نگارش:شفیع احمد قاسمی اِجرا، مدھوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
شروع کرواللہ کے نام سے
انسان کے بس میں نہیں:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی قدرت سے افضل الکائنات اوراشرف المخلوقات بنایا۔اورپھریوں ہی آزاد ہندستان الی القبرستان نہیں چھوڑدیاکہ اب ہماراکام ختم ہوگیا۔بلکہ اُس نے اپنی حکمتِ بالغہ سے زندگی کے ہر شعبے،ہرگوشے میں اورہرموڑپراچھے برے اورہدایت وضلالت میں تمیزکرنے اوراُسے کام یابی وناکامی کی کسوٹی پر اچھی طرح سے پرکھنے کی صلاحیت بھی بخشی۔چلتے پھرتے ،اٹھتے بیٹھتے ،کھاتے پیتے اورسوتے جاگتے ہماری رہ نمائی اوردست گیری کاسامان بھی فراہم کیا۔کھانے پینے سے لے کرنہ جانے کتنی نعمتیں ہمارے اوپرموسلادھار بارش کی طرح ہمہ وقت برس رہی ہیں،جن کاشمارانسانی بس کاروگ نہیں ہے۔چناں چہ خوداللہ پاک ارشادفرماتے ہیں:﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔﴾کہ اگرتم نعمت خداوندی کوشمارمیں لاناچاہوتونہیں لاسکتے۔
شکرگزاری کے راستے:
ہماری شریعت نے اُن تمام نعمتوں کی شکرگزاری کے لیے بہت سارے اورآسان سے آسان راستے بھی بتائے ہیں،جن پرچل کرہم اپنی دنیاوآخرت کوکام یابی سے ہمکنارکرکے دارین کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ کی شانِ کریمی اوربندہ نوازی اپنے بندوں کوحرج اورتنگی کی بھٹی میں ڈالنانہیں چاہتی۔ارشادخداوندی ہے: ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔﴾پھریہ کہ شکرکی ادائیگی سے مِن جانب اللہ ؛برکت اوراضافے کاوعدہ بھی کیاگیاہے۔چناں چہ اللہ تعالیٰ خودہی ارشادفرماتے ہیں:﴿لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ۔﴾ اُنہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے تمام اموراورہرعمل کی شروعات”بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ “ یعنی اللہ کے نام سے ہواکرے۔
لیکن دورِ حاضرمیں:
افسوس اِس بات کاہے کہ ہم توغافل اوربے حس اتنے ہوچکے ہیں کہ ہمیں سب کچھ یادرہتاہے۔زیادہ دولت کمانا،خوب کھانا،موج اڑانا،بنگلہ بنانا،گھروں کوسجانا،فیکٹری لگانا،خودکواونچادکھانا،دھونس جمانا وغیرہ ؛لیکن کسی وقت بسم اللہ ہی یادنہیں رہتا۔ہماری ساری بے بسی،بے کسی اورلاچاری کاظہورصرف یہیں پر ہوتا ہے۔ موبائل فون یا بالفاظِ دیگرایمان کا خون کہاں ہے؟نوکری کی فائل کس خانے میں رکھی تھی؟زمین کے کاغذات کس کونے میں دبے ہوئے ہیں؟ڈرائیونگ لائسنس،پاسپورٹ،پہچان پتر،پین کارڈ اور آدھار کارڈ کہاں رکھا ہے؟ یہ آدھار کارڈتواب سوتے جاگتے بھی بہ خوبی یادرہے گا۔کیوں کہ ہماری حکومت نے زندگی کاآدھاربھی ”آدھار“ پرہی رکھ دیاہے ، اِس لیے قدم قدم پراِس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔کس کوکیادینااورکتنادینااورکس کس سے لینا ہے؟یہ سب کچھ کمپیوٹرڈیٹاکی طرح سے ہماری یادداشت کی فائل میں ہروقت موجوداورمحفوظ رہتی ہے ۔
ادھورارہتاہے:
ایک حدیث میں سیدالکل فی الکل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:”کُلُّ أَمْرٍذِیْ بَالٍ لَا یُبْدَأُ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَہُوَاَقْطَعُ“کہ شاہ راہِ حیات میں جیتے ہوئے جوبھی قابلِ اعتبار،مہتم بالشان اوراہم کام کو”بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ“سے شروع نہ کیاجائے وہ ادھوراہی رہتاہے۔یعنی اُس کام میں بغیربسم اللہ کی حرکت کے برکت ہی نہیں ہوتی۔یہ اوربات ہے کہ ہم اپنے خیال اورناقص عقل کے مطابق ادھوراکوبھی پوراہی سمجھنے کی غلطی کرجاتے ہیں۔اورہماری حِس اتنی بے حس ہوچکی ہے کہ جس کوپتابھی نہیں چلتا۔ کیوں کہ ہم توخودکوہی عقلِ کل کامالک یالقمان حکیم کاشاگردسمجھے بیٹھے ہیں تواِس طرح کاخیالی پلاوٴپکاناہمارے لیے کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:”وَاَغْلِقُوالْاَبْوَابَ وَاذْکُرُواسْمَ اللّہِ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَایَفْتَحُ بَاباً مُغْلَقاً وَاَوْکُوْاقِرَبَکُمْ وَاذْکُرُواسْمَ اللّہِ وَخَمِّرُوْاآنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُواسْمَ اللّہِ۔“کہ اللہ کانام لے کراپنے دروازوں کوبندکیاکروپھرشیطان اُن کونہ کھول سکے گااوراپنے مشکیزوں کواللہ کانام لے کربندکرواوراپنے برتنوں کواللہ کانام لے کربندکرو۔(مسلم:ج۲/ص۱۷۱)
اِن مذکورہ تمام روایات کاحاصل اورمقصدصرف یہی ہے کہ بسم اللہ کے استعمال کی برکت سے ہماری دنیابھی دین بن جائے اورہمارے ہرکام میں برکتوں کاظہورہو۔چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہراہم کام کو ”بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ“سے شروع کرنے کی تاکیدفرمائی ہے۔یہاں تک کہ کھاناکھاتے وقت،پانی پیتے وقت،سواری پرسوارہوتے وقت،کوئی خط یاتحریرلکھتے وقت؛غرض ہرقابل ذکرمشغلے کے شروع میںآ پ صلی اللہ علیہ وسلم ”بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ“ پڑھاکرتے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کاخط:
چناں چہ قرآن پاک کی سورہ نمل کے مطالعہ سے ہمیں یہ پتاچلتاہے کہ ۵۳/سال کی عمرپانے اورصرف ۱۳/ سال میں تخت سلطنت پرجلوہ افروزہوکر۴۰/ سال تک پوری دنیاپراکیلے حکومت کرنے والے بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی جوخط؛شمس وقمرکی پجاری اورمصنوعی خداکی وفاداروجاں نثار،پرستاروعبادت گزار؛ ملکہٴ سبا”بلقیس بنت شرجیل“کے نام دنیاکے سب سے پہلے انجینئر”ہدہد“کی معرفت روانہ کیاہے تواُس میں بھی سب سے پہلے﴿اِنَّہ مِنْ سُلَیْمنَ وَاِنَّہ بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ﴾ہی لکھاتھا۔پھراُس کے بعدخط کا مضمون اوراُن کی خدمت میں دعوتِ ایمان واسلام کی پیش کش اِن الفاظ﴿اَلَّاتَعْلُوْاعَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ﴾ ”یعنی تم لوگ میرے مقابلہ میں بڑائی نہ جتاوٴ اورمیرے پاس فرماں بردارہوکرآجاوٴ“سے کی گئی ہے ۔
دعوتِ اسلام؛ شاہ روم کے نام:
اِس سے خط لکھنے کاادب یہ معلوم ہواکہ خط لکھنے والاپہلے اپنانام لکھے تاکہ مکتوب الیہ کومعلوم ہوجائے کہ جوخط میں پڑھ رہاہوں،وہ کس کی طرف سے ہے۔دوسراادب یہ معلوم ہواکہ خط کی ابتدامیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا جائے۔اگرچہ کسی کافرکے نام خط لکھاجارہاہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہِ فارس ہرقل کو دعوت اسلام کاخط لکھاتھا،اُس کی ابتدابھی اِسی طرح سے ہے کہ پہلے آپ نے اپنااسم گرامی لکھاپھر بِسْمِ اللّہ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدَاللّہ وَرَسُوْلِہ اِلی ہرَقْلَ عَظِیْمَ الرُّوْمَ سَلَامٌ عَلی مَنِ اتَّبَعَ الْہدی“تحریر فرمایا۔اِس میں سلام کااضافہ ہے،لیکن السلام علیکم نہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون کے دربارمیں تشریف لے گئے توانھوں نے بھی ”وَالسَّلَامُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ“ہی فرمایاتھا۔(تفسیرانوارالبیان:ج۴/ص۱۹۶)
یہ رسمی کارروائی نہیں ہے:
بہ ظاہریہ ایک مختصرساعمل ہے،جسے بعض اوقات ایک رسمی کارروائی سمجھ کرنظراندازکردیاجاتاہے ۔لیکن درحقیقت یہ کوئی رسم نہیں،بلکہ اِس سے ایک بہت ہی بنیادی فکرکی آبیاری مقصودہے ۔یہ ایک ایسی اہم حقیقت کا اعتراف ہے،جس کوپیش نظررکھنے سے زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں انسان کاپورانقطہٴ نظراورمعاملات طے کرنے کے لیے اُس کی پوری(Approach)بدل جاتی ہے۔یہ اِس بات کااعلان ہے کہ اِس کائنات کا کوئی ذرہ اللہ تعالیٰ کے حکم اوراُس کی مشیت کے بغیرحرکت نہیں کرسکتا۔انسان کواپنی عملی زندگی میں اسباب کواختیار کرنے کا حکم ضروردیاگیا،لیکن نہ تویہ اسباب خودبہ خودوجودمیںآ گئے ہیں اورنہ اُن اسباب میں بذات خودکوئی کارنامہ انجام دینے کی طاقت ہے۔حقیقت میں اُن اسباب کوپیداکرنے والااوراُن میں تاثیرپیداکرکے اُن کے نتیجے میں واقعات کووجودمیں لانے والاکوئی اورہے۔
ایک ہی مثال کافی ہے:
اِس کسوٹی کوایک سادہ سی مثال سے سمجھ لیجیے کہ جب ہم پانی پیتے ہیں توبسااوقات غفلت اوربے دھیانی کے عالم میں پی کرخاموشی سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ایک ظاہربین اورحسّاس انسان زیادہ سے زیادہ اپنے دماغی کَل پرزے کوکام میں لاکرصرف اتناسوچ لیتاہے کہ اُسے یہ پانی کس کنویں،دریا،جھیل،نہریانل سے حاصل ہوا۔ لیکن اُس کنویں،دریا،نہریاجھیل تک یہ پانی کیسے پہنچا؟اورانسان کی پیاس بجھانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرتِ کاملہ نے کائنات کی کتنی قوتیں اُس کی خدمت میں لگارکھی ہیں؟اوراس کے لیے کیساعجیب وغریب (System)اورمربوط نظام بنارکھاہے؟اِس کادھیان بہت کم لوگوں کوآتاہے۔
پانی کاقدرتی عالمی نظام:
سمندرسے پانی اٹھاکراُسے پہاڑوں پرمحفوظ کرنے اورپھرزمین دوزپائپ لائن کے ذریعے دنیاکے چپے چپے تک اُسے پہنچانے کے اِس عظیم الشان سلسلے میں کہیں بھی انسانی عمل یااُس کی فکروکاوش اورمنصوبہ بندی کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ انسان کاکام صرف اتناہے کہ وہ اُن بہتے ہوئے دریاوٴں یازمین میں پوشیدہ سوتوں سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل کرلے۔اگرچہ یہ کام پانی کی سپلائی کے مذکورہ بالاقدرتی اورآفاقی نظام کے مقابلے نہایت محدوداورمختصرکام ہے،لیکن اُس محدودسے کام کی انجام دہی میں بھی انسان بڑی مشقت اٹھاتا،بہت روپیاخرچ کرتااورکائنات کے دوسرے وسائل سے کام لیتاہے۔
پانی کاہروہ گھونٹ؛جوہم ایک لمحہ میں اپنے حلق سے اتارلیتے ہیں،آب رسانی کے اِس سارے عمل طویل عمل سے گزرکرہم تک پہنچاہے،جس میں سمندر،بادل،پہاڑ،آفتاب،ہوائیں،ندی نالے ،زمین اوراُس میں پوشیدہ خزانے،اُس پرچلتے ہوئے جانوراوربالآخرانسان اوراُس کے بنائے ہوئے آلات ؛سب اپنااپنا کردار اداکرچکے ہوتے ہیں۔(کایاپلٹ:ص۶۷)
پانی پینے سے پہلے بسم اللہ کی تعلیم کیوں؟:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کویہ تعلیم دی کہ پانی پینے سے پہلے”بسم اللہ“کہو۔یعنی اللہ کانام لے کرپیناشروع کرو۔تودرحقیقت اِس کامقصدیہی ہے کہ پانی کی اِس نعمت کے استعمال سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اُس احسانِ عظیم کویادکرو،جس نے تمہارے ہونٹوں تک پانی کے یہ گھونٹ پہنچانے کے لیے کائنات کی اَن گنت قوتوں کوتمہاری خدمت میں لگادیاہے۔اِس پانی کے حصول کے لیے تم نے چندظاہری اسباب؛ضروراپنے عمل اوراپنی محنت سے اختیارکیے ہیں،لیکن اُن ظاہری اسباب کی رسائی ایک خاص حدسے آگے نہیں ہوتی۔اِس حدکے پیچھے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت(Providence)کاوہ محیرالعقول نظام ہے،جوانسان کے عمل ہی نہیں،اُس کی سوچ اور تصورکی پروازسے بھی ماوراہے۔اِسی حقیقت کی یاددہانی کراتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم کے سورة الواقعةکی آیت نمبر ۶۸،۶۹/میں ارشادفرماتے ہیں:﴿اَفَرَءَ یْتُمُ الْمَآءَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ ئَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۔﴾
کمال ہماراہے:
یعنی یہ میٹھااورٹھنڈاپانی؛جوتم پی رہے ہو،مویشیوں کوپلاتے اورزندگی کے ہرموڑپرطرح طرح سے اُس کافائدہ اٹھارہے ہو،یہ تمہاراذاتی کارنامہ، کوئی عمل دخل اورکوئی کمال نہیں ہے۔تم نے زمین میں ایک پائپ کی زمین دوزلائن بچھادیایاپھر(Hand Pump)ڈال کریابورنگ لگاکریہ مت سمجھ لیناکہ ہم نے بڑاتیرمارلیا۔ اپنی محنت ، چند کاریگراورپیسے کے بَل بوتے پرزمین کاسینہ چیڑکرپانی حاصل کرلیاہے۔اگرحصولِ پانی میں یہی سب کمال ہوتاتوپھرتم خودہی بتاوٴکہ ﴿قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآوٴُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْتِیْکُمْ بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ۔﴾یعنی پانی کی سطح زیر زمین اتنی نیچے کو چلی جائے یاکنواں ،جھیل اورتالاب اتناخشک ہوجائے،جہاں تک ڈول یارسی یاکسی بھی سائنسی آلات وایجادات کی رسائی ناممکن ہوجائے توکون ہے،جوپانی کواوپرلے آئے؟
اِسی لیے توصاحبِ جلالینلکھتے ہیں:”وَیَسْتَحِبُّ اَنْ یَّقُوْلَ الْقَارِیُ عَقِیْبَ مَعِیْنٍ ”اَللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ“ اِس کامطلب یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کرتلاوت کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ لفظ ِ”مَعِیْنٍ“ کے بعد یوں کہے کہ ”اَللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔“ یعنی وہ اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے ،جوپانی لا سکتا ہے، دوسرے کسی کی مجال نہیں ہے۔(تفسیرالجلالین:ص۴۶۸)
اِسی آیت کی تفسیرمیں مفتی محمدشفیع صاحب یوں فرماتے ہیں:زمین پربسنے والواوراُس کو کھودکر کنویں بنانے والواوراُس کے پانی سے اپنے پینے پلانے اورنباتات اگانے کاکام لیے والو!اِ س بات کونہ بھولوکہ یہ سب چیزیں کوئی تمہاری ذاتی جاگیرنہیں،صرف حق تعالیٰ کاعطیہ ہے کہ اُس نے پانی برسایااوراُس پانی کو برف کی شکل میں بحرِمنجمدبناکرپہاڑوں کی چوٹیوں پرلاددیاکہ سڑنے اورخراب ہونے سے محفوظ رہے ۔پھراُس برف کوآہستہ آہستہ پگھلاکرپہاڑوں کی عروق کے ذریعہ زمین کے اندراتاردیااوربغیرکسی پائپ لائن کے پوری زمین میں اُس کا ایسا جال پھیلادیاکہ جہاں چاہوزمین کھودکرپانی نکال لو۔مگریہ پانی جواُس نے زمین کی اوپرہی کی سطح پررکھ دیاہے، جس کوچندفٹ یاگززمین کھودکرنکالاجاسکتاہے ۔یہ مالک وخالق کاعطیہ ہے،اگروہ چاہے تواُس پانی کوزمین کے نیچے کی سطح پراتاردے جہاں تک تمہاری رسائی نہ ہو۔
(معارف القرآن:ج۸/ص۵۲۰،۵۲۱)
محسن حقیقی کویادرکھیں:
لہٰذاجب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ کھاناکھانے سے پہلے”بسم اللہ“کہوتواُس کا مقصداِسی حقیقت کی طرف توجہ دلاناہے کہ اِس نوالے کاحصول صرف تمہاری قوتِ بازوکاکرشمہ نہیں۔بل کہ یہ اُس دینے والے کی ہے،جس نے اُسے تم تک پہنچانے کے لیے کائنات کی عظیم طاقتوں کوتمہارے لیے رام کردیا۔لہٰذا اُس نوالے سے لطف اندوزہوتے ہوئے اُس دینے والے کوفراموش نہ کرو۔یوں تواللہ تعالیٰ کی یہ عطااُس کی ہر مخلوق کے لیے عام ہے۔ کھانااورپانی جانوروں کوبھی ملتاہے۔لیکن جس انسان کواللہ تعالیٰ نے عقل وشعوربخشاہے اُس میں اوربے شعورجانورمیں اتنافرق توہوناچاہیے کہ یہ باشعورمخلوق اُن نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے وقت غفلت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے محسنِ حقیقی کویادکرلیاکرے۔
(کایاپلٹ:ص۶۸)
ہرجگہ یہی صورت ہے:
اگرآپ کوتھوڑی سی فرصت مل جائے توزندگی کی راہوں میں جس کام کوبھی آپ دیکھیں گے تواُس میں غوروفکرکاگھوڑادوڑانے سے ہرجگہ یہی صورتِ حال اورکہانی نظرآئے گی۔اِس حقیقت اوراٹل سچائی سے ذرابھی اِدھراُدھرہٹ کرزندگی میں سوچ بھی نہیں سکتے۔کیوں کہ انسانی محنت ومشقت اورظاہری اسباب کاعمل بہت ہی چھوٹے دائرے تک سمٹااورمحدودہوتاہے۔
کیوں کہ صرف کسانوں اورمزدوروں کے سہارے بندوق چلانے، اپنی محنت کی گاڑھی کمائی کے چندکھوٹے سکے خرچ اوراندرباہرتھوڑی سی بھاگ دوڑکرلینے سے ہی پیش آمدہ مسئلہ ختم نہیں ہوجاتااورنہ ہی کام یابی آگے بڑھ کرقدم چوم لیتی ہے۔اِس لیے اب ایک کام یہ کریں کہ اپنی عقل کوکام میں لاکراُس محدوددائرے کے پیچھے کاذراپردہ ہٹائیں اورجھانک کردیکھیں توپھرآپ کوپتاچلے گاکہ دنیاکاہرچھوٹے سے چھوٹاواقعہ بھی ایک ایسے نظامِ ربوبیت یعنی(Diving System)کے ساتھ بندھاہواہے،جس کی حکمتیں لافانی اورغیرمحدودہیں۔اورجس میں انسان کی اَن تھک محنت،ذاتی کوشش،وسائل کی فراوانی اورمنصوبہ بندی کایاکسی بھی قسم کاکوئی دخل نہیں ملتا،بل کہ وہاں سب بے دخل ہیں۔
کائناتِ حقائق ومعارف:
”بسم اللہ“یا”شروع اللہ کے نام سے“بہ ظاہرمختصرسالفظ ہے۔لیکن اُن کے پیچھے حقائق ومعارف کی ایک کائنات پوشیدہ ہے اورآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرکام کے شروع میں یہ الفاظ کہلواکرانسان کوایسا انسان بننے کی طرف متوجہ کیاہے،جوفرعون ونمرودنہیں،اللہ کابندہ بن کردنیامیں امن سے رہناچاہتاہو۔اوراِس طرح انسان کے ہرکام کوعبادت اوربندگی میں تبدیل کردیاگیا۔(کایاپلٹ:ص۶۷)
دنیاکودین بنانے والاعمل:
جب انسان اپنے ہرعمل اوراپنے ہرکام کوخداکے نام سے شروع کرتاہے توزبان؛جوقلب کی ترجمان ہے (اورجس قلب میں خداکی وحدانیت کاعقیدہ چھپاہواہے)جب وہ اپنی زبان سے ہرکام پرخداکانام لیتاہے تو زبان وقلب کی مطابقت ،ظاہروباطن کی موافقت اورجسم وروح کی کامل ہم آہنگی سے مومن کایہ عمل ایمان کاعنوان بن جاتاہے ۔پیغمبراسلام اورانبیاعلیہم الصلوٰة والسلام نے اِس دنیاکودین بنادینے کاسائنسی وکیمیاوی عمل عطافرمایا ہے۔جب انسان اپنے فعل وعمل کے ظاہری ڈھانچہ میں اخلاص کی روح پھونک دے گاتواخلاص وعمل کی اِس ترکیب اور اس جوڑسے وہ عمل دنیوی نہیں رہتا،بل کہ وہ خالص عبادت بن جاتاہے۔(تفسیربسم اللہ الرحمن الرحیم: ص ۲۳ )
اِس لیے مضمون پڑھ لینے کے بعدیہ دعاکرلیں کہ اللہ رب العزت ہم تمام مسلمانوں کواِس مختصرسے جملہ پرشاہ راہِ حیات کی اِ س پُرخاروادی میں اٹھتے بیٹھتے اورچلتے پھرتے ہرلمحہ عمل کی توفیق عنایت فرمائے ۔آمین!