شبِ برأت یاشبِ خرافات؟

 ابوعالیہ نازقاسمیؔ،اِجرا، مدہوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

 شب برأت کے معنی:

            لغت میں’’شب ‘‘کے معنی رات کے ہیں۔اور’’برأت ‘‘کے معنی نجات،چھٹکارا،بچاؤ،صفائی،بیزاری اور گلوخلاصی کے ہیں۔اب اس کے معنی ہوںگے ایسی رات؛جس میںبندے کو نجات ،چھٹکارہ یاپروانۂ آزادی ملے ۔ شعبان المعظم کی پندرہویں رات’’شبِ برأت‘‘ کہلاتی ہے ۔چوں کہ ایک روایت کے مطابق اس رات میںاللہ جل شانہ بنو کلب کی بکریوںکے بدن پرجتنے بال ہیں ،اتنے لوگوں کی بخشش فرمادیتے ہیں ۔ یہاں پر کثرت کابیان کرنا ہے یعنی اتنے لوگوںکودارالسزاسے باہرنکالتے اورنجا ت عطافرماتے ہیں،جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی کومعلوم ہے ۔

            نوٹ:بنوکلب بکریاں پالنے میں عرب کاایک مشہور قبیلہ تھا۔ اورتمام قبائل سے زیادہ بکریاں اُس کے پاس ہواکرتی تھیں۔توبنوکلب کے قبیلے کی بکریوں کے بالوںکی تعدادسے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ بخشش فرماتے ہیں۔

            خداوندکریم کے رحم وکرم کامعاملہ تواپنے بندوںکے ساتھ یہ ہے ،جوابھی ہم نے دیکھا۔اوراب یہ بھی دیکھنے کے لیے تشریف لے چلیںکہ شعبان کی پندرہویں شب کے شروع ہوتے ہی ہم مسلمان اس مبارک رات میںکیاکیاگل کھلاتے اورکیسے کیسے بے ہودہ کارنامے انجام دیتے ہیں۔

(۱)آتش بازی:

            اس مقدس رات میں سب سے بدترین بدعت آتش بازی ہے ،جومجوسیوںکی نقل ہے ۔ہمارے فقہائے کرام لکھتے ہیںکہ قبرستان میں آگ لے جانابھی ممنوع ہے ؛کیوںکہ آگ قہرِ الٰہی کی علامت اوراس کا نشان ہے ۔اس لیے قبرستان میںآگ نہیں لے جاناچاہیے ۔توپھرانصاف سے بتائیںکہ اُس آگ کے ساتھ کھیلنا یہ اسلامی کام ہوسکتاہے؟ہرگزنہیں،بل کہ یہ مجوسیوںکامذہبی فعل ہے ۔بہت پڑھنے ،سوچنے اورغورکرنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آتاکہ ہم مسلمانوں میں یہ مجوسیوںکافعل کب اورکہاںسے آگیا؟بہرحال حدیث شریف میں ہے کہ ’’من تشبہ بقوم فہومنہم‘‘ یعنی جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیارکرے گاوہ اُنہی میں سے ہوگا۔یہ مجوسیوںکافعل ہے؛ جسے آج کے ترقی یافتہ مسلمانوںکے بچے اورلاڈلے آتش بازی کرکے مجوسیوںکی مشابہت اختیار کرتے اورخوب خوش ہوتے ہیں ۔اب انجام بَخیر ہوگا یا بِخیر خود ہی فیصلہ کرلیجیے۔

            حکیم الامت حضرت تھانویؒ(و: ۵؍ ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ ،بروز: بدھ ،بوقت: صبح صادق/م: ۱۵؍ رجب المرجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۱۹؍ جولائی ۱۹۴۳ء ،بروز:پیر،رات۱۰؍ بج کر ۳۰؍ منٹ )کے مواعظِ شریفہ میںہے کہ ہندوؤں کی ہولی تھی اورایک مسلمان پان کھاتے ہوئے جارہاتھا۔اُس نے گدھے پرپیک پھینک دی،کہ تجھے کسی نے نہیں رنگاتولاؤ!میںہی تجھے رنگ دیتاہوں۔بس اسی میں پکڑلیاگیاکہ تونے ہندوؤںکی مشابہت کی تھی۔رات دن رنگ سے کھیلنایہ ہندوؤںکی مذہبی رسم تھی تونے بہ طورمذاق کے ان کی مشابہت کی۔تومعلوم ہواکہ یہ تشبیہ کا مسئلہ بڑا خطرناک ہے ۔کسی قوم کی مشابہت کرنا تو سب سے بدترین اورقبیح ترین بدعت ہے ۔اللہ کرے کہ مسلمانوں میں یہ آتش بازی کی رسم ختم ہوجائے ۔ اِس سے ہرسال جانی ومالی نقصانات کاسامناہوتاہے ۔لیکن نہ جانے کہ مسلمان کوعقل کیوںنہیں آتی ؟دین بھی گیا، دنیا بھی گئی ، ایمان بھی گیا،جان بھی گئی ۔

ایک بات یادرکھیں:

            یہ آتش بازی ایک گناہ ِبے لذت اورچندگناہوںاورنقصانات کامجموعہ ہے۔

            (۱)اپنے مال کاضائع کرنااورہرقسم کی بربادی کادروازہ ہے۔(۲)اپنی جان، بچوں اور پاس پڑوس کو خطرے میںڈالناہے،جس کاآئے دن مشاہدہ ہوتارہتاہے۔(۳)شبِ برأت میں بچوںکوآتش بازی کے لیے پیسے دینااحکامِ الٰہیہ کی نافرمانی کی تعلیم اور بے ہودہ رسموںکاخوگربناناہے۔نعوذباللہ حکم شرعی کاپورامقابلہ ہے ۔ (۴)یہ خرافات ہرجگہ اورہروقت بری ہے، لیکن شب برأت میں اِس کی شناعت اوربڑھ جاتی ہے ۔اس لیے کہ رحمتِ خداوندی ہرانسان کوتوبہ واستغفارکی طرف بلارہی ہوتی ہے۔

            قارئینِ کرام:جب آتش بازی کی بات چل ہی رہی ہے تولگے ہاتھوںایک نظرعیدالفطرکی چاند رات پربھی ڈال لیں کہ عیدکے چاندکی خبرملتے ہی مسلمان گھرانوںکے بچے اوربڑے ؛سب ایک ہی لائن میں کھڑے ہوکر آتش بازی کاوہ مظاہرہ ،طوفان بدتمیزی اورشیطانی خوشی کاوہ سامان کرتے ہیںکہ شایدہندوؤںکی دیوالی بھی شرم کے مارے منہ چھپاتی ہوگی ۔ہم بچوںکوآتش بازی کے لیے پیسے دیتے ہیں اوروہ پٹاخے خریدتے اور’’ہم توڈوبے ہیں صنم،تم کوبھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق جہنم کاسامان تیارکرتے ہیں ۔جب کہ قرآن کریم صاف کہہ رہاہے : {یٰاَیَّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْااَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً۔}

            ترجمہ: اے ایمان کادعویٰ ٹھوکنے والو!بچاؤاپنے آپ کواوراپنے گھروالوںکوجہنم کی آگ سے۔

            قرآن کریم کامطالبہ مسلمانوںسے یہ نہیںہے کہ خودجہنم سے بچواوردوسروںکی فکرچھوڑدو۔بل کہ اپنے کوبھی بچاناہے اورگھرکے دوسرے افراداوراڑوس پڑوس کوبھی سمجھانا، بچانااورجنت کی طرف لے جاناہے ۔ اِس کی وجہ حدیث پاک میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ’’کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ‘‘ کہ تم سب نگران ہواورتم سے اپنی رعایاکی نگرانی کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔یادرہے کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں یہ اسلام نہیں ہے اورایساکرنامسلمانوںکی شان نہیں ہے ، جس سے کوئی بھی انجان نہیںہے۔ہم بچوںکے بے جا لاڈ پیار میں ان کی بھی اوراپنی بھی دنیااور آخرت دونوں کو تباہی کے گھاٹ اتار رہے ہیں ۔اگرکوئی ان غلطیوںکی نشان دِہی کرے توبڑے آرام سے کہہ دیتے ہیںکہ’’ ابھی تو یہ بچے ہیں،یہی توان کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں‘‘ ۔ ارے جناب! وہ بچے ہیں،لیکن ـلگتاہے کہ آپ تو بچے بھی نہیں، بالکل کچے ہیں۔خدارابات کوسمجھنے کی کوشش کیجیے۔

(۲)حلوے کاجلوہ:

            اِس شب کی ایک بدعت حلوہ شریف ہے ۔یہ توکسی پیٹ کے پجاری نے ایجادکیا ہوگا۔ اورجناب نے ایساایجادکیاکہ اس رات کومسلمانوںکے ہرگھرمیں حلوہ کاجلوہ دیکھنے کوملتاہے ۔ایک دوسرے کوتحفہ دیتے بھی ہیں۔ سمجھتے ہیںکہ حلوہ کاجلوہ نہیں،توشب برأت بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اِس رات کورنگ برنگے حلوے ضرور پکاتے ہیں،اس کی کوئی اصل ،ثبوت اوربنیادنہیں۔ہماری بے حسی کایہ عالم ہے کہ فرائض وواجبات کے ترک پرکوئی نہیںپوچھتا۔نمازفرض ہے ، لیکن چھوڑ دے تو کسی کوافسوس تک نہیں ہوتا۔ لیکن حلوہ نہ ملے توبخیل،کنجوس اورمکھی چوس کے مبارک القاب سے نوازے جاتے ہیں۔ سب قضاہو،کوئی بات نہیں؛لیکن یہ حلوہ بے جلوہ نہ ہو،حلوہ کی قضاہوجائے یہ ناممکن۔ شب برأت کی فضیلت پرجتنی بھی احادیث ہیں، ان میں کہیں بھی حلوے کاذکرنہیں ملتا اور قیامت تک ان شاء اللہ نہیں ملے گا۔یہ محض فضول حرکت ،بے ہودہ رسم اور ایجادِ بندہ ، پیٹ کادھندہ ، سراسرگندہ ، شیطان کاپھندہ ہے۔ اگر اس کو مقدس تہوار سمجھ کریا مسلمانوں کا کوئی قومی دن سمجھ کر کرتے ہیں ، تویادرکھیںکہ یہ بھی بدعت ہے ۔ یہ بہر حال مسلمانوں کا قومی دن نہیں ،اس لیے ایسی بے ہودہ رسم سے بچناضروری ہے ۔

(۳)چراغاںکرنا:

            ان راتوںمیں خوب چراغاںکیاجاتاہے ایسامعلوم پڑتاہے کہ جیسے دیوالی کاتہوارہو۔اس کی بھی کوئی اصل نہیںہے اوراس کامنشابھی وہی ہے کہ اس دن کوقومی تہوارکادرجہ دے دیا۔اب تویہ بدعت ماشاء اللہ ترقیات کی  بلندی حاصل کرتے ہوئے گھروں سے نکلی اورقبرستان تک جاپہنچی۔ اورمٹی وغیرہ کے چھوٹے چراغ سے ترقی کر کے جنریٹرکے ذریعہ بڑی بڑی لائٹس ،ٹیوب لائٹیں اوراب تورنگارنگ کے برقی قمقموںسے قبرستان کو دلہن کی طرح سجایا بھی جانے لگا ہے۔شاید قبر کے مردوںکواندھیرے سے نجات دلانے اوراُن کی وحشت دورکرنے کے لیے یہ سب کیے جاتے ہیں۔اللہ اکبر! شہرخموشاںکوبھی اس طرح آباد کیا جا رہا ہے ۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کنت نہیتکم عن زیار ۃ القبور۔ ألا فزوروہا،فإنہاتذکرۃ الآخرۃ‘‘میںتم کو قبروںکی زیارت سے منع کیا کرتا تھا لیکن اب وہ حکم واپس لیتا ہوں۔ سنو!اب اُن کی زیارت کیاکرو،کیوںکہ وہ آخرت کی یاددلاتی ہے ۔

ہم مستورات نہیں،مکشوفات ہیں :

            قبروںپرچراغاںکرنا،لہوولعب کرنا،بے ہودہ بات اور عورتوںکا بھڑکیلے اوربہترین کپڑے پہن کر وہاں جانا، خصوصیت کے ساتھ بدعت ہے ۔مردہی کیا؛اب تومستورات بھی جاتی ہیں۔اِس لیے اب اُن کو مستورات تو نہیںکہناچاہیے۔مستورہ توکہتے ہیںچھپی ہوئی چیزکو،وہ تواب یہ کہتی ہیںکہ دنیاوالے ہمیںگالی دیتے اورہماری توہین کرتے ہیں مستورات کہہ کر۔ہم کسی کے اباسے کم ہیں؟مردحضرات عموماًاورمولوی صاحبان خصوصاً؛اس حقیقت کوکیوںاورکیسے بھول جاتے ہیں،اُن کوکیوں یہ بات یادنہیں رہتی کہ ہم نے اندراگاندھی بن کر تمہارے اوپر ۱۵؍ سال ۱۱؍ مہینے ۲۷؍ دنوں تک حکومت کیاہے ؟پھربھی ہمیں مستورہ کہتے ہو؟بالکل سچی بات ہے کہ ہمیںکوئی حق نہیں پہنچتااُن کو مستورات کہنے کا۔ یہ تو خودہی’’ مکشوفات‘‘ ہوگئی ہیں ،کھل چکی ہیں۔

            بہرکیف!مردوںاورعورتوںکاقبرستان میں جمع ہونا،ایک جشن کے اندازمیں عیاںاوربھڑکیلا لباس زیب تن کر کے بے پردہ ہوجانا،لعنت درلعنت درلعنت ہے ۔خداوندِکریم ان کوہدایت دے ۔سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروںکی زیارت کاحکم دیاتھاکہ لوگوںکوعبرت ہو،کوئی تماشانہ ہو۔اسی لیے مشکوٰۃ شریف میںممانعت کی حدیث بھی موجودہے:’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن زوارات القبور‘‘۔

            ترجمہ: اللہ کے رسول کی لعنت ہوقبروںپرزیارت کے لیے جانے والی عورتوںپر۔ (ص:۱۵۴)

اس رات میںکیے جانے والے مزیدغیرشرعی اعمال:

            (۱)قوالی اورناچ گانے کی محفلیںسجانا۔(۲)شعروشاعری(مشاعرہ ) کرنا۔(۳)نوجوانوںکاشاہ راہ عام پرگاڑیاںدوڑانایعنی گاڑی ریسنگ(Racing)کرنا(۴)گلی،محلوںاوردیگرمقامات پربیٹھ کرتمباکو،سگریٹ نوشی اورحقہ وچرس پینا۔(۵)رات بھرجاگنااورفجرکی نمازقضاکردیناوغیرہ۔

            اللہ رب العزت ہمیںاِن چندسطورپرسوچنے اورپھرسمجھ کراس پرعمل کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین!