شمع رسالت اکے پروانے

مولانا عبد الحسیب صاحب

            رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم؛ سیرت و کردار کے اعتبار سے اتنے ارفع و اعلیٰ مقام پر فائز ہیں کہ انبیا علیہم السلام کو چھوڑ کر آج تک ا ن سے بہتر کسی انسان پر آفتاب طلوع نہیں ہوا۔ یہ آسمانِ ہدایت کے وہ روشن ستارے ہیں ،جن کے صدق و اخلاص، امانت و دیانت، خیر و ایثار اور زہد و اتقا کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ دین حنیف کی ترویج و اشاعت اور پرچم حق کی سربلندی کے لیے انہوں نے زندگی کے ہر میدان میں وہ قربانیاں دیں کہ ان کا اجتماعی اور انفرادی کردار قیامت تک فرزندان توحید کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ ان قدسی صفات انسانوں نے رضائے الٰہی کی خاطر اپنے قبیلے اور وطنِ عزیز کو خیر باد کہا۔ گھر بار لٹائے، فاقے سہے، ہر قسم کی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کیں ،یہاں تک کہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ کے دین کی جس درد مندی اور خلوص کے ساتھ خدمت، حفاظت اور اشاعت کی، اس کا اعتراف ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ بلاشبہ یہ نفوسِ قدسی امت اسلامیہ کے محسنین ہیں اور یہ امت ان کے احسانات کے بار گراں سے تا قیامت سبکدوش نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صحابی اپنی ذات میں آیت الٰہی تھا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہی عظیم رجالِ کار کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہے۔ جو لوگ اہل قرآن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور قرآنِ حکیم کے سوا کسی اور چیز کو تسلیم نہیں کرتے وہ ذرا سوچیں اور خوف خدا سے کام لیں تو خودبہ خود ہی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ ؛رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ پھر آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک ایک لفظ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تک پہنچایا اور یہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ہی تھے جن کے ذریعے قرآن حکیم کا ایک ایک لفظ امت تک پہنچا۔ اگر لسان رسالت پر جاری ہونے والے قرآن حکیم کے الفاظ کے بارے میں آپ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امانت و دیانت پر بھروسہ کر سکتے ہیں، تو پھر کیا سبب ہے کہ آپ ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امانت و دیانت کو صدقِ دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو آسمان صداقت کے وہ روشن ستارے ہیں، جنہیں دیکھ کر امت کے سفینہ کے لیے منزل مقصود کا رخ متعین کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ان پاکباز اور برگزیدہ بندوں کا حسنِ کردار اور حسنِ گفتار بارگاہ ِخداوندی میں اتنا مقبول ہوا کہ قرآن پاک میں جگہ جگہ ان کے اوصافِ حمیدہ بیان کیے گئے، ان کی تعریف و تحسین کی گئی اور کھلے لفظوں میں ان کو جنت کی بشارت دی گئی۔ جب رب ذوالجلال والاکرام خود اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرتا ہو تو پھر ان نفوس قدسیہ کی عظمت اور ان کے راست باز ہونے کے ثبوت کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ فی الحقیقت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی صداقت و عدالت پر کامل اعتقاد دین کا بنیادی تقاضہ ہے۔ ان سے محبت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے اور ان کی مخالفت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کے مترادف ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

            ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، میرے بعد ان کو ہدفِ تنقید نہ بنانا کیوںکہ جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے ان کو اذیت پہنچائی اس نے اللہ کو اذیت پہنچائی اور جس نے اللہ کو اذیت پہنچائی قریب ہے کہ اللہ اس کو پکڑے۔‘‘ (جامع ترمذی عن عبد اللہ بن مغفلؓ)

             اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کوبہ طور طبقہ اخلاق فاضلہ کی جلا بخشی تھی اور انہیں کفر، گناہ اور نافرمانی سے دوری صرف از حکم شریعت نہیں ،ازراہ طبیعت حاصل ہوچکی تھی۔ شریعت کے تقاضے ان کی طبیعت بن چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا۔ ہمارے اس عقیدہ پر قرآن کریم کی کھلی شہادت موجود ہے۔

            ولٰکن اللّٰہ حبب الیکم الایمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان أولئک ہم الراشدون· (پ:۲۶، الحجرات)

            ترجمہ:   اللہ تعالیٰ نے محبت ڈال دی تمہارے دلوں میں ایمان کی اور کھپادیا اس کو تمہارے دلوں میں اور لائق نفرت بنادیا تمہارے دلوں میں کفر گناہ اور نافرمانی ،وہ ہیں راشدین۔

            اُمت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس لیے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق اُمت کے کسی فرد کو حاصل نہیں۔

چناںچہ ارشاد ہے:

            ’’لا تسبوا أصحابی، فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبا مابلغ مد أحدھم ولا نصیفہ)‘‘ ۔(بخاری و مسلم)

            ترجمہ:  ’’ میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو (کیوںکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہوسکتا ہے چناںچہ) تم میں سے ایک شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے عشر عشیر کو۔ ‘‘

            مقامِ صحابہ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون و مردود سمجھیں، بل کہ برملا اس کا اظہار کریں۔ فرمایا:

            ’’ إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی فقولوا لعنۃ اللہ علی شرکم‘‘(ترمذی)

            ترجمہ:’’ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور انہیں ہدف تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے) جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت۔ (ظاہر ہے کہ صحابہ ؓ کو برا بھلا کہنے والا ہی بد تر ہوگا)۔‘‘

            مؤخر الذکر حدیث کے چند فوائد ماہنامہ بینات محرم الحرام۱۳۹۰ھ میں ذکر کیے گئے تھے۔ بتصرف یسیر ان فوائد کو یہاں نقل کرتا ہوں:

            ۱-  حدیث میں ’’ سبّ ‘‘ سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں، بل کہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مراد ہے جو اُن حضرات کے استخفاف میں کہا جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں، بل کہ وہ قائل کے ملعون و مطرود ہونے کی دلیل ہے۔

            ۲-  آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے۔ (وقد صرح بہ بقولہ فمن اذاہم فقد آذنی)

             اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں حبط اعمال کا خطرہ ہے۔

 لقولہ تعالیٰ:{ ان تحبط اعمالکم و انتم لا تشعرون }لہٰذا سبِّ صحابہؓ میں سلب ایمان کا اندیشہ ہے۔

            ۳- صحابہ کرامؓ کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملت اسلامیہ کا فرض ہے۔ (فان الامر للوجوب)

            ۴-  آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ناقدین صحابہ ؓ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے ؛کیوں کہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا۔بل کہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ یہ ہے:

            لعنۃ اللّٰہ علی شرکم ۔

            ۵-  ’’ شرکم ‘‘ کے لفظ میں دو احتمال ہیں۔ایک یہ ’’شر‘‘ مصدر مضاف ہے فاعل کی طرف، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ تمہارے پھیلائے ہوئے شر پر اللہ کی لعنت۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ’’ شرکم ‘‘  اسم تفضیل کا صیغہ ہے، جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ ’’ تم میں سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے جو بھی بدتر ہو، اس پر اللہ کی لعنت۔ ‘‘اس میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقدین صحابہؓ کے لیے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقید صحابہؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیسے ہی ہوں، مگر تم سے تو اچھے ہی ہوں گے۔ تم ہوا پر اڑلو، آسمان پر پہنچ جاؤ، سوبار مرکر جی لو۔ مگر تم سے صحابی تو نہیں بنا جاسکے گا، آخر تم وہ آنکھ کہاںسے لاؤ گے ،جس نے جمال جہاں آرائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلمات نبوت سے مشرف ہوئے؟ ہاں! تم وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاس مسیحائی محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤگے جو انوار قدس سے منور ہوئے؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤگے جو ایک بار بشرۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے مس ہوئے اور ساری عمر ان کی بوئے عنبریں نہیں گئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے، جو معیت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں آبلہ پاہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤگے جب آسمان زمین پر اتر آیا تھا؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤگے، جہاں کونین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادت دارین کی شراب طہور کے جام بھر بھر کے دیے جاتے اور تشنہ کا مان محبت، ’’ہل من مزید ‘‘کا نعرہ ٔمستانہ لگارہے تھے؟ تم وہ منظر کہاں سے لاؤگے، جو کأنّی اری اللّٰہ عیاناً کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے ،جہاں کانما علی رؤسنا الطیرکا سماں بندھ جاتا تھا؟ تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لاؤگے، جس کی طرف  ھذا الابیض المتکیسے اشارے کیے جاتے تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم وہ شمیم عنبر کہاں سے لاؤگے، جس کے ایک جھونکے سے مدینہ کے گلی کو چے معطر ہوجاتے تھے؟ تم وہ محبت کہاں سے لاؤگے ،جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کر دیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤگے، جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤگے، جو پیمانۂ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے ناپ ناپ کر ادا کیے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے، جو آئینۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو ’’صبغۃ اللہ ‘‘ کی بھٹی میں دیا جاتاتھا؟ تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے، جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنادیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤ گے، جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکوگے ،جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟ (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میرے صحابہ کو لاکھ برا کہو، مگر اپنے ضمیر کا دامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی (نعوذباللہ) میرے صحابہ (رضی اللہ عنہم)برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید و ملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت و غضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر تم میں انصاف و حیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہ کے بارے میں زبان بند کرو۔

            ۶-    حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقید صحابہؓ کا منشا ناقد کا نفسیاتی شر اور خبث و تکبر ہے۔ آپ جب کسی شخص کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتر اور گھٹیا ہے۔ اب جب کوئی شخص کسی صحابیؓ کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابیؓ کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے، گویا ان میں صحابیؓ سے بڑھ کر صفت عدل موجود ہے۔ یہ ہے تکبر کا وہ ’’شر‘‘ اور نفس کا وہ ’’ خبث ‘‘ جو تنقید صحابہؓ پر اُبھارتا اور آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی ’’شر‘‘ کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔

            ۷-   حدیث میں بحث و مجادلہ کا ادب بھی بتایا گیا ہے۔یعنی خصم کو براہِ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ تم پر لعنت! بل کہ یوں کہا جائے کہ تم دونوں میں جو برا ہو اس پر لعنت۔ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہوناچاہیے۔ اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی۔ اب رہا یہ قصہ کہ ’’تم دونوں میں برا‘‘ کا مصداق کون ہے؟ خود ناقدیا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں۔ دونوں کے مجموعی حالات کو سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی بھی یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کرسکتا ہے کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابیؓ برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟

            ۸-حدیث میں فقولوا کا خطاب امت سے ہے۔گویا ناقدین صحابہؓ کو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت نہیں سمجھتے ،بل کہ انہیں اُمت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں۔ اور یہ ناقدین کے لیے شدید وعید ہے جیسا کہ بعض دوسرے معاصی پر ’’ فلیس منا ‘‘کی وعید سنائی گئی ہے۔

            ۹- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح ناموس شریعت کا اہتمام تھا، اسی طرح ناموس صحابہ رضی اللہ عنہم کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا۔

کیوں کہ ان ہی پر سارے دین کا مدار ہے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدین صحابہؓ کی جماعت بھی ان ’’مارقین‘‘(گمراہ فرقہ) سے ہے، جن سے جہاد باللسان کا حکم اُمت کو دیا گیا ہے۔

            مشاجراتِ صحابہؓ کا منشا غلط فہمی تو ہوسکتا ہے لیکن بدنیتی نہیں۔سوئے اعتقاد نہیں، ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں راسخ ہے،لہذا ہمارے لیے حکم شریعت یہ ہے کہ ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو۔ یہ سب بھائی بھائی ہیں بدگمانی سے انتہا تک بچو۔

            ان میں سے کسی بڑے سے بڑا گناہ دیکھو تو بھی بدگمانی نہ کرو۔ اس کا ظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا۔ محض اس حکمت سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اُترے اور یہ لوگ تکمیل شریعت کے لیے استعمال ہوجائیں۔جیسے آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت نماز کی رکعتوں میں بھولنا از راہِ غفلت نہیں تھا اس حکمتِ الٰہی کے تحت تھا کہ لوگوں پر سجدہ سہو کا مسئلہ کھلے اور شریعت اپنی پوری بہار سے کھلے۔سو ایسے جو اُمور شانِ نبوت کے خلاف نہ تھے ان کے حالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالے گئے اور جو گناہ کی حد تک پہنچتے تھے انہیں بعض صحابہؓ پر ڈالا گیا ۔اور حضرت اس طرح تکمیل شریعت کے لیے بہ طور سبب استعمال ہوگئے ان حالات سے گزرنے کے بعدبھی ان کا وہ تقدس بحال ہے جو انہیں بہ طور صحابی کے حاصل تھا اور ان کی بھی بدگوئی کسی پہلو سے جائزنہیں۔ اعتبار ہمیشہ اواخر امور کا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ان اُمور اور واقعات کی قرآن کریم سے تطبیق نہیں ہوتی۔ یہ بات بالقطع و الیقین حق ہے کہ صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے۔ سرخیل محدثین حضرت علامہ عینی (۷۵۸ھ) لکھتے ہیں: لیس فی الصحابۃ من یکذب وغیر ثقۃ(۱)

            جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائے گا، صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں۔

علامہ عبد البر مالکی (۴۶۳) لکھتے ہیں:

            ان جمیعہم ثقات مامونون عدل رضي فواجب قبول مانقل کل واحد منہم وشہدوا بہ علي نبیہ صلي اللہ علیہ وسلم (۲)

            ترجمہ: سب صحابہ ثقہ اور امانت دار اورعادل ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہوا، ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی اور اس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی(لفظاًہو یا عملًا) وہ واجب القبول ہے۔

            انبیا علیہم السلام کے بعد صحابہ ہیں، جو بہ طور طبقہ محمود ومنصور ہیں۔ عام طبقات انسانی میں اچھے بُرے کی تقسیم ہے، علما تک میں علمائے حق اور علمائے سوء کی دو قطاریں لگی ہیں، لیکن صحابہ میں یہ تقسیم نہیں۔ صحابہ سارے کے سارے اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے باطن کی خبر دی ہے اور فرمادیا کہ کلمہ تقویٰ ان میں اُتاردیاگیا اور بے شک وہ اس کے اہل تھے:

            والزمہم کلمۃ التقویٰ وکانوا احق بہا واہلہا· (پ:۲۶، الفتح، ع:۳)

            حدیث میں’’ کلمۃ التقویٰ‘‘ کی تفسیر لاالہ الا اللہ سے کی گئی ہے۔ سو یہ بات ہر شک اور شبہ سے بالاتر ہے کہ کلمہ اسلام ان کے دلوں میں اُتاراگیا تھا اوراس کے لیے ان کے دل کی دُنیا بلاشبہ تیار اور استوار تھی کہ اس میں یہ دولت اُترے اور انہی کا حق تھا کہ یہ دولت پاجائیں۔

            سو یہ حضرات ہم احاد امت کی طرح نہیں۔ ان کا درجہ ہم سے اُوپر اور انبیائے کرام کے نیچے ہے۔ انہیں درمیانی مقام میں سمجھوکہ یہ حضرات ہم پر اللہ کے دین کے گواہ بنائے گئے ہیں اور اللہ کا رسول ان پر اللہ کے دین کا گواہ ہے جس طرح کعبہ قبلۂ نماز ہے یہ حضرات بھی قبلۂ اقوام ہیں:

            وکذلک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدًا· (پ:۲، البقرہ، ع:۱۷، آیت:۱۴۳)

            خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں: کہ صحابۂ کرام مخلوق میں سے کسی کی تعدیل کے محتاج نہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جو اُن کے باطن پر پوری طرح مطلع ہے ان کی تعدیل کرچکا ہے:

            فلا یحتاج احد منہم مع تعدیل اللّٰہ لہم المطلع علٰی بواطنہم الٰی تعدیل احدٍ من الخلق لہ· (۳)

            ترجمہ: صحابہ میں سے کوئی بھی مخلوقات میں سے کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ جو اُن کے قلوب پر مطلع ہے اس کی تعدیل کے ساتھ اور کسی کی تعدیل کی ضرورت نہیں۔

            جب دین انہی سے ملتا ہے تو ان حضرات کی تعظیم اس امت میں حق کی اساس ہوگی۔ انہی سے قافلہ امت آگے بڑھاہے اور پوری امت جمعہ اور عید کے ہر خطبہ میں ان کی ثناخوانی کرتی آئی ہے اورتاقیام قیامت کرتی ہی رہے گی۔ یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار رہے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ بقول مولانا ابوالکلام آزادؒ:

            دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا

 عشق نہیں کیا ہوگا جیساکہ صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ حق میں کیا۔ انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا، جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔

            اہل حق ہمیشہ سے صحابہ کی عظمتوں کے گرد پہرہ دیتے آئے ہیں۔ جہاں کسی نے شک کا کوئی کانٹا لگایا، اہل حق نے ان کے تزکیہ کی کھلی شہادت دی، جہاں کہیں تبرّا کی آواز اٹھی ،اہل حق تولا کی دعوت سے آگے بڑھے اور نفاق کے بُت ایک ایک کرکے گرادئیے۔