صلیبی کمزور ہونے کے باوجودبیت المقدس پر قابض کیسے ہوئے؟:

                القدس الشریف کے مصنف الد کتور یوسف حسن غوانمہ نے مسلمان مؤرخین کے حوالہ سے ایک عجیب امر کا انکشاف کیا ہے۔ خاص طور پر مشہور اور معتبر مؤرخ تغری بردی کے حوالہ سے کہ:

                ’’ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ مغربی اقوام جب قدس پر قبضہ کرنے کے لیے نکلی تو ہر اعتبارسے بالکل کمزور تھی۔یہاں تک کہ ان کے پاس خوراک تک ڈھنگ کی نہیں تھی ، ان کے فوجیوں کا بھوک سے برا حال ہوتا تھا ؛بل کہ بعض مرتبہ انہیں مردار کھانے کی نوبت تک آئی اور زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان عسکری اور فوجی اعتبار سے بہت مضبوط تھے، مگر اپنی طاقت کا استعمال بجائے دشمن کے خلاف استعمال کرنے کے خود اپنی ریاست کو بچانے اور بڑھانے میں کرتے تھے اور اس کے لیے اپنے کٹر دشمن اور حریف تک کی مدد کررہے تھے؛ تاکہ اپنے مدِ مقابل مسلمان کو کمزور کیا جائے ۔ (النجوم الزاہرۃ جلد ۵ ص ۱۴۸ بحوالہ القدس الشریف ۱۹)

مملکتِ فاطمیۃ کاگھنائونا کردار:

                مؤرخین نے تویہاں تک دعویٰ کیا کہ خلافتِ فاطمیہ اتنی مضبوط تھی کہ وہ پہلے ہی حملہ میں صلیبیوں کو شکستِ فاش دے سکتی تھی، مگر ایسا نہیں ہو ا ، صرف اتنے ہی پر بس نہیں فاطمیوں نے سلجوقیوں کی شکست پر نصاریٰ کو مبارک باد دی۔ لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ۔ یہی صورت حال تھی دیگر بادشاہوں کی کہ وہ بڑی بڑی رقم دے کر ان سے معاہدہ کرلیتے تھے ۔

پانچویں صدی اور پندرہویں صدی ہجری کے مسلمانوں کے سیاسی منظر نامے کی یکسانیت:

                آج کے حالات کا بیت المقدس کے سقوط ِاول کے ساتھ اگرہم مقارنہ کریں تو معلوم ہوگا ، گویا کاپی پیسٹ (Copy pest)ہورہا ہے ۔ بالکل تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی ہے ۔

قدس کی بازیابی کیسے ممکن ہوگی ؟

                ’’موشی دیان‘‘نے اپنی آخری تصنیف ’’ کیا تلوار فیصلہ کن ثابت ہوگی ؟‘‘ میں لکھاہے کہ مجھے حیفا کے ایک نوجوان مسلمان نے کہا کہ کوئی بات نہیں ایک دن ایسا آئے گا کہ ہم تم یہودیوں کویہاں سے مار بھگائیں گے ؛ یہاں تک کہ اگر کوئی یہود ی کسی درخت یا پتھر کے پاس پناہ لے گا تو وہ پکارے گا اے مسلمان! اس جانب آجا یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔اس کو موت کے گھا ٹ اتار دے تو میں نے (موشی دیان ) نے کہا کہ ہاں ایسا ہوگا ، مگر اس وقت جب کہ تم بھی عقیدے میں ہماری طرح پختہ ہوجاؤ ، یعنی دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجاؤ۔ معلوم ہوا کہ معرکہ قدس کوئی سیاسی معرکہ نہیں بل کہ مذہبی اور دینی قضیہ ہے ۔

 (الیہود والعالم المؤمرات ، الاہداف الاسرار ص۸)

                معلوم ہو ا اگر ہم قدس کی فتح کے لیے سنجیدہ ہیں ،تو سب سے پہلے عقیدے اور فکر کو فولاد سے زیادہ مضبوط کرنا ہوگا اپنے آپسی اختلاف کو ختم کرنا ہوگا ، مزید اسباب کو آئندہ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جائے گا ۔  ان شاء اللہ !                 اب یہ بھی جانتے چلیں کہ اس ناکامی کے ۹۰؍سال بعد صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں قدس کیسے فتح ہوا اور اس کے اسباب کیا تھے تاکہ ہمارے لیے بھی ان کا اختیار کرنا آسان ہوجائے