مفتی عبد الغفور صاحب اشاعتی گوگانوی /استاذ جامعہ اکل کوا
اس میں کچھ شک نہیں کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصاً ؛خلفائے راشدین سے محبت در حقیقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تتمہ اور تکملہ ہے۔ اور ان کی پیروی در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے ؛بل کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیاں ہرشعبہ میں ہمارے لیے رہنما اصول ہیں ۔خواہ ہم طلبِ علم کا مشغلہ اختیار کر رہے ہوں یا تبلیغ ِدین کا فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ تجا رت وحرفت کو ذریعہ معاش کے طور پر منتخب کر رہے ہوں یا سیاست و سیادت کے میدان میں اتر پڑے ہوں ۔خدمتِ خلق کی سعادت سے سرفراز ہو رہے ہوں تو ان تمام شعبہ جات میںصحابہ کرام ؓکی زندگیاںہمارے لیے رہنمامثال اورمعیار ہیں۔
دین کے لیے قربانیاں،دینی اخلاق میں طاقت اور دین کی حفاظت کے لیے جدو جہد،ان خوبیوں کواپنے اندر لانے کے لیے ہمیں مطالعہ کرنا ہوگا دور صدیقی کا ۔
اگرمخلصین ومتبعین کی جدوجہدکے نتیجہ میں امتِ مسلمہ جاہ و حشمت ، ثروت ودولت اور عزت وعظمت سے ہم کنارہونا چاہتی ہے۔نیز بے مثال فتوحاتِ اسلامی ،ــامر بالمعروف ونہی عن المنکرکا امت میں عام رواج ، علوم وفنون کی خدمت پر نظامِ حکومت کی تشکیل اور اعلیٰ اصول تمدن پر نظام حکومت کی ترکیز کے لیے سیرت ِفاروقی ہمارے لیے مینارۂ ہدایت بنتی ہے۔اختلاف وانتشار کا ایسا ماحول جو ملک میں بے اطمینانی اور بد امنی پیدا کررہا ہو، لیکن دونوں طرف مخلصوں کی جماعت ہو مگر اغراض پسندوں نے درمیان میں پڑ کر اختلاف وانتشارپیدا کردیا ہو ، تو ایسے وقت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
اور جب اغراض والے ان مخلصوں میں جھگڑاوفساد کروا دے توپھرحضرت علیؓ کے اصول چلیںگے۔گویا کہ زندگی کے ہر موڑپر صحابہؓ کی سیرت ہما رے لیے اسوہ ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ صحابہ کرام کے واسطہ سے پہنچی ہیں۔ اب اگر ان نفوسِ قدسیہ کی ناموس پر کوئی حرف آتا ہے تو یہ اسلامی تعمیرکے منہدم ہوجانے کے مترادف ہے ۔ لہٰذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہمارے دلوں میں صحابہ کرامؓ کے متعلق محبت وعقیدت کا مل درجہ کی ہو، نیز ہمیںیہ بھی جاننا ضروری ہے کہ صحابۂ کرام ؓکے متعلق ہمارا عقیدہ کیا ہو؟ اس کی مناسبت سے ذیل میںکچھ عقائد بیان کیے جارہے ہیں۔
عقیدہ : رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بہت بڑی چیز ہے ،اس امت میں صحابہ کرامؓ کا رتبہ سب سے بڑا ہے ، ایک لمحہ کے لیے بھی جس کو رسولِ خد ا صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل ہو گئی، ما بعد والوں میں بڑے سے بڑا ولی بھی اس کے برابر نہیں ہوسکتا ۔
v:صحابہ کرامؓ میں مہاجرین وانصارؓ کا مرتبہ باقی صحابہ سے زیادہ ہے اور مہاجرین وانصارؓ میں اہلِ حدیبیہ کا مرتبہ سب سے بڑھ کر ہے اور اہل حدیبیہ میں اہل ِبدر ۔اور اہلِ بدر میں چاروں خلفاؓ کا مرتبہ سب سے زیادہ ہے ۔ چاروں خلفامیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا، پھر حضرت عمر فاروقؓ کا مرتبہ سب سے فائق ہے۔
عقیدہ :چاروں خلفا کا افضل امت ہونا خلافت کی وجہ سے نہیں ہے ، اگر بالفرض بجائے ان کے دوسرے حضرات خلافت کے لیے منتخب ہو جاتے تو بھی یہ حضرات افضلِ امت مانے جاتے ۔
عقیدہ: خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مثل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم نہیں ہوتا ، نہ اس کی اطاعت ہرکام میں مثلِ رسول کی اطاعت کے واجب ہوتی ہے۔بالفرض کوئی خلیفہ سہواً یا عمداً کوئی حکم شریعت کے خلاف دے تو اس حکم میں اس کی اطاعت نہ کی جائے گی ،عصمت خاصۂ نبوت ہے۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم ماننا عقیدۂ نبوت کے خلاف ہے۔
عقیدہ :خلیفۂ رسول کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ دین میں نئے احکام دے۔ نہ اس کو کسی چیز کے حلال وحرام کرنے کا اختیار ہوتا ہے، بل کہ اس کا صرف یہ کا م ہے کہ قرآن وحدیث پر لوگوں کو عمل کرائے، احکامِ شرعیہ کو نافذ کرے اور انتظامی امور کو سرانجام دے۔
عقیدہ :خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کرنا خدا کے ذمے نہیں۔بل کہ مسلمانوں کے ذمے ہے جس طرح امامِ نماز کا مقرر کرنا مقتدی کے ذمے ہوتاہے ۔
عقیدہ : رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات گیارہ تھیں ۔حضرت خدیجہ ؓ، حضرت زینب بنت خزیمہؓ ان دونوں کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی ہوگئی تھی ۔حضرت عائشہؓ ،حضرت حفصہؓ ، حضرت ام حبیبہؓ،حضرت زینب بنت جحش ؓ، حضرت ام سلمہؓ ، حضرت صفیہؓ ، حضرت سودہؓ ، حضرت میمونہؓ اورحضرت جویریہؓ ۔یہ سب بیبیاں تمام ایمان والوں کی مائیں تھیں اور سارے جہاں کی ایمان والی عورتوں سے افضل تھیں ۔اور ان میں بھی حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کا رتبہ زیادہ ہے۔
عقیدہ :رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں چار تھیں ۔حضرت زینبؓ ،جن کا نکاح حضرت ابوالعاصؓ سے ہوا ۔حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ ، ان دونوں کا نکاح یکے بعددیگرے حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے ساتھ ہوا۔ حضرت فاطمہ ؓجن کا نکاح حضرت علی مرتضیؓ کے ساتھ ہوا ۔یہ چاروں صاحبزادیاں بڑی برگزیدہ اور صاحبِ فضائل تھیں ۔ ان چاروں میں حضرت فاطمہؓ کا رتبہ سب سے زیادہ ہے اور وہ اپنی مائوں کے سوا تمام جنتی بیبیوں کی سردار ہوںگی ۔
فائدہ:
رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓ کو کہنا نص قرآنی کے خلاف ہے۔
عقیدہ : آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دس چچائوں میں سے صرف حضرت حمزہ ؓکا مرتبہ خصوصیت کے ساتھ زیادہ ہے ۔ان کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدالشہدا کا خطاب دیاتھا ،جب کہ وہ غزوئہ احد میں شہید ہوئے تھے اور آپ کی پانچ پھوپھیوں میں سے صرف حضرت صفیہؓمشرف بإسلام ہوئیں ۔
عقیدہ: مہاجرین وانصارؓ ؛بالخصوص اہلِ حدیبیہ میں باہم رنجش وعداوت بیان کرنا افتراو بے دینی اور قرآن مجید کے نصوص صریحہ کے خلاف ہے ۔
عقیدہ: صحابہ کرامؓ کے مشاجرات ؛یعنی ان کے باہمی جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے ،مگر بہ ضرورت شرعی وبہ نیتِ نیک۔ اور جن صحابہ کرام میں باہم کوئی جھگڑا ہواہو، ہمیں دونوں فریق سے حسنِ ظن رکھنا اور دونوں کا ادب کرنااسی طرح لازم ہے، جس طرح دو پیغمبروں کے درمیان اگر کوئی بات اس قسم کی ہو جا ئے تو ہم کسی کو برا نہیں کہہ سکتے ؛بل کہ دونوں پر ایمان لانا بہ نص قرآنی ہم پر فرض ہے۔
فائدہ: حضرت علی مر تضی رضی اللہ عنہ کو اپنے زمانہ ٔخلافت میں دوخانہ جنگیں پیش آئیں۔
جس میں ایک جانب حضرت علی مرتضیؓ تھے اور دوسری جانب ام المومنین حضرت عائشہ ؓ ؓتھیں۔ اور ان کے ساتھ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ وزبیرؓ جو عشرہ ٔمبشرہ میں سے ہیں ۔دونوں جانب اکابر صحابہ تھے ،مگر یہ لڑائی دھوکہ دھوکہ میں چند مفسدوں کے حیلہ سازی سے پیش آگئی۔ ورنہ ان میں باہم نہ رنجش تھی نہ آپس میں لڑنا چاہتے تھے ۔
مفسدوں کی فتنہ پردازی ہوئی
باعث خونریزی جنگ جمل
ورنہ شیر حق سے طلحہ اور زبیر
چاہتے ہرگز نہ تھے جنگ وجدل
اِس لڑائی میں ہر فریق سے دوسرے کے فضائل منقول ہیں کتب احادیث اس سے بھری پڑی ہیں۔
دوم :جنگ صفین: جس میں ایک جانب حضرت علی مرتضیؓ اور دوسری طرف حضرت معاویہؓ تھے ۔ اس لڑائی کے متعلق اہلِ سنت کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت علی مرتضی ؓخلیفۂ برحق تھے اور حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھ والے خاطی۔ مگر اس خطا پر ان کو برا کہنا جائز نہیں، کیوںکہ وہ بھی صحابی ہیں، صاحبِ فضائل ہیں اور ان کی خطا غلط فہمی کی وجہ سے تھی اور غلط فہمی کے اسباب موجود تھے۔ ایسی خطا کو خطائے اجتہادی کہتے ہیں ،جس پرعقلاًا ورشرعاً کسی طرح مواخذہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت شیخ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ’’ ازالۃ الخفا‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جاننا چاہیے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے اور زمرۂ صحابہ میں بڑی فضیلت والے تھے ۔خبردار! ان کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور ان کی بدگمانی میں پڑکر فعل حرا م کے مرتکب نہ بننا‘‘۔
عقیدہ :صحابہ کرام ؓخصوصا مہاجرین وانصار سے بدگمانی رکھنا ،ان کو برا کہنا قرآن مجید کی صریح مخالفت اور شریعت الٰہیہ کی کھلی ہوئی بغاوت ہے ۔ ایسے شخص کے حق میں کفر کا اندیشہ ہے۔
فائدہ: فرقہ روافض جو تمام صحابہ کرامؓ ؛یہاںتک کہ مہاجرین وانصار کی بدگوئی کرتا ہے اور ہجرت ونصرت کو فضیلت کی چیز نہیں کہتا تو یہ صریح خلاف ورزی قرآن مجید کی ہے۔ اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن شریف اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور دلائلِ نبوت مشکوک ہو جائیں گے ؛لیکن اس بنا پر ان کو کافر کہنا خلاف احتیاط ہے۔ اہلِ سنت کا مسلک یہ ہے کہ جب تک صریح انکار ضروریات دین کا نہ ہو، اس وقت تک کسی کلمہ گو کو کافر نہ کہنا چاہیے ۔امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں ۔لانکفر احد امن اہل القبلۃ یعنی ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے ۔
یہ کچھ عقائد جو بیان کیے گئے اہلِ سنت والجماعت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ان میں سے اکثر وبیشتر عقیدے وہ ہیں جن کا ماخذ قرآن مجید ہے ۔حق تعالیٰ ہم سب کو ان پاک عقائد پر استقامت عطا فرمائے ۔آمین!
(ماخوذ از: سیرت خلفائے راشدین)