شرائط ایمان

            ایمان کی تعریف سے معلوم ہوا کہ یہ تصدیق بالقلب کا نام ہے، کسی چیز کو دل و جان سے مان لینا ایمان کہلاتا ہے، لیکن شریعت کی نگاہ میں یہ ایمان تب ہی معتبر ہو گا؛ جب کہ اس میں مطلوبہ شرائط بھی پائی جائیں، جن کو شرائط ِایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان میں سے اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو اس کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔

            امام ابو منصور ماتریدی رحمہ اللہ سحر کے حکم کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:

            ” إن کان ردّ ما لزمہ فی شرط الإیمان فہو کفر وإلا فلا.“

            سحر علی الاطلاق کفر نہیں بلکہ یہ تفصیل ضروری ہے کہ اگر اس کی وجہ سے شرائط ایمان کے لوازم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو کفر ہے ورنہ نہیں۔

            امام ماتریدی رحمہ اللہ نے اگر چہ اس کے بعد شرائط ایمان کی تفصیل ذکر نہیں فرمائی، نہ ہی ان کی کسی اور تصنیف میں اس کی کوئی مزید وضاحت ملی، لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہی مندرجہ ذیل شرائط مراد ہوں گی۔

            یہ کل پانچ شر ائط ہیں، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱- اقرار باللسان

            بعض حضرات نے ایمان کی تعریف میں ایک ضروری قید کے طور پر یہ بھی بیان کیا کہ تصدیق بالقلب کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی اس بات کا اقرار کرے، تب ہی ایمان ثابت ہو گا، اگر کسی نے صرف دل سے مان لیا لیکن زبان سے اس کا اظہار نہیں کیا تو وہ شخص مسلمان نہیں ہو گا۔

            چنانچہ محقق علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے ”المسایرة“ میں اس کو تفصیل سے ذکر کیا اور اس موقف کو امام صاحب کے حوالے سے بھی نقل فرمایا ہے، مگر جمہور اشاعرہ اور ماتریدیہ کے نزدیک ایمان کی ماہیت کے لئے یہ کوئی ضروری قید نہیں، بلکہ صرف تصدیق بالقلب ہی ایمان ہے۔

            یہ اختلاف اپنی جگہ ہے لیکن اس بات پر دونوں فریق کا اتفاق ہے کہ جب کبھی تصدیق کرنے والے سے زبانی اقرار کا مطالبہ کیا جائے تو ضروری ہے کہ وہ اقرار کرے، اگر مطالبہ کے باوجود وہ بلا عذرا قرار نہ کرے تو اس پر مسلمانوں کے احکامات جاری نہیں ہوں گے، بلکہ اس کو کفر عناد کہا جائے گا۔

            اس لئے کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لیے تصدیق بالقلب کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت وہ اپنے اسلام کا اقرار کرے۔

۲۔ رضا و محبت

            یعنی دین ِاسلام اور اس کی تمام تر ضروریات کے ساتھ محبت رکھنا اور اس سے خوش رہنا۔

            شریعت کی نظر میں ایمان کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مؤمن شریعت اور اس کے ثابت شدہ تمام یقینی احکام کو بنظر ِاستحسان دیکھے، اس کے ساتھ محبت اور پسندیدگی کا رویہ رکھے، اگر کوئی شخص دل سے شریعت کو تسلیم کرتا ہے اور زبان سے کھلم کھلا اپنے مسلمان ہونے کا اعتراف بھی کرتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ شریعت سے بغض وعداوت رکھے یا اس کے کسی ثابت شدہ حکم کو نا پسندیدہ سمجھے تو وہ مسلمان نہیں کہلائے گا، بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

            خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

            مَنْ کَانَ عَدُوًّا اللَّہِ وَمَلَائِکَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِیلَ وَمِیکَالَ فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِینَ۔

            جو (کوئی) شخص خدا تعالیٰ کا دشمن ہو اور فرشتوں کا (ہو) اور پیغمبروں کا (ہو) اور جبریل کا (ہو) اور میکائیل کا (ہو) تو اللہ تعالی دشمن ہے ایسے کافروں کا۔

             اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ دشمنی کرنے والے کو کافر قرار دیا۔

            علامہ نسفی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں ذکر کرتے ہیں کہ اصل عبارت یوں بنتی ہے کہ ”فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لَہُمْ ” لیکن اللہ تعالیٰ نے ”کافرین “ کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دراصل ان کے ساتھ عداوت کی اصل وجہ ان کا کافر ہونا ہے اور نیز اس سے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فرشتوں کے ساتھ محبت رکھنا ضروری ہے، اگر کوئی محبت کی بجائے دشمنی کرے تو وہ کافر ہے۔

            یہی حکم تمام ضروریات دین اور دین کے قطعی احکام کا ہے کہ ان میں کسی ایک حکم کے ساتھ بھی نفرت کرنا دراصل خود شریعت سے نفرت ہے۔

(۳)تعظیم و احترام

            یہ بھی ایمان کے معتبر ہونے کے لئے ایک بنیادی شرط ہے، اگر کوئی شخص دین اسلام کو دل و جان سے درست تسلیم کرتا ہے، لیکن اس کی تعظیم نہیں کرتا، بلکہ توہین کرے تو وہ دائرہ ٴاسلام سے خارج تصور ہو گا، کیونکہ تصدیق بالقلب اگر چہ پہلے موجود تھی، لیکن اس کی بنیادی شرط تعظیم ہے جس کی نقیض یعنی توہین کا ارتکاب کیا گیا، اس لئے یہ تصدیق بھی معتبر نہیں اور محض اس کی وجہ سے کسی کو مسلمان نہیں کہا جائے گا۔

(۴)تسلیم و انقیاد

            تسلیم کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی ایمان قبول کر کے جملہ شرائط بجالائے، تو اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ شریعت ِمطہرہ کے تمام احکامات کو اجمالی یا تفصیلی طور پر قبول کرے اور ان پر عمل کرنے کا ارادہ کرے۔

            قرآن کریم میں بڑی تاکید کے ساتھ بیان فرمایا کہ شریعت کے فیصلہ کو (بے چون و چرا تسلیم کرنے اور قبول کے بغیر اسلام کا دعویٰ بے جا ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

            فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا.

             پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ ایمان دار نہ ہونگے؛ جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان میں آپس میں جو جھگڑا واقع ہو، اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروائیں، پھر آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورا پورا تسلیم کر لیں۔

            اس آیت ِکریمہ میں عربی زبان کے لحاظ سے تاکید کے مختلف طریقوں کے ساتھ اس شخص سے ایمان کی نفی کی گئی جو شریعت کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے، یعنی کوئی شخص مسلمان اور مؤمن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ وہ شریعت کے فیصلے اور اس کے احکام کو دل وجان سے تسلیم نہ کرے۔

            اس کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابو بکر جصاص رازی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

            فی ہذہ الآیة دلالة علی أن من رد شیئا من أوامر اللہ تعالی أو أوامر رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فہو خارج من الإسلام سواء ردہ من جہة الشک فیہ أو من جہة ترک القبول والامتناع من التسلیم لأن اللہ تعالی حکم بأن من لم یسلم للنبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائہ وحکمہ فلیس من أہل الإیمان.

             اس آیت میں اس بات کی رہنمائی ہے کہ جو شخص اللہ تعالی یا اس کے رسول صلی السلام کے احکام میں سے کوئی حکم رد کر دے تو وہ اسلام سے خارج ہے، چاہے شک کرنے کی وجہ سے رد کیا یا (یقین کرنے کے باوجود) قبول نہ کرنے کی وجہ سے رد کیا، کیونکہ جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہ کریں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کو بے ایمان قرار دیا ہے۔

امام اعظم رحمہ اللہ کی تصریح:

            امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            والإسلام ہو التسلیم والانقیاد لأوامر اللہ تعالی فمن طریق اللغة فرق بین الإسلام والإیمان ولکن لا یکون إیمان بلا إسلام ولا یوجد إسلام بلا إیمان۔

             اسلام اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے جھکنے اور سرتسلیم خم کرنے کا نام ہے، لغوی معنی کے اعتبار سے تو ایمان و اسلام میں فرق ہے، لیکن ایمان اسلام کے بغیر اور اسلام ایمان کے بغیر موجود نہیں ہو سکتا۔

آیت تسلیم کی وضاحت پر ایک اشکال کا جواب

            اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے معتبر ہونے کے لئے ایک ضروری شرط یہ بیان فرمائی کہ شریعت کے فیصلہ اور حکم کو تسلیم کرے، اس کی تفسیر میں عام طور پر مفسرین کرام رحمہم اللہ علیہم نے لکھا کہ ظاہر وباطن سے اس فیصلہ کو قبول کر ناضروری ہے، یعنی دل سے اس کو درست اور حق و سچ سمجھنا بھی ضروری ہے اور عملی زندگی میں بھی اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے، اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہو جائے تو آیت کریمہ کے مطابق اس ایمان کا اعتبار نہیں ہو گا۔

            اس پر بعض اوقات یہ اشکال کیا جاتا ہے کہ اس کے مطابق تو شریعت کے کسی فیصلے کے خلاف عمل کرنا ہی منافی ایمان ہونا چاہئے، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر کوئی شخص شریعت کے کسی حکم کے خلاف کام کرے تو وہ کافر ہو جائے، یہی مذہب خوارج اور بعض دیگر مبتدعین کا ہے، جو محض کسی گناہ کے ارتکاب کو موجب کفر سمجھتے ہیں اور اسی بناء پر اُمت کے اکثر طبقے کو کافر قرار دیتے ہیں، جبکہ اہل سنت کا ہر گز یہ موقف نہیں ہے۔

            یہ اشکال بظاہر ایک حد تک وزنی معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر آیت مبارکہ کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے تو مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ آیت باہمی اختلاف سے متعلق ہے، یعنی جب کبھی کسی معاملے میں باہمی تنازع ہو جائے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں خود آپ صلی اللہ کی ذات مبارک کو اور آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت کو حکم بنانا ضروری ہے اور پھر اس کے فیصلے کو دل و جان سے قبول کرنا بھی لازم ہے۔

            یہاں دو چیزیں الگ الگ ہیں: ایک تسلیم وانقیاد ہے یعنی فیصلہ کو قبول کرنا اور دوسری چیز اس پر پوری زندگی عمل کرنا ہے۔ یہ دو چیزیں آپس میں لازم و ملزوم نہیں کہ اگر کسی نے فیصلے کے خلاف عمل کیا تو اس سے یہ لازم نہیں ہے کہ اس نے فیصلے کو تسلیم ہی نہیں کیا، بلکہ بعض اوقات تسلیم کرنے اور اس کو مکمل طور پر حق و سچ سمجھنے کے باوجو د بھی عمل میں کو تاہی ہو جاتی ہے، مثلاً اگر پاکستان کا کوئی باشندہ ہے وہ حکومت کے قوانین کو مانتا ہے، اس کو درست تسلیم کرتا ہے لیکن بعض اوقات اپنے مفاد کی خاطر یا حرص ولالچ کی وجہ سے یا کبھی اپنی ناسمجھی کی وجہ سے خلافِ قانون کوئی کام کرتا ہے تو اس کے باوجو دوہ پاکستانی ہی کہلاتا ہے، اس خلاف قانون اقدام کی وجہ سے اس کو پاکستان کا دشمن نہیں کہا جاتا۔

             اس کے مقابل اگر کوئی شخص اعلان کرے کہ میں پاکستان کا قانون نہیں مانتا، حکومت کے سامنے واضح کرے کہ میں اس فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتا، تو اس کا اعلان حکومت کے خلاف بغاوت سمجھاجاتا ہے۔

            یہی حال آیت کریمہ میں ذکر کردہ تسلیم کا بھی ہے کہ اگر کوئی مسلمان شریعت کے حکم اور اس کے فیصلے کو دل و جان سے درست مانے اور عملی طور پر بھی اس کو رد نہ کرے لیکن اس کے باوجود کبھی کبھار اس کے خلاف گناہ کا ارتکاب کرے، تو محض اس گناہ کی وجہ سے اس کو اسلام سے خارج نہیں قرار دیا جاسکتا، ہاں اگر کوئی شخص عناد کے طور پر شریعت کے واضح فیصلے کو رد کرے یا اس کا مقابلہ کرے تو وہ یقینا کا فر ہے۔

            خلاصہ کلام یہ ہے کہ شریعت کے فیصلہ کے خلاف عمل کرنا اگر چہ گناہ اور جرم ہے لیکن محض اس کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہیں قرار دیا جا سکتا، تاہم اگر کوئی اس فیصلے کو قبول ہی نہ کرے بلکہ عناد کی وجہ سے اس کو رد کرے یا اس کے مقابلے اور معارضے پر اُتر آئے تو وہ کافر ہو جائے گا۔

(۵)مخالف ادیان و مذاہب سے بیزار ہونا

            یہ بھی ایمان کے معتبر ہونے کے لئے ایک بنیادی شرط ہے، جس کے بغیر اسلام کا اعتبار نہیں، اگر کوئی شخص دل سے اسلام کی حقانیت کا یقین کرے اور زبان سے بھی اس کا اقرار کرے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلام کے علاوہ دیگر ادیان مثلاً عیسائیت، یہودیت وغیرہ کے ساتھ بھی وابستہ رہے اور اس کو بھی مذہب کے طور پر باقی رکھے تو وہ بھی مسلمان نہیں کہلائے گا، کیوں کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام ہی کو حق اور سچ مذہب تسلیم کرے، اس کے علاوہ دیگر ادیان کو منسوخ تصور کرے۔

            ارشاد خداوندی ہے:إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ۔

             بلاشبہ دین (حق اور مقبول) اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔

            اسی بناء پر حضرات فقہاء کرام نے بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا کہ اگر کوئی عیسائی یا یہودی مسلمان ہونا چاہے تو صرف کلمہ طیبہ پڑھنے یعنی توحید ورسالت کا اقرار کرنے سے وہ مسلمان نہیں ہو گا بلکہ اپنے دین سے برأت بھی ضروری ہے۔

            علامہ ابن قاوان شافعی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۸۹ھ) تحریر فرماتے ہیں:

            بل الإیمان ہو التصدیق الخاص ولکن لقبولہ شرط ہو التلفظ بالشہادتین عند القدرة وعدم الإتیان بما ہو مکفر.

            ایمان تو خاص قسم کی تصدیق کا نام ہے (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے) لیکن قبولیت ِایمان کے لیے ایک تو یہ شرط ہے کہ اگر قدرت ہو تو زبانی توحید ورسالت کا اقرار کرے، اور دوسری شرط یہ ہے کہ موجب کفر کوئی کام نہ کرے۔

            علامہ حصکفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان) سوی الإسلام (أو عما انتقل إلیہ بعد نطقہ بالشہادتین، وتمامہ فی الفتح؛ ولو أتی بہما علی وجہ العادة لم ینفعہ ما لم یتبرأ بزازیة.

            مرتد کے اسلام لانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دین ِاسلام کے علاوہ تمام ادیان سے یا جو دین اختیار کر رکھا ہے، خاص اس دین سے اپنی برا ء ت کرے اور توحید ور سالت کا اقرار بھی کرے، اگر صرف عام معمول کے طور پر اقرار کرے گا تو اس کا فائدہ نہیں ہو گا؛ جب تک باقی باطل ادیان سے اپنی برا ء ت کا اظہار نہ کرے۔

ان شرائط کو مقرر کرنے کی بنیادی وجہ

            اس باب کے شروع میں تفصیل سے گزر چکا ہے کہ ایمان و کفر آپس میں ضدین بلکہ نقیضین ہیں، شریعت نے ایمان کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے، اگر وہ مفہوم موجود ہو تو آدمی مسلمان کہلائے گا اور اگر کہیں خدانخواستہ وہ مفہوم بر قرار نہ رہے تو اس کوکافر قرار دیا جائے گا، باہمی تناقض کی وجہ سے دونوں کے درمیان کوئی تیسری صورت نہیں ہے کہ جو نہ ایمان ہو نہ کفر کیوں کہ ارتفاع نقیضین محال ہے۔

            ایمان ہو یا کفر، ہر ایک دل کے خاص افعال و کیفیات سے عبارت ہے، دنیا جہاں کی دیگر تمام چیزوں کی طرح کفر کے پہچاننے کے بھی دو طریقے ہیں، ایک ذاتیات کے ذریعے پہچاننا ہے اور دوسرا طریقہ لوازم و خواص یا قرائن کی وجہ سے پہچاننے کا ہے مثلاً زید کو یا تو حیوان ناطق سے پہچانا جاتا ہے، جو اس کی ذاتیات سے مرکب ہے یا اس کی شکل و شباہت، کردار و گفتار و غیرہ اُمور کے ذریعے اس کا علم ہوتا ہے جو کہ خواص و قرائن کے قبیل سے ہیں۔

            ٹھیک یہی صورت حال کفر کی بھی ہے، کفر کی ذات ” تکذیب النبی ﷺ فی شئی مما علم مجیئہ بہ ضرورة ” یا ” عدم تصدیقہ فی شئی مما علم مجیئہ بہ ضرورة ” ہے، اگر کوئی بد بخت صراحةً دین ِاسلام یا اس کی ضروریات دین میں سے کسی کی تکذیب کرے یا ان میں سے کسی چیز کی تصدیق بالقلب نہ کرے تو ایسا شخص کافر ہے اور یہی کفر کی اپنی ذاتی شکل ہے۔

            بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کفر اپنی ذاتیات کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا؛ بلکہ کچھ قرائن و لوازمات اس کی عکاسی کرتے ہیں؛ لیکن جس طرح عام زندگی میں مطلق قرینہ کا اعتبار نہیں کیا جاتا، اسی طرح یہاں بھی یہی صورت ِحال ہے، بلکہ شریعت ِمطہرہ نے تو اس باب میں ظنِ غالب والے قرائن پر بھی اکتفا نہیں فرمایا، اس سے بھی بڑھ کر درجہ ٴیقین کو ضروری قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ حضرات ِفقہاء کرام نے یہ متفقہ ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ امر محتمل کی وجہ سے کسی معین شخص کی حتمی تکفیر جائز نہیں، اگر کسی کلمہ میں تمام تر احتمالات موجب کفر بھی موجود ہوں لیکن اگر کوئی ایک ایسا احتمال بھی موجود ہو جو کفر کا موجب نہ بنتا ہو تو حتی الامکان اسی احتمال کو ترجیح دینی چاہئے اور اس کے مطابق تکفیر کا حکم لگانے سے احتراز کر لینا چاہئے۔

            اگر مطلق قرینہ سے اندرونی کفر پر استدلال کرنا درست ہوتا تو صفحہ ہستی سے اسلام کب کا مٹ چکا ہوتا، اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر قرینہ اور ہر دلالت کو اس باب میں کافی قرار نہیں دیا، بلکہ دلالت قطعی کو ضروری قرار دیا، لہذا ہر گناہ کا ارتکاب کفر نہیں بلکہ صرف انہی اُمور کی وجہ سے کسی کی تکفیر کی جاسکتی ہے جو دلی کفر پر قطعیت کے ساتھ دلالت کریں۔ اور فقہاء کرام کی تمام تر جزئیات کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے امور چار ہیں جو لوزام اورشرائط ایمان کے عنوان سے ذکر کئے جاچکے، اب ان اُمور کو ایمان کے اجزاء قرار دیے جائیں یا شریعت کی نظر میں ایمان کے معتبر ہونے کی شرائط کا نام دیا جائے، لیکن بہر حال حقیقت وہی ہے جو تحریر کی گئی۔

(مستفاد ازاصول تکفیرص:۶۴ تا ۸۲)

 ایمان کے درجے :

            ایمان کے دو درجے ہیں:

             ۱ایمان تحقیقی۔     ۲ایمان تقلیدی۔

            ایمانِ تحقیقی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل ہو اور انہیں دلائل سے ثابت بھی کر سکتا ہو۔

            اور ایمان ِتقلیدی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل تو ہو، مگر انہیں دلائل سے ثابت نہیں کرسکتا۔

            دونوں قسم کا ایمان معتبر ہے، تاہم ایمان ِتحقیقی، ایمانِ تقلیدی سے رتبے میں بڑھ کر ہے۔ ”قال ابوحنیفة وسفیان الثوری ومالک والاوزاعی والشافعی واحمد وعامة الفقہاء واہل الحدیث رحمہم اللّٰہ تعالیٰ: صلح إیمانہ ولکنہ عاص بترک الاستدلال بل نقل بعضہم الإجماعَ علی ذلک“۔ (شرح فقہ اکبر، ص:۳۴۱)