شیئرز( Shares)پر قبضہ کی حقیقت

از: مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری

ناظم: مرکزالاقتصاد الاسلامی،انڈیا

            موجودہ دور کی تجارت میں ایک نئی چیز کااضافہ ہوا ہے جس کو( Shares)کہتے ہیں ،پہلے زمانہ میں جو شرکت ہوتی تھی وہ چند افراد کے درمیان ہواکرتی تھی، جس کوعام زبان میں(Partnership)کہتے ہیں ، لیکن سترھویں صدی کے آغاز میں جب تجارتی میدان میں صنعتی انقلاب آیا اور بڑے بڑے کارخانے قائم کرنے کے لیے عظیم سرمایہ کی ضرورت پڑنے لگی، جس کو کوئی تنہا شخص یا چند اشخاص مل کر بھی فراہم نہیں کر سکتے تھے، تو اس وقت کمپنی کا نظام وجود میں آیا تاکہ عام لوگوں کی بچتیں یکجا کر کے ان سے اجتماعی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

            جب کمپنی حکومتی ادارے سے لائسنس حاصل کرلیتی ہے، تو اب وہ لوگوں کو حصہ دار بننے کی دعوت دیتی ہے ،اس عمل کے لئے رائج طریقہٴ کار یہ ہے کہ کمپنی اپنا پورا طریقہٴ کار اور اس کا ترکیبی ڈھانچہ شائع کرتی ہے؛ تاکہ عوام کو بھی اس کمپنی پر اعتماد حاصل ہوسکے ،کمپنی لوگوں کو بنیادی طریقہٴ کار اور متعلقہ امور سے واقف کرانے کے لئے تحریری بیان جاری کرتی ہے، جس کو( Prospectus)کہتے ہیں،کمپنی کے مالکان سرمایہ اکھٹاکرنے کے لئے( SEBI)سے اجازت طلب کرتے ہیں نیز SEBIکی نگرانی میں( Book Building Method)کے مطابق شیئرز کی تعداداوراس کی قیمت متعین کرتے ہیں ، اس کے بعد کمپنی ان شیئرز کو ابتدائی بازار (Primarey Market)میں جاری کرتی ہے ، شیئر ہولڈر اس کو ابتدائی بازار سے خریدنے کے بعد اگر ان شیئرز کو فروخت کرنا چاہے تو وہ ان کو ثانوی بازار(Secondary Market)میں فروخت کرسکتا ہے،”سرمایہ حاصل کرنے کے لئے جو کاغذی دستاویزاسناد کی شکل میں تیار کی جاتی ہیں، ان کو فائنانس کی اصطلاح میں حصص ( Shares)کہتے ہیں ۔“

شیئرز کی بیع کا طریقہٴ کا ر :

            دور حاضر میں شیئر کی خرید وفروخت کا مسئلہ بڑا لطیف ہے، جس کی وضاحت یہ ہے کہ اولاً شیئرز کی خرید و فروخت کے کئی طریقے ہوتے ہیں مثلا ً:

            ۱۔ Spot Sale

            ۲۔Forward Saleوغیرہ وغیرہ۔۔۔

 مگر ہم یہاں پر صرف حاضر سودا (Spot Sale)کے بارے میں تحقیق کریں گے؛ تا کہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ شیئرز پر قبضہ کب متحقق ہوتا ہے۔

            شیئر کی خرید وفروخت کا عام طریقہ جس کو (Spot Sale)حاضر سودا کہا جاتاہے، اس کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ جب کوئی شخص حاضر سودا کرتاہے، توشیئرز کی خرید وفروخت تو فی الحال ہو جاتی ہے، لیکن حاضر سودا (Spot Sale)میں بھی ثمن پر بائع کا قبضہ فورا ًنہیں ہوتا اور نہ ہی مشتری کا قبضہ شیئرز پرفورا ً ہوتا ہے، بلکہ اسٹاک ایکسچینج کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شیئرز کی قیمت بائع کے اکاوٴنٹ میں اور شیئرز مشتری کے ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں پہنچائے اور شیئرز کی منتقلی کی مدت ہر اسٹاک ایکسچینج کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے بعض میں ڈیلیوری( T+1یاT+2)یعنی ایک دن یا دو دن کے بعد ہو تی ہے، اسٹاک ایکسچینج(Stock Exchange)کی جانب سے متعینہ وقت میں حوالگی کا جوعمل ہوتا ہے، اس کو( Delivery)کہا جا تا ہے ، شیئرز کی( Delivery)کا مطلب یہ ہے کہ جس کمپنی کے شیئرز کی بیع ہوتی ہے، اس کمپنی کے دفتر میں ڈیلیوری کے وقت شیئرز کی منتقلی مشتری کے نام ہوتی ہے ۔

 چنانچہ حاضر سودا (Spot sale)کے سلسلہ میں مستند علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ اس سودے میں بھی شیئر کی خریداری کے بعد اس پر قبضہ کرنے یعنی اس کی ڈیلیوری سے پہلے آگے فروخت کرنا جائز نہیں؛کیوں کہ شریعت کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ کسی بھی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

شیئرز کو قبضہ ( Delivery)سے پہلے فروخت کرنا:

            آج کل بعض حضرات کی جانب سے Whatsappپر حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کتاب ”اسلام اور جدید معاشی مسائل“کی جلد سوم سے آدھی ادھوری عبارت لے کر اسی طرح دیگر کتابوں کی چند عبارتیں منتخب کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے نزدیک شیئرزکو قبضہ( Delivery)سے پہلے بیچنا درست ہے؛ کیونکہ شیئرز کی خریداری سے اس کی ملکیت ثابت ہو جاتی ہے ، اب صرف رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ قبضہ مکمل نہیں ہوا اور اس کے تعلق سے یہ عبارت پیش کی جاتی ہے :

            ”جس چیز کو آپ نے خریدا ہے اس چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے فرخت کرنا جائز نہیں ،لیکن قبضہ کے اندر ہمیشہ حسی قبضہ(Physical Possession)ضروری نہیں ہوتا ہے ،بلکہ حکمی قبضہ(Consturctive Possession)بھی اگر ہوجائے یعنی وہ چیز ہمارے ضمان(Risk)میں آجائے تو اس کے بعد اس چیز کو آگے فروخت کرنا جائز ہے ۔“(اسلام اور جدید معاشی مسائل۳/ ۲۴، ۲۵)

            اس عبارت کو صحیح طرح سے نہ سمجھنے کی بناپر بعض حضرات کو یہ گمان ہوگیا کہ شیئرز کے قبضہ یعنی ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں آنے سے پہلے بھی ان کو آگے فروخت کرنا جائز ہے، اس لیے کہ عقد ہوتے ہی شیئر کا نفع اور نقصان مشتری سے متعلق ہو جاتا ہے، یعنی اگر کمپنی کو نقصان ہو جائے تو مشتری کا نقصان ہو گا، اور نفع ہو تو مشتری کو نفع ملے گا، لہذا شیئر کاضمان منتقل ہو گیا، اور ضمان منتقل ہونے کے بعد اس کو آگے فروخت کرنا جائز ہے ،اب رہا مسئلہ شیئرزکے قبضہ یعنی ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں نہ آنے کا تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان خریدے گئے شیئرز کو بائع کے نام سے منتقل کرکے خریدار کے نام پرکرنا باقی ہے، لہذا محض رجسٹرڈ ہونے میں تاخیر کا ہونا قبضہ کے تام ہونے کے لیے مانع نہیں ہے۔

            مزیداپنی بات کی تائید میں یہ حضرات خود حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی ایک اور عبارت بھی نقل کرتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہے:

            ”اس کو ایک مثال سے سمجھئے۔ مثلا ًآپ نے ایک کار خریدی،وہ کار آپ کے پاس آگئی، لیکن جس شخص سے آپ نے خریدی ہے، وہ کار اب تک اسی کے نام پر رجسٹرڈہے،رجسٹریشن تبدیل نہیں کرائی، اب چونکہ آپ کا قبضہ اس کار پر ہوچکا ہے، اس لئے صرف آپ کے نام پر رجسٹرڈ نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ کا قبضہ مکمل نہیں ہوا۔“

(اسلام اور جدید معاشی مسائل۳/ ۲۴، ۲۵)

            ﴿تحقیق﴾ یہ حضرات اس کتاب کی صرف اتنی ہی عبارت نقل کرکے اس بات کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح کار پر قبضہ کرلینے کے بعد رجسٹریشن کی تبدیلی نہ ہونا قبضہ مکمل ہونے سے مانع نہیں ہے، اسی طرح شیئرز خریدنے سے ہی اس پر قبضہ متحقق ہوجاتا ہے یہاں بھی صرف آپ کا نام رجسٹر نہ ہونا قبضہ مکمل ہونے سے مانع نہیں ہے ،حالانکہ حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اس کو بطور مثال پیش کیا ہے اور آگے خود جائزہ لیا ہے کہ جس طرح کار خریدنے کے بعد آدمی کار پر قبضہ کرلے تو آدمی اس کا مالک ہوجاتا ہے صرف رجسٹریشن کی منتقلی قبضہ کے تام ہونے سے مانع نہیں ہے ، تواب سوال یہ ہے کہ کیا یہی کار (Car)کا اصول شیئرز کی خریدوفروخت میں بھی جاری ہوگا یا نہیں،یعنی ڈیلیوری سے قبل صرف شیئرز کی خریداری سے مشتری ان شیئرز کو آگے فروخت کرنے کا از روئے شرع حق دار ہوگا یا نہیں؟ تو اس کے تعلق سے خود حضرت شیخ الاسلام صاحب کی اسی کتاب میں آگے یہ تحریر ہے :

            ”اس طرح شیئرز سرٹیفکٹ ایسے ہی ہیں جیسے رجسٹرڈ کار ،اب سوال یہ ہے کہ کمپنی کا وہ اصل حصہ جس کی شیئرز نمائندگی کررہا ہے وہ اس کی ملکیت میں آگیا یا نہیں ؟اب ظاہر ہے کہ وہ حصہ ایسا نہیں ہے کہ وہ شخص کمپنی میں جا کر اپنا حصہ وصول کرلے، اور اس پر قبضہ کرلے، ایسا کرنا تو ممکن نہیں ہے ،لہذا اصل حصے کے مالک بننے کا مطلب یہ ہے کہ اس حصے کے فوائد و نقصانات ،اس حصے کی ذمہ داریاں(Liabilities) اور اس کے منافع(Profit) کا حقدار بن گیا یا نہیں ؟“

            ”مثلا ًآج میں نے اسٹاک مارکیٹ سے ایک شیئر خریدا،اور ابھی تک شیئر سرٹیفیکیٹ کی وصولیابی یا ڈیلیوری نہیں ہوئی، اس دوران وہ کمپنی بم گرنے سے تباہ ہوگئی، اور اس کا کوئی اثاثہ باقی نہیں بچا،اب سوال یہ ہے کہ یہ نقصان کس کا ہوا؟ اگر یہ نقصان میرا ہوا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شیئر کا رسک میں نے لے لیا، اس صورت میں اس کو آگے فروخت کرسکتا ہوں، اور اگر نقصان میرا نہیں ہوا بلکہ بیچنے والے کا نقصان ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شیئر کا رسک میری طرف منتقل نہیں ہوا تھا۔ اس صورت میں میرے لئے اس شیئر کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں، جب تک شیئر سرٹیفکیٹ پر قبضہ نہ کر لوں۔“

            ”اب سوال یہ ہے کہ حقیقی صورت حال کیا ہے ؟واقعةًشیئرز کے خریدنے کے فوراً بعد اس کارسک(Risk) منتقل (ٹرانسفر)ہو جاتا ہے یا نہیں؟یہ ایک سوال ہے، جس کے جواب میں مجھے ابھی تک قطعی صورت حال معلوم نہیں ہو سکی اس لئے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات اب تک نہیں کہتا۔اور اصول میں نے بتادیا کہ رسک(Risk) منتقل ہونے کی صورت میںآ گے بیچنا جائز ہے، البتہ احتیاط کا تقاضہ بہر صورت یہی ہے کہ جب تک ڈیلیوری نہ مل جائے اس وقت تک آگے فروخت نہ کیا جائے۔“

( اسلام اور جدید معاشی مسائل:۳/۲۵،۲۶)

            مذکورہ بالا عبارت سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے کہ شیئرز کی خریداری سے ہی اس کا رسک خریدا رکی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور شیئرز پر مشتری کا قبضہ متحقق ہوجاتا ہے ،بلکہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس مسئلہ پر کوئی حتمی رائے قائم کرنے کے بجائے اس مسئلہ کو رسک کی منتقلی پر منحصر کردیا، اور آگے خود اپنی رائے بھی بتادی کہ ”البتہ احتیاط کا تقاضہ بہر صورت یہی ہے کہ جب تک ڈیلیوری نہ مل جائے اس وقت تک آگے فروخت نہ کیا جائے“ لہذا مفتی صاحب دامت برکاتہم جیسے اکابر علماء کی آدھی ادھوری عبارتوں کو نقل کرکے ان کی جا نب غلط بات منسوب کرنا یا اس سے غلط استدلال کرنا یا عبارت کواس انداز سے پیش کرنا، جس کی وجہ سے لوگ غیر مشروع امر کو مشروع سمجھنے لگیں شرعاًناجائز ہے ،ایسا کرنے والوں کو چاہیے کہ توبہ واستغفار کریں اور جن لوگوں تک یہ غلط معلومات پہنچائی ہیں ان کو بھی اس سے آگاہ کریں کہ عبارت کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی؛ تاکہ وہ اس سے باز آجائیں ۔

            نیز” اسلام اور جدید معاشی مسائل“ نامی کتاب جس میں مندرجہ بالا تحریر ہے یہ حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے، بلکہ حضرت کا خطاب ہے جسے حضرت نے ایک تجارتی سمینار میں سنہ 2008 سے قبل کیا تھا،جس کو عبداللہ میمن صاحب نے تحریری شکل میں شائع کیا ہے ،جس کی اشاعت اول ہی (ادارہ اسلامیات)سے جون 2008میں ہوئی ہے، البتہ حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی معرکة الآراء تصنیف ”فقہ البیوع علی المذاھب الاربعة“جس کی تکمیل سنہ2014میں ہوئی، اس میں حضرت نے شیئرز کو ڈیلیوری سے قبل آگے فروخت کرنے کے نا جائز ہونے کو ان الفاظ سے شروع کیا ہے:

            ولکن الحقیقة، کما یظھر بالتأمل فی ضوابط البورصة،أن الّذی ینتقل الی المشتری عند العقد ھو ملک الاسھم فقط، أمّا القبض، فانّہ لا یحصل الّا عند التسلیم، ویدلّ علی ذلک دلائل آتیة:

            ترجمہ: لیکن حقیقت یہ ہے جیسا کہ اسٹاک ایکسچینج کے اصول و ضوابط پر غور و فکر کرنے سے ظاہر ہوتاہے کہ شیئرز کی خریداری کے وقت مشتری کی جانب صرف ان شیئرز کی ملکیت منتقل ہوتی ہے، رہا ان شیئرز پر قبضہ تو وہ ڈیلیوری کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے، اس کی دلیل آنے والے دلائل ہیں:

            ﴿پہلی دلیل﴾ ہر چیز کا قبضہ اس پرقبضہ کے عرف کے اعتبار سے ہوتا ہے، اور اسٹاک مارکیٹ اور اس میں معاملہ کرنے والوں کا عرف یہ ہے کہ وہ شیئرز پر قبضہ اسی وقت مانتے ہیں، جب کہ وہ مدت متعینہ میں ڈیلیور ہو اور ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں ظاہر( Show)ہو جائے، اور ڈیلیوری کی اصطلاح ہی اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ قبضہ اس کے بعد ہی ہوتا ہے نہ کہ ڈیلیوری سے پہلے، جیسا کہ مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے اس بات کی صراحت کی ہے فتاوی عثمانی جلد سوم صفحہ ۱۸۴، اور فقہ البیوع جلد ۱صفحہ ۳۸۶ پر۔

             (۱)… قبضُ کلّ شيء یکون بحسبہ في عرف ذلک الشيء، کما تقرّر في الفقہ۔ وانّ عرفَ البورصة والمتعاملین فیھا، أنّھم لا یعتبرون الأسھمَ مُسلّمة الی المشتري الّا عند التسلیم الفعلي الذي یقع في موعدہ، ویُسمّونہ تسلیما (Delivery)وان ھذا الاصطلاحَ فیہ تصریح بأنّ المشتري انما یتسلّم الأسھمَ عند ذلک، لا قبلہ، والتّسلّم ھو القبض ۔

(فقہ البیوع،البیوع الفوریہ للأسھم(spot sale) ، ۱/۳۷۳)(ناشر:دارالمعارف دیوبند)

            ﴿دوسری دلیل﴾ کسی بھی متعین کمپنی کے شیئرز اس کمپنی کے موجود اثاثوں میں حصہٴ مشاع کی نمائندگی کرتے ہیں ؛جیسا کہ اوپر گزرا ،حصہٴ مشاع کی بیع جائز ہے اور اس پر قبضہ تخلیہ کے ذریعہ متحقق ہوتا ہے ، اور تخلیہ اس طور پر ہوکہ مشتری اس سے فائدہ اٹھانے اور دیگر تصرف کرنے پر قادر ہوجائے اور یہ قدرت شیئرز کے خریدار کو ڈیلیوری کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ،حتی کہ ڈیلیوری سے پہلے اس کو شیئر کا مالک ہی نہیں سمجھا جاتا، یہی وجہ ہے کہ اگر شیئرز کی ڈیلیوری سے قبل سالانہ میٹنگ (A.G.M) منعقد ہو جائے تو مشتری کو اس میں آواز اٹھانے کا بھی حق نہیں ہوتا؛ کیونکہ خود کمپنی خریدارکو اس کے ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں شیئرز کے ڈیلیور ہونے سے پہلے اس کو مالک ہی تسلیم نہیں کرتی۔

            مزید یہ کہ اگر اس مدت میں یعنی شیئرز کی خریداری اور ان کی ڈیلیوری کی درمیان نفع (Devidend)تقسیم ہو جائے، تو کمپنی اس نفع کو مالک قدیم یعنی بائع ہی کو دیتی ہے نہ کہ مشتری جدید کو،کیونکہ شیئر مارکیٹ کے اصول کے مطابق اب تک خریدار کی طرف تمام مالکانہ حقوق منتقل نہیں ہوئے۔

            ( ۲)… ان سھم شرکة معینة یمثّل حصة شائعة في جمیع موجودات الشرکة، کما تقدم، وان بیع الحصة المشاعة جائز ویتحقق قبضھا بالتخلیة، بأن یتمکن المشتري من الانتفاع بہ أو من التصرف فیہ متی شاء، وان ھذا التمکن لا یحصل لمشتري الأسھم الا بعد التسلیم، لأنہ لا یُعتبر حاملاً لأسھم الشرکة قبل ذلک،ولھذا لو انعقدت الجمعیة العمومیة قبل موعد التسلیم، فانّہ لایحق لہ أن یصوّت فیھا، لأنہ لم تعترف الشرکة بعدُ أنہ حامل لأسھمھا۔وکذلک لو وُزّع ربح الشرکة، فانّ الشرکة توزّعھا علی البائع (المالک القدیم)،وان کان البائع یرُدّ ذلک الرّبحَ الی المشتري بحکمِ انتقال الملک الیہ۔

 (فقہ البیوع،البیوع الفوریہ للأسھم(spot sale) ، ۱/۳۷۴)(ناشر:دارالمعارف دیوبند)

            ﴿تیسری دلیل﴾ اسٹاک مارکیٹ کے ضوابط میں یہ بھی صراحت ہے کہ اگر بائع تخلف اختیار کرے یعنی وقت مقررہ پر ڈیلیوری سے انکار کردے تو مشتری کو اسٹاک ایکسچینج سے شیئر خریدنے کا حق ہوتا ہے جس کو (Buy in)کہتے ہیں، اوربازار سے خریدنے کی صورت میں اگر مشتری کو نقصان ہوتا ہے، تو اس نقصان کی بھر پائی بائع کے ذمہ لازم ہوتی ہے،مثلا ً زید نے حامد سے بروز پیر کسی کمپنی کے دس شیئرز ہزار روپئے میں خریدے(ایک شیئر سو روپئے کے اعتبار سے ) اور شیئر بازار کے اصول T+2کے مطابق خریدے گئے، شیئرز زید کے ڈیمیٹ اکاوٴنٹ میں بدھ(Wednesday)کے دن آئیں گے، لیکن حامد بروز منگل زید کو اس کے خریدے گئے شیئرز ڈیلیور کرنے سے انکار کرتا ہے، تو اسٹاک ایکسچینج زید کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اسی کمپنی کے شیئرز بازار سے دوبارہ خریدلے، البتہ اس دوسری خریداری پر زید کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑی تو اس زیادتی کو حامد سے لے سکتا ہے،اسٹاک ایکسچینج کا یہ اصول اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مشتری کا قبضہ ڈیلیوری کے بعد ہی متحقق ہوتا ہے، کیوں کہ اگر قبضہ پہلے ہی ہو جاتا تو بائع کے تخلف وانکار کا سوال ہی نہیں ہوتا۔

            (۳)… تصرح ضوابط البورصة انہ لو تخلّف البائع من التسلیم فی موعدہ فإنہ یحق للمشتری أن یشتري تلک الأسہم من السوق وتسمی ہذہ العملیة( Buy In)ولئن اضطر المشتري إلی دفع ثمن أکثر من الثمن المتفق علیہ مع البائع، فإن البائع یجبر ضررہ بدفع الفرق الیہ، وہذا دلیل واضح علی أن المشتري لم یکن تسلم الأسہم إلی موعد التسلیم، وإلا فلم تکن ہناک امکانیة التخلف من قبل البائع۔ لأن تخلف البائع انما یتصور فی صورتین: إما أن یکون قد باع ما لم یملکہ، ولم یقدر علی تملّکہا عند التسلیم، وإن بطلان البیع فی ہذا الصورة واضح کما تقدم، وإما أن یکون مالکا للأسہم عند العقد، ولکن تغیر رأیہ عند التسلیم، وأراد أن یبیعہا إلی شخص آخر وہذا یدل علی أنہ لم یکن سلّم تلک الأسہم إلی المشتری، وإلا لم یمکن لہ تغییر رأیہ وبیعہا إلی آخر، ولما احتاج المشتري أن یشتریہا من السوق۔فبہذہ الوجوہ یتضح أن قبض المشتري علی الأسہم لا یتحقق قبل التسلیم۔

(فقہ البیوع،البیوع الفوریہ للأسھم(spot sale) ، ۱/۳۷۴)(ناشر:دارالمعارف دیوبند)

            مذکورہ بالا وجوہات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیئر پر مشتری کا قبضہ ڈیلیوری کے بعد ہی ثابت ہوتا ہے۔

کیا حصہ مشاع کو قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں:

            بعض حضرات شیئرز کے قبضہ(Delivery) سے قبل اس کو آگے فروخت کرنے کے جواز پربطور دلیل یہ عبارت بھی پیش کرتے ہیں:

            ”(۵۱) مبیع کا مشترک( مشاع) ہونا اس کے معلوم ہونے کے منافی نہیں ہے۔پس عمارت،زمین یا سامان میں حصہ مشترک بیچنا جائز ہے،بشرطیکہ اپنا حصہ نہ بیچنے والے شریک کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔“

            یہ حضرات مذکورہ بالا عبارت کو Whatsapp وغیرہ سوشیل میڈیا میں سرکولیٹ کرتے ہیں،اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شیئرزکی بیع چونکہ ایک حصہ مشاع کی بیع ہے ،لہذا حصہ مشترک کو قبضہ سے قبل بیچنا جائز ہے صرف شرط یہ ہے کہ دوسرے شریک کو ضرر نہ ہو، لیکن اس عبارت کو شیئرز کے قبضہ سے قبل فروخت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کرنا ہی درست نہیں،کیونکہ خود حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے شیئرز کے حصہ مشاع ہونے کے سلسلہ میں تحقیق پیش کرتے ہوئے اپنے فتاویٰ ”فتاویٰ عثمانی“میں خاصا تفصیلی جواب دیا ہے ،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

 شیئرز(حصص)کی بیع حقیقت میں کمپنی کے غیر متعین یعنی مشاع حصوں کی بیع ہے، جس کو فقہی اصطلاح میں ”بیع المشاع“کہتے ہیں یعنی ایک غیر متعین چیز کی بیع، اور غیر متعین چیز میں حسی قبضہ ممکن نہیں ہوتابلکہ تخلیہ اور تمکین سے ہی قبضہ کا مقصود حاصل ہوتا ہے، چونکہ شیئرز کی خرید وفروخت میں تخلیہ اور تمکین کا تحقق شیئرز کی ڈیلیوری سے ہی حاصل ہوتاہے، لہذا شیئرز کے خریدار کے لئے اس وقت تک شیئرز کو بیچنا جائز نہیں ہے جب تک کہ ڈیلیوری نہ ملے، اور انٹراڈے ٹریڈنگ میں چونکہ خریدار کے لئے جس دن خریدا جائے اسی دن بیچنا لازم ہے، اس لئے یہ بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔

 (مزید تفصیلات کے لئے ”فتاوی عثمانی “جلد نمبر۳ صفحہ نمبر۱۷۸ تا ۱۸۹، ملاحظہ فرمائیں )

شیئرز کی بیع قبضہ (Delivery) سے قبل آگے فروخت کرنے کو بیع سلم پر قیاس کرنا:

            شیئرز کی بیع قبل القبض جائز کہنے والے بعض لوگوں کو یہ جاہلانہ سوال کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا کہ شریعت میں جس طرح بیع سلم میں مبیع کو قبضہ اور اس کی ملکیت کے بغیر ہی بیچنا جائز ہے، تو اس پر قیاس کرتے ہوئے شیئرز کی بیع بھی قبل القبض آگے فروخت کرنا جائز ہونا چاہئے۔

            اس سلسلہ میں تفصیلی جواب ذکر کرنا ہی بے جا ہے کیوں کہ یہ بات سبھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ شریعت مطہرہ نے ”بیع سلم“ کو خلاف قیاس اور لوگوں کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے جائز قرار دیا ہے اور فقہ کا اصول یہ ہے کہ جو چیزکسی معاملہ میں خلافِ قیاس ثابت ہو،اس کو اسی تک ہی محدود رکھا جائے گا نہ کہ اس خلاف قیاس ثابت چیز پر قیاس کرتے ہوئے ہر معاملہ کو اسی کے مطابق مشروع قرار دیا جائے، لہذا حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنی مایہ ناز تصنیف”فقہ البیوع“ میں بیع سلم پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ کاسانی  کا یہ قول نقل کیا ہے:

            ”لِاَنّ جَوَازَ البَیعِ مَعَ شَرطِ الخِیَارِ فِی الاَصلِ ثَبَتَ مَعدُولاً بِہِ عَن القِیَاسِ، لِاَنہُ شَرطٌ یُخَالِفُ مُقتَضَی العَقدِ بِثُبُوتِ الحُکمِ لِلحَالِ،اِلَّا اَنَّا عَرَفنَا جَوَازَہُ بِالنَّصِّ، والنَّصُّ وَرَدَ فِی بَیعِ العَینِ فَبَقِیَ مَا وَرَاءَ ہُ عَلَی اَصلِ القِیَاسِ، خُصُوصاً اِذَا لَم یَکُن فِی مَعنَاہُ، وَالسّلمُ لَیسَ فِی مَعنیَ بَیعِ العَینِ فِیمَا شُرِعَ لَہ الخِیَارُ، لِاَنَّہُ شُرِعَ لِدَفعِ الغَبنِ، وَالسَّلَمُ مَبنَاہُ عَلَی الغَبنِ وَوَکسِ الثَّمَنِ،لِاَنَّہُ بَیعُ المَفَالِیسِ فَلَم یَکُن فِی مَعنَی مَورِدِ النَّصِّ۔

(فقہ البیوع، ۱/۵۴۷)(ناشر:دارالمعارف دیوبند)

            ” بیع مطلق میں خیار شرط کا جواز خلاف ِقیاس تھا؛ کیوں کہ یہ مقتضائے عقد کے خلاف شرط ہے؛ مگر نص کی وجہ سے اس کو جائز قرار دیا گیا، اور نص بیع عین میں وارد ہوئی ہے، لہذا جو بیع اس کے علاوہ ہو اس میں قیاس پر ہی عمل کیا جائے گا، بالخصوص جبکہ وہ اس کے معنی میں بھی نہ ہو، اور سلم بیع عین کے معنی میں نہیں ہے؛ کیوں کہ خیارِشرط کی مشروعیت دفع ِغبن کے لئے ہوئی ہے، اور سلم کی بنیاد ہی غبن اور ثمن کی کمی پر ہے؛ کیوں کہ یہ مفلسوں کی بیع ہے، لہذا یہ مورد ِنص کے تحت داخل نہ ہوگا۔“

قبضہ (Delivery)سے قبل نفع ونقصان کا مشتری کی جانب منتقل ہونا :

            بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب مشتری کسی کمپنی کے شیئرز خریدتا ہے اور ڈیلیوری سے قبل ان شیئرز کی قیمت گھٹتی ہے یا بڑھتی ہے تو اس کا اثر مشتری ہی پر پڑتا ہے نہ کہ بائع پر تو کیاشیئرزکے نفع ونقصان مشتری کی جانب منتقل ہو جانے کے باوجود قبضہ تام نہیں ہو تا؟

            اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اپنی مایہ ناز تصنیف”فقہ البیوع“ میں تحریر فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:

            ” صرف شیئرز کی بیع سے ہی اس کے سارے حقوق اور التزامات مشتری کی جانب منتقل نہیں ہوجاتے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قبضہ(ڈیلیوری) سے پہلے شیئرز کا نفع و نقصان مشتری کی جانب منتقل ہوجاتا ہے یعنی شیئرز کے خریدنے کے بعد قبضہ سے پہلے اگران شیئرز کی قیمت گھٹتی ہے یا بڑھتی ہے تو اس کا اثر مشتری پر ہوتا ہے نہ کہ بائع پر ، لہذایہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیع سے ہی اس کے سارے حقوق اور التزامات مشتری کی جانب منتقل ہوجاتے ہیں، صحیح نہیں۔ اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے کار (Car)خریدی اور اس کار پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کی قیمت گھٹ گئی یا بڑھ گئی تو اس کا نقصان یا نفع تو مشتری ہی برداشت کرتا ہے؛ لیکن صرف اس کار کے نفع یا نقصان کا مشتری کے برداشت کرنے کی بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ محض اس وجہ سے وہ قابض بھی ہوگیاہے۔

            أما ما یقال إن حقوق السہم والتزاماتہ تنتقل إلی المشتری بمجرد العقد، فإن ذلک لیس بصحیح، کما أوضحناہ فی النقاط المارة، وإنما یقال ذلک بمعنی أنہ إن انخفضت قیمة السہم قبل التسلیم، فإن المتضرر ہو المشتری ، وإن زادت قیمتہ، فإن الرابح ہو المشتری، دون البائع۔ ومجرد ہذا الأمر لا یکفی لانتقال الحقوق والالتزامات۔ فلو اشتری أحد سیارة ببیع صحیح، ولم یقبضہا، ووقع التغیر فی قیمتہا السوقیة قبل القبض، فإن المستفید أو المتضرر بہذا التغیر ہو المشتری، ولیس البائع، ولکن لا یمکن أن یقال: إن ہذہ الاستفادة أو التضرر یقوم مقام القبض۔

            والحاصل من ہذا الدراسة أن من اشتری سہما، فإنہ لا یجوز لہ شرعا أن یبیعہ قبل التسلیم الفعلی الذی یتم فی موعدہ۔ وہذا من اقوی الأسباب لتفادي المضاربات التی تقع في سوق الأسہم علی أساس التخمین، والتی أفسدت النظام کلہ، واللہ سبحانہ وتعالی أعلم۔

(فقہ البیوع،البیوع الفوریہ للأسھم(spot sale) ، ۱/۳۷۳- ۳۷۵)(ناشر:دارالمعارف دیوبند)

            لہٰذاقبضہ سے پہلے ان شیئرز کے نفع و نقصان مشتری کی جانب منتقل ہونے کے باوجود قبضہ مکمل نہیں ہوگا، اور جب تک خریدی ہوئی چیز پر قبضہ تام نہیں ہوتا، اس وقت تک اس کو آگے فروخت کرنا جائز نہیں۔

            اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ شیئر کے خریدار کے لئے تسلیم(Delivery) سے قبل کسی اور کو شیئر فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

بندہ محمد سلمان مظاہری 

ناظم: مرکزالاقتصاد الاسلامی،وانمباڑی، انڈیا