صحنِ چمن کواپنی بہاروں پرنازتھا

شفیع احمد قاسمی اِجرا، مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

 لسانِ مبارک سے نکلی دعا:

            ”ربیع “کے معنی لغت میں”پہلی بَہار“کے ہیں۔ایک مشہورروایت یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اکثریہ دعافرمایاکرتے تھے کہ”الہم اجعل القرآن ربیع قلبی“ اے اللہ!قرآن ِکریم کومیرے دل کی بہاربنادے۔اس کی تشریح یوں کی جاتی ہے کہ جس طرح ربیع کاموسم خوش گوار اور فرحت بخش ہواکرتاہے،اسی طرح قرآن پاک کومیرے دل کاخوش گواراورسکون بخش موسم بنادے ۔یہ بھی ہو سکتاہے کہ موسم بہاراگرظاہری پھل پھول باغات میں پیداکرتاہے توقرآن ذی شان کوبھی ایمان وایقان کے سدابہارپھلوں اورپھولوں کے پیداکرنے کاذریعہ اورسبب بنادے۔یہ مبارک دعاسیدالاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی لسانِ فیضِ ترجمان سے نکلی ہوئی ہے ۔

شہرت کی منزل پر:

            اب ایک سوال یہ ہوسکتاہے کہ اِس ماہ کانام ربیع الاول پڑنے کی وجہ کیاہے؟اِس بارے میں علامہ علم الدین سخاوی اپنی مشہورِ زمانہ کتاب”المشہورفی اسماء الایام والشہور“میں رقم طراز ہیں کہ : ”سمی الربیع لارتباعہم فیہ ای لاقامتہم فیہ“یعنی مختلف مقاصدکے پیش نظریہاں وہاں کارخت سفر باندھنے والے اہل عرب موسم بہارگذارنے کی خاطرخصوصیت کے ساتھ اس ماہ میں اپنے گھروں میں اقامت پذیر ہو جایا کرتے تھے۔عرب کے لوگ اِس ماہ میں جہاں تہاں اوریہاں وہاں آناجانابالکل موقوف کردیا کرتے تھے۔ اِسی مناسبت سے اِس کوماہِ ربیع سے موسوم کر دیا گیا ہے ۔یہاں پرایک توجیہ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ماہ فصلِ بہارکے شروعاتی دور میں واقع ہونے کی وجہ سے ربیع الاول؛ یعنی پہلاموسم بہاریا آغاز بہار کے نام سے شہرت کی منزل پا گیا ہو۔

ایک اوربھی بہارآنے کوہے:

            اِ ن ظاہری اورعارضی بہاروں کی دنیاسے باہرنکل کردیکھیں توایک دوسری اورحقیقی بہاربھی اپنی بہار دکھانے کو تیارکھڑی نظرآتی ہے ۔وہ بہار؛جس کاآپ کوشدت سے انتظارہے،وہ حسین بہار؛ جس کی آمد سے خزاں رسیدہ چمن میں واقعی بہارآگئی۔عدالت وشجاعت نے بھی آگے بڑھ کرجس کاوالہانہ استقبال کیا۔ صداقت وامانت کی کرنیں بھی جسے دیکھ کرجگمگانے میں فخرمحسوس کرنے لگیں۔ایک ہزارسال سے جلتاہواآتش کدہٴ ایران بھی یک لخت ٹھنڈاپڑگیا۔ایوانِ قیصروکسریٰ کے چودہ کنگرے بھی زمیں بوس ہوگئے۔عظمتِ روم، شان فلسطین، شوکت مصراورآنِ عجم بھی آنِ واحد میں تزلزل کا شکار ہو کررہ گئے۔بت کدوں کی دنیا میں صفِ ماتم بچھ گئی۔لات وعزی کی عزت بھی تہہ خاک مل گئی۔اتحادِنصرانیت اوراجتماعِ یہودیت کابھی شیرازہ بکھر گیا۔ طاغوتیت سرنگوں، قارونیت،نمرودیت وفرعونیت مغلوب اورمظلومیت ہمیشہ کے لیے دھرتی سے اپنا رخت سفر باندھنے لگی، کیو ں کہ اُن کواب اپنی عافیت اِسی میں نظرآنے لگی تھی۔

لامکاں کے بے مثال سیاح:

            خداکی وحدانیت کادل سے اقرارکرنے کے بعدمحمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پرایمان لا کر مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم اچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیں کہ یہ بہارِ سدابہار؛ دونوں عالم کے تاجدار،مطلع انواراورکون ومکان کے سردار،آمنہ کے لعل، لامکاں کے سیاحِ بے مثال، مصدر جمال وکمال،مخزن کمالات،منبع تجلیات، یتیموں کے ماویٰ، محتاجوں اور بے سہاروں کے سہارا،محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمدکی بہارتھی ۔ کسی شاعر نے کتنا خوب صورت نقشہ پیش کیاہے کہ

لہٰذا الشہر فی الاسلام فضل

و منقبة تفوق علی الشہور

ربیع فی ربیع فی ربیع

و نور فوق نور فوق نور

            مطلب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں اس ماہ کاایک خاص مقام ہے ،جوبعض وجوہات کی بناپراس کو دوسرے مہینوں کے مقابلے میں سندامتیازعطاکرتاہے۔وہ نشانِ امتیازصرف اورصرف جانِ جاناں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت سے جڑاہواہے ،جوبہ ذاتِ خودبہارہے اورپیدابھی بہار میں ہوا ہے ۔بلکہ اٹل سچائی تویہی ہے ،جوکسی شاعرکی زبان پرمچلتی ہے کہ

صحنِ چمن کو اپنی بہاروں پر ناز تھا

وہ آ گئے تو ساری بہاروں پہ چھا گئے

اُن دنوں اہل عرب کی یہ حالت تھی:    

            اِن تمہیدی کہانیوں کوایک کنارے ڈال کراب چلتے ہیں عربستان کی سرزمین پرولادت باسعادت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے۔ساری دنیااس بات کوبہ خوبی جانتی ہے کہ صادق وامین،رحمة للعالمین،سیدالمرسلین، شفیع المذنبین،خاتم النبیین محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے دنیاکن حالات سے دوچار تھی؟اہالیانِ مکہ کیسے کیسے حالات کی مارجھیل رہے تھے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل عرب کے باشندے سخت قحط اور خشک سالی سے فاقہ پرفاقہ کر رہے تھے اور بڑی جانکاہ مصائب میں گرفتار تھے۔ جب سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کے شکم میں تشریف لائے تواُس سال ریگستانِ عرب کے باشندوں کے لیے ایک حیرت انگیزاورخوش گوارانقلاب واقع ہوا۔نیلگوں آسمان پرگھنگھورگھٹائیں چھاگئیں اوراِس قدر بارش ہوئی کہ چاروں طرف جل تھل کاعالم ہوگیا۔ پورے عربستان کی پیاسی زمین سرسبزوشادابی کی دولت سے مالامال ہو گئی۔ہرطرف ہریالی وخوش حالی کی کھیتی لہلہانے لگی۔ درختوں پر خوب کثرت سے پتے اور پھل پھول لگ گئے اور ہرجگہ فراخی وکشادگی کاایک سیلاب آ گیا۔جب یہ خوش نمامنظر؛پس منظرکی تاریک گھاٹی سے نکل کر پیش منظر ہوا تو اہل عرب نے اس سال کانام ہی ”سنة الفتح والابتہاج“ یعنی فتح و نصرت اور عیش و مسرت کا سال رکھ دیا۔

کچھ بھی خبرنہیں تھی:

            حضرت آمنہ کہتی ہیں کہ جب میں حاملہ ہوئی تومیرے پاس فرشتوں کی ایک جماعت آئی اورکہاکہ تو اِس امت کے سردارسے حاملہ ہوچکی ہے۔فرماتی ہیں کہ مجھے اُس وقت تک اپنے حاملہ ہونے کی بالکل بھی خبر نہیں تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قسم کی گرانی محسوس ہی نہیں ہورہی تھی،جیساکہ عام طورپردنیامیں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے کہ عورتوں کو دورانِ حمل بوجھ محسوس ہواکرتاہے اورطبیعت میں افسردگی نظرآتی ہے۔ صرف اتنی سی بات تھی کہ مجھ سے سلسلہٴ حیض منقطع ہو چکا تھا۔رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کے شکم اقدس میں پورے نوماہ رہے ۔ اِس مدت میں آپ کی والدہ ماجدہ کوکسی بھی طرح کے درد ، تکلیف و شکایت سے گزرنا نہیں پڑا، جیساکہ عام عورتوں کو حمل کے ایام میں اِس طرح کی شکایتوں کاسامناکرنا پڑتاہے۔

مارشل لاء نافذہوچکاہے:

            آخرکاروہ روزسعیداورمبارک گھڑی بھی آپہنچی،جس کے انتظارمیں کائنات کاذرہ ذرہ بے تاب تھا۔ بہارابھی اپنی کم سنی کاشکوہ کررہی تھی۔باغ وراغ کے اندرقافلہٴ گل آپہنچاتھا۔حدنظرتک زمین کادامن پھولوں سے پَٹاپڑا تھا۔ نسیم خوش بوسے مہکی ہوئی تھی کہ مکہ مکرمہ زادہااللہ شرفاً وتعظیماًکے محلہ ”سوق اللیل“ اورعبداللہ کے کاشانہ میں ۲۰/اپریل ۵۷۱ء کوصبح صادق کے وقت وہ ماہتاب عالم تاب پوری آب وتاب کے ساتھ طلوع ہو گیا،جس کی ضیا پاشیوں سے شب دیجورکی تاریکیاں اِسی طرح کافورہوگئیں،جس طرح اُس کی علمی نور افشانیوں سے آگے چل کرجہالت کی تاریکیاں دورہوجانے والی تھیں۔کیوں کہ جہالت کاوائرس ”کوروناوائرس“سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتاہے ۔ ملائکہ اہل ارض کومبارک باد دینے کے لیے آسمان سے پھولوں کی روح پرور بارشیں کر رہے تھے، اُسی وقت کاخِ کسریٰ میں زبردست بھونچال آ گیا اور اُس کے ایک دونہیں،بلکہ چودہ کنگرے ٹوٹ کر زمین کو سجدہ کرنے پہنچ گئے۔برکاتِ ولادت وسعادت کی بات یہیں پرختم نہیں ہو گئی ،بلکہ اِسی کے ساتھ خالق کائنات کی عدالت عالیہ(Suprem Court)کی طرف سے شیطانوں اورجناتوں کے آسمان پر جانے پر بھی مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ،جہاں اب تک خوب دھڑلے سے اپنی آمدورفت جاری رکھے ہوئے تھے ۔

یہ عشق نہیں،فسق ہے:

            محترم قارئین!ہم لوگ اب تک محبوب سبحانی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے روح پرور تذکرے کی سعادت حاصل کر رہے تھے۔اب آگے وصالِ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دل خراش جھلک دیکھنے کے لیے بھی تیار ہو جائیں،پھراگراللہ نے توفیق بخشی توولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق سے موجودہ دورکی خرافات اورعشق نبی کی آڑمیں فسق نبی کا بھانڈابھی پھوڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاارشادہے:﴿اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّاِنَّھمْ مَّیِّتُوْنَ ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیمَةِ عِنْدَ رَبِّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۔﴾ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!آپ بھی وفات پائیں گے اوریہ سب بھی مرجائیں گے۔پھرقیامت کے دن زندہ ہوکراللہ کے حضورمیں جھگڑتے ہوں گے۔

جوپوچھناہے،پوچھ لو:

            جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورے جوش وخروش اوراعلیٰ جاہ وجلال کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے تشریف لے گئے توایام حج میں نبیٴ رحمت علیہ الصلوٰة والسلام اپنی زبان مبارک سے اکثریہ جملے فرماتے تھے کہ پوچھ لومجھ سے جوبھی مسئلہ پوچھناہے۔شایداس سال کے بعدمجھے اِس دنیامیں نہیں پاؤ گے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بارباریہ فرمانے سے ہی اس حج کانام ”حجة الوداع“پڑگیا۔میدانِ عرفات میں ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔﴾مسلمانو! آج ہم نے تمہارادین مکمل کردیااورہرطرح کی نعمتیں تم کو عطا کر دیں اورتمہارے دین اسلام سے راضی ہوئے۔

سگنل دے دیاگیا:

            علمائے کرام لکھتے ہیں کہ اس آیت کانزول ایک مخفی اشارہ تھا،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا۔ کیوں کہ جس اہم کام کی انجام دِہی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم لاہوت سے دنیامیں بہارپھیلانے کو تشریف لائے تھے،وہ کام اب پوراہوچکا،تب مقامِ اصلی کی طرف رجوع ضروری ہوگیا۔جب فریضہٴ حج ادا کرنے کے بعدمدینہ منورہ تشریف آوری ہوئی توسورہ ”اذاجاء نصراللّہ “نازل ہوئی ،جس کامطلب یہ تھا کہ جب کفارومشرکین اوراعدائے دین کی فوجیں اسلام کاجھنڈااٹھانے لگی ہیں اورمکہ معظمہ بھی فتح ہوکرہمیشہ کے لیے دارالامن کی سندپا گیاہے تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کاجوکام تھاوہ تواَب پوراہوگیا۔اب آپ لقائے خداوندی کے لیے تیاررہیں اوراللہ کے سواکائنات کی ہرشئے کوفراموش کردیں۔چناں چہ صفرالخیرکی ۲۹/ تاریخ سے مرض وفات کی ابتداہوئی اورپھر۱۲/ربیع الاول دوشنبہ کے دن وصالِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاغم ناک و الم ناک سانحہ بھی اہالیانِ مدینہ منورہ کودیکھناپڑا،جس کے لیے شایدوہ تیار نہیں تھے۔

تریسٹھ سال دنیا میں متاعِ دین پھیلا کر

خدا کا لاڈلا اپنے خدا سے مل گیا جا کر

یہاں تواختلافات ہیں: 

            علما ئے کرام اورسیرت نگارحضرات اِس بات پراتفاق کی مہرلگاتے ہیں کہ ولادت باسعادت ماہ ِربیع الاول میں پیرکے دن ہوئی ،لیکن ۱۲/ربیع الاول ہی کی تاریخ تھی،اِس کاکوئی حتمی اوردوٹوک فیصلہ کتابوں کے اوراق میں نہیں ملتا۔ولادت کی یہ مذکورہ تاریخ ؛جومشہورومعروف بین الناس ہے،ارشادرب کائنات:﴿مَآ اَنْزَلَ اللّہُ بِھَا مِنْ سُلْطنٍ۔﴾ سے زیادہ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی ۔کیوں کہ اگرتاریخی شواہدات کھنگالنے کی کوشش کی جائے تو اس میں تو علمائے سیروتاریخ کے مستندحوالے سے مختلف اقوال ملتے ہیں؟ مفتیٴ اعظم پاکستان مولاناومفتی محمد شفیع صاحب نے تاریخ ولادت کی تعیین میں چار مشہور اقوال کونقل کیا ہے ۔ دوسری ، آٹھویں، دسویں اور بارہویں۔ جب تاریخ کی تعیین ہی اختلافات کاشکارہوگئی توربیع الاول کی ۱۲/ تاریخ کو ہی ولادت شریفہ کی تاریخ ماننابالکل جہالت وگم راہی پرمبنی ہے، اِس لیے اس سے بچنابہرحال لازم ہے۔

تاریخ ولادت میں وجہِ اختلاف:

            اب کسی کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھرنے لگے گاکہ ولادت کی تاریخ میں اختلاف نے کیوں جنم لیا؟ جبکہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ صحابہ کرام،محدثین عظام اورفقہائے کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرایک اداکومحفوظ رکھ کرادائیگی کاحق کماحقہ اداکردیاہے اوراللہ جل رب العزت نے بھی اُن نفوس قدسی صفات حضرات کوعجیب وغریب حافظے کی دولت اوردماغی قوت سے مالامال فرمایاتھا،لہٰذا وجہ اختلاف اُن حضرات کے حافظہ کی کم زوری کوسبب سمجھنے کابھی جوازنہیں ہوسکتا؟

ایک دل کش عنوان؛عیدمیلادالنبی:

            بات دراصل یہ ہے کہ سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت سے امت مسلمہ کے لیے متعینہ طور پر کوئی خاص اجتماعی غمی یاخوشی کاکوئی حکم وابستہ نہیں تھا،اس لیے عربی کہاوت”فعل الحکیم لایخلوا عن الحکمة“کی کسوٹی پر حکمت خداوندی سے اِس کی حفاظت کا کوئی خاطرخواہ انتظام ہی نہیں کیاگیا۔ اگر ایسا کوئی اجتماعی یاانفرادی حکم صحابہ کرام،تابعین یاتبع تابعین کے دورمسعودمیں وابستہ ہوتا،جیساکہ آج کل کچھ اسلامی کرم فرماؤں اورخالص محبت کا دم بھرنے والوں کے یہاں عیدمیلادالنبی کے دل کش عنوان سے جشن کا اہتمام ہوتا ہے، تو یہ اختلاف ہمارے درمیان سرے سے وجود ہی نہیں پاتا۔آج کی تازہ حالت یہ ہے کہ دنیاکے ہر کونے اورخطے میں بسنے والے ادنیٰ درجہ کے مسلمان کوبھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ عیدالفطرشوال المکرم کی پہلی تاریخ میں اور عیدالاضحی ذی الحجہ کی دس تاریخ میں منائی جاتی ہے ۔ ان تہواروں کے تعلق سے امت مسلمہ کے درمیان کسی اختلاف کی دیوار نظر نہیں آتی۔وجہ اِس کی یہی ہے کہ عید الفطر اورعیدالاضحی کامتعینہ تاریخوں میں انجام دیا جانانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورسے آج تک متواتر طریقہ پر چلاآرہاہے ۔اِسی طرح اگر۱۲/ ربیع الاول کو ایک اجتماعی تیسری عید کابھی وجود ہوتا تویقینا اِس کا ثبوت بھی مذکورہ دونوں عیدوں کی طرح ہوتا۔ اِن اقتباسات سے یہ واضح اورواشگاف ہوگیاکہ شریعت مطہرہ کی طرف سے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کے ساتھ کوئی بھی اجتماعی عمل وابستہ نہیں ہے ۔

ولادت ووصال ایک ہی ماہ میں جمع ہونے کی حکمت:

            حکیم الامت حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ”یہی وجہ ہے کہ ولادت اوروصال کے ایک مہیناکے اندر جمع ہونے میں بزرگانِ دین نے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ کوئی شخص اِس مہینے میں آپ کی ولادت کی وجہ سے نہ تو”یوم العید“(خوشی کادن)منائے اورنہ وفات کی وجہ سے ”یوم الحزن“(غم کادن)کیوں کہ اگرکوئی اِس کویوم العید بنانا چاہے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کاخیال اِس خوشی میں رکاوٹ ہوگا۔اوراگرکوئی یوم الحزن مناناچاہے تو ولادتِ شریفہ کاخیال اوررنج وغم میں رکاوٹ ہو گا۔اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اوروفات سے زیادہ کوئی واقعہ سرور(خوشی) کاحزن(رنج وغم) کانہیں“۔(خطبات حکیم الامت:ج۵ /ص۱۴۹)

عیدمیلادالنبی کی شرعی حیثیت:

            یہ بات لوح دل پرنوٹ کرلیجیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی کواجتماعی طورپرمنانے کو عید میلاد النبی کاعنوان دیاجاتا ہے ۔عید؛یہاں پرخوشی کے معنی میں ہے،جیساکہ ہماری معاشرتی زندگی میں جب کوئی دوست کافی دنوں کے بعد ملتاہے توبہ طورمبالغہ کہتے ہیں کہ لو!آج توعیدہوگئی۔اس جملہ میں کبھی بھی عیدکی شرعی حیثیت مراد نہیں ہوتی،جیسی کہ عیدین کے دن اجتماعی خوشی ہوتی ہے ۔ولادت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اجتماعی خوشی منانے کو ہی عیدمیلادالنبی کانام دیاجاتاہے ۔

اُن کوکچھ بھی نہیں ملتا:

            آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی کو اجتماعیت کے ساتھ مناناایک ایساعمل ہے،جس کے اسباب ومحرکات عہدصحابہ کرام میں بھی پائے جاتے رہے ہیں۔یہ کوئی ایسامسئلہ نہیں ہے ،جس کی پیدائش آج ہی ہوئی ہو،جیساکہ آج کے کچھ نادان دوست اپنی نادانی سے سمجھ رہے ہیں۔کتب سیروتواریخ کے مطالعہ سے ہمیں اس بات کاکوئی ثبوت دست یاب نہیں ہوتاکہ صحابہ کرام نے ایسے موقع پراجتماعی خوشی کاایسااوراِس قدراہتمام کیاہو،جیساکہ آج کل نظر آتاہے؟سیدہ فاطمہ زہرا، ام کلثوم،حضرت امامہ،حضرات حسنین اور دیگر اہل بیت کرام کی زندگی کھنگالیے توپتاچلے گاکہ اُن حضرات نے کبھی اپنے والداورناناکایوم ولادت نہیں منایا ہے۔اس کاثبوت کسی کوصبحِ قیامت تک نہیں ملے گا۔ آخر اس کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟کیاہم نے اپنی زندگی میں کبھی اس پر غور کرنے کی غلطی ، کبھی بھول کربھی کی ہے؟اگر اِس سوال کاجواب تلاش کرنے کونکلیں گے توسوائے ناکامی ونامرادی کے ہمارے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ یہاں پہنچ کروہی بات ہوگی ،جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مثال بیان فرمائی ہے : ﴿ یَحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءً حَتّٰی اِذَا جَآءَ ہ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا۔﴾ پیاس کے مارے انسان تو پانی ہی سمجھتے ہیں اورجب قریب پہنچتے ہیں تواُن کوکچھ بھی نہیں ملتا ۔

آزادی کاپروانہ دے دیا:

            اِس لیے آپ دیکھیں گے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین محبوب ربی صلی اللہ علیہ وسلم کو آئینہٴ ذات میں نہیں،بلکہ آئینہٴ رسالت میں دیکھاکرتے تھے ۔مطلق ولادت کی خوشیٴ بے پناہ توابولہب کوبھی حاصل ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ فرحت ومسرت سے سرشارہوکر ابولہب نے ولادت کی دل خوش کن خبر سنانے والی باندی ”ثُوَیبہ“کوآزادی کا پروانہ تھمادیاتھا۔

            یہ مروجہ رسم عیدمیلادالنبی ؛جوبڑے ہی زوروشوراورطمطراق سے ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے،وہ درحقیقت احداث فی الدین من الشیطان الرجیم ہے ،جس کے بارے میں صدیقہٴ کائنات اماں عائشہ کی روایت میں خود سرورکائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے کہ:”من احدث فی امرنا ہٰذا مالیس منہ فہورد“۔کہ جو شخص بھی شریعت میں کسی بات کاموجدبنے گا،اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے گا،کیوں کہ خالق کائنات کی طرف سے شریعت کی تکمیل کااعلان شائع ہوچکاہے۔اب یہ بات بھی ذہن کے پردے پرآسکتی ہے کہ احداث فی الدین کامطلب کیاہے؟تومعلوم ہوناچاہیے کہ دین وشریعت میں اپنی طرف سے نئے نئے شوشے پیداکرکے ٹھونس دینے کو احداث فی الدین کہا جاتاہے ۔جب عرفات کے میدان سے حجة الوداع کے موقع پرعظیم الشان اجتماع میں شریعت کی تکمیل کااعلان خود رب دوجہان نے: ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا۔﴾ نازل فرماکر فرمادی ہے تو پھرکسی بات کی ضرورت ہی باقی کہاں رہ جاتی ہے،جسے اپناکرگلے سے لگائی جائے؟

            سوال:یہ سوال باربارآتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن محفل میلادمنعقدکرنا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن محفلوں میں حاضری کااعتقادرکھ کرازروئے تعظیم وتکریم آپ کے خیرمقدم میں کھڑے ہو جانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرودوسلام بھیجنااورمیلادوں میں کیے جانے والے اِس طرح کے دیگراعمال کی شرعی حیثیت کیاہے؟

جواب:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاکسی اورکی پیدائش پرمحفل میلادمنعقد کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ یہ اسلام میں ایک نوایجادبدعت ہے ۔کیوں کہ پہلی تین افضل صدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے خلفائے راشدین،دیگرصحابہٴ کرام اوراخلاص کے ساتھ اُن کی پیروی کرنے والے تابعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش کاجشن نہیں منایا،جبکہ وہ بعدمیں آنے والے لوگوں کے مقابلہ میں سنت کازیادہ علم،رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل محبت رکھنے اورطریقہٴ نبوی کی مکمل پیروی کرنے والے تھے۔

(توحید کا قلعہ:ص۱۷۵)

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا:”فعلیکم بسنتی وسنة خلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابہا وعضوا علیہابالنواجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة“تم میری سنت کواورمیرے بعدہدایت یافتہ خلفاکی سنت کولازم پکڑو،اُسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو اور دین میں نئی نئی باتوں سے بچو۔کیوں کہ ہرنئی چیزبدعت ہے اوربدعت گم راہی ہے۔ اس حدیث میں بدعات ایجادکرنے اوراُن پرعمل کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیاگیاہے۔(توحید کا قلعہ:ص۱۷۶)

بدعت پر”حسنہ“ کالیبل چپکادیا:

            اِن تحریرات کی روشنی میں یہ بات توبالکل بے غبارہوگئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی اجتماعی طورپراظہارمسرت کرنااورجشن مناناقرون ثلاثہ مشہودلہابالخیرمیں تلاش بسیارکے باوجودبھی نہیں ملتا۔ تواب یہ سوال ہمارے سامنے کھڑاہوتاہے کہ پھراِس مروجہ عیدمیلادالنبی کی پیدائش کب ہوئی اوریہ عیدآئی کہاں سے؟تواس سلسلے میں کتابی اوراق اورتاریخی شواہدہمیں یہی بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے ملک اربل (موصل) میں ایک نہایت ہی عیاش اورفاسق بادشاہ مظفر ابوسعیدکوکبوری نے ۶۳۰ھ میں محفل میلاد قائم کی ۔ جب یہ نوایجاد رسم بدوہاں سے سفرکرکے ہندستان کی زرخیزسرزمین پر پہنچی تو یہاں پر خوب آؤبھگت ہوئی ۔

سکوں کی جھنکار پر فن کاربن گئے:

            جب شہرموصل سے یہ درآمدشدہ خوش نمابدعت معاشرتی راہوں پرپروان چڑھنے لگی توشاخ برگدکی طرح پھیل کر اوربرگ وبار لاکرخوب لہلہانے لگی۔زمانہ خیرالقرون سے گزرتاہواآہستہ آہستہ شرالقرون کی طرف بڑھتارہا، یہاں تک کہ چو دھویں صدی آن پہنچی ۔اِن صدیوں میں ہندوپاک کے ناعاقبت اندیش اور کوتاہ نظر ملاؤں نے بھی اپنے ذاتی مفاد اور حصولِ منفعت کے لیے چند کھوٹے سکوں کی جھنکار پر فن کاربن کراِس ناجائز اوربے ہودہ رسم کی بے پناہ پشت پناہی کر کے ہمارے گھروں تک پہنچادیا۔وہ کرسی کے ایسے پجاری بن گئے، جو آیة الکرسی کا سوداکرنے سے بھی نہیں چوکے۔ اس رسم کے بدعت ہونے پر کسی بھی مسلمان کو انکار نہیں ہے۔ آپ کویہ جان کر مزید حیرت ہوگی کہ اِس جشن مولود کو بریلوی حضرات بھی بدعت ہونے کی سند فراہم کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اپنی دیدہ دلیری سے اِس کے آگے حسنہ کا پیوند لگا کر اپنے لیے معافی کی گنجائش کا راستہ نکال لیتے ہیں۔

ایک بریلوی عالم کی صراحت:

            اِس بارے میں مدیرماہ نامہ”رضوان“مولانامحموداحمدرضوی صراحت کے ساتھ لکھتے ہیں: ”لوگوں میں یہ بات جاری ہوگئی ہے کہ جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ مبارک کاذکرسنا،فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے ۔یہ قیام بدعت ہے ،جس کی کوئی اصل نہیں،یعنی بدعتِ حسنہ“۔بھلاوہ بدعت بھی ؛جس کی سِرے سے کوئی اصل ہی نہ ہو،بدعت حسنہ ہوسکتی ہے؟تاہم مولانامحموداحمدرضوی کی یہ بات لائقِ صد تحسین اورقابل مبارک بادہے کہ اُنھوں نے سیرتِ حلبیہ جلداول صفحہ ۲۵۹/پرتحریرشدہ عبارت: ”میلاد النبی کا مناناحقیقت میں ایک بدعت ہے ، جس کی کوئی اصل نہیں ہے“۔ اس بات کو تسلیم کر لیا ہے ۔

کوئی بھاؤنہیں ملے گا:

            اس طرح سے معافی کاراستہ نکالنے کے بعدداخلہ کے لیے چوردروازے کھل جاتے ہیں اوراس کے بعدیہی منظر؛پس منظر کی وادی سے نکل کرہمارے پیش منظرہوتاہے کہ ۱۲/ربیع الاول کی تاریخ جیسے ہی عالم اسلام کے سروں پرجلوہ فگن ہوتی ہے تو ازصبح تاشام خوب دھڑلّے سے ارشادرب العباد:﴿وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔﴾کی روشنی میں جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کومبارک ومتبرک اورنیک کام سمجھ کردن بھر بندروں کی طرح اچھل کود مچاتے ہیں، جس میں اختلاط مردوزن کادل کش نظارہ اورآنکھیں سینکنے کاسامان خوب فراہم ہوتا ہے،بچے، بوڑھے اور جوان، علماوجہلا؛سبھی مل جل کر”من توشدم تومن شدی“کا راگ الاپتے ہیں۔واضح رہے کہ اکثروبیشتراِن محافل میلادمیں دیگرحرام کاریاں بھی ہوتی ہیں۔بہ زبانِ خویش عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قصیدہ خوانی کرنے اورمحبان رسول ہونے کی سندعالی بانٹنے والے اپنے سروں پر ہری ہری پگڑیاں باندھتے ہیں اور پھر چوک چوراہو ں پر رنگ برنگی جھنڈیاں لگا کر ڈھول تاشوں کے آلات اورناچ گانوں کے ساتھ جلوس نکالتے ہیں۔اس کے علاوہ نشہ آوراشیاکااستعمال اور ان کے علاوہ دیگربہت سی برائیاں اوربسااوقات اُن محفلوں میں مذکورہ برائیوں سے بڑھ کرشرک اکبرتک کا ارتکاب بھی کیاجاتاہے،جسے خدائی وعدے کے مطابق بخشش ومغفرت کا پروانہ ہرگزبھی نہیں ملے گا ۔رب رحمن کااعلانِ قرآن ہے:﴿اِنَّ اللّہَ لَا یَغْفِرُاَنْ یُّشْرَکَ بِہ۔﴾

دعائے اجتناب ازبدعات:

     جب یہ بات ہراعتبارسے صاف ہوگئی کہ یہ رسم خرافات سے آگے کادرجہ نہیں رکھتی تواللہ رب العزت کی بارگاہِ بے نیازمیں دعافرمالیجیے کہ وہ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اورتمام مسلمانوں کودین کی سمجھ اوراس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطافرمائے۔ہرایک مسلمان کوسنت پرکاربنداوربدعات وخرافات سے اجتناب کی نعمت سے نوازے۔وہ اللہ سخی اورمہربان ہے اوراللہ تعالیٰ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کے اہل وعیال اورساتھیوں پر رحمت نازل فرمائے ۔

آ مین یارب العا لمین!