) کے ذریعہ منتقل ہوئی تھی۔ واقعةً اللہ رب العزت نے ان میں کافی ساری صلاحیتیں ودیعت فرمائی تھیں۔ وہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوا کر رہتے ،بل کہ یہ کہا جائے کہ آج کے دورکاہر میدان ان کاضرورت مند محسوس ہوتا تھا۔ چاہے وہ میدان تصنیف وتالیف ہو یا میدان حفلات ہو، میدان نشا طات ہو چاہے النادی العربی ہو۔ چاہے منافسات ہوں، چاہے اصلاح الکلام ہو ۔ مساجلات ہوں یا بیت بازی ۔ یوم آزادی ہو یا یوم جمہوریت ، امتحانات کا ہال ہو، یا تقریری امتحانات ۔ غرض تربیت کا کوئی بھی میدان ہو حتی کہ طلبہ کے نشاطات بدنیہ اور ریاضات بدنیہ کے میدان میں بھی مولانا تشریف لے جاکر اپنی حاضری ہی نہیں، بل کہ اپنی ہمت افزائی کے جذبات اوررب العالمین نے اپنے چھوٹوں کے ساتھ برتنے کا جو گر رکھا تھا اس کا لوہا منواتے تھے،جس کی تاریخ ہمیشہ شاہد رہے گی ۔
حضرت وستانوی کے راز دار ومعتمد:
حضرت وستانوی کے نہایت راز دار ،معتمد اور جامعہ کو رئیس جامعہ کے منشا اور مقصد کی طرف گامزن کرنے میں رواں دواں شخصیت تھے، استقامت اور اخلاص کا پیکر تھے۔ ان کے اوپر کوئی دفتری ذمے داری باقاعدہ نہ ہونے کے باوجود وہ ہر قسم کی فکریں اپنے ذہن پر لے کر اس کو بروئے کار لاتے تھے۔ یہ سب اوصاف ذکر کرنے کا منشا خصوصاًفضلائے عزیز جامعہ کو وہ جہاں جہاں ہوں ؛یہ پیغام دینا ہے کہ حضرت مولانا کی زندگی کے ان گوشوں پرفکر کرکے غور کرکے سبق لیجیے۔یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ حدیث شریف میں اذکروا محاسن موتاکم ہے صرف موتاکم نہیں ہے ۔
معاشرتی امور میں اعتدال :
مولانا معاشرتی امور میں بھی نہایت بیلنس(Balance) رکھتے تھے۔ ہر رشتہ دار، ہر متعلق منتسب متوسل کا حق ادا کرتے تھے۔ ہر ایک سے تبسم کے ساتھ ملتے اور اپنی ذات کو بڑوں کے نہج پر رکھ کر ہمیشہ فنا کردینے والے تھے اورآخر کار فنا کرکے ہی رہے۔
طلبہ کے باب میں تربیتی نقطہٴ نظر سے ہمیشہ فکر مند :
طلبہ کے باب میں ہمیشہ تربیتی نقطہٴ نظر سے فکر مند رہتے اور ذہین طلبہ کو سوم ، چہارم سے وہ اپنے ذہن میں بٹھاکرپھران کی عجیب انداز سے تربیت اور ان میں کسی قسم کی تعلّی نہ آنے دینا ، تواضع کا خوگر اور پیکر بنانا۔ یہ مولانا کی تربیتوں کے خصوصی جوہر تھے۔ قرآن کریم کے ساتھ نہایت شغف رکھتے تھے۔
وقت کی بے مثال قدردانی:
اپنے اوقات کو ضائع کرنے کے باب میں ذرہ برابر مصالحت ان کی طبیعت میں نہیں تھی۔ اور حدیث شریف بڑے عشق ، بڑے لگن ، دھن اور محبت کے ساتھ پڑھاتے تھے۔
اللہ رب العزت ہی کی وہ ودیعت کردہ ملکیت ہمارے پاس تھے۔ اللہ نے اپنے وقت پر ان کو لے لیا۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ مولانا وقت سے پہلے چلے گئے۔ یہ عقیدہ اسلام کے بالکل منافی ہے۔﴿وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللّٰہ کتابا موٴجلا﴾﴿ولن یوٴخر اللّٰہ نفسا اذا جاء اجلہا﴾
بڑا ہی عمدہ تربیتی گراور اعتدال فکر:
مولانا کی زندگی میں ایک نمایاں گریہ بھی نظر آتا تھاکہ انہوں نے اپنی اولاد میں ذرہ برابر بھی صاحب زادگی کا نشہ پیدا ہونے نہیں دیا۔ یہ بات ذکر نہیں کریں گے تو پیغام ناقص رہ جائے گاکہ مولانا کی زندگی سے ایک سبق ہم اعتدال کا بھی لیتے ہیں ۔ مولانا دین کے ہر شعبہ کو اپنی زندگی کا حصہ، اپنی دوڑ بھاگ کا حصہ عنایت فرماتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی قولاً یا عملاً کسی ایک شعبہ کی طرف اپنارجحان نہ توظاہرکیانہ ہونے دیا۔جس شعبہ کو بھی مولانا کی ضرورت پڑی،اس کی تشنگی کو مولانا نے بجھانے کی بھر پور سعی اور ہر میدان میں اترنے کی بھر پور کوشش فرمائی۔ سب کو اپنا وقت،اپنی صلاحیتیں عملی طور پر اس پرفتن دور میں ہمارے فضلا کو بھی یہ دروس اپنی زندگی میں اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ امت کی صحیح سیادت،زعامت،قیادت اورسب سے بڑھ کر رعایت کی جاسکے۔ اور امت کے تمام طبقات آپ سے مستفید ہوسکیں۔ آپ اپنا افادہ اور استفادہ فرمائیں۔ اس بات کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسرا اگر چہ آپ کو کوئی ذمہ داری نہ دی جائے اگر اس کام میں امت کی فلاح وبہبود ہے اور نفع عام وخاص ہے تو آپ کو کسی کے کہنے کا انتظار کیے بغیر اس کام کو للہ فی اللہ انجام دینا چاہیے۔ اللہ رب العزت کی طرف سے انعامات اور حوصلہ افزائی سے نوازا جائے گا۔
مولانا نے ۱۹۸۴ء میں فلاح دارین سے شہادة الفضیلة لے کر ۱۹۸۵ء میں مظاہر علوم میں وقت کے عظیم محدث مولانا یونس صاحب جون پوری سے کسب فیض کیا۔ ۱۹۸۶ء میں ایک سال دعوت وتبلیغ میں لگایا اور ۱۹۸۷ء سے تادم آخر مولانا جامعہ اکل کوا کو اپنا میدان خدمت بناکر اپنی فکری وکسبی ودونوں صلاحیتیں امت کے سپوتوں کو عنایت کرتے رہے۔ یہ چیزیں بھی مد نظر رکھنی چاہیے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پیکر عظیم:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں بھی وہ ﴿ولا یخافون فی اللّٰہ لومة لائم ﴾کے مصداق تھے۔ اگر نہج دیوبندیت پر ذرہ برابر بھی آنچ آتی ہوئی دیکھتے تھے تو نہ اسٹیج کو بخشتے تھے اورنہ کسی شخصیت کو بخشتے تھے۔ بل کہ فی الفور حکمت اور موعظت حسنہ کے ذریعہ دیوبندیت کی نقیض اور متناقض فکر کو رد کرکے پھر علمائے دیوبند کے قائم کردہ اصول کو مدلل اور زبر دست انداز میں پیش فرماتے تھے۔ طلبہ کو بھی تربیت کے باب میں کسی بھی قسم کا تسامح برتنے کے قابل اور روادار نہیں تھے۔
آپ کی زندگی ایک سبق:
یہ سب پہلو ہمیں اپنی زندگی میں لانے چاہیے۔کسی شاطر مزاج کی شاطریت کے بروئے کار لانے کے ہرگز روادار نہیں تھے۔ بل کہ اس کی شاطریت کو پہچان کر صالحیت کا رخ دینے کی پوری پوری کوشش کرتے تھے۔اس کی پوری اصلاح وتربیت کرنے کے بھی قائل تھے۔اپنے وقار اور خود کے مقام ومرتبہ کاہر وقت فکر اور خیال رکھتے تھے۔ چھوٹوں کے سامنے اپنا بڑا ہونا، اپنی بڑائی کا پاس و لحاظ رکھنا ،ان میں اپنے استاذ ہونے کا تصور برقرار رکھنا اور اپنے بڑوں کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا بناکر رکھنا ،ان چیزوں میں سرمو اورذرہ برابر بھی مصالحت نہیں فرماتے تھے۔
بڑوں کی قدردانی:
ان کے دروس وبیان میں بھی ان کے اپنے بڑوں کا تذکروہ بکثرت ہوتا تھا۔ وہ بڑوں کے مداح رہتے اور اپنے رفتار، گفتار اور کردار میں تواضع کا پیکر تھے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے مطابق”من تواضع للہ رفعہ اللہ“ کاان کی زندگی میں عکس نظر آتا تھا۔
ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کسی بھی میدان عمل وخدمت میں چاہے کتنے بڑے کیوں نہ بن گئے ہوں، لیکن اپنے بڑوں کے سامنے اپنے آپ کو چھوٹا ہی سمجھ کر رکھیں۔
مولانا وستانوی دامت برکاتہم کی دعا اور نصیحت کا وہ جملہ ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ”اے اللہ ! ہمیں اپنے بڑوں کی قدر دانی نصیب فرمااور اپنے بڑوں سے ہمیں متعلق رکھ“
”پیوست رہ شجر سے امید بہار رکھ “
علوم عصریہ ودینیہ میں بے مثال توازن:
علوم عصریہ ودینیہ میں ایک بے مثال توازن برقرار رکھ کر طلبہٴ عزیز کو ان دونوں کے حامل بناکر خدمت دین اور جذبہ دعوت کو کوٹ کر پلانا یہ بھی ان کا معمول تھا۔ یہ سب اوصاف وصفات ان میں کیوں کر نہ ہوتیں! اس لیے کہ انہوں نے ایک مثالی خاندان میں جنم بھی لیا اور آنکھیں بھی کھولی تھیں ۔
آپ کا خانوادہ:
آپ گجرات کے عظیم الشان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور پھر اس پر دوبالگئی حسن کاسبب یہ ہوا، کہ دارالعلوم فلاح دارین کے اکابر اساتذہ کرام کی رہ نمائی اور ان کی شان تربیت ، نیز مظاہر علوم میں جاکر اپنے بڑے بھائی اوروقت کے عظیم محدثین کے ظل عاطفت میں اور ان کے تعلیمی سماء اور اور سماں میں رہنے کی اللہ تعالیٰ نے ان کو مواقع عطا فرمائے۔پھر ان سب صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرتِ وستانوی زیدت معالیہم کا میدان عنایت فرمایا ،جہاںآ پ نے صلاحیتوں کا لوہا دنیا سے منوایا۔ وہ پھلتے پھولتے اورپورے گلستاں کو معطر فرماتے رہے ۔ سمجھاتے رہے ، اللہ رب العزت جنت میں ان کے گلستان کو سجائے اورپر بہار رکھے۔درجات بلند فرمائے اور دعا کرتے ہیں کہ اللہم اکرم نزلہ وادخلہ فی جنات نعیم وابدلہ دارا خیرا من دارہ وزوجا خیرا من زوجہ وقصرا من قصرہ برحمتک یا ارحم الرحمین۔
خلاصہ تحریر:
میرے اس پیغام کا پورا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا رحمة اللہ علیہ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک بولتی تصویر تھی ۔ اب خاموش تصویر ہے ، جو ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے۔ سکندر جب مرگیا تھا تو ایک صاحب نے اس کی قبر پرجاکر کہا تھا کہ
کانت حیاتک لی عظات بالامس
انت الیوم او عظ منک حیا
ہوسکتا ہے کہ شعر میں تقدیم و تاخیر ہوئی ہو، لیکن ہمیں مولانا کی زندگی سے سبق لے کر ان نفوس ِقدسیہ کو ہمارے باب میں نقوش حیات بنانا چاہیے۔
ان نفوس قدسیہ کو ہم نقوش حیات بنائیں گے اور ہم بھی اس کا مصداق بننے کی بھر پور کوشش کریں گے کہ ﴿یا یتہا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیة ﴾