ضوء فگن ہوگئیں ظلمات صحابہ کے طفیل

مولانا عبد الرحمن ملیؔ ندویؔ ایڈیٹر مجلہ ’’ النّور ‘‘ اکل کوا

            کروڑوں سلام ہو اس دانا ئے سبل ، ختم الرسل اور مولائے کل پر ؛جو آفتاب ِ رشد وہدایت تھاجاہلیت میں بھٹکے ہوئے گمراہوں کے لیے ۔ یتیموں کا مولااور بیواؤں کا غم گسار تھا ، جس کی ضیا پاش کرنوں نے صحابہ جیسی منوّر ہستیوں کو نورِ نبوت سے منوّر کرکے مثالی وتاریخی شخصیات بنایا اور جس کی حیرت انگیز اور مثالی تربیت نے صحرائے عرب کے خاک نشینوں کو جہاں بانی کے اس مقام پر پہنچادیا کہ دنیا قیامت تک ان کی مثال پیش کرنے سے عاجز وقاصر ہے اور رہے گی ۔ اس لیے کہ

وہ سر چشمۂ ہدیٰ تھے کہ جن سے ہم فیض پارہے ہیں

خود انبیا کے امام اُن کو امام اپنا بنارہے ہیں

            صحابۂ کرام دین کی آن اور اسلام کی شان ہیں،مقربین خدائے رحمن ہیں؛یہی وہ مقدس جماعت ہے جسے دنیا ہی میں رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کی شکل میں رضائے الٰہی کا پروانہ ملا ہے ۔ صحابہ کرام اخلاص وللہیت کے پیکر اور سچے عاشقِ رسول تھے کہ انہوں نے جاںنثاری اور فدائیت کے ایسے تابندہ اورروشن نقوش چھوڑے ہیں کہ رہتی دنیا تک وہ نقوش مٹائے نہیں جاسکتے اس لیے کہ

مل گیا درس محبت صحابہ کے طفیل

جاں فزا ہوگئے حالات صحابہ کے طفیل

            امت کو دین وایمان کا سرمایہ انہی مقدس نفوس کے واسطہ سے حاصل ہوا ہے اور انہی کی قربانیوں کے صدقہ ہم ایمان ویقین کی دولت سے بہرہ ور ہیں ۔ صحابہ سے محبت وعقیدت ہمارے ایمان کا جز ء لاینفک ہے ۔

صحابہ سے محبت در اصل محبت نبوی کی بنیادی دلیل ہے{قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی} ۔صحابۂ کرام روئے زمین پر انبیا کے بعد سب سے مقدس اور معظم انسان تھے ۔ اللہ نے ان سے اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا عظیم ترین کام لیا ۔ حدیبیہ کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا تھا : ’’ أنتم الیوم خیر أہل الارض ‘‘ آج تم اس روئے زمین پر سب سے بہتر انسان ہو۔

            صحابۂ کرام کایہ تاریخی ومقدس مقام ومر تبہ قیامت تک رہے گا ،اس لیے کہ لسانِ نبوت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے بھی مختلف آیات میں ان کی عظمت وفضیلت اور قدر ومنزلت کا تذکرہ کیا ہے ۔ کہیں فرمایا :

            { أولئک ہم المؤمنون حقاً لہم مغفرۃ ورزق کریم }

            ’’ وہی لوگ حقیقی مومن ہیں ، ان کے لیے مغفرت اوربہترین رزق ہے ‘‘۔

             اورکہیں صحابہ کے خیر امت ہونے کی طرف اس طرح اشارہ فرمایا کہ:{ کنتم خیر أمۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ }

            ’’تم ایک بہترین امت ہوجسے لوگوں کی ہدایت کے لیے وجود بخشا گیا ہے ۔ تم لوگوں کوبھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

            کہیں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان وعمل صالح سے راضی ہونے کا اعلان کیا ہے : {لقد رضی اللہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ }بے شک اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کررہے تھے ۔

            صحابۂ کرام کے ایمان و یقین کو دوسروں کے لیے نمونہ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : {فإن اٰمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اہتدوا} پھر اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم لوگ ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت یاب ہیں۔

            اور بہت سی آیات ہیں جن میں حضرات صحابۂ کرام کی مثالی سیرت ، روشن کردار اور پاکیزہ صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ قرآن کہتا ہے : {سیماہم فی وجوہہم من أثر السجود ، ذلک مثلہم فی التوراۃ} ۔

            صحابہ کرام کا جو مقام ومرتبہ اللہ تعالیٰ کے نزیک ہے اور جس پر جان و مال نچھاور کی جاتی ہے وہ ہر طرح سے پاکیزہ ، بے داغ ، روشن اور لائق تقلید ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام کی تربیت رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وپاکیزہ برتاؤ اور اخلاق کے ذریعہ ہوئی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تربیت سے متعلق فرمایا : ’’أدبنی ربی فأحسن تأدیبی ‘‘  تو پھر صحابۂ کرام کی پاکیزہ سیرت اور حسن تربیت پر نہ کوئی انگشت نمائی کی جرأت کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کا ایمان اس کو اجازت دے سکتا ہے ۔

            اس لیے کہ یہ مقدس جماعت اتفاقی طور پر وجو د میں نہیں آئی تھی ؛بل کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ِبالغہ کے تحت اپنے نبی کی صحبت کے لیے ان کو منتخب فرمایا اور ایمان کے لیے ان کے دلوں کو نکھارا تھا ۔ جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے : {اولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقویٰ} اللہ تعالیٰ نے اقامت دین ، نصرتِ اہل ایمان ، حفاظت ِشعائر اسلام اور حدود ِشرعیہ کی پاسبانی کے لیے اُس مقدس گروہ کا انتخاب کیا تھا ۔

             قیامت تک آنے والی پوری نسل انسانی کے لیے صحابہ کا ایمان اُسی طرح معیار حق ہے جس طرح تاریکیوں میں بھٹکتی کشتی کے لیے آسمانِ دنیا کے تابندہ ودرخشاں ستارے مشعل راہ کا کام کرتے ہیں۔ اسی طرح ضلالت وگمراہی میں بھٹکی انسانیت کو ساحل نجات تک پہنچا نے کے لیے صحابہ کرام مینارۂ نور ہیں، جس کی طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاکیزہ ارشاد میں اشارہ فرمایا کہ ’’ أصحابی کالنجوم بأیہم اقتدیم اہتدیم ‘‘میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے راہ یاب ہو جاؤ گے ۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لگایا ہوا چمن کتنا بار آور ہوا ، اس کا جواب فقیہ النفس حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی سنیے ، فرماتے ہیں :’’ من کان منکم متأ سیاً فلیتأس بأصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فإنہم أبر ہذہ الأمۃ قلوباً وأعمقہا علمًا وأقلہم تکلفًا، وأقومہم ہدیاً وأحسنہم حالاً إختارہم لصحبۃ نبیہ وإقامۃ دینہ ‘‘۔ (حاشیہ علوم القرآن ص ۱۰۱)

            جو آدمی کسی کو اسوہ اور نمونہ بنانا چاہے تو اسے چاہیے کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں اور جانثاروں کو نمونہ بنائے ۔اس لیے کہ ان کے دل سب سے زیادہ پاکیزہ ونیک ہیں۔ ا ن کے علوم میں گہرائی وگیرائی ہے، ان کی زندگیاں سادگی اور بے تکلفی کا اعلیٰ نمونہ ہیں، ان کی سیرت واخلاق میں اعتدال وتوازن ہے ،ان کے احوال میں حسن وجمال پایا جاتا ہے ۔

            اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ورفاقت اور دین کی حمایت ونصرت کے لیے ان کو منتخب کیا ہے ۔

            یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وصحبت ہی کا کیمیائی اثر تھا کہ عرب کے ناخواندہ اور امی کہے جانے والے دنیائے علم کے قائد اور مسند معرفت کے صدر نشین بن گئے ، یہ لوگ نہ صرف یہ کہ خود بدل گئے، بل کہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے معلم وہادی بن گئے ۔

            اکبر الٰہ آبادی نے خوب کہا ہے   ؎

 خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

            صحابۂ کرام کی وہ مقدس جماعت ہے ،جن کی تربیت وتعلیم اور تزکیہ وتصفیہ کے لیے سرور کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست استاذ و نگراں مقرر کیاگیا ۔{لقد منّ اللّٰہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتٰب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین }

            ’’تحقیق کہ احسان کیا اللہ تعالیٰ نے مومنین پر کہ بھیجا ان میںایک رسول ان ہی میں سے کہ تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیتیں اورپاک کرتا ہے ان کو۔ اور تعلیم کرتا ہے ان کو کتاب وحکمت کی گرچہ وہ اس کے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ‘‘۔

            جس نبی ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقا اور ساتھی اتنے بلند اخلاق وکردار کے مالک ہوں خود وہ نبی کتنے اونچے مقام پرفائز ہوںگے ، اس کا اندازہ تو لگایا ہی نہیں جاسکتا ۔

      ع   کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا 

            قرآن کریم نے صحابہ کرام کے راستہ کو ایک معیاری راستہ قرار دیا اور ان کے طریقۂ کار کو قابل اقتدا طریقہ قرار دیا۔ اور صحابہ کی مخالفت کو نبی کی مخالفت قرار دی ۔ {ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہٗ الہدی ویتبع غیر سبیل المومنین نولِّہ ما تولّیٰ }

            ’’جو شخص رسول کی مخالفت کرے بعد اِس کے کہ اُس کے سامنے ہدایت کھل چکی ہو اور جو مومنوں کا راستہ چھوڑ کر چلے گا ہم اس کو اسی راستہ کی طرف پھیر دیںگے‘‘ ۔

            اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ اتباع نبوی صحابۂ کرام کی سیرت و کردار اور ان کے اخلاق واعمال کی پیروی کرناہے ۔ صحابۂ کرام سیرت وکردار کے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں ۔

            صحابۂ کرام دین و شریعت کے سب سے پہلے شارح و راوی ہیں ۔ جن کی قربانیوں کے طرف قرآن کریم نے اس طرح اشارہ کیا ہے : {رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ فمنہم من قضی نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا}

            اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو صحابہ کرام نے سچ کردیا ۔بعضوں نے اسلام کے خاطر اپنے عزیز واقارب اوراپنی جانیں بھی قربان کردیںلیکن اُن کے عزم و استقلال میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ۔

            یہ حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے ، ان کی محبت عین محبت رسول ہے ۔ اگر چہ ہم ان کے درجات میں باہم تفاوت دیکھتے ہیں ، مگر ان کا اخلاص وللہیت ، تقویٰ ودیانت پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے ۔ اس لیے کہ ان کو صحبت ِنبوی کا شرف حاصل ہے ، کسی بڑے سے بڑے ولی اور قطب دوراں کو ان کی خاک پا بننے کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کے لیے مایۂ صد افتخار ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں صحابہ کرام کی محبت وعظمت پیدا فرمائے ۔

            ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب ۔ آمین!