ضرورتِ تعلیم اورتنخواہ کی بدحالی

مفتی عبد القیوم اشاعتی مالیگانوی

اِس وقت کاحال یہ ہے:

            دنیا بڑی تیز رفتاری کے ساتھ فنا کے مراحل طے کررہی ہے، قرب قیامت کا دور جھانک رہا ہے، امانتیں زوال پذیر ہیں، فحاشی وعریانیت کا راج ہے اورہرسوجہالت کاڈنکابج رہاہے۔مطلق العنانی،مطلب پرستی اور اقربا پروری کی بیماری روزافزوں ترقی کررہی ہے۔ایسے پُرخطرحالات میں ہر طبقہ اپنی جگہ مصروف کار ہوکر شاداں وفرحاں ؛ لیکن عجب وپندارکا دلدادہ اورخوگر ہوچکا ہے، اِس لیے اپنے ماتحتوں کا استحصال اور خواتین کا غلط استعمال ان کاشان دار فیشن ہوچکا ہے۔

 استعمال کرو اور پھینک دو:

            اہلِ علم اور اہل ہنر بے قیمت سرمایہ؛ بل کہ انگریزی کہاوت (Use And Throw)یعنی ”استعمال کرو اور پھینک دو “کا مصداق بن چکے ہیں۔ چنا ں چہ نا اہل اور ناکارے لوگ علم و اقتدار کی مسانید کو روندنے میں لگے ہیں اورہر شعبہ قیامت کا منظر حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق پیش کررہا ہے۔ بالخصوص جب کہ” کورونا وائرس“ نے دنیا بھر کے انسانوں اور بالخصوص اہل ثروت، اہل غرور اوراہل قوت کا نشہ اچھی طرح سے اتار دیا ہے اور اللہ کی جبروتیت اور قہاریت کا ظہور ہوا ہے۔ہر انسان اپنی فکر میں سرگرداں، اپنے پریوار اور معاش کی حفاظت اور ترقی کا خواہش مند بنا ہوا ہے۔اپنے ہی میں اتنے بدمست ہیں کہ اسے دوسروں سے کوئی سروکار اور مطلب ہی نہیں، خصوصاً اہل حاجت اور کم زور روزی والے انسانوں کو تو بالکل ہی نظر انداز کر رکھا ہے، جن میں علما ، مدرسین ، معلمین، ائمہٴ مساجد اورموٴذنین سر فہرست ہیں، جنھیں اپنی نازک اور اہم ترین خدمات کا قلیل معاوضہ جو دیاجاتا ہے، اسے تنخواہ بھی نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے کہ ”تَنْ“ کا معنی ہے ”بدن“ اور ”خواہ“ کا مطلب ہے ”چاہنے والا“ یعنی اتنی روزی جو بدن کے لیے ضروری اور مطلوب ہے۔ توذراسوچ کردیکھیے! کیا ان مظلوم طبقہٴ مدرسین ومعلمین اورامام وموٴذنین کو ملنے والی ماہانہ آمدنی ان کے بدن کی تمام بنیادی ضرورتوں کو پورا کردیتی ہے؟

            بالکل نہیں! اس لیے کہ بدقسمتی اور شامت اعمال سے ایسے لٹیرے ہمارے حاکم بنے بیٹھے ہیں، جنھوں نے مہنگائی کی پتنگ کو آسمانوں کی سیر کراکے غریبوں،لاچاروں اورکم زوروں کے منہ سے نوالے بھی چھین لیے ہیں، ایسے ہوش ربا گرانی کے دور میں چار، پانچ، سات یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ کتنی اور کون کون سی ضرورتوں کو پوری کرسکتے ہیں؟کچھ بھی نہیں۔

ان کی حالت خداجانتاہے:

             ذرا ٹھنڈے دماغ اور دل سے اپنے روزمرہ کے اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے سوچیں ۔ ان میں بعض مدرسین ومعلمین تو وہ بھی ہیں جو اپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی دوگنا؛ بل کہ سہ گنا محنت کرکے نظام زندگی چلاتے ہیں۔اگرنہیں کریں گے توپھربلاٹکٹ ہی قبرستان کاسفرکرناپڑے گا۔اوریہ کوئی کہانی نہیں ہے ،بل کہ اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بھی بنی ہیں۔ امامت مساجد، مکتب اورکچھ دوسری بھاگ دوڑ سے اور کچھ ایسے بھی قابل ترس اور قابل توجہ ہیں، جن کا گزارا صرف اور صرف مدرسہ اور مکتب یا صرف امامت کی معمولی تنخواہ پرہے۔ جن کا حال ان کااللہ ہی جانتا ہے، کیوں کہ ہم نے تو اُن کے اندورونی حالات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ہے اورناہی اِس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، جو ہمارا دینی ،سماجی اور شرعی فریضہ تھا۔ امت نے اس طبقہ کو ایک مزدور اور بھکاری سے بھی نیچے گرادیا، جو ماہانہ ۱۲/ سے ۱۴/ ہزار حاصل کرلیتا ہے، جب کہ علما ئے کرام نے عفت اور غیرت وحمیت کو اپنا شعار بناکر اپنی حاجتیں دوسروں کے سامنے پیش کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ اسی وجہ سے لوگ ان کو مالدار اور غیر ضرورت مند سمجھنے کی غلطی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم نے ایسے ہی حاجت مندوں کے متعلق کہا ہے: ﴿تَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ لَا یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافاً﴾ جاہل اور نادان انھیں مالدار سمجھتے ہیں، ان کے اپنے آپ کو بچاکر رکھنے کی وجہ سے ،جو لوگوں سے لپٹ کر سوال نہیں کرتے ہیں۔

ریاکاری کی بیماری:

            آج امت کے سرمایہ دار؛ جن کے کتنے اخراجات غیر ضروری ہونے کے ساتھ اسراف اورفضول خرچی کی آخری سرحد وں کو چھورہے ہیں، بل کہ پار کرچکے ہیں۔نام ونموداورشہرت وناموری کے طالبین ؛بل کہ بیماروں کی حالت یہ دیکھنے کوملتی ہے کہ جب کسی ضرورت مند کو کچھ دیتے ہیں تو لوگوں کو دکھلاکر اوراُسے رسوا کر کے۔ اور حد تو یہ ہے کہ جتنی چھوٹی چیز دی جاتی ہے اس سے کہیں بڑا اس کا فوٹو لیا جاتا ہے اورپھراُسے سوشل میڈیا پر بڑے ذوق وشوق اورپوری ایمان داری ودیانت داری کے ساتھ وائرل بھی کیاجاتاہے۔اوراسی پرکہانی ختم نہیں ہوجاتی،بل کہ دوسروں کواِس کارخیرمیں شرکت کرنے اورپھیلانے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ۔ واللہ ریاکاری کے شوق وجذبات نے ہمیں اتناتباہ و برباد کردیا، حتیٰ کہ حج جیسی زندگی بھر کی عظیم الشان عبادت بھی دکھلاوے کی بھینٹ چڑھ کر برباد ہوگئی۔ کسی نے خوب کہا ہے 

کعبہ بھی گئے پر نہ گیا عشق بتوں کا

زمزم بھی پیا پر نہ بجھی پیاس جگر کی

            جب ہماری یہ حالت ہے توپھرجگرکی پیاس بجھے گی بھی کیسے؟حصول شہرت اورنام ونمودکی خطرناک بیماری جوچِپکی ہوئی ہے،پہلے اسے نکال باہرنہیں کرتے ۔اس لیے جیسے جاتے ہیں ویسے ہی گھوم گھام کر چلے بھی آتے ہیں اورہماری زندگی میں تبدیلی کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔

یہ انسان ہیں یافرشتے:

            امام اور معلم؛ جس کا مقام ومرتبہ قرآن و حدیث سے بالکل روشن اورجُگ ظاہر ہے۔ آخر ہمیں کیوں سمجھ نہیں آتی؟ ہم زندگی کے ہر شعبہ میں افراد کی قدر کرناجانتے اورمانتے ہیں۔ ان کے مقام ،قابلیت اور صلاحیتوں کے اعتبار سے ان کے کاموں کا انہیں بدل اور معاوضہ دیتے ہیں تو یہ پھرہمارے معاشرے میں علما ، مدرسین ، معلمین اور ائمہ کو ان کے مقام ، خدمات اور صلاحیتوں کا حق کیوں نہیں دیا جاتا ؟کیایہ اِس قدردانی کے حق دار ہی نہیں ہیں یاپھرآسمان سے ٹپکے ہوئے کوئی فرشتے ہیں،جن کی کوئی ضروریات نہیں ہوتیں؟جب کہ حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پرارشاد فرمایا :

             ”اکرموا الناس منازلہم“ لوگوں کے ساتھ اکرام ان کے مراتب کے ساتھ کرو۔

پیساپھینک ،تماشادیکھ:

            لیکن آج ہماری یہ سوچ بن گئی ہے کہ یہ بے چارے تو فری آف چارج ہیں جہاں چاہو اور جیسے چاہو استعمال کرلو۔ یہ تو ہمارے نوکر اور غلام ہیں۔ آپ غور کیجیے! ذرا سوچیے!اگرآپ کوگھر بنانا ہو اور کسی آر کٹیکٹ اور انجینئر سے آپ مشورہ اورنقشہ لیتے ہیں تویہ کام اس کی مقررہ فیس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ کسی وکیل سے اپنے مقدمہ کے لیے مشورہ بھی لیتے ہو تو پہلے چارج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اپنی زمین کو ناپنے کے لیے کسی انجینئر کو لاتے ہیں تو اس کا معاوضہ چکانا ہوتا ہے پھر کام ہوتا ہے۔یعنی پہلے پیسا پھینک پھربعد میں تماما شا دیکھ! والی بات ہوتی ہے ۔ غرض یہ کہ معمولی سے معمولی اور بڑے سے بڑے کام کی فیس اور بدل دیے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ آخر کیا اس طبقہ کو بھی اس کے ہر کام کا معاوضہ اور اجرت مل جاتی ہے؟ جواب” نہیں“ میں ہی ہوگا۔ اور جن کاموں پر دیا جاتا ہے وہ اس قدر حقیر اور کم کہ اس کو تن خواہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے، جب کہ اسکولوں اورکالجوں میں ان ٹیچرس حضرات کو جو مشاہرہ دیا جاتا ہے اسے تنخواہ نہیں،بل کہ ”من خواہ“ کہا جا سکتا ہے یعنی جیسا دل چاہے اتنی اجرت ؛جو اُن کے مفوضہ اورمقررہ کاموں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کریم انھیں مزید برکت دے۔ ہمیں ان سے تقابل کرنے میں کوئی حسد اور جلن نہیں، بل کہ مقصود صرف اُس طبقہ اور اِس طبقہ کے غیر معمولی فرق کو بتلانا ہے جب کہ غور کریں تو معلمین مدرسین اور ائمہ کے اوقات خدمات اور محنتیں زیادہ ہیں۔

کہیں پنشن توکہیں ٹینشن:

            نیز ٹیچر اور پروفیسر ریٹائر ہوتو اس کو پنشن ملے اور امام و معلم ریٹائر کیا جائے، یعنی نکال باہر جائے تو اس کو ٹینشن ملے ۔یہ ہماری قوم کے انصاف کامعیار ہے ۔یہ ہے ان حضرات کی زندگی اور یہ ہے ہمارا رویہ ،جس کی شریعت اور سماجی اقدار ہرگز اجازت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری خستہ حالی ،رسوائی ، پسپائی اور معاشی تنگی ختم ہونے کانام نہیں لیتی، بل کہ روز افزوں اور ہردن مصیبتوں اور پریشانیوں کے نئے اور انوکھے حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ صرف اربابِ اقتدار ہی ہمارے بدخواہ ہیں، جو آئے دن نئی نئی مشکلیں کھڑی کرتے اور ہر طرف سے ہماری گھیرا بندی کرتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے ان مظالم اور حق تلفیوں پر بھی ایک نظرضرور ڈالنا چاہیے، جو حقوق العباد کے قبیل سے ہیں۔ ہمارے اس ناروا سلوک اور اہل علم کے ساتھ بدگمانیوں نے نہ جانے کتنی مرتبہ ان کے دلوں کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ وقت پر تنخواہ نہ دینا ، نیز معمولی تنخواہ دینااور بلا قصور اور بغیر کسی مضبوط وجہ کے امامت، مکتب اور مدرسہ سے نکال دینے سے ان کو روزی کے لیے دھکے کھانے اورکسی جاہل ،اجڈ اور گنوار کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا کیا یہ دین ، علم دین اور اہل علم کی ناقدری اور تو ہین نہیں ہے؟ جو علم اللہ کی غیور صفت ہے وہ ناقدروں کے پاس نہیں رہتی بل کہ ناقدروں کی بستی سے نکل کر قدر دانوں کی دہلیز اور آستانوں کوروشن کرتی ہے۔

یہ بھی دین ہی کاایک حصہ ہے:

            بہت افسوس ہوتا ہے کہ بڑے اور چھوٹے دولت کے پجاریوں، سرمایہ داروں اور اصحابِ اموال کو آج تک کیوں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جس طرح سے مساجد ومدارس کی تعمیر ایک عظیم عبادت اور باعث اجر عمل ہے، ایسے ہی بل کہ بہ وقت ضرورت اساتذہ اور معلمین کی رہائش گاہیں اور مکانات بنانا بھی بہت بڑی نیکی اور دین کا ہی حصہ ہے ۔ انھیں معقول تنخواہ دینا؛ جس سے یہ حضرات اپنی جملہ ضروریات زندگی کی تکمیل میں کسی کے محتاج نہ رہیں ، بل کہ اپنے ذمہ واجب الادا قرابت داروں اور ماتحتوں کے حقوق بھی ادا کرسکے، بہت ہی اہم کام ، تعلیم قرآن، نشر دین ، اسلام میں شراکت اور حصہ داری ہے، جس کا انعام آخرت میں بے حساب ہے۔

اللہ کرے تیرے دل میں اتر جائے مری بات

کہیں ایسانہ ہو:

            الغرض! ان تمام تلخ حقیقتوں کے ساتھ اگر بندہٴ ناچیز کی ؛بل کہ روح شریعت اور مزاج شریعت کے مطابق چند معروضات کو ہم قبول کریں اور آئندہ عزم بالجزم کے ساتھ اپنے انداز اور سلوک کو تبدیل کریں تو ان شاء اللہ یہ امت پھر سے اپنے قدموں پر مضبوطی اور طاقت کے ساتھ کھڑی ہوسکتی ہے، کیوں کہ علما اورعوام کا اتحاد اور آپسی جذبہٴ تناصر ایک دوسرے کو بہت قوی بنائے گا اورباطل کے عزائم خاکستر اور چکنا چور ہوں گے، جو یہ چاہتے ہیں کہ عوام میں ان کے مقتدا اور پیشواذلیل ہوں، ان سے عوام کا اعتماد ختم ہو اور یہ سب بھی دنیا کے چکروں میں بھٹکیں تاکہ نابلد اور بے خبر عوام کو ہر فتنہ سے دو چار کریں اور ہر محاذ سے ان کے ایمان وعقیدہ کو ختم کریں۔ موجودہ حالات میں نا قدریوں کے تسلسل اور مدت دراز سے ہونے والے استحصال کی وجہ سے ائمہ ، علما، مدرسین اور معلمین کی بڑی تعداد کا رجحان تجارت اور دیگر دنیاوی مشاغل کی طرف ہوچکا ہے، جو فی نفسہ بہتر اور مطلوب بھی ہے، لیکن اس فکر اور رجحان کا غلبہ بہت بڑے دینی اور شرعی خسارے کا پیش خیمہ اور الارم بھی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر مسجدوں کو امام، مدرسوں کو مدرس اور مکاتب کو معلمین دستیاب نہ ہو اور ایسی صورت حال میں منبر و محراب سے امت کو بر وقت آگاہ کرنے اور خواب غفلت سے جگانے والے فکر مند علما اور اپنی بے باک صداوٴں اور خاموش دعاوٴں سے امت کو سہارا دینے والے افراد سے امت محروم ہوجائے۔

دل کے دروازے بڑاکریں:

            اس لیے خدارا ہم اپنا دل بڑا کریں۔دین و شریعت کے بقا اورتحفظ کے لیے ان مدارس و مکاتب کو مضبوط کرنے اوران کے معماروں کی جملہ ضروریات کے لیے اپنی آمدنی کا ۵/ فیصد متعین کرکے ان منتظمین اور ارباب انتظام کو ماہانہ پابندی سے دیں۔ اسی طریقے سے اساتذہ ومعلمین بھی اپنی کوشش کے بقدر لوگوں سے وصولی کی فکر کریں اور اپنے اپنے ادارہ اورمکتب کو استحکام بخشیں تاکہ نسل موجود اور نسل نو کے عقائد اور دین واسلام ان محفوظ قلعوں میں اس طرح پروان چڑھے کہ ہر فتنہ کی سرکوبی کرسکے اور ہر باطل آواز کو دبا سکے۔تاکہ کہیں کسی فرعونِ وقت کی زبان ﴿اناربکم الاعلیٰ ﴾کانعرہ بلندکرنے کی ہمت نہ کرے یاکوئی نمرودزماں کی طرف سے ”اناولاغیری“کی صداسنائی نہ دے۔      

       نوٹ: اہلِ اقتدار کی طرف سے ۲۰۱۱ء میں شروع ہونے والی نئی تعلیمی پالیسی اس وقت تیار ہوچکی ہے اوربدخواہ ارباب حکومت اسے اسکولوں میں نافذ کررہے ہیں، جو ہمارے بچوں اور بچیوں کے لیے عقیدہ اورایماں ، تہذیب و ثقافتِ اسلامی پر حملہ اور یلغار ہے، جس کو پڑھے بغیر ہمارے بچوں کو چارہ بھی نہیں ہے۔ ان حالات میں مکاتب اور مدارس کی مضبوطی اور ان میں بچوں کی ذہنی اورفکری تربیت ایسے ہی ضروری ہوگئی ہے، جیسے ہندستان کی آزادی کے بعد دین وایمان اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کے لیے ضروری تھی، جس کے لیے ہمارے بزرگوں اوراسلاف نے سب کچھ چھوڑ کر یکسر مدارس اور مکاتب کا جال پھیلانا شروع کیا تھا،جس کی برکت سے آج تک ہمارے ملک کی فضا ایمانی، اسلامی اور روحانی بنی ہوئی ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولناچاہیے کہ ایک بار پھر سے وہی سیاہ بادل امت کے سروں پر منڈلا رہے ہیں جو جہالت، بد عقیدگی، ارتداداور آزادیٴ فکر کی صورتوں میں کسی وقت بھی برس سکتے ہیں، جن کو روکنے کے لیے تعلیم شریعت، تربیت اسلامی اورذہنی وفکری کونسلنگ از حد ضروری ہے اور یہ کام صدیوں سے مدارس دینیہ اورمکاتب قرآنیہ سر انجام دے رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی دیں گے۔انھیں زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنا ، اپنے لخت جگروں کو ان محفوظ قلعوں کے حوالے کرنا اپنے اور اپنی اولاد کی مستقبل کی حفاظت ،بل کہ ایمان و عقیدہ کی سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔ لہٰذا اللہ کے لیے دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کی اہمیت افادیت کو سمجھیں اور مالی تعاون کے ساتھ اپنے بچوں اور فرزندوں کو مدارس اور مکاتب سے جوڑئیے، داخل کیجیے اور اللہ ہمارا ناصر وحامی ہے اس ملک میں روشن مستقبل ہمارا ہوگا۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز۔