ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی#
زمانہٴ جاہلیت میں ظلم وتشدد،عصیان ونافرمانی، بے حیائی اورفحاشی عروج پرتھی، بیجارسم ورواج کاخوب چلن تھا،عورتوں کی پیدائش کومعیوب سمجھاجاتاتھا،کہیں توزندہ درگورکردیاجاتااورکہیں زندہ رکھاتوجاتا،لیکن اس پرجبرواستبداد کے پہاڑتوڑے جاتے، چھوت چھات کامعاملہ حدسے بھی آگے بڑھ گیاتھا۔ایسے تاریک دورمیں لوگوں کوگھٹاتوپ تاریکی سے نکال کرروشنی کی طرف لانے کے لیے ا سلام کی آمدہوئی،اسلام نے ہر ایک کومہذّب زندگی جینے کاسلیقہ سکھایا،شرم وحیاکی چادراوڑھنے کاطریقہ بتایااورمردوعورت ہرایک کے جسم کے مخصوص حصے کوچھپائے رکھنے کاحکم دیا،تاکہ بے حیائی اورفحاشی پرروک لگ سکے۔ مردوعورت ہرایک کوقابل احترام سمجھا،عورتوں کو عزت کے اعلیٰ مقام پرفائزکردیا،بیٹی ہوتورحمت،بیوی ہوتوعزت اورماں ہوتوجنت کااعزازعطاکیا۔جیسے جیسے اسلام پھیلتاگیاانسانی زندگی کوسنوارنے دین اوردنیابنانے کے لیے بہ تدریج احکامِ الٰہیہ کانزول ہوتارہا، معاشرے میں رائج برائیوں پردھیرے دھیرے روک لگتی گئی،اسی عرصے میں ایک اہم حکم حجاب (پردہ) ۵ھء میں اترا،جوکہ عورتوں کے فتنے میں پڑنے سے روکنے کے لیے بہت ہی موٴثرتھا۔
حجاب کے معنی پردہ، اوٹ،نقاب اورڈھانکنے کے ہیں،جوکہ مردوعورت ہرایک کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے عقلی، نقلی،فطری اورطبعی اعتبارسے اہم اورضروری ہے،البتہ فرق صرف اتناہے کہ مردوعورت کے اعضائے مستورہ کی حدالگ الگ ہے۔سترالعورة واجب علی کل حال (المبسوط للسرخسی ۲/۹۵)حصہٴ سترکاچھپاناواجب ہے ہرحال میں۔ عورة الرجل مابین سرتہ الی رکبتیہ (المبسوط للسرخسی ۰۱/۶۴۱)مردکاحصہٴ سترناف سے گھٹنوں تک ہے۔
معلوم ہواکہ سترعورت کافریضہ حضرت آدم اورحضرت حواکے جنت میں رہنے سے ؛لیکردنیامیں آنے کے بعد اوراس کے بعد سے تمام ہی انبیاء علیہم السلام کی شریعت میں فرض رہا؛البتہ عورتوں کوپرد ے میں رہنے کاحکم ۵ ھ میں نازل ہوا۔
حجاب ابتدائی دورسے آج تک:
ابتدائی زمانے میں سلے ہوئے لباس نہیں پہنے جاتے تھے،بلکہ دوکپڑوں کااستعمال ہوتاتھا،جن میں سے ایک تہہ بند او ر دوسرا قمیص کے طورپربدن پررکھاجاتاتھا،پھرزمانہ برق رفتاری سے آگے بڑھتاگیا،لباس میں بھی بہ تدریج تبدیلی آتی رہی، سلے ہوئے موٹے ڈھیلے ڈھالے لباس پہنے جانے لگے،اب سلے ہوئے کپڑوں کی الگ الگ شکلیں متعارف ہوئی،جس کی وجہ سے بدن کوچھپانااوربھی آسان ہوگیا، رفتہ رفتہ یہ معاملہ آگے بڑھ گیااورلوگ سہولت پسندی،فیشن پرستی پراُترآئے،لہٰذااب نئے نئے منقَّش، مزیَّن برقعے، قمیص اورپوشاک بازارمیں دستیاب ہونے لگے،لوگوں کی ذہنیت،سوچ اورفکریں بدلتی گئی،حتی کہ لباس،پوشاک، برقع ضرورت سے نکل کراب زیب وزینت کامَظْہَرْبن گیااوراس طرح لباس نے اپنی مقصدیَّت کھودی،چونکہ ایسے جاذبِ نظراورتنگ برقعے پہنے جانے لگے کہ ہرایک کی نظراس کی طرف لگی رہ جائے،کوئی دیکھے توبس دیکھتاہی رہ جائے،حالاں کہ ایسے برقعے کااستعمال اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے،شریعت کے احکام کی خلاف ورزی ہے،جس سے اجتناب ازحدضروری ہے۔
واقعی یہ بات مسلَّم ہے کہ جس میں جتنی حیاہے ،وہ اتناہی حجاب کرتاہے اورجوجتنے بے حیاہیں وہ اتنے ہی ننگے پھرتے ہیں۔
دراصل حجاب کامقصدحیا،پاکدامنی،عورتوں کے عزت وناموس کی حفاظت،چال، ڈھال اورجسم کی ساخت کو چھپائے رکھناہے، تاکہ جنسی بھیڑیوں کی شہوت انگیزنظریں متلذَّذہوکرشیطانی تیرکانشانہ نہ بن سکے۔یہ سارے مقاصداسی وقت حاصل ہوں گے؛ جب کہ حجابِ شرعی،ڈھیلے ڈھالے،جسمانی ساخت کوچھپائے رکھتے ہوں اورچال،ڈھال،مواضعِ زینت کوپردئہ خفامیں رکھتے ہوں، ورنہ حجاب اورپردے کی مقصدیَّت فوت ہوجائے /گی ۔
حجاب کاثبوت:
شرعی اعتبارسے آیاتِ قرآنیہ کی روشنی میں پردے کا ثبوت سورة الاحزاب کی چارآیتوں۳۳،۵۳،۵۵،۵۹اورسورة النورکی تین آیتوں ۳۰،۳۱،۶۰سے ہے۔
اس سلسلے میں حدیث کی ستر۷۰/روایتیں بھی واردہوئی ہیں؛ان تمام کی روشنی میں فقہا ئے کرام نے لکھاہے کہ:شرعی پردہ کے تین درجے ہیں۔
(۱)ادنی(۲)اوسط(۳)اعلیٰ۔
(۱)ادنی درجہ : چہرہ،ہتھیلیوں کے علاوہ اوربعض کے نزدیک پیروں کے علاوہ بھی باقی تمام بدن کو کپڑے سے چھپایاجائے۔
دلیل: ولایبدین زینتھن الاماظہرمنھا(النور۳۱) وفسربالوجہ۔
ترجمہ:اوراپنی زینت ظاہرنہ کریں مگروہ جواس میں سے ظاہر ہوجاتی ہو۔اوراس کی تفسیرکی ہے چہرے سے۔
(۲)اوسط درجہ : پورے بدن کو یعنی چہرہ،ہتھیلیوں اورپیروں کوبھی برقع سے چھپایاجائے۔
دلیل: یدنین علیھن من جلابیبھن(الاحزاب۵۹)
ترجمہ: وہ اپنے چہرے پراپنی چادرکاکچھ حصہ لٹکائے رکھیں۔
(۳)اعلی درجہ : عورت دیواریاپردے کے پیچھے آڑمیں اس طرح رہے کہ اس کے کپڑوں پربھی اجنبی مردوں کی نظرنہ پڑے۔
دلیل: وقرن فی بیوتکن (الاحزاب۳۳)
ترجمہ: اوراپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ واذاسألتموھن متاعافسئلوھن من وراء حجاب (الاحزاب ۳۵)
ترجمہ: اورجب امہات المومنین سے تمہیں کوئی چیزمانگنی ہو،توپردہ کے پیچھے سے ان سے سوال کرو۔
ا لمستفا د :امداد الفتاوی۔
چہرہ ڈھانکنے کی عقلی دلیل:
عورت کاچہرہ ہی وہ پُرکشش جگہ ہے، جس پرنظرپڑنے کے بعدخیالات کاہجوم اُمنڈآتاہے اوریوں آنکھوں سے زناکی شروعات ہوتی ہے،پھریہ سلسلہ درازہوتارہتاہے اورشرمگاہ کوبھی زنامیں ملوث کردیتاہے؛اسی لیے اسے ڈھانکنے کاحکم دیا،تاکہ زناکے اسباب سے بھی بچاجاسکے۔
قرآنی آیت یدنین میں ادنٰی کے لغوی معنی” قریب کرنا“،لیکن جب علی صلہ آئے تواس کامعنی ہوتاہے لٹکانااوریہ اسی وقت متحقق ہوگا جب کہ چہرہ ڈھکاجائے۔
مشاہدہ سے یہ ثابت ہوتاہے کہ آج کل شادی کے لیے اگرکوئی لڑکی دیکھنے جاتاہے توچہرہ لازمی دیکھتاہے،خواہ جسم دیکھے یانہ دیکھے،کبھی ایسانہیں ہواکہ پوراجسم دیکھاہواورچہرہ نہ دیکھاہو؛لہٰذامشاہدہ بھی اس بات کی تائید کرتاہے کہ چہرہ کابھی پردہ ہوناچاہیے۔
حجاب کے فائدے:
پردے سے عورت کے عزت وناموس کی حفاظت ہوتی ہے،نسب محفوظ رہتاہے،پردے کی وجہ سے نظر،حسن اور دل کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے،اللہ تبارک وتعالی کاقرب حاصل ہوتاہے،معاشرہ پاکیزہ رہتاہے،نیکی کاشوق پیداہوتاہے اورتقوی والی زندگی نصیب ہوتی ہے،باحجاب عورت شیطان سے محفوظ رہتی ہے، حجاب بہت سے فتنے اورگناہوں سے بچالیتاہے۔
بے حجابی کے نقصانات:
بے پردہ عورت اللہ تعالی کی غیرت کوللکارتی ہے اورہروقت اللہ تبارک وتعالی کی ناراضگی میں رہتی ہے۔ایسی عورتیں جلدفتنے میں پڑجاتی ہیں،دنیامیں بھی ان کے نسب کی حفاظت مشکل ہوجاتی ہے اوررسوائی کاسامناکرناپڑتاہے،بے پردہ عورت کی صحت خراب ہوجاتی ہے،چوں کہ وہ جلد عشق ومعاشقہ میں گرفتارہوجاتی ہے،اورمرنے کے بعد بھی بے پردہ عورت عذاب قبرمیں مبتلارہتی ہے۔
حجاب پراتناہنگامہ کیوں؟
اسلام ہی ایک ایسابرحق مذہب ہے ،جوقیامت تک کی انسانیت کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتاہے،اسی وجہ سے اسلام روزِاوّل سے ہی تیزی سے پھیل رہاہے اورآج بھی اس کادائرہ وسیع ترین ہوتاجارہاہے،حالاں کہ دشمنانِ اسلام کاایک قافلہ ہمیشہ سے اسلام اورمسلمانوں کونیست ونابودکرنے کی ناکام کوشش میں لگاہواہے،لیکن ایسے لوگ خودہی ہلاک ہورہے ہیں اوراسلام محفوظ ہے،اسی کوشش کانتیجہ ہے کہ بھارت جیسا(نام نہاد)جمہوری ملک جہاں آئینِ ہندکی دفعہ۵ ۲ کے تحت تمام اشخاص کو آزاد ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کامساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔اس قانون کے تحت ہرشہری کواپنے مذہب ومسلک پرآزادانہ طورپرعمل پیراہونیکی آزادی حاصل ہے،لیکن چونکہ بھارت اس وقت تاریخ کے سیاہ ترین دورسے گذررہاہے،جہاں ہراقلیت کوہراساں کیا جارہاہے، ڈر ا دھمکا کررکھاجارہاہے،ان پرظلم وتشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں،مسلسل ان کے مذہبی شعائرکی اہانت کی جارہی ہے،ان کونفسیاتی اورجذباتی ٹھیس پہنچائی جارہی ہے،ملک کی معیشت کو تباہ وبربادکردیاگیا،غنڈوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے اورمعصوموں سے جیلوں کوبھراجاتاہے،موجودہ حکومت بشمول اپنی تمام فرقہ پرست تنظیموں کے اپنی طاقت کاناجائزاستعمال کرکے ہرایک کوآئے دن نئے نئے معاملات میں الجھائے رکھناچاہتی ہے،ابھی ایک معاملہ ختم نہیں ہوتااوراس کازخم مندمل نہیں ہوتاکہ فوراًدوسرامعاملہ اٹھادیاجاتاہے،جس کامقصدفرعونیت اورصہیونیت کے سہارے دجالی منصوبوں کوتھوپنااورہرایک کوغلام بناناہے،اوراس وقت چونکہ حکومت اپنی ناکامی، نااہلی کی وجہ سے ملک کوسنبھالنے میں،ملک کے مسائل کوحل کرنے میں ناکام ہے،اس لیے مذہبی معاملات کواٹھاکر، ہندومسلم کرناچاہتی ہے،حکومت اس سے قبل بابری مسجد،طلاق ثلاثہ کے ذریعے شریعت میں مداخلت کرچکی ہے اوراب حجاب کے معاملے کو اٹھاکرشریعت پرعمل کرنے سے روکناچاہتی ہے،اگلے مقاصدمیں سے یکساں سول کوڈکانفاذہے،تاکہ لوگوں کو ادھر الجھا کر ووٹوں کی تقسیم اورچوری کی جاسکے اور اس کی ظالمانہ حکومت برقراررہ سکے۔
لہٰذاحالیہ و اقعہ بھی اسی کاجیتاجاگتاثبوت ہے،جس میں کرناٹک کی مسکان خان نامی لڑکی نے بھیڑیوں کے ہجوم میں نہتی ہوکربھی اللہ اکبرکی صدابلندکرکے دینی حمیت اورمذہب ِاسلام سے محبت کی اعلیٰ مثال قائم کردی،مزیدبرآں اس کے اس عمل نے حجاب کے معاملے کو عالمی سطح پرموضوع بحث بنادیا،آج حجاب کاتعارف پوری دنیامیں ہورہاہے اوریہ تحریربھی اسی تعارف کاپیش خیمہ ہے۔
لائحہٴ عمل:
اس وقت ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات کوخوب عام کیا جائے اوردین کے تمام احکام پرعمل کرنے میں تصلّب(سختی اورمضبوطی) سے کام لیاجائے، تاکہ کسی بھی قسم کے حالات میں دین کاسودانہ کرسکیں،معاشرے کی بیٹیوں کوہمیشہ باحجاب رہنے کی تلقین کی جائے، مذہبی تعلیم کومقدم رکھتے ہوئے اسے اولیں ترجیح دی جائے اورباطل طاقتوں سے جسمانی، ذہنی اورنفسیاتی مقابلے کاطریقہ سکھایا جائے، ہمت، قوت اورطاقت سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایاجائے،ہرایک کواستقامت کے ساتھ اپنے مذہبی آزادی کے حصول کے لیے تَن، مَن دَھن کی بازی لگانے کے لیے تیارکیاجائے،جہاں جہاں طالبات کومزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہووہاں کے علما،صلحا،ذمہ داران اورنوجوان طبقہ آگے بڑھے اوران کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکران کوقانونی امدادفراہم کریں،تاکہ وہ مضبوطی سے اپنے حقوق کی وصول یابی کے لیے متحدہوکرکھڑی ہوسکیں،غرض ہرطبقے کے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ایسی طالبات کادامے،درمے، قدمے، سخنے، ہر اعتبار سے سا تھ دیں گے ان شاء اللہ یہ ایک انقلابی قدم ثابت ہوگا۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ: حجاب کے مقصدکوسامنے رکھتے ہوئے شرعی حجاب کو روارج دیں،باطل طاقتوں سے ڈرنے کے بجائے ہمت، قوت وطاقت اوراستقامت سے کھڑے ہوکرمقابلہ کرکے اپنے حقوق کی وصول یابی کے لیے کھڑے ہو نے والے بنیں، اپنے لیے صحابیات کی زندگیوں کونمونہ بناکران کے مطابق چل کرمشکلات،مصائب اورتکالیف کوبرداشت کرتے ہوئے شریعت پرمضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں،حجاب کاتعارف پوری دنیامیں پیش کریں،حجاب عورتوں کے عزت وناموس کی حفاظت کااعلیٰ ترین ذریعہ ہے اس کاہرایک کواحساس دلائیں،اسلامی تعلیمات کوخود سیکھیں اورقولاً،فعلاًاس کوخوب عام کریں۔
باطل طاقتوں کی سازشوں سے ہوشیار رہیں اورکسی بھی طرح ان کے آلہٴ کاربن کران کوتوشہ فراہم نہ کریں،اگرہم میں سے ہرایک ان تمام امورکواپنی اپنی ذمہ داری سمجھیں اور اپنی استطاعت کے مطابق احساسِ ذمہ داری کیساتھ عائدشدہ ذمہ داریوں کوپوری امانت داری کیساتھ اداکریں گے۔ ان شاء اللہ باطل کی ساری تدبیریں الٹ جائیں گی اورغیبی مددبھی ہمارے ساتھ رہے گی۔
اللہ تبارک وتعالی سے دعاہے کہ ہم سب کوقوت وطاقت، ہمت وحوصلہ،بہادری اوراستقامت کیساتھ مذہب اسلام پرعمل پیراہونے اوراسلام کی تعلیمات کوعام کرنیکی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
ہورہی ہے ہوس کی بلابے نقاب
اوڑھ لے ہرمسلمان بیٹی حجاب