مولانا ماہر القادری
سائنس کے نظریے ہوں یا دواوٴں کے خواص، اِن میں سے بعض انسان کی اپنی تحقیقی کوشش اور تجربے کا نتیجہ اورماحصل ہیں، لیکن بعض نظریے اور خواص ایسے بھی ہیں، جن کی طرف انسان کا ذہن کسی کوشش کے بغیر ایکا ایکی منتقل ہو گیا۔ اسی چیز کا نام” القاء“ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بعض اوقات انسان کے دل میں ایک بات ڈال دیتا ہے، دنیوی معاملات میں بہت سی تدبیریں ہیں، جو ذہنوں میں القاء کی جاتی ہیں اور آدمی خود حیران رہ جاتا ہے کہ یہ تدبیر یا فلاں بات تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ تو اسے سمجھائی گئی ہے، کتنے بہت سے علوم ہیں، جن کی ابتدا” القاء“ اور” الہام“ سے ہوئی ہے۔ قران کریم اس پر شاہدہے کہ کرہٴ ارضی کے پہلے انسان کو اشیاء کے نام کا الہام ہوا۔ اس حقیقت کو یوں بھی بیان کیا جا سکتاہے کہ انسانی علم کی اولین بنیا د وحی، الہام اور القاء ہے۔ جس اللہ نے کائنات کو خلق فرمایا اسی نے اپنے فضل سے انسان کو کائنات کی اشیاء کا علم بھی عطافرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسانوں ہی میں سے ایسے مقدس نفوس کو منتخب فرمایا، جو ہر اعتبار سے مکمل انسان تھے، جن کی دیانت و صداقت اور سیرت پر معاشرہ اعتماد رکھتا تھا۔ ان مقدس نفوس کو دین کی اصلاح میں نبی اور رسول کہتے ہیں اور ان کو جس ذریعہ سے ہدایت دی گئی اُس کا نام ”وحی“ ہے۔ وحی میں نبی اور رسول کی اپنی کوشش اور تجربے کا ذرہ برا بر دخل نہیں ہوتا۔ وہ مہبطِ وحی ہوتا ہے یعنی وحی اُس پر نازل ہوتی ہے، وہ خود ”وحی ساز “نہیں ہوتا۔
ہر دور میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ِبالغہ اور مشیت ِکا ملہ کے تحت انبیاء و رسل آتے رہے۔ اُن میں سے بعض پر صحیفے اورکتا بیں بھی نازل ہوئیں۔ یہاں تک کہ
جب اپنی پوری جوانی پر آگئی دنیا
جہاں کے واسطے اک آخری نظام آیا
اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے کئی سو سال بعد اُس ”انسانِ کامل “ کو مبعوث فرمایا، جس پر دین کا اِتمام کر دیا گیا اور نبوت اور رسالت کے عہدے کو ختم کر کے اعلان فرمایا کہ یہ نبی۔ احمد محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم- خاتم النبیین ہیں یعنی اب کسی قسم اور کسی نوع کا کوئی نبی، ظلی یا بروزی قیامت تک نازل نہیں ہوگا۔
نبوت اور رسالت کا منصب اب کسی اور کے لیے باقی نہیں رہا۔ قیامت تک کے لیے اسی نبیٴ آخر کی لائی ہوئی ہدایت و شریعت ہر اعتبار سے کافی و وافی ہے۔ اس میں نہ کوئی اضافہ ہو سکتا ہے اور نہ ترمیم۔ حضور خاتم النبیین پر جو کتاب نازل ہوئی اُس کا نام ”قرآن“ ہے۔
جب تمام انبیا آچکے اور کتا بیں بھی نازل ہو چکیں اور چشمِ فلک اِن کتابوں میں تحریف کا تماشا بھی دیکھ چکی، تو پھر اللہ تعالیٰ نے اس نبی کو بھیجا جو آخری نبی تھا۔ جس کی ذاتِ گرامی پر نبوت و رسالت کا اختتام کر دیا گیا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی اور رسول آنے والانہ تھا۔ اس لیے جو کتاب(القرآن) آپ پر نازل فرمائی گی اس کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالی نے فرمایا اور اللہ تعالی کا قول اور وعدہ سچا ہی ہوا کرتا ہے۔
کلامِ محفوظ:
سب سے پہلی بات غور کرنے کی یہ ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی جن حروف والفاظ کے ساتھ نازل ہوئی ،آپ نے تو حرفاً حرفاً اور لفظاً لفظًا ہو بہو اسی طرح اُس کی تلاوت فرمائی۔ ساتھ ہی اس کو لکھوا بھی دیا اور بہت سے صحابہ نے اسے زبانی یاد بھی کرلیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو پورے کا پورا قر آن سفینوں اور سینوں میں محفوظ تھا، قرآن ِکریم میں ایسی آیتیں بھی ہیں، جن میں کسی ترکِ اولیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ حضور نے اس قسم کی آیتوں کو بھی بلفظہ تلاوت فرمایا۔ وہ انسانِ کامل جسے اُس کے دشمن ”الامین“ کہتے تھے۔ اُس نے کمالِ امانت کے ساتھ خالق کا کلام مخلوق تک پہنچا دیا۔
قرآن کریم سورتوں کی، جس ترتیب کے ساتھ آج دنیامیں پایا جاتا ہے، یہ ترتیب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووحی کے ذریعہ بتائی گئی تھی۔
اُمّت نے نہ صرف قرآن کو سفینوں اور سینوں میں محفوظ رکھا؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس لب ولہجہ میں قرآنی آیات تلاوت فرماتے تھے، اُس لب و لہجہ کو بھی محفوظ کیا گیا۔
دنیا میں کوئی کتاب، صحیفہ، بیاض اور مخطوطہ قرآنِ کریم کی برابری تو کیا، اس سے سینکڑوں درجہ کم تعداد میں بھی نہیں پڑھا جاتا۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو دن رات میں پانچوں وقت کی نمازوں کے علاوہ دوسرے اوقات میں بھی تلاوت کی جاتی ہے، جس کی معنوی تعلیم کے علاوہ اس کی قرأت و تجوید کی تعلیم کے لیے ہزاروں مدر سے دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ تنہا یہی وہ کتاب ہے جو تمام سے زیادہ مضامین، تحریروں،تقریروں میں نقل و بیان کی جاتی ہے اور سال کے سال رمضان کے مہینہ میں کروڑوں مسلمان پورے قرآن کو حفاظ کی زبان سے سنتے ہیں۔
اعجاز در اعجاز:
عربوں کو اپنی زبان دانی، شاعری اور فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا۔ وہ اپنے علاوہ ساری دُنیا کو گونگا (عجمی)کہتے تھے۔ قرآن ِکریم نے ان عربوں کو چیلنج کیا کہ تم قرآن کی چھوٹی سی چھوٹی ہی ایک سورہ تصنیف کر کے پیش کر دو، عربوں کی قومی اور آبائی غیرت کو یہ سب سے بڑا چیلنج تھا، مگر اس چیلنج کے جواب میں اُنہیں سکوت اختیار کرنا پڑا۔
دنیا میں نظم و نثر کی کوئی ایسی قدیم و جدید کتاب نہیں ملتی، جس کے کچھ محاورے، اصطلاحیں اور الفاظ متروک نہ ہو گئے ہوں اور اُن میں فرسودگی اور غرابت پیدا نہ ہو گئی ہو۔ ہاں! صرف قرآن ِکریم ہی وہ تنہا مقدس کتاب ہے، جس کا ایک لفظ بھی چودہ سو سال کی طویل مدت میں متروک نہیں ہوا۔ عربی زبان و ادب کا یہ وہ بلند ترین معیار ہے، جس کے سامنے عربی ادب کی تمام شاہکار اور شہرہٴ آفاق کتا بیں کم درجہ اور فروتر نظر آتی ہیں۔ قرآن ِکریم جس طرح اب سے چودہ سو سال پہلے لغت، الفاظ، طرزِ بیان اور مفہوم و معنی کے اعتبار سے تروتازہ تھا، آج بھی وہ اسی طرح تر و تازہ اور سدا بہار ہے۔ اس گلکدہ کا ایک پتہ بھی خزاں رسیدہ نہیں ہوا اور اس کی ایک آیت اور ایک لفظ کو کروڑوں بار دہرانے کے بعد بھی وجدان ذراسی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
تقریر و تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں شعریت پیدا ہو جائے۔ شاعری کا زبان و ادب میں بہت بلند مقام ہے، مگر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اس نبی کونہ تو ہم نے شاعری سکھائی ہے اور نہ شاعری اُس کے شان کے شایان ہی ہے، یہ بھی قرآن ِکریم کا اعجاز ہے کہ وہ شاعری نہ ہونے کے با وجود کمال درجہ کا حسین و دلکش، فصیح و سادہ بلکہ سہل ممتنع کلام ہے۔ علامہ اقبال نے اس مصرع میں:
آہنگ میں یکتا صفت سورہٴ رحمٰن
مرد مومن کی تعریف کرتے ہوئے قرآن ِکریم کی معجزانہ نغمگی کی طرف بھی لطیف اشارہ کر دیا ہے۔ قرآن کریم میں وہ مقدس نغمگی اور ایسا پاکیزہ آہنگ پایا جاتا ہے، جو شریفانہ جذبات کو حرکت میں لاتا ہے، قرآن کی نغمگی کے سامنے وہ راگ راگنیاں کوئی وزن نہیں رکھتیں، جنہیں سن کر آدمی کے اندر سفلی جذبات اور ہوسناک خیالات حرکت میں آتے ہیں۔
قرآنِ کریم کی تلاوت و سماعت آنکھوں کو اشکبار بھی کرتی ہے اور لبوں پر موجِ تبسّم بھی اُبھار دیتی ہے۔خشیت و محبت کی ملی جُلی کیفیت! اس مقدس کتاب میں وہ توازن پایا جاتا ہے، جو آدمی کو رحمت و غفاریت کے سہارے غیر ذمہ دار اور فرض ناشناس نہیں ہونے دیتا۔ اور قہاریّت اور انتقام کا تصور آدمی کو مایوس نہیں بناتا۔ قرآن ِکریم کا یہ بیان کس قدر نشاط انگیز ہے کہ بہشت کے قصر و ایوان میں غلمان سونے کے تھال لیے ہوئے گردش کر رہے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی قرآن پاک میں یہ ہولناک منظر بھی ملتا ہے کہ دوزخ کی غضب ناک آگ میں لوگوں کے جسموں کی کھالیں بدلی جا رہی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے امید بھی، اُس کا خوف بھی،بیم کے ساتھ رجاء بھی، قرآنِ کریم انسان کو اس عالم میں رکھنا چاہتا ہے کہ جنت کی نشاط و شادمانی اور مغفرت کی امید اُسے فرض ناشناس، ناشکرا، غافل اور کاہل نہ بنادے اور انتقام و عقوبت دار و گیر و احتساب اورجہنم کے عذاب کا ذکر سن کر آدمی نا امید نہ ہو جائے اور وہ ہاتھ پیر توڑ کر اور جی چھوڑ کر نہ بیٹھ جائے۔
مکمل نظام زندگی:
قرآن ِکریم صرف دعاوٴں اور مقدس زمزموں کی کتاب نہیں ہے کہ خلوص ِنیت و عقیدت کے ساتھ تلاوت کر کے، جس کا حق ادا ہو جاتا ہے، یہ” الکتاب “ ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے اور حکومت کے ایوان سے لے کر فقیر کی جھونپڑی تک زندگی کا کوئی مرحلہ اس سے باہر اور آزاد نہیں ہے، خو د رسول اللہ علیہ وسلم نے جن پر قرآن نازل ہوا تھا۔ کم وبیش بائیس سال کی مدت تک جنگ ہو، صلح ہو، حکومت ہو، تجارت ہو، عائلی زندگی ہو، قرآنی احکام کو عملاً برت کر دکھایا۔
قرآن کریم کوئی خیالی کتاب نہیں ہے، جس کے الفاظ کا غذ پر تو بھلے معلوم ہوتے ہیں ،مگر عملی دنیا میں ان الفاظ کی معنویت ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن ِکریم مکمل ترین دستورِ حیات اور اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا آخری اور قطعی منشورِ زندگی ہے،یہ زندگی کے تجربوں کے مرحلوں سے گزرا ہے اور زندگی کے سفر میں قدم قدم پر قرآن زندگی اور فطرت سے انتہائی مربوط ثابت ہوا ہے۔ قرآن ِکریم میں زندگی سے گریز و فرار کا کوئی چور دروازہ یا پوشیدہ سرنگ نہیں ملتا۔ ترکِ دنیا اور رہبانیت کے علی الرغم قرآنِ کریم نے تواس دعا کی تعلیم دیا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سے اس مادّی دنیا کوحسین و خوبصورت یعنی صالح بنانے کی تمنا کی گئی ہے۔(ربنا آتنا فی الدنیا حسنة)اللہ تعالیٰ نے دنیا کا کارخانہ بچوں کے گھروندوں کی مانند کھیل کے لیے نہیں بنایا۔ یہ تو شعور وبصیرت کی تمام قوتوں اور توانائیوں کے ساتھ برتنے کے لیے خلق کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مقدس میں قرآنی اخلاق کی بنیادوں پر معاشرہ استوار کیا گیا اور اس طرح قرآنی تعلیمات کو متشکل کردیاگیا۔ معاشرہ راہبوں اور جوگیوں کا معاشرہ نہیں، فاتحوں اور کشور کشاوٴں کا معاشرہ تھا۔ اس معاشرے میں صفّہ کے فقرا اور مسکینوں سے زیادہ فاتحین بدر و حنین پائے جاتے تھے۔ قرآن ِکریم نے ان نفوسِ قدسیہ میں اس قدر جوش اور ولولہ پیدا کر دیا تھا کہ مٹھی بھر انسان قریش کے لشکر سے ٹکرا گئے اور چشمِ فلک نے دیکھ لیا کہ فتح ان بے سر و سامان اور بوریا نشینوں ہی کی ہُوئی۔
اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے مبارک دورمیں حاملینِ قرآن نے روم ومد این کی پر شکوہ سلطنتوں کے دھوئیں اڑا دیے۔فتح مندی قرآنِ کریم کے ان عملی مفسرین کے قدم چومتی تھی اور شوکت و اقبال اُن کے گھوڑوں کی رکابیں تھام کر چلتے تھے۔دنیا میں صداقت و امانت اُن کے نام اور کام سے پہچانی جاتی تھی۔ صحابہ کرام کو تمدن و معیشت کے کیسے کیسے نئے نئے اورپیچیدہ مسائل سے سابقہ پڑا، مگر کتاب و سنت کی رہنمائی میں انھوں نے ہر مسٴلہ کا حل تلاش کر لیا اور جنگ کے میدانوں ہی میں نہیں تمدن و تہذیب اورسیاست و معیشت کے محاذوں پر بھی غالب اور فتح مند رہے۔
صحیفہٴ ہدایت:
قرآن کریم کی تنزیل کی اصل غایت ”ہدایت“ ہے۔ اس لیے اس مقدس کتاب کو ”رحمت“ اور” نور“بھی کہا گیا ہے۔ قرآن ِکریم کی ہر آیت نورِ ہدایت ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں جہاں کہیں چاند،ستاروں اور افلاک کا ذکر آ گیا ہے اُس سے یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ قرآن علمِ ہئیت پر کوئی مقالہ پیش کر رہا ہے۔ اسی طرح ہوا اور پانی کے ذکر کا علمِ موسمیات سے پیوند جوڑ دینا، زمین کے بیان کو علمِ طبقات الارض سے نسبت دینا، ہریالی کھیتی، پھول، پتوں اور درختوں کی تفصیل کو فن ِباغبانی اور فنِ زراعت کا ضمیمہ سمجھنا، علمِ قرآن میں غلط اندیشی کی دلیل ہے۔ جولوگ قرآن کی ہمہ گیری اور جامعیت دنیا کے سامنے پیش کرنے کی نیت سے سائنسی علوم سے قرآن ِکریم کو مطابقت دینے کی کوشش کرتے ہیں ،وہ قرآن کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کرتے۔ اسی طرح بعض دوسرے علوم کے نظریے اور کلیے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ اگر آج کسی علم وفن کا کوئی نظریہ اور کلیہ کھینچ تان کر قرآن کریم کی کسی آیت پر فٹ کر دیا گیا، مگر کچھ زمانہ یا زیادہ مدت گزرنے کے بعد وہ نظریہ اور کلیہ اُنہی علوم کے ماہرین نے اپنے تجربہ اور تحقیق کی بنا پر رد کر دیا۔
اُس وقت قرآن کریم کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے فنِ تاویل کی پناہ لی جائے گی، زمانہ کی ایجادات اور نت نئے تجربوں کا قرآنِ کریم سے جوڑ ملا دینا بڑا خطرناک کھیل ہے، جسے وہی لوگ کھیلتے رہتے ہیں ،جو قرآنی بصیرت سے بڑی حد تک محروم ہیں۔
قرآنِ کریم میں جہاں بت تراشی کا ذکر آتا ہے یا اُن لوگوں کا ذکر ہے جو پہاڑ کو تراش کر مکانات بنایا کرتے تھے تو اس اجمال سے یہ نکتہ پیدا کر ناکہ قرآن کریم کی ان آیتوں میں فنِ تعمیر سمویا ہوا ہے، قرآن فہمی کے ساتھ ایک طرح کا مذاق ہے۔ قرآن کریم کو تمام علوم وفنون کی انسائیکلو پیڈیا ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے قرآن کو سخت امتحان میں ڈال رہے ہیں اور نکتہ چینوں کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں۔
قرآن کریم کی جامعیت اس اعتبار سے مسلّم ہے کہ اس میں ہدایت کا ہر جامع عنوان پایا جاتا ہے اور جوا مہات واُصول ہدایت کے ہو سکتے ہیں، وہ قرآن کریم میں موجود ہیں۔ اخلاق و تقوی کی مکمل ترین تعلیم اس مقدس صحیفہ میں ملتی ہے۔ اس لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ حَسْبُنَا کِتَابُ اللّہ ۔ ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے۔
قرآن ِکریم صرف صلوٰة، زکوٰة، روزہ اور حج ہی کے مسائل نہیں بتاتا؛ بلکہ وہ حکومت،تجارت، معاشرہ، عائلی زندگی اور اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں کو بھی اُصول اور قوانین دیتا ہے۔ قرآن ِکریم بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح تکوینی رب ہے،اسی طرح تشریعی رب بھی ہے۔ جس طرح عالم ِتکوین میں اُس کا حکم چلتا ہے؛ اُسی طرح شریعت میں بھی اُس کے حکم کو قطعیت حاصل ہے۔ جس طرح نماز میں اللہ تعا لیٰ کے حضور مسلمان کا سر جھکتا ہے؛ اسی طرح پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایت کے آگے سر تسلیم خم کر دیناچاہیے۔اَلْاَرْضُ للہ والمُلْکُ للہ
یہ ہے قرآن کے منشورِ حکومت و ریاست کی وہ پہلی دفعہ جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اصل حاکمیت اور حکومت اللہ تعالیٰ کی ہے اور انسانوں کی حکمرانی اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے تابع ہونی چاہیے۔ پھر قرآن ِکریم نے”مشاورت “کی ہدایت دے کردنیا کو”شورائیت“ کا رہنما اُصول دیا۔پھر مسلمان حکمرانوں کی یہ صفت بتائی کہ:-الَّذِینَ إِنْ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْأرْضِ أَقَامُواالصَّلوةَ وَاٰتُوا الزَّکَوٰةَ وَاَمَرُوا بالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ۔(حج:۴۱)
جس ملک میں بھی مسلمانوں کو غلبہ، اقتدار اور حاکمیت حاصل ہو اور وہاں کا حکمران طبقہ اقامتِ صلوٰة اور تنظیمِ زکوٰةسے غافل ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہ دیا جار ہا ہو، اس جگہ حکومت صحیح ہاتھوں میں نہیں ہے۔ وہ جو ہر اس عہدہ اور منصب کے لیے کچھ صفات ضروری ہوتی ہیں، مند رجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلم حکمرانوں کی صفات بیان فرمائی ہیں۔پھر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی زمین صالحین کا ورثہ ہے، اس آیت سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ دنیا کے جن خطّوں پر بھی غیر صالحین یعنی فساق و فجار کا قبضہ اور عمل دخل ہے، وہ لوگ در اصل غاصب ہیں، اس لیے اس بات کی مسلسل جدوجہد ہوتی رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین غاصبوں کے قبضہ سے نکل کر زمین کے جائز وارثوں یعنی صالحین کے قبضہ میں آجائے۔
قرآن ِکریم نے انسان کی عزت و تکریم کا معیار” تقویٰ“ مقرر فرما کر حسب و نسب، حکومت، دولت، ظاہری حسن، وجاہت اور دوسری تمام اضافی خوبیوں کو پست اور فروتر قرار دے دیا ” تقویٰ “کو ہر عز و شرف اور حسن و خوبی سے برتر اور بلند تر ٹھہرایا گیا۔ حاکمیّت، صالحیّت اور تقویٰ کی یہی وہ قرآنی تعلیم تھی، جس کے تحت حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت سے انکار فرما کر اور اللہ تعالی کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرکے، حق گوئی، سرفروشی اور باطل کے مقابلہ میں استقامت و عزیمت کی ایک روشن مثال قائم فرمادی۔
قرآنِ کریم نے سود اور قمار کو حرام قرار دے کر سرمایہ داری اور ہوسِ زر کا مٹھ مار دیا، شراب جو ”ام الخبائث “ ہے، قرآن نے اُسے ”رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَیْطانِ“ کہا۔ عورت جو معاشرے میں آزادانہ اختلاط کے سبب بہت بڑے فتنہ کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کی عصمت و عفت کے لیے جلباب و خمار کے حصار قائم کیے۔ اس کو مقامِ زینت کی نمود و نمائش اورتبرّج جاہلیت سے روکا؛ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواج یعنی امہات المومنین کو براہِ راست اور تمام مسلم خواتین کو تبعاً حکم دیا کہ وقار کے ساتھ گھروں میں بیٹھیں اور کسی نامحرم سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آجائے، تو دو بدو اور روبرونہیں، پردے کی آڑ میں گفتگو کریں اور بات کرنے میں ایسا لہجہ پیدا نہ ہونے دیں، جس سے سننے والا غلط قسم کی کوئی اُمید اپنے دل میں قائم کرلے۔
تفہیم و تاویل:
قرآن ِکریم میں بار بار عقل و بصیرت سے کام لینے اور ذہن و فکر کی توانائی کو صرف کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن میں کسی مقام پر بھی عقل کی اہمیت کی نفی نہیں فرمائی گئی۔عقل اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ ہے، اس کو معطل و بیکار کس طرح رکھا جا سکتا ہے، مگر اس نقطہ کو ذہن میں رکھیے کہ قرآن میں غور و فکر کی دعوت اس لیے دی گئی ہے کہ قرآن جن حقائق اور اُصول ِاحکام کو پیش کرتا ہے، اُن پر ایمان پختہ سے پختہ تر ہو جائے۔ عقل کو دراصل وحی ٴالٰہی کا تابع ہونا چاہیے۔ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے اللہ ہونے سے انکار نہیں کیا تھا، بلکہ ُاس کاسارا قصور یہ تھاکہ اُس ظالم نے عقل کو حکم ِالہٰی کے تابع کرنے کی بجائے،عقل کو حکم الہٰی پر ترجیح دے کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقالہ میں عقلی قیاس سے کام لیا اور حکم الہٰی کی نافرمانی کرنے کے جرم میں اُسے ملعون و مطر و دقرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے بے چوں و چرا سر تسلیم خم کر دینا عقل و دانائی کی بات ہے۔ جو عقل صحیح اور متوازن ہوگی اُسے قرآن کے کسی لفظ اور حرف میں کسی قسم کا کوئی شک دکھائی نہیں دے سکتا۔
قرآنی فکر:
قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ملتی ہیں،ایک وہ جن کو” محکمات“ فرمایا گیا ہے اور یہی ”ام الکتاب“ یعنی کتاب اللہ کی اصل بنیاد ہیں۔ دوسری آیات ”متشابہات“ہیں۔ اُن کے بارے میں خو د قرآن کہتا ہے۔
فَأمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءُ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہ إِلَّا اللہُ والرّٰسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ اٰمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبَّنَا۔ (آل عمران:۷)
(جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے سدا پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں؛ حالاں کہ اُن کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، بخلاف اِس کے جو لوگ علم ِدین، میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے،یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے۔)
کائنات کا آغاز کس طرح ہوا، اس کا اختتام کسی طرح ہوگا۔ اللّہ تعالی کی کیا صفات ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں اُن پر ایمان لانا اور ان کا سادہ تصور کافی ہے، اُن کی ماہیت جاننے کی کوشش سے روکا گیا ہے۔ دنیا سائنس میں کہاں تک ترقی کر گئی ہے، مگر آج تک اس کا پتا نہیں لگ سکا کہ دنیا میں سب سے پہلے مرغی پیدا ہوئی تھی یا انڈا؛ اسی طرح یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ گندم کا پودا سب سے پہلے خلق ہوا تھا یا اس کابیج،یعنی دانہٴ گندم، لیکن ان حقائق اور رماہیتوں کے نہ جاننے سے انسانی معیشت کا کوئی کام رکا ہوا نہیں ہے؛اسی طرح متشابہات پرایما ن رکھتے ہوئے اُن کا مکمّل اورواقعی علم نہ ہونے سے دین و شریعت اور اخلاق و ایمان میں کوئی کمی واقع نہیں ہو جاتی۔
قرآن ِکریم کا مطالعہ جو زمین بناتا ہے، اُس میں بڑا سلجھاوٴاور سادگی پائی جاتی ہے۔ اس قسم کا قرآنی ذہن کلامی نکتہ آفرینیوں اور فلسفیانہ موشگافیوں اور متصوفانہ لطائف میں دلچسپی نہیں لیتا۔
ربط ونظم:
قرآنِ کریم مصنّفوں کی لکھی ہوئی کتابوں اور اہل قلم کے مرتب کیے ہو ئے مجموعوں کی طرح کوئی کتاب نہیں ہے، جن میں عنوانات ہوں اور ہرعنوان کے تحت ذیلی ابواب اور حواشی ہوں اور جب ایک مضمون ختم ہو جائے تو پھر دوسرا شروع کیا جائے۔ قرآن کا اندازِ بیاں تحریری و تصنیفی نہیں تقریری ہے، جو لوگ عام تصانیف و تالیف پر قرآنِ کریم کوقیاس کر کے اُس کا مطالعہ کرتے ہیں،انھیں قرآن کریم کی آیتوں اور مضامین میں بے ربطی محسوس ہوتی ہے۔ قرآن ِکریم اس قسم کی تصنیف سرے سے ہے ہی نہیں۔
نظمِ قرآن کا محور یہ ہے کہ اس کتاب بے مثال میں بار بار اور جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور شان ِخلاقیت کا ذکر ہے۔ قرآن بار بار آخرت کے محاسبہ کی یاد دلاتا ہے، وہ ان لوگوں کا بھی ذکر کرتا ہے، جن پر اللہ کا انعام ہوا ہے اور ان کا بھی جن پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوا۔ کسی فرد یا قوم کا ذکرہو، آثار و مشاہدات کی تفصیل ہو، معاشرے کے لیے کسی قانون و حکم کی تنفیذ کا اعلان ہو۔ ہر موقع پر قرآن کریم ذہنِ انسانی کو یاد دلاتا اور چو نکاتا رہتا ہے کہ:
اللہ تعالیٰ اس کا خالق اور رب ہے۔
انسان کو دنیا میں وہ زندگی گزارنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
اس دنیوی زندگی کے اعمال کی بنا پر آخرت میں سزا و جزا ملے گی۔
قرآن ِکریم کا ہر مضمون اسی دعوت کے ارد گرد گردش کرتا ہے، اسی کی جگہ جگہ تکرار کی گئی ہے اور یہی”تذکیر“ اس دعوت کا عمود اور مرکزی نقطہ ہے۔
قرآن اور معلّمِ قرآن:
اللہ تعالیٰ نے قرآن ِکریم لکھا لکھا یا مکہ کی کسی پہاڑی پر یادرخت پر نہیں رکھوا دیا تھا، بل کہ اسے نجمًاً نجماً حضرت سیدنا محمد (ابن عبد اللہ) علیہ الصلواة والتسلیم پر نازل فرمایا اور اس نزول کے ساتھ صاحبِ قرآن اور مہبطِ وحی الہٰی کا جو منصب تھا،اُس کا ذکر بھی قرآن ہی میں کر دیا گیا۔ یہ کہ:
لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُوٴْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُوا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکَتٰبَ وَالْحِکْمَة۔َ (آل عمران: ۱۶۴)
(در حقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایسا پیغمبر اٹھا یا ،جو اُس کی آیات انہیں سُناتا ہے،اُن کی زندگیوں کو سنوارتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے)
دنیا کے قدیم و جدید طریقہٴ تعلیم میں ہر معلم جس کسی کتاب کی تعلیم دیتا ہے، تو وہ یہ نہیں کرتا کہ اپنی طرف سے کتاب کی شرح و تفصیل میں کچھ نہ کہے، بل کہ کتاب کی اصل عبارت کودُہراتار ہے۔ کتاب کی تعلیم کے معنی ٰہی یہ ہیں اور یہی تعلیم کی غرض و غایت ہے کہ معلم جن مقامات کو مناسب سمجھتا ہے شرح کرتا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ طلباء اور شاگرد بھی کتاب کے بارے میں اُستاد سے سوال کرتے ہیں،وہ اُن کے جواب دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو” کتاب و حکمت “کی تعلیم کے منصب پر مامور فرمایا تھا۔ اس منصب کی ذمہ داریوں کو حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی کی حیثیت سے انجام دیا۔ حضور کے اس منصب کو ذہن میں رکھ کر، نطقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں قرآن کا فیصلہ سُنیے:-
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہوٰی إِنْ ھوَ إِلَّا وَحْیٌ یُّوْحی.(النجم: ۳،۴)
(یہ نبی، اپنے(نفس کی) خواہش سے کلام نہیں کرتا۔ اس کا کلام تو وحی ہوتا ہے۔)
(ا) تلاوتِ قرآن (۲) تزکیہٴ نفس اور (۳) کتاب و حکمت کی تعلیم — وہ فرائض اور ذمہ داریاں ہیں، جو اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کی گئی تھیں اور قرآن کریم نطقِ رسول کو وحی کہتا ہے، یعنی جو زبان کتاب اللہ کی تلاوت کرتی تھی، و ہی زبان کتاب اللہ کی تعلیم بھی دیتی تھی اور قدیم اور جدید طریقِ تعلیم میں کتاب کی تعلیم سے مراد کتاب کے مضامین کی شرح و تفصیل ہی ہوتی ہے۔ اس لیے رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب و حکمت کی جو تعلیم دی، وہ بھی وحی ٴالہٰی ہے اور چوں کہ کتاب و حکمت کی تعلیم کا فریضہ حضور نے نبی ہونے کی حیثیت سے انجام دیا ہے، اس لیے وہ منصوص ہے اور اس کی اطاعت امت پر فرض ہے۔
جس اللہ نے قرآن کو نازل فرمایا اور جس ذاتِ گرامی پر نازل فرمایا؛اُسی اللہ نے رسول اللہ کے نطق کو وحی الٰہی کہا،کتاب و حکمت کی تعلیم اُس کو تفویض کی گئی۔اُس کے اسوہٴ حسنہ کو معیارِحق اور انسانیت کے لیے نمونہٴ عمل قرار دیا اور اُس کی اطاعت کو منصوص ٹھہرا یا۔(أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ)قرآن کی واضح ہدایات کے بعد جو کوئی سنتِ رسول کو دین میں حجت نہیں مانتا،وہ در اصل منصبِ نبوت کا انکار کرتا ہے اورمنصب ِنبوت کا انکار کفر ہے۔
اس صورتِ حال کو سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن ِکریم جن لفظوں میں نازل ہُوا ہے، یہ الفاظ اگرچہ نطقِ رسُول سے ادا ہوئے ہیں،مگر اس میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایک ایک لفظ وحی(متلوّ) ہے، مگر احادیث کا معاملہ یہ ہے کہ معانی اللہ کی طرف سے وحی ہُوئے ہیں؛ لیکن ان وحی شدہ معانی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لفظوں میں ادا فرمایا ہے، اس لیے احادیث کو”وحیِ غیر متلوّ “ کہا جاتا ہے، مگر وحیِ متلوّ اور وحی غیر متلوّدونوں دین میں حجت ہیں۔
قرآن کے ساتھ سلوک:
کوئی شک نہیں، قرآن کریم ایک مقدس قانون اورمتبرّک دستور ہے، جس پر عمل کرنا تو منصوص ہے ہی، اس کا پڑھنا اور سننا بھی ثواب ہے۔ جواہلِ ایمان قرآن کے معنی جانے بغیر یا ناظرہ پڑھتے اور سنتے ہیں وہ بھی ثواب کے مستحق ہیں، مگر قرآنِ کریم اللہ تعالی نے سمجھ کر پڑھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ علامہ اقبال نے دردمندی کے لہجہ میں فرمایا تھا کہ”دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم کتاب ”قرآن“ ہے کہ مسلمان اُسے بے سمجھے پڑھتے ہیں۔“
قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے کلام کی تقدیس کا تصور ذہن و فکر میں جانا چاہیے، قرآن مجید کی آیتیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھنی چاہئیں۔ پورے قرآن کو ایک دن میں بغیر سمجھے ختم کر دینے کے مقابلہ میں ایک رکوع سمجھ کر اور عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا زیادہ فائدہ مند ہے۔ جن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مغفرت کی اور جنت کی بشارت دی ہے اُن کو تلاوت کرتے ہوئے زبان سے یا دل ہی دل میں اللہ سے دُعا مانگنی اور تمنا کرنی چاہیے کہ اس بشارت کی سعادت ہمیں بھی میّسر آجائے۔ جن آیتوں میں عذابِ آخرت سے ڈرایا گیا ہے اور عذاب جہنم کا ذکر آیا ہے، اُن کو پڑھتے وقت خوف و اندیشہ کی کیفیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ دل میں تڑپ، گداز، خلوص، لگن، سوز و درد اور خشیتِ الٰہی ہو تو قرآن کی تلاوت کے دوران آنکھیں ضرور اشکبار ہو جاتی ہیں ہے ۔
سرابے کہ رخشد بہ ویرانہ خو شتر
ز چشمے کہ پیرایہٴ نم نہ دارد
اللہ تعالیٰ نے جن آیتوں میں اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، اُن کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور رات کو سوتے وقت اپنی زندگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قرآن ِکریم نے اخلاق و نیکو کاری کا جو معیار پیش کیا ہے، اُس معیار سے ہماری اپنی زندگی کس کس جزئیہ اور مرحلہ میں مطابقت نہیں کرتی، اس جائزے اور احتساب کے بعد اس کی پوری پوری جد و جہد کرنی چاہیے کہ ہماری زندگی میں قرآنی اخلاق زیادہ سے زیادہ جھلکنے لگیں— یہاں تک کہ ہم:—
یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ موٴمن قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن کا مصداق بن جائیں۔
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویز بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جُزدان حریر ور شیم کے، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اِک اِک جلسہ میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوئے قانون پر راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کسی بزم میں مجھ کو بار ُنہیں کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں