شایاں ہے تجھ کو سرورِ کونین کالقب

شایاں ہے تجھ کو سرورِ کونین کالقب

مولانا افتخار احمد قاسمی# بستوی # /استاذجامعہ اکل کوا

            اللہ رب العزت کے بعد سب سے بڑی ذات گرامی حضرت محمد ا کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ ا سارے نبیوں کے سردار اور سید الانس والجن ہیں۔ آپ ا کے اوصاف کو دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ ا کی امت میں پیدا ہونے کی خواہش ظاہر کی ، تو خدا وند ِذو الجلال نے فرمایا کہ آپ مستقل نبی ہیں۔

            شاہ عبد الحق محدث دہلوی  نے سچ کہا ہے #

یا صاحب الجمال ویا سید البشر

من وجہک المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

            قاعدہ یہ ہے کہ اچھی چیز ملنے پر آدمی خوش ہوتا ہے۔ خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اللہ کے بعد سب سے اچھی چیز ، اعلیٰ وارفع چیز اوربلند و بالا چیز کائنات کے لیے ولادتِ رسول( ا)ہے۔لہٰذا آپ اکی ولادت پر خوش ہونا اوراظہار خوشی کرنا دستور کے مطابق ہے۔

            البتہ اسلام کی نظر میں ہر خوشی و غمی اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق ہونی چاہیے۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول اخوشی کے اظہار کا حکم فرمائیں، وہاں اظہار ِخوشی عبادت ہوگی اور جہاں اللہ اور اس کے رسول ا سکوت اختیار کریں، جس کا منشا عدم ِجواز یا ممانعت ہو، تو اس جگہ اسی منشا پر عمل در آمد کریں گے۔

            چناں چہ حضور اکرم ا کی ولادتِ شریفہ ہی کو دیکھ لیں کہ آپ ا کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی اور وفات بھی ربیع الاول کے مہینے میں ۔ ایک عمدہ چیز اسی ماہ میں ملتی ہے اور اسی ماہ میں چھین لی جاتی ہے۔ تو عقل و خرد کا تقاضا ہے کہ نہ خوشی کا اظہار ہو نہ غم کا، بل کہ جس طرح آپ ا کی زندگی میں آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم آپ ا کے سامنے آپ کو دیکھ کر رخصت ہوگئے، وہ طریقہٴ زندگی ، وہی اسوہٴ رسول اور دستور ِحیات ہمارے لیے بھی مشعل ِراہ ہوگا۔

            ہاں! آپ ا کی ولادت با سعادت کے لیے جس دن کا انتخاب کیا گیا، وہ پیر کا دن تھا اور پیر ہی کے دن آپ ا کی وفات ہوئی ، لیکن حدیثوں میں وارد ہے کہ پیر کے دن میں روزہ رکھتا ہوں، اس لیے کہ اس دن میری ولادت ہوئی۔ اس حدیث سے ولادت باسعادت کے لیے خوشی کا اظہار ثابت ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے خوشی کے اظہار کے لیے جو طریقہ اختیار کیا، اسی طریقے میں انحصار سمجھو اور روزہ رکھ کر خوشی کا اظہار کرو تو اتباع ِنبوی کا بے شک ثواب ملے گا۔

            دوسری بات یہ ہے کہ حضور ا نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ میں پیر اورجمعرات کو روزہ اس لیے رکھتا ہوں کہ ان ایام میں بندوں کے اعمال بارگاہِ ایزدی میں پیش کیے جاتے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال بارگاہِ رب العزت میں جب پیش ہوں تو میری حالت روزے کی ہو۔

            اس سے پتا چلا کہ آپ اکی ولادت پیر کو ہوئی تو آپ کا روزہ رکھنا پیرکے دن اظہار ِخوشی کے لیے نہیں تھا، بل کہ اس لیے تھا کہ بندوں کے اعمال پیر کے دن پیش ہوتے ہیں۔توجب میرے اعمال پیش ہوں تو میری حالت روزے داروں والی ہو۔ اورجس حدیث میں آپ ا نے اپنے روزے کی وجہ ”ولادت“ کو بتلایا ہے تو وہ علت نہیں حکمت ہے اوراحکام کا مدار علل پر ہوتا ہے، حکمتوں پر شریعت کے احکام کا مدار نہیں ہوتا۔

            اب اگر کوئی صاحب یہ کہے کہ ولادتِ باسعادت کا ذکر ربیع الاول میں تو کرنا ہی چاہیے کہ آپ کی آمد اسی ماہِ مبارک میں ہوئی اور ولادت کے پہلو کو سامنے رکھیں تو ربیع الاول کا مہینہ رمضان المبارک سے بھی بڑھ جائے گا ۔ تو اس کے جواب میں یہ عرض کیاجائے گا کہ رمضان اور ربیع الاول میں کون افضل ہے؟ یہ سوال کرنا درست نہیں،کیوں کہ جب تمام اشیا ایک نوع کی ہوں، تب کہا جاتا ہے کہ ان اشیا میں کون سی شی بہتر اور افضل ہے؟ جب نوع بدل جائے تو سوال ہی لغو ہوتا ہے۔ اگر کوئی پھربھی لغو سوال پر ہی تلا ہے تو اس کو کہیں گے یہ اضافی امر ہے۔ بعض اعتبار سے ربیع الاول افضل ہے اوربعض اعتبارسے رمضان ۔ رمضان تو نیکیوں کی برسات کے اعتبار سے افضل ہے اور ربیع الاول محمد رسول اللہ ا جو منبع ِانوار وفیوض ہیں، ان کی ولادت باسعادت کے اعتبار سے افضل ہے۔

            جب ربیع الاول کی فضیلت ثابت ہوگئی تو اس ماہ میں ذکر ِرسول کرنے میں کیا قباحت ہے؟

            اس ماہ میں ذکر ِرسول کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ قباحت اس میں ہے کہ ہم صرف اسی ماہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کریں اورباقی گیارہ مہینوں میں آپ اکی سنتوں کا جنازہ نکالیں۔ نہ نماز کی پابندی ، نہ روزے کی، نہ حج کی ادائیگی کی فکر ، نہ زکوٰة کی پابندی ، نہ چہرے پر داڑھی رکھیں، نہ عادات واطوار اور نشست و برخاست میں نبی کی سنت کی عملی وقولی فکر کریں۔

            ایک بزرگ عاشق زار مجدد ملت حضرت ملا علی قاری ربیع الاول کی فضیلت میں فرماتے ہیں:

لہذا الشہر فیی الإسلام فضل

ومنقبة تفوق علی الشہور

            اس ماہ ِمبارک کی شریعت ِاسلامیہ میں بڑی فضیلت ثابت ہے۔ اس کی منقبت ایسی ہے جو تمام مہینوں سے اس ماہ ربیع الاول کو فائق برتر بناتی ہے۔

ربیع فیی ربیع فیی ربیع

ونور فوق نور فوق نور

            ”بہارپربہار پربہار ہے۔ نورپر نور ہے اوراس پر بھی ایک عظیم نور ہے۔“

            ربیع الاول کی فضیلت وبرتری تو ثابت ہے، لیکن ماہِ رمضان کے مقابلے میں سوال کرنا کہ ربیع الاول افضل ہے یا ماہِ رمضان ، تو اس کے متعلق مذکور الصدر عبارتوں میں کچھ بیان آیا۔ مزید یہ بھی ہے کہ ایک عارف اس نوعیت کے سوالات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ سوال تو ایسا ہے جیسے کہ سوال کیا جائے کہ پانی افضل ہے یا کھانا۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ تفضیل نوع ِواحد کے افر اد میں پیدا ہوا کرتی ہے۔دو مختلف انواع میں نہیں ہوتی، کھانا اور پانی دو الگ الگ انواع ہیں اور دونوع میں ہرنوع اپنے اپنے درجے میں مستقل ہے۔ ہرایک کی خاصیتیں جدا جدا ہیں۔ پانی کی خاصیتیں الگ ہیں اور کھانے کی خاصیتیں الگ۔ پانی اپنی خاصیتوں میں افضل مانا جاتا ہے اور کھانا اپنی خاصیت میں افضل۔ اس لیے جیسا کہ پہلے بھی آیا ہے اس نوع کا سوال بے معنیٰ ہے۔

            آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ نوع ِواحد کے افراد میں بھی ہرفرد کا حسن الگ ہے، جو الگ الگ ذوق رکھنے والوں پر منحصر ہے۔ اختلاف مذاق کے اعتبار سے ایک شخص کسی کے نزدیک حسین وجمیل ہے، تو دوسرا شخص اختلاف مذاق کی وجہ سے کسی دوسرے شخص کو حسین معلوم ہوتا ہے۔

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کے خاص استاذ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة اللہ علیہ اسی اختلاف مذاق پر بیان فرمایا کرتے تھے کہ حبشہ میں سبھی کالے سیاہ ہوتے ہیں ، کوئی مشکل سے گورا ہوگا۔ اب وہاں پر حسن کا معیار کیا ہو؟ تو” حبشہ میں بڑا حسین وہ ہے ،جو خود سیاہ ہو،جس کی سیاہی میں چمک پیدا ہوگئی ہو اورہونٹ خوب موٹے موٹے ہوں،حبشیوں کے نزدیک یہی حسن ہے اور ان کی طبائع اس پر فریفتہ ہوتی ہیں۔“ (خطبات حکیم الامت : ۵/۱۵۳)

            اسی تفضیلِ نو ع واحد میں انحصار اختلاف مذاق پر ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دیہاتی لوگوں کو دیہات کا کھانا شہر کے انواع و اقسام کے مرغن کھانوں سے زیادہ مرغوب ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ احمد ملا جیون رحمة اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ بادشاہِ وقت کے یہاں جانا ہوا تو انہوں نے پوچھ لیا : آپ کیا کھائیں گے؟ آپ کی طبیعت کیا کھانے کو چاہ رہی ہے؟ ملا جیون رحمة اللہ علیہ نے بے تکلفی میں جواب دیا: گلگلہ کھانے کی طبیعت چاہ رہی ہے۔ باورچی کو بادشاہ نے حکم دیا ، اگلے وقت دستر خوان پر گلگلے حاضر کیے گئے۔ ملاجی نے کھایا ، لیکن بعد فراغت کھانے کی کچھ تعریف نہ کی۔ بادشاہ نے پوچھا: کچھ پسند آئے تھے گلگلے ؟ جواب میں فرمایا: جیسے ہمارے گھر پکتے ہیں یہ گلگلے ویسے نہیں تھے۔ بادشاہ نے باورچی کو تاکید کی کہ دوسرے وقت میں گلگلے ذرا قدرے اہتمام سے پکانا۔ دوسرے وقت شاہی باورچی نے گھی ، شکر اورمصالحہ میں اضافہ کرکے خوب لذیذ بنانے کی کوشش کی۔ دسترخوان پر لائے گئے ، کھاکر حضرت نے پھر کچھ نہ کہا۔ بادشاہ نے باورچی کوذرا ڈانٹ کرکہا کہ ذرا اچھے گلگلے پکاوٴ۔ تم سے گلگلے بھی ملا جی کے موافق نہیں پکتے؟ شاہی باورچی سمجھ دارتھا، بات سمجھ گیا ۔کہنے لگا ان شاء اللہ! کل کو ملا جی کی مرضی کے موافق پکیں گے۔

            اگلے دن باورچی نے شکر کی جگہ ڈھیر سارا گڑ ڈالا اور اصلی گھی کی جگہ ڈھیر سارا تیل ڈالا۔اب خوب اچھی طرح بھوناکہ گلگلے سیاہ ہوگئے اور لاکر دسترخوان پررکھا۔ ملاجی نے گلگلے کھائے تو کہنے لگے ہاں ایسے گلگلے ہوتے ہیں۔ بادشاہ گلگلے کی رنگت ، تیل کی تیزی اور گڑ کی وجہ سے غصہ ہوا ، لیکن ملاجی نے کھاکر اظہار ِخوشی کیا۔ ہاں یہ گلگلے ہیں،جس میں گڑ کی گڑ ہنڈ اور تیل کی تلاہننڈ نہ ہو وہ کیاگلگلے ؟

            معلوم ہوا کہ اختلافِ مذاق سے ایک عمدہ کھانا دوسرے کے مذاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے خراب اوربے لذت ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایک ہی نوع میں بھی حسن ِاختلاف مذاق پر جانچا جاتا ہے ،چہ جائے کہ اختلاف ِنوع ہو اور ماہِ ربیع الاول اور ماہِ رمضان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت کا سوال کیا جائے۔

            ربیع الاول کے ماہ کی فضیلت ثابت ہے اورنبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اس ماہ میں ہوئی ہے تو آپ کا ذکر مبارک خوب ہونا چاہیے ، لیکن صرف اسی ماہ میں تخصیص کردی جائے اور دوسرے مہینوں میں اللہ کے رسول کا ذکر نہ ہو، تو یہ بہت بڑی محرومی کی بات ہے۔

            اللہ کے رسول ا کی آمد ہی اس لیے ہوئی کہ خدا کے بعد آپ ہی کا ذکر ہو۔نماز کے لیے اذان ہوتی ہے، تو اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کے بعد اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز پڑھتے ہیں تو التحیات میں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ پڑھتے ہیں۔ تشہد کے مکمل ہونے کے بعد درود شریف پڑھ کر آپ ا ہی کا ذکر کرتے ہیں۔

            صرف ربیع الاول کو ذکر ِرسول کے لیے خاص کرنا شریعت وطریقت پر ظلم ہے اور نبی ا کی شان میں گستاخی ۔ اس لیے کہ جس ذات سے محبت ہوتی ہے اس کا ذکر کسی مخصوص وقت اور مخصوص جگہ میں کرنا عقل وعرف کے خلاف ہے۔ محبت جتنی شدید ہوگی، یاد کا تقاضا اتنی ہی شدت سے ابھرے گا۔

             محبت ایک کلی مشکک ہے ۔ امت کے افراد کو محبتِ رسول، اللہ رب العزت سے محبت کے لیے دلیل اِنِّیہے۔ قرآن نے اس کو اتباعِ رسول میں منحصر کیا ہے اور ارشاد ہے:﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾ اس محبت کے اظہار اورذکررسول کی تخصیص عملی واعتقادی دونوں پہلووٴں سے غلط ہے۔

            بہت سے علما اس تخصیص کے مسئلے میں الجھتے ہیں کہ صاحب اس میں کیا حرج ہے؟ اگر ہم نے ۱۲/ تاریخ کو مولود پڑھ لیا تو کون سا جرم کیا؟ تو سمجھ لیجیے کہ اصل میں تخصیص اعتقادی جرم ہے کہ کسی خاص تاریخ یا وقت کے ساتھ کسی مستحب کو اعتقاداً بلا دلیل ِشرعی مقید کرلینا کہ اس مستحب کا اس تاریخ میں کرنا دوسری تاریخوں میں کرنے سے افضل ہے ، کیوں کہ اس میں قانون شکنی اور شریعت کی مزاحمت ہے۔ جب شریعت نے کسی چیز کو مطلق رکھا ہے اور کسی قید کے ساتھ مقید نہیں کیاہے، تو اس کو مقید کرنا گویا قانونِ شریعت میں اضافہ اوراصلاح ہے اوراس کا جرم ہونا سب کو معلوم ہے۔

            ذرا کوئی سلاطین ِدنیا کے احکام میں تو ایسا کرکے دیکھے کہ قانون عام کو کسی قید سے مقید کردے فوراً باغی اور ملزم شمار ہوجائے گا، لیکن تخصیص عملی اس لیے ممنوع ہے کہ اس میں تخصیص فی الاعتقاد کے ساتھ تشبہ ہے ۔اور مسئلہ تشبہ فقہ کی بہت بڑی اصل ہے ،جس سے بے شمار مسائل مستنبط کیے گئے ہیں۔

             مثلاً ایک شخص دوکان یا دسترخوان پر شراب کی سی بوتلیں بھر کر رکھے ، گو اُن میں پانی ہو، شراب نہ ہو، وہ مجرم ہے اور شرعاً گناہ گار ہے،کیوں کہ اس نے شراب خوروں کے ساتھ تشبہ کیا۔ کس کس سے کہتا پھرے گا کہ اس میں پانی ہے ،شراب نہیں ہے۔

             حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو سر بازار ایک عورت سے بات کرتے دیکھا، فوراً دُرّہ لے کر اس کی طرف لپکے، اس نے کہا : یہ تو میری بیوی ہے۔ فرمایا: کیا تو دنیا بھر کے آدمیوں سے کہنے جائے گا کہ یہ میری بیوی ہے۔ لوگوں کو تو، تجھ پراجنبیہ سے تعلق ہی کا شبہ ہوگا ، پھر مسلمانوں کو بلا وجہ بدظنی میں کیوں مبتلا کرتے ہو؟ خبردار! جو آج سے کسی عورت سے بھی سر ِبازار بات کی ؛چاہے بیوی یا باندی ہی کیوں نہ ہو۔“

 (خطبات سے مستفاد )

            غرض شریعت میں جہاں تخصیص نہ ہو، اپنی طرف سے تخصیص ممنوع ہے۔ ذکر ولادتِ رسول ا میں تخصیص نہیں۔جب چاہیں نبی پاک ا کا آپ کی ولادت کا،ایام ِشیرخوارگی،شباب،بڑھاپا،نبوت، تبلیغ ورسالت، جنگیں، عبادات ، معاملات، معاشرت، عائلی زندگی اورآپ کے اوصاف کا جب بھی ذکر کرنا چاہیں محبت رسول کے تقاضے سے فوراً کردیں۔

            مولانا شاہ فضل الرحمان صاحب سے کسی نے کہا حضرت! آپ مولود نہیں کرتے ؟ فرمایا: ہم تو ہردم مولود کرتے ہیں، کیوں کہ ہروقت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتے ہیں، جس میں نبی کریم ا کا ذکر ہے، بس یہی تو میلاد شریف ہے ۔ اگر آپ اپیدا نہ ہوتے تو ہم محمد رسول اللہ کیسے کہتے اورکیسے پڑھتے؟

            ایک بار کا ذکر ہے کہ مولانا موصوف سے کسی نے عرض کیا :حضرت! نبی کی میلاد کے تذکرے کا جی چاہتا ہے، فرمانے لگے: میلاد نبی سننا ہے ؟ لو ہم سے بھی سن لو۔ اور کھڑے کھڑے مزے لے لے کر یہ شعر پڑھنا شروع کر دیا #

تر ہوئی باراں سے سوکھی زمین

یعنی آئے رحمة للعالمین

            حضرت مولانا شاہ فضل الرحمن رحمة اللہ علیہ کو نبی پاک اسے حد درجے محبت تھی۔آپ ا کا ذکر لطف لے لے کر خوب مزے سے کیا کرتے تھے۔ فرمانے لگے: دیکھو میلاد شریف ہو گئی، نہ کوئی بھیڑ بھاڑ، نہ ازدحام، نہ کوئی مجمع اکٹھا کرنے کی تخصیص، نہ مٹھائی تقسیم کرنے کا جھنجھٹ، نہ چو کی اور کرسی کی ضرورت، نہ مائک، نہ قمقمے؛ مگر آج کل میلاد شریف میں یہ ساری چیزیں لوازم کے درجے تک پہنچ چکی ہیں۔ ان لوازمات کی پاسداری کیے بغیر کوئی میلاد شریف منعقد نہ ہوگی۔چاہے نبی کا کتنا ہی ذکر کر لو، درود شریف پڑھ لو، معجزاتِ نبوی، عبادتِ نبوی اور تسبیحات و اذکارِ نبوی کا ذکر کر لو، میلاد ہوگی ہی نہیں۔

            اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے کوئی ذکرِ ولادتِ رسول ا کا منکر نہیں، ہاں! اس میں جو تخصیصات وقیودات کا انبار اکٹھا ہو گیا ہے، اس پر انکار کیا جاتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ یاد رکھنا چاہیے کہ ولادتِ شریفہ کے کمال کے دو پہلو ہیں:

             ایک مفہومِ لغوی کے اعتبار سے ولادت ِنبویہ کمال ہے۔ اور دوسرے ولادتِ نبویہ اپنی غایت کے اعتبار سے کما ل ہے ۔

            غور کرنے سے پتا چلے گا کہ جن کمالات کی وجہ سے حضور اکرم ا تمام کائنات میں ممتاز ہیں، جیسے اسرا و معراج ،غزوات و سرایا، ولادت ووفات، اقوال ، افعال اور تقریراتِ نبی وغیرہ سب غایات ِولادتِ نبویہ میں داخل ہیں۔

            اور ولادتِ نبویہ لغوی مفہوم کے اعتبار سے کمال رکھتی ہے، اس کے لیے ولادت کے وقت کے حیرت انگیز واقعات کے ساتھ آپ ا کے والدین کا اسلام بھی ہے، جس کو امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ نے” الفقہ الأکبر“ میں لکھا ہے کہ” ما مات علی الکفر“ آپ اکے والدین کا کفر پر انتقال نہیں ہوا ۔وہ دونوں اسلام پر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

            اگرچہ ملا علی قاری شارح ”مشکاة المصابیح “ پر اعتراض ہے کہ آپ حضور اکرم ا کے والدین کے کفر پر مرنے کے قائل ہیں ۔تو یہ بات اس طرح ہے کہ” الفقہ الاکبر“ کی شرح کرتے ہوئے ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے امام صاحب کی عبارت ” ما مات علی الکفر“میں ”ما“نافیہ کو اپنے پاس موجود نسخے میں نہیں پایا۔ آپ کے پاس موجود نسخے میں” ماتا علی الکفر“ لکھا تھا، جب کہ اصل نسخے میں” ما ماتا علی الکفر“ہے، جس کے دو نسخے قدیم مصری کتب خانے میں آج بھی موجود ہیں۔

             ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے اپنے پاس موجود محرف و مصحف نسخے کی بنیاد پر یہ شرح” الفقہ الأکبر“ کی عبارت ” ماتا علی الکفر“ کی لکھ دی کہ نبی کریم ا کے والدین کفر پر اس جہاں سے رخصت ہوئے۔ حالاں کہ ملا علی قاری سے کا اپنے قول سے رجوع بھی ثابت ہے ۔(مرقاة: ۱/ص:۲۲)

            پتا چلا کہ ولادتِ نبویہ کا لغوی مفہوم کے اعتبار سے بھی کمال ظاہر ہے کہ آپ ا ایسے والدین کے ذریعے سے اس عالم ِرنگ و بو میں ظہور پذیر ہوئے، جو فطرتِ اسلام پر تھے اور فطرتِ اسلام پر ہوتے ہوئے اس دار ِفانی سے دارِ آخرت کی طرف کوچ کر گئے ۔

            ماہِ ربیع الاول میں حضورِ اکرم اکی ولادت و وفات کے حوالے سے یہ کمالات ذہن میں نہیں آتے، اس لیے جہاں بے شمار باتیں آپ ا کے کمالات میں ذکر کی جاتی ہیں، وہیں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صرف واقعاتِ پیدائش ہی کمالاتِ نبویہ میں نہیں ہیں،بل کہ محققین علما اور صوفیا کے مطابق ولادتِ نبویہ کے کمالات غایت کے اعتبار سے بھی ہیں، جو آپ کی زندگی میں معجزات، معراج، غزوات، فیصلے اور حجة الوداع کے موقع کے واقعات کی شکل میں پیش آئے۔

             اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا نبی عطا کیا ،جو سراپا کمالات کا مجموعہ ہے اور اس نورِ الٰہی کا مکمل پر تو ہے، جس کو اللہ رب العزت نے ذکر کیا ہے اور فرمایا:﴿ لَقَدْ جَاءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ﴾

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی مانگی ہے کہ” اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ نُوْرًا، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا“

             اے اللہ! مجھے سراپا نور بنا! میرے لیے سراپا نور مقدر فرما!

            اب ہمارا فرض ہے کہ ہم آپ کی ذاتِ گرامی کو محبوب رکھیں۔

            ﴿مَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ﴾

            جو رسول دے دیں اسے لے لیں اور جس سے منع فرمادیں (رک جائیں) ۔

            ایسا نہ ہو کہ محبوب کہے کہ اس کام کو نہ کرو اور ہم اسی کو کرنے لگیں کہ رسول تو میرے محبوب ہیں ،ہم جو چاہے کریں، نہیں محبت کا یہ تقاضا نہیں ہے ، محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنی چاہت کو اس کی چاہت پر قربان کردیں، جیسے عربی شاعر کہتا ہے:

ارید وصالہ ویر ید ہجری

فاترک ما ارید لما یرید

            میں اس سے ملنا چاہتا ہوں اور وہ مجھ سے ترکِ ملاقات چاہتا ہے، تو اپنی چاہت کو محبوب کی چاہت پر قربان کرتا ہوں۔ عارف شیرازی کہتے ہیں:

میلِ من سوئے وصال، ومیلِ او سوئے فراق

ترکِ کام خود گرفتم ، تابرآید کام دوست

            میں ملنے کا خواہاں ہوں اور وہ جدا رہنے کے خواہاں ہیں، میں اپنے ارادے کو ان کے ارادے پہ نچھاور کرتا ہوں۔

            ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، حبیبِ دو جہاں ،محبوبِ کبریا ہیں، ہم بھی دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی محبوب رکھ کر اپنا ایمان کامل بنانے کی فکر کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

            عن انس وابی ہریرہ رضی اللّٰہ تعالی عنہما :” لا یؤمن احدکم حتی أکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔‘

‘ (متفق علیہ)

            اسی طرح ارشاد ہے:

             ”لا یؤمن احدکم حتی یکون ہواہ تبعا لما جئت بہ“

 (عن عبد اللہ بن عمر کتاب الحج)

            ہمارا حال ایسا نہ ہونا چاہیے کہ محبوب کسی وقت خلوت کو پسند کر رہا ہو اور عاشق وہاں سے نہ ہٹتا ہو، محبوب زبان سے کہتا ہے کہ بھائی اس وقت تم ذرا باہر چلے جاؤ ، وہ عاشق کہتا ہے بھلا حضور! میں تو آپ کا عاشقِ زار ہوں، سائے کی طرح لپٹنے والا ہوں، بھلا میں دور رہ کر کب اور کیسے زندہ رہ سکتا ہوں! ظاہر ہے محبوب اس وقت جھنجھلائے گا، پریشان ہوگا اور یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ یہ اچھی محبت اور یہ اچھا عشق ہوا کہ مجھے ہی پریشان کر دیا، اس وقت ہر سمجھ دار شخص یہی کہے گا کہ یہ محبوب کا عاشق نہیں ہے، یہ تو اپنا عاشق ہے، اسے اپنی راحت بھلی معلوم ہوتی ہے، اپنے آرام کا طالب دکھائی دیتا ہے، اگر محبوب کا چاہنے والا اور اس کا عاشقِ زار ہوتا ، تو اس کی چاہت پر اپنی چاہت کو قربان کر دیتا، اس کی رضا کا طالب ہوتا، اپنے جذبات چاہے جتنے پامال ہوتے، اس کی پرواہ نہ کرتا، وہ محبوب کی رضا کو کبھی نہ چھوڑتا۔ اسی لیے اوپر حدیث آئی کہ کامل ایمان والے آپ اس وقت تک نہیں بن سکتے، جب تک کہ اپنی چاہت کو نبی کے احکام اور ان کی چاہت پر قربان نہ کر دیں۔

            اللہ رب العزت ہمیں کامل مومن بنائے آمین یا رب العالمین!

مولانا رومی فرماتے ہیں۔

باز دیوانہ شدم من اے طبیب

باز سودائی شدم من اے حبیب

باز آمد آبِ من در جوئے من

باز آمد شاہ من شاہ من در کوئے من

باز گو از نجد و از یارانِ نجد

تا درو دیورا را آری بوجد