صلاح الدین ایوبی کے قدس فتح کرنے سے پہلے کا مرحلہ:

                جیسا کہ احقر باربار اس بات کو دہراتا رہتا ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی اور کامرانی دین کی طرف رجوع ہونے میں منحصر ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ جنہوں نے تقریباً ۹۰؍سال کے بعد بیت المقدس کوبازیاب کیا، تو یہ اچانک نہیں ہوا تھا؛ بل کہ اس سے پہلے مسلمانوں میں جو کمزوریاں تھا، جن اسباب کی وجہ سے بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلاگیا تھا، ان اسباب کو ختم کرکے کامیابی والے اسباب اختیار کیے گئے ،جس پر دکتور ماجد عرسان کیلانی نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ ہکذا ظہر جیل صلاح الدین وہکذا عادت القدس‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، جس کا ترجمہ پروفیسر صاحبزادہ محمد عبد الرسول نے ’’عہد ایوبی کی نسل اور القدس کی بازیابی‘‘ کے عنوان سے کیا ہے؛ یہاں پراسی سے قدرے ترمیم وحذف واضافے کے ساتھ چند اقتباسات شامل کیے جارہے ہیں،احقر کو ترجمہ پر اطمینان نہیں ہے ،اتنی عمدہ جاندار اور شاندار کتاب کا ترجمہ نہیں؛بل کہ اردو میں اس کی ترجمانی ہونی چاہیے۔بندہ ان شاء اللہ اس کی کوشش کرے گا۔

                بیت المقدس پر عیسائی قبضہ کے بعد مسلمانوں میں احساس جاگا اور اس کی بازیابی کی کوششیں تیز ہوگئی جو دو مرحلے سے گزری:

                پہلے مرحلے میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی، جس میں سلجوقیوں کا اہم رول رہا؛البتہ اس مرحلے میں مسجدِ اقصیٰ کی بازیابی نہ ہوسکی، مگر اس کو تمہیدی مرحلہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اعتقادات کی اصلاح کی طرف خاص توجہ دی گئی، جو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:{إن اللّٰہ لا یغیر ما بقوم حتٰی یغیروا ما بأنفسہم} گویا داخلی کمزوری میں تبدیلی ہی اللہ کی طرف سے انقلابِ خیر کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور اس کے بعد امت کو مضبوط قیادت بھی میسر ہوتی ہے، جو عصبیت، شخصی جاہ، بالا دستی کی رغبت اور عوامی قوت کو ذاتی تصرف میں لانے سے گریز کرتی ہے،کیوں کہ امتِ واحدہ کے قیام اور ترقی کے لیے ایسے سیاسی افراداور جماعتوں سے اسلامی معاشرے کا پاک ہونا ضروری ہوتا ہے، جو خاندانی،علاقائی اور فرقہ بندی کے جال میں پھنسی ہوئی ہو ںاور ایثاروقربانی کا ان میں فقدان ہو، جس کے ذہن ودماغ پر دنیوی مفاد ومتاع کی حرص مستولی ہو اور عوام کی دینی اصلاح سے اسے کوئی سروکارنہ ہو۔