شہ سوارِ تعبیرات کے تعبیری جواہر پارے

یعنی:…مفکر ملت حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودروی رحمۃ اللہ علیہ کی ادیبانہ شان

مولاناعبدالرحیم فلاحی ؔ

استاذِتفسیروحدیث جامعہ اکل کوا

                اللہ تعالیٰ نے اپنے مضبوط ومستحکم نظام کے تحت ہرفردِ بشرخواہ نبی ہویاغیرنبی،اہل علم ہویاغیراہل علم،شاہ ہویاگدا،تاجرہویاغیرتاجر،معالج ہویامریض،شہری ہویادیہاتی ہرایک کواس کے معیارپرایک خاص صلاحیت بخشی ہے ،جسے ناطقانہ صلاحیت،تکلم وتعبیراورنطق وگفتارکی صلاحیت سے تعبیرکیاجاتاہے ؛یہ صلاحیت ہرانسان کے لیے انفرادی خاصہ اورامتیازی خصوصیت ہے۔انسان اپنے مافی الضمیرکوبہترسے بہترانداز میں تعبیرکرنے کی صلاحیت ہی کی وجہ سے’’حیوانِ ناطق‘‘کہلاتاہے۔تاہم حسن ِتعبیرکی یہ نعمت علاقہ وخطہ کے اعتبارسے اورکمیت وکیفیت کے زاویے سے مختلف ہوتی ہے،کوئی اس میںمحنت شاقہ،جہدمسلسل اورمساعی ٔجمیلہ کے ساتھ وابستہ رہتاہے توخواہ وہ ناخواندہ وپسماندہ علاقہ کاگم نام فردہو تعبیری دنیا کا آفتاب وماہتاب بن کر ابھرتاہے اورکبھی کبھی خطۂ ادبا کا فرداپنی غفلت وکوتاہی کے سبب،حسنِ تعبیروحسن اداء کی دولت سے یکسرمحروم رہتاہے۔

                ہمارے حضرت مفکرِقوم وملتؒ باوجوداس کے کہ علاقۂ گجرات بل کہ وسطِ گجرات مابین البحرین (دریائے نرمداوتاپتی)سے تعلق رکھتے ہیں، جوفطری طورپر حسن ادا کی خوبیوںسے محروم اورحسن ادب کی لطافت ونزاکت اورتعبیری بانکپن میں کوئی خاص درک نہیںرکھتابل کہ ’ت‘کی جگہ ’ٹ‘اور ’د‘کی جگہ’ڈ‘کے تلفظ میںاس خطہ کوایک شناخت حاصل ہے۔ایسے میںبرماکی سرزمین پر۱۹۳۳ء میںآنکھیںکھولنے والے ہمارے حضرت نے  ۱۹۴۴ء میں کاپودراجیسی گمنام بستی کوشرفِ قدوم بخشااورپھراسے اپنے حسن کلام وحسن انتظام ،حسن اخلاق اورحسن سلوک کے ذریعہ ’’گلشن کاپودرا ‘‘ بنا دیاتھا؛وہاں ابتدائی سرکار ی اور مکتبی تعلیم سے فراغت کے بعدجامعہ ڈابھیل میںابتدائی عربی پڑھتے پڑھتے دارالعلوم دیوبندپہنچے اوروہاں اکابرین مشائخ سے کسبِ فیض کیا لیکن سوئے قسمتی کہ کچھ دنوںکے لیے تعلیمی سلسلہ انقطاع ہوگیا۔

                پھردوبارہ جامعہ ڈابھیل میںداخلہ لے کر وہیں سے فراغت حاصل کی،فراغت کے بعدمجلس خدام الدین سے منسلک رہ کر دین کی خدمت کی اورکبھی اتالیق ابناء گارڈ ی توکبھی جامعہ ڈابھیل کے استاذعربی اورمعاون مہتمم بن کر،کبھی جامعہ فلا ح دارین کے مدیرسے لے کر مہتمم بل کہ منصب ریاست پرجلوہ افروزہوکرتوکبھی ریاست وامارت سے منقطع ہوکر سرپرست اورنگران ِاعلیٰ اور مشیراعزاز ی اوررکن شوریٰ کے اعزازپرپہنچ کر اپنی حیات مستعارکو خیرالناس من ینفع الناسکاعکسِ جمیل بنا کراوراپنے اخلاف کے لیے اسوہ بن کر دنیاسے ایسے تشریف لے جاتے ہیں کہ حضر ت مرحوم کی حیات بافیض کے جس گوشہ کواٹھایاجائے ہرگوشہ عبر ت خیزی اورسبق آموزی سے مملوء نظرآتاہے۔

                اس ناچیزکواپنے بزرگوںکی زندگی اوراداؤںسے محبت کی بنا پراس کا شوق ہے(اورخداکرے کہ یہ شوق تادم حیات باقی رہے)کہ ان کی ادائے دل نواز کوپڑھ پڑھ اوردیکھ دیکھ کر، حتی المقدوران کو اخذ کرنے کی کوشش بل کہ تبلیغ بھی کروں۔

زبان وقلم اور تعبیرات پر مہارت:

                ہمارے حضرت رئیس کے مزاج عالی میں بڑا حسن ِاخلاق وحسن ِانتظام تھا،بر وقت ہر کام ہر لمحہ ہرپل فعال، مشغول رہو اور مشغول رکھو،کام کرو اور کام کے بناؤ،بل کہ ’’چوںشمع از پئے علم باید گداخت‘‘کا عملی نمونہ اور ’’بے علم نہ تواں خدارا شناخت‘‘کا حقیقی مبلغ ،تمام پہلؤوں سے آپ آراستہ تھے ۔اللہ نے ہر قسم کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ تحریروتقریرکی دودھاری تلوار اور خشک اور عام مضمون کو حسنِ تعبیر کی ادائے دل نواز سے ایسا وافر حصہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کے حسنِ تعبیر کے سامنے بڑے بڑے اُدبا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور؛بل کہ آپ کی حسنِ تعبیرپر فداہوجاتے۔آپ عام گفتگو کر رہے ہوںیاخطیبانہ شان سے خطاب فرمارہے ہوں،انتظامی گتھیوں کو سلجھا رہے ہوں یاتعزیتی تجاویزپیش فرمارہے ہوں،طلبہ میں تربیتی گفتگو یاعلما میںعلمی مذاکرہ فرما رہے ہوں ،دانشوروں کے درمیان دانشمندانہ موضوع چھیڑے ہوئے ہوں یامقالات ومضامین کی شکل میں نثر نگاری فرما رہے ہوں، اپنے بڑوں کے حسین تذکروں پر قلم چلا رہے ہوں یادیوانِ امام شافعیؒ کے مترجم بن کر ترجمہ نگاری پر فن کاری فرمارہے ہوں،علامہ بدر الد ین عینیؔ کا علم حدیث میں مقام؛کو آشکارا فرمارہے ہوںیاعلامہ یوسف بنوری ؒ کی محدثانہ شان کو اجاگرکررہے ہوں،رشدوہدایت کے میناروں کو چمکارہے ہوں یا افکارِ پریشاں کو ایک لڑی میں پرو رہے ہوں،نیزعربی میں ہو یاغیر عربی(اردو اور گجراتی)میں،ہرموقع پر حسن ِتعبیر کے جوہرسے دل کوموہ لینے والی تعبیرات کو کبھی اپنے سے جدا نہ کیا بل کہ یہ ذوقِ ادیبانہ عمر وسن کی ترقی کے ساتھ ہمیشہ ترقی ہی کرتا رہا۔

                چو ں کہ سردست حضرت مرحوم جیسی شش جہات شخصیت کا ہرجہت سے تعارف کرانا مقصود نہیں ہے، بل کہ آپ کی بلیغانہ وفصیحانہ تعبیرات ، جو آپ کے خطابات ومجالس اور مقالات ومضامین میں پنہاںہیں۔ان ہی کومیں نے موضوع بنایا ہے تاکہ ادبی اور تعبیراتی ذوق رکھنے والے افراد کے لیے سامانِ تسکین بھی ہو اور سامانِ عبرت بھی۔اور ہم طلبہ بھی اسی نقشِ قدم پر عمل پیرا ہوں، آپ کی تعبیرات کے حسن کا جائزہ لینے کے لیے تو دفتر کے دفتر درکار ہیں،جوآپ کی تصنیفات وخطابات کی شکل میں موجود ہیں،تاہم’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر چند تعبیرات قارئین کے نظر نواز کی جارہی ہیں۔

انتظامی حسن ِتعبیرات کے نمونے:

(۱)…       ایک مرتبہ ایک ادارے میں بطور ہدیہ ایک کتاب روانہ فرمائی، لیکن ادارے کے مسئول کی طرف سے نہ کتاب کی دستیابی کی اطلاع آئی نہ کسی قسم کی شکرگزاری،تو اس پر آپ نے بذاتِ خودبذریعہ فون رابطہ کرکے دریافت کیاکہ:

                ’’ بروز جمعہ آپ کے ادارے کے ایک مدرس کی معرفت ادارے کے لیے ایک کتاب روانہ کی تھی؛ شاید آپ کو دستیاب ہوگئی ہوگی۔ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے کثرتِ مشاغل اور مصروفیت کی وجہ سے اطلاع نہ کرپائے ہوںتو میں نے سوچا کہ میں ہی آپ کی خیر خبر لے لوں‘‘

                دیکھیے کتنے لطیف انداز میں کتاب کی رسید نہ ملنے پر تنبیہ کی۔

(۲)…       ایک مرتبہ ایک دسترخوان پرکھاناتناول فرمارہے تھے ،کھانے میںنمک کم تھااب یہ ظاہر کرناکہ ہمیںنمک کی ضرورت ہے یاکھانے میں نمک نہیںیاکم ہے،یہ تعبیرکبھی خانہ جنگی کا باعث بن سکتی ہے،تونہایت محتاط اندازمیںارشادفرمایاکہ

                ’’ ہم لوگ کھانے میںنمک کچھ زیادہ ہی استعمال کرتے ہیں‘‘

                اس انوکھی تعبیرنے نمک کی ضرورت بھی پوری کردی ،اور خانہ جنگی سے حفاظت بھی اورساتھ ساتھ تعبیری کشش بھی اپنی جگہ برقرار۔

(۳)…اسی طرح ایک مرتبہ ایک ایسے علاقہ میںتشریف لے گئے، جس علاقہ میںمرچ کااستعمال بے رحمی سے (بہت زیادہ)ہوتاہے۔دسترخوان لگایاگیا،کثرتِ مرچ نے اپنا جلوہ دکھاناشروع کیا،لیموںکی ترشی سے ہی اس کا ازالہ کیاجاسکتاہے،تودیکھیے اس حسنِ تعبیرکے بے تاج بادشاہ نے کس حسنِ اسلوبی سے اپنی اس ضرورت کااحساس میزبان کودلایا،جس کی وجہ سے بات کی بات بھی ہوگئی اورضرورت کی تکمیل بھی۔فرمانے لگے:

                 ’’اصل میں ہم لوگ ایسے علاقہ کے باشندے ہیںجہاںمرچ کااستعمال کم ہی ہوتاہے،اگرلیموںموجودہوتویہ تلخی، ترشی میںتبدیل ہوجائے گی‘‘۔

(۴)…       آپ کے دورِاہتمام کاطرۂ امتیازیہ رہاکہ آپ حضرمیںہوتے ہوئے کبھی بھی فجراورعصرکی نماز مسجد فلاح دارین کے علاوہ کسی اورجگہ ادانہ فرماتے اورمطبخ میںپابندی سے دوپہراورشام کے کھانے پربہ نفسِ نفیس حاضرہوکروقتی تعبیری الفاظ وآداب سے طلبہ کو متنبہ فرماتے،مثلاً:کھانوں میں چاو ل مختلف پکوان کے لیے ہوتاہے ،طلبہ سے فرماتے کہ:

                ’’کھچڑی،دھان وغیرہ کی بجائے چاول ہی کالفظ استعمال کرو‘‘

                ’’اور کڑھی، دال،مونگ گو شت وغیرہ کے لیے صرف ’’سالن‘‘ کے عمومی لفظ کے استعمال پراتنازوردیتے کہ ہرنیاطالب علم ،قدیم طلبا سے اس تعبیرکوبہ آسانی اخذ کرلیتا‘‘۔

(۵)…       اگرکوئی استاذ اپنے وقتِ مقررہ پردرس گاہ نہ پہنچتا، توکسی طرح اپنے گشت کے دوران درس گاہ پہنچ کرمصروفِ درس ہوجاتے اوراستاذکے تاخیرسے آنے پرصرف اتنافرماتے کہ:

                 ’’شایدآپ کسی ضروری کام میںمصروف ہیں،میںطلبا کے ساتھ کچھ دیرگپ شپ کرلوں؛تاکہ طلبا انتظارکی زحمت سے بچ جائیں‘‘۔

                یہ تووہ لفظی اوروقتی اورانتظامی تعبیرات ہیںجوگویاآپ کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں اورالفاظ، سانچے میںڈھل ڈھل کر ادبی جواہرپارے بن رہے تھے،لیکن آپ کی حسن تعبیرکااصل رنگ توآپ کے مضامین ومقالات میں ایسے اوراتنے ہیں کہ آپ کی ایک تعبیرپردل بلیوں اچھلنے لگتا ہے، چناںچہ’’ آپ کا حسن تعبیر،مقالات ومضامین میں‘‘کے عنوان سے چندتعبیرات پیش خدمت ہیں۔

 آپ کا حسن تعبیر،مقالات ومضامین میں:

(۱)…       آپ نے ایک بہت ہی مفید کتاب بنام’’رشدوہدایت کے مینار‘‘ ترتیب دی ،جس میںان عبقری شخصیات کاذکرِجمیل ہے،جن سے حضر تِ مرحوم نے تلمیذانہ یا مریدانہ یاکسی کے آستانہ پرپہنچ کر کسی طرح کا کوئی کسب فیض کیاہے۔اس کتاب کاتعارف کراتے ہوئے کہ افادیت اورشخصیت کی تعمیر میں کن کن مراحل سے گذرنا پڑتاہے،اس کوحضرت علامؒ نے کس حسن اسلوبی سے تعبیرفرمایاہے ،ملاحظہ کریں:

                ’’یہ علماء کرام کا مختصرتذکرہ میں نے اسی غرض سے تحریر کیاہے تاکہ قارئین کواندازہ ہوکہ جب تک آدمی صدہااہلِ علم سے ملاقات نہ کرے اوران سے مستفیدنہ ہو؛وہاںتک اس کے سامنے علمی آفاق روشن نہیںہوتے اورنہ اسے بلوغ ہوپاتاہے ‘‘۔(ص:۱۷؍)

(۲)…       اسی طرح محسنین کی احسان شناسی اورشکرگزاری کاجذبہ پوری طرح اللہ نے ودیعت فرمایاتھا،مگریہ جذبہ تملق اورچاپلوسی سے بالکل خالی اورعاری ہوتاتھا؛چناںچہ اپنے ایک ایسے محسن جن کا حسنِ تعاون کئی کتابوں کی طباعت کے سلسلے میں ہواان کی شکرگزاری کے الفاظ کتنے حسین پیرا یہ میںاستعمال فرمایاہے،جس میں تعاون حالی اور ماضی دونوں کی شکرگزاری ہے ،ملاحظہ فرمائیں:

                ’’نیز بہت ہی شکرگزار ہوں جناب حاجی شبیر احمد لولات صاحب کاپودروی زیدہ مجدہم مقیم حال زامبیا کا کہ جنہوں نے اپنی قدیم روایت کے مطابق اس کتاب کی طباعت میں بھی اپنا قیمتی تعاون پیش فرمایا۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء‘‘

(۳)…       اپنے مکتب ِاول کے استاذ( جن کو آدمی بلندیوںپرپہنچنے کے بعد بالکل فراموش کردیتا ہے)کاذکرِ جمیل کتنے حسین پیرایہ میں فرماتے ہیں۔ آپ رقم طراز ہیں کہ:

                ’’میرے سب سے پہلے استاذ اورمربی جناب حافظ ابراہیم بن اسماعیل صاحب ملاّساکن عمر واڑہ جن کی شفقتوں نے میرے لیے قرآن مجید اور دینی تعلیم کے حصول کو آسان بنادیا‘‘

                کاش ان کی روح تک یہ حسین احسان شناسی سے لبریز تعبیر، رسائی کرپاتی توان کی روح اپنے اس باوفا شاگرد کی،دارین کی ترقی کے لیے مزیدمچلتی۔

(۴)…       نیز اپنے اس معلم ِاول کی اصول پسندی،باز پرسی،حتی کہ گوش مالی کی منظر کشی بھی کرتے ہیں،ایک ہلکی سی جھلک ملاحظہ فرمائیں:

                ’’گاؤں میں ہرشخص ان کو عزت کی نظر سے دیکھتا تھا باوجود خوش خلقی کے ،بچوں پر رعب کا یہ حال تھا کہ حافظ صاحب کے مسجد جانے یا آنے کے وقت محلے میں کھیلنے کی ہمت نہیں ہوسکتی تھی،اگر کسی کونازیبا حرکت کرتے د یکھ لیتے تو گوش مالی فرماتے، سبق یاد نہ ہونے پر سزا بھی ہوتی تھی‘‘۔

                ’’کسی مکتب کے استاذ کا اہلِ قریہ سے تعلق مفاد پرستی کا نہ ہوتو وہ ہردل عزیز بن سکتا ہے۔مکتب کے بچوں کی تربیت کا ذوق ہوتوبچے محبت بھرا سلوک بل کہ عزت بھرا سلوک کرتے ہیں اور جب مخلص استاذ،بے غرض کسی کی اولاد کے ساتھ تادیبی کارروائی کرتا ہے تو ان کے و الدین شکوہ شکایت کے بجائے شاکرانہ معاملہ فرماتے ہیں‘‘۔

(۵)…       جامعہ ڈابھیل کے درجۂ فارسی کے ایک استاذمحترم کی مدتِ تدریس اور غیر ملکی سفر کی عکاسی جس جامع پیرایہ میں فرمائی یہ آپ ہی کا امتیاز اور خصوصیت ہے، فرماتے ہیں:

                ’’موصوف کا زمانۂ تدریس مختصر رہا ،ڈابھیل کے بعد جزائر ِغرب الہند کے جزیرۂ باربادوز تشریف لے گئے اور دینی خدما ت تاحیات انجام دیتے رہے؛باربادوز میں انتقال ہوااور وہیں مدفون ہوئے رحمۃاللہ علیہ رحمۃواسعۃ‘‘

                ذرا مذکورہ حسنِ تعبیر کو عبرت آمیز نگاہ سے مطالعہ کرتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں کہ استاذ محترم کی ایک سالہ مدتِ تدریس کو ذکر نے کے بجائے لفظ مختصر سے تعبیر فرمایا۔باربادوزجس کوعام طور پر ایک ملک یاکنٹری سے تعبیر کیا جاتاہے اس کو جزیرۂ غرب الہند سے تعبیر فرمایا۔دینی خدمات تا آخر حیا ت انجام دیتے رہے سے، تعبیر فرماکر ان کے حسنِ خاتمہ کا بھی اشارہ فرمادیا جوکامیاب زندگی کا لب لباب ہے۔

(۶)…       اپنے ایک محسن اور بافیض استاذ حضرت مولانا عبدالحئ بسم اللہ ڈابھیلی سے موسوم،فارسی دوم کے ضابطہ کے استاذ لیکن اردو فارسی کا ادبی ذوق اور مطالعۂ کتب کا شوق دلانے، آدابِ مجلس کے گُرسکھانے والے،بل کہ’’ الفاروق،سیرت عمر بن عبدالعزیز ‘‘کے مطالعہ کی ترغیب دینے وا لے اور اخلاق محسنی اور یوسف زلیخا کے رابطہ کے بااخلاق استاذکی صلاحیت ،صالحیت،قابلیت اور غربت کا نقشہ، ایسے دل آویز انداز میں کھینچا کہ کوئی فنی اور ذوقی ادیب اس کی لطافت سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،تحریر فرماتے ہیں کہ:

                ’’موصوف بزرگوں سے خط وکتابت اور تجاویز مرتب کر نے کاڈھنگ بھی سکھلاتے رہے،مہمان نوازی گھٹی میں پڑی تھی،کشادہ دست نہیں تھے ،مگر کبھی شکوہ شکایت یااظہارِ غم کرتے نہیں دیکھا،بندے کو اپنے فرزندوں میں شمار کرتے‘‘

                اس پیراگراف کومکرر سہ کرر پڑھئے ،کہ فارسی کے استاذ سے حاصل کیے کمالات کو کس خوش اسلوبی سے تعبیر کرتے ہیں،نیزکشا د ہ دست نہیں تھے،کی لطیف تعبیر پر سر دھنیے کیا کوئی صاحب ِذوق ادیب استاذ کی غربت ِمالی کو اس حسین پیرایہ میں پیش کرتاہے؟

(۷)…       حضرت مفکرملت رحمۃ اللہ علیہ نے علاوہ ان بزرگوں کے مولانا محمدپانڈورصاحب سملکیؔؒ،حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دیوبند یؔ ؒ، حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب پشاوریؔؒ،حضرت مولانا عبدالجبار صاحب اعظمیؒمعروفیؔ،حضرت قاری بندہ الٰہی ؔصاحبؒاورقاری محمدحسن صاحب امروہو یؔؒ جیسی شخصیات سے متوسطات سے لے کر علیا تک کی کتابیں پڑھیں اور اپنی تشنہ لبی کو دور کرتے ہوئے دامن مراد کو گوہر مقصود سے لبریز کرتے رہے؛ اسی زمانۂ طالب علمی یعنی ڈابھیل کے قیام کے زمانہ میں یاد گار علامہ کشمیریؒ بل کہ علوم انور شاہؒ کے امین وناشر ،حضرت علامہ بنوری ؒجو محدثانہ شان رکھنے کے علاوہ فصیح عربی زبان بولنے اور لکھنے پریکساںقدرت رکھتے تھے؛کے متعلق حضرت اپنے انطباعات بایںالفاظ پیش فرمارہے ہیں کہ:

                 ’’بہت خو ب صورت چہرہ،اعلیٰ لباس،دور سے دیکھ کر ہی آدمی مرعوب ہوجاتا،سردیوں میں سبز عمامہ باندھتے تو چہرہ مزید بارونق لگتا ‘‘

                یہ توآپ کا جمالِ صوری تھا،ان کے کمال علمی کو یوں تعبیر فرمایا کہ:

                ’’ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ عربی زبان کے کتنے لغات آپ کو یاد ہیں فرمایا کہ الحمدللہ اس وقت تقریباًنوے ہزار الفاظ حافظہ میںمحفوظ ہیں ‘‘

                مزید کمال قدرت علی العربی کو یوں تعبیر فرمایا کہ:

                ’’۱۹۵۳ء میں حرم شریف میں شیخ قطبیؒ کے ساتھ عربی میں گفتگو کرتے سنا تو بندہ حیران ہوگیا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عربی آپ کی مادری زبان ہے، اتنی فصیح اور طلاقت کے ساتھ عربی گفتگو کرتے اور کسی کو نہیں پایا‘‘

                نیز اپنی عقیدت کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

                ’’حرم شریف کی ایک ملاقات پر بندے نے قیام گاہِ باب العمرہ پر حاضر ہوکر درخواست کی کہ کاپی میں کوئی نصیحت تحریر فرمادیں تو فوراًقلم اٹھایا اور تحریر فرمایا کہ’’الا کل شیء ماخلا اللہ باطلا–وکل نعیم لامحالۃزائلا‘‘

                یہ حضرت مرحوم مفکر ملت کا وہ نفیس ذوق تھا جہاں کوئی عبقری شخصیت سے ملاقات ہوتی تو نصیحت کی درخواست کرتے؛ تاکہ بزرگوں کا عکس تحریر محفوظ ہوجائے اور ان کی صحبتوں کے یادگار لمحات نقش کالحجر ہوجائیں۔

تعبیرات ِمنتخبہ کا تکرار:

                حسن تعبیر،حسن سلوک،حسن اخلاق اورحسن انتظام پرمشتمل حضرت موصوفؒ کی یہ ادائیںاپنے پرائے، شناساغیرشناساسب کے ساتھ حسبِ مراتب ہوتی تھیں؛نیزیہ نہیںکہ اپنے ذوق اورمزاج کوصرف دوسروںپرتھوپ کرخودکودوسروںسے مستغنی سمجھتے،بل کہ آپ میںجہاں اچھا ئیاںاور محاسن،تقسیم کرنے کاداعیہ تھاوہیںدوسروںسے اخذکرکے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کاحوصلہ بھی تھا۔خصوصاًعلمی تعبیرات کوان سے محفوظ کرتے،اگر وہ مضمون اورتعبیربلاواسطہ اخذہواہوتوخطیب ہی کے لب ولہجہ میںپیش فرماتے اوراگربالواسطہ کوئی مضمون اخذہوتاتوالفاظ کے زیروبم کے ساتھ ایسا ادافرماتے کہ لگتاکہ آپ بھی وہاںموجودہوں۔بارہاسامعین نے حضرت مولاناابوالکلام آزادکامشہورخطاب جوجامع شاہ جہانی میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والوںکومخاطب کرکے کیاتھا،کہ:

                ’’اے ہندی مسلمانو!اس جامع شاہ جہانی کے بلندوبالامنارے تم کو جھک جھک کر سلام کررہے ہیں‘‘ ۔

                میرامقصدیہ ہے کہ تعبیرات خطابی ہوںیاتحریری اس کوباربارنوکِ زبان لاکر خودبھی محظوظ ہوتے اورحاضرین کو بھی لطف اندوز کرتے؛ چناںچہ’’ رشد وہدایت کے مینار‘‘کے مقدمہ میں تحریرفرماتے ہیں کہ:

                ’’راقم کو اپنے سفرِقطر کے دوران (جوجامعہ کے ناظم تعلیمات مولاناحذیفہ بن مولاناغلام محمدصاحب وستانوی کے ساتھ ہوا)جمعہ کی نمازکے لیے ایک مسجد میں جاناہوا،اس موقع پرامام صاحب نے لمباخطبہ پیش فرمایااوراخیرمیں فرمایا:وللحدیث بقیۃوان شاء اللہ ساقدم فی الجمعۃالقادمۃبشرط اللقاء والبقاء۔اس کایہ خوب صورت جملہ مجھے بہت اچھالگااورفوراً میںنے اسے اپنے نہاںخانہ دماغ میں محفوظ کرلیا‘‘۔

                اسی طرح حضرت مرحوم اپناایک اورواقعہ نقل فرماتے ہیںکہ:

                ’’ممبئی میںمصریو ںکاایک دفترالمرکزالثقافی المصریتھا،ترکیسرکے قیام کے زما نے میںایک دن ممبئی جاناہوا،میںنے اپنے پاس کافی وقت دیکھ کر المرکزالثقافیکارخ کیا؛وہاںپہنچ کر غرفۃالاستقبالمیںداخل ہوا؛ جہاںایک مصر ی خاتون تشریف رکھتی تھیں؛میں نے ان سے کہا:السلام علیکم انامن طلبۃالعلم جئت ہنالاستفیدمن مکتبکم؛انہوںنے فوراًکہا: اہلاًوسہلاً اورایک نوکر کوآوازدی اورکہایامحمدتعالیہ سن کروہ جلدی سے آیا،انہوںنے چابی نکالی اور محمد کودی اورکہا’’خذالمفتاح و فرج المکتبۃ‘‘یہ سن کر میں سوچنے لگا کہ اوہو!تم نے تو پہلے کبھی یہ تعبیر نہیں سنی ،ہم توفرج کی جگہ افتح بولتے چلے آرہے ہیں‘‘۔

                دیکھیے!ایسالگتاہے کہ ہر وقت گویاتعبیرا ت کے متلاشی رہتے تھے۔

                الحمدللہ!راقم کوحضرت وستانوی مدظلہٗ کے حکم پر مرحوم کی دوتین کتابیں طباعت کرانے کاموقع ملا،ایک کتاب ’’دیوان امام شافعی ؒ ‘‘کی طبا عت پھرایک کتاب(جو حضر ت علی میاںصاحبؒ کے ایک عربی سفرنامہ کا ترجمہ ہے)کی طباعت،بہت حسین اورخوب صورت ہوئی؛ لیکن سوئے اتفاق کہ پروف ریڈنگ کی کمی کی وجہ سے اغلاط خاصی تھیں؛بعض حضرات نے اسی کوموضوع بحث بناکر ایک مقدس مقام پرحسنِ طباعت کو قبح طباعت سے تعبیرکر نے کی کوشش کی توان حاضرین مجلس کو بہت ہی تربیتی اندازمیںیہ کہہ کر ساکت وصامت کردیاکہ عبدالرحیم تومیراجگرپارہ ہے ۔ یہ بڑوں کی شان ہوتی ہے کہ مجلس میں کوئی غیبت یاتحقیر کی کوشش کرے تومسئلہ کو طول دینے کے بجائے اس کو مناسب اندازمیںسمیٹ لیتے ہیں۔

                بہرحال!سردست حضرتؒ کی حسن تعبیرات کو موضوع بحث بناکرایک جھلک دکھانے کی کوشش کی گئی ہے؛ ورنہ یہ موضوع توبہت طویل ہے ۔

                اس کے علاوہ حیاتِ مفکر قوم وملتؒ کے ان گوشوںکوبھی موضوع بناکر متوسلین ومتعلقین کومشعل راہ دکھائی جاسکتی ہے،مثلاً:

                (۱)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ اپنی تالیفات کے آئینہ میں۔

                (۲)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ اورخادم القرآن کے بے لوث روابط۔

                (۳)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ ہم عصرعلما کی نظرمیں۔

                (۴)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ کاذوقِ مطالعہ۔

                (۵)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ کا ذوقِ انتظام۔

                (۶)…       حضرت مفکر قوم وملتؒ اورحضرت مفکر اسلامؒ کے خوشگوارروابط۔

                (۷)…       امت ایک مثالی اورقابل تقلید شخصیت سے محروم۔

                (۸)…       گلشن ِفلاح دارین اوراس کاباغباں۔ 

                (۹)…       مدارسِ اسلامیہ کا ہمدردوغم گسارچل بسا۔ 

                (۱۰)…    فلاح دارین کا فیض حضرت مفکر قوم وملتؒ کا فکرعمیق۔

                اللہ تعالیٰ حضرت مفکر قوم وملت رحمۃ اللہ علیہ کوکروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اورہم سب کو ان کے چھوڑے ہوئے تابندہ نقوش پر چلنے کی توفیق ارزانی عطافرمائے۔(آمین)

                اللہم اغفرلہٗ وارحمہٗ وادخلہٗ فی فسیح جناتک