مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی/استاذِ جامعہ اکل کوا
اللہ رب العزت نے اپنے احکام کو بندوں تک پہنچانے کے لیے،جن نفوسِ قدسیہ کو منتخب فرمایا،وہ نبی اور رسول کہلاتے ہیں۔حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی ا تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور ۳۱۵/ رسول تشریف لائے۔سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفی آقائے نامدار، دانائے سبل،فخر رسل،سرتاج ِدو جہاں اورشہ کون ومکاں تشریف لائے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدا کے ذریعے جن احکام و ہدایات کو بندوں تک بھیجا ہے ان کے مجموعے کو ”اسلام “کہتے ہیں۔اور پورا اسلام عقائد،عبادات،معاشرت،اخلاقیات اور معاملات پر مشتمل ہے۔پورے اسلام کی بنیادی و قانونی حیثیت کو سمجھانے کے لیے قانونی کتاب” قرآن کریم “ کو عطا فرمایا۔اور قرآن کریم کے اصول و کلیات اور عقائد و دساتیر کو سلیس انداز میں پیش کرنے کے لیے،احادیث شریفہ اور اقوال صحابہ ہیں۔
اسلام کو تحریری طور پر منضبط و منظم کرنے کے لیے قرآن کو نازل فرمایا۔جس میں عقائد، عبادات، معاشرت،معاملات اور اخلاقیات کے کلی امور اور اصولیات کو بیان فرمایا۔اور انہیں کلیات کو کلی وجزئی امور سے وضاحت فرماکر نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث بیان فرمائیں۔
انہیں کلیات و اصول اور جزئیات وفروع کو حضرت محمد عربی ا نے عملی پیکر میں ڈھال کر اپنے صحابہ کے سامنے پیش فرمایا۔جو” سیرت نبوی“کہلائی۔گویا کہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جو کچھ قرآنِ کریم میں تحریر ہے وہ حضور کریم اکی سیرت میں موجود ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے جب حضور اکرم ا کے سیرت واخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ ”کان خلقہ القرآن“ آپ ا کی سیرت و اخلاق پورے قرآن کا نمونہ ہے۔جو کچھ قرآن ِکریم میں قولی طور پر لکھا ہوا ہے وہ نبی کریم ا کی ذات میں عملی طور پر برتا ہوا ہے۔
پورے قرآن کریم میں توحید کے مضمون کو کامل طریقے سے بیان کرکے لوگوں کو توحید کے قالب میں ڈھالنا ہے۔تو نبی انے اپنی ذات گرامی کو مطلوبہ توحید کے قالب میں عملی طور پر ڈھال کر لوگوں کو اپنی سیرت اور اپنے اخلاق سے تبلیغ فرمائی ہے۔اور یہ بتایا ہے کہ خدائے وحدہ لا شریک لہ کی اکیلی ذات ہے،جو ہر عمل کو ہر لمحے خود ہی انجام دیتی ہے۔چیزوں میں جو تاثیر ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ اسی وقت پیدا فرماتے ہیں۔آگ میں جلانے کی تاثیر،چھری میں کاٹنے کی صفت اور پانی میں برودت، سب اللہ تعالیٰ اسی وقت اس میں پیدا کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔اتنے تسلسل سے ان تاثیرات و صفات کا ظہور تخلیق ِخداوندی کے باعث ہوتا ہے کہ انقطاع نہ ہونے بہ وصف ان تاثیرات کا اشیاکے ساتھ التزام و التصاق معلوم ہوتا ہے۔
کسی کی جان لینا ہے،کسی کو حیات دینا ہے،کسی کو فنا کے گھاٹ اتارنا ہے،یہ سب خدا ہی کی قدرتِ مطلقہ سے بر وقت ظاہر ہوتا ہے۔کسی آدمی کے ارادے اور عزم کے پیچھے خدا کا ارادہ وعزم پہلے ہی سے پایا جاتا ہے۔﴿وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ﴾قرآن ِکریم میں اسی کے طرف اشارہ ہے۔ایک سفر میں حضور اکرم اکا صحابہ کے ساتھ آرام کے لیے ٹھہرنے والا واقعہ یاد کیجیے۔ایک درخت کے نیچے آپ ا آرام فرما نے لگے،صحابہ بھی قدرے دور دور بکھر کر سو گئے۔ایک کافر اسی تاک میں تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنی تلوا رد رخت میں لٹکا کرسو جائیں تو اپنا کام کروں۔جیسے ہی اس کو محسوس ہوا کہ محمد ا سو گئے اور تلوار نیام میں درخت سے لٹکی ہوئی ہے،قریب آیا اور تلوار میان سے سونت کر بولا :محمد!اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟آپ انے جواب دیا،اللہ !اتنا سننا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور حضورانے تلوار ہاتھ میں لے کر پوچھا:اب بولو :تم کو مجھ سے کون بچائے گا؟کافر خدا کے وحدانیت پر ایمان نہیں رکھتا تھا،کہنے لگا :مجھے آپ کے سوا اب کون بچا سکتا ہے؟محمد انے اس کو معاف کر دیا۔
اس واقعے کے حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرنا چاہئے کہ جس توحید کو اللہ رب العزت نے پورے قرآن کریم میں جگہ جگہ خوب تفصیل سے بیان فرمایا ہے،اسی توحید کا عملی نمونہ حضور ا کی سیرت کا یہ واقعہ ہے۔
جس سے پتہ چلتا ہے کہ جان لینے کی طاقت مشیت وارادہ سب ایک اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے۔
دوسری بات جو قرآن کریم میں کلیدی طور پر تفصیل سے بار بار دہرائی گئی ہے، وہ محمد ا کی رسالت اور دیگر انبیائے کرام کی نبوت و رسالت میں آپ کا واسطہ فی العروض اور اصل ہونا﴿تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض﴾ آیات کریمہ سے تفصیل اور دیگر رسولوں کی توہین سے بچنے کا مضمون ہے۔
یہ رسالت کی بات جو قرآن کریم میں ہے۔اللہ کے رسول اکی پوری سیرت یہ رسالت کی تجسیمی شکل ہے۔اور آپ نے اپنے رسول اور نبی ہونے اور افضل الرسل ہونے کو بھی ایسے ایسے پیرائے میں بیان فرمایا ہے کہ کبھی اپنی برتری سے کسی نبی و رسول کی توہین کا مضمون ہر گز مترشح نہیں ہوتا؛بل کہ الفاظ کے ظاہر سے دوسرے انبیا و رسل کی ظاہری فوقیت معلوم ہوتی ہے۔جو وہاں جزوی فضیلت کے زمرے میں ہوتی ہے۔جیسے ”مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو“ وغیرہ۔
جو رسالت قرآن میں مذکور ہے۔اسی رسالت کے تقاضوں کو نبی نے پوری امت کو احکام واعمال کی شکل میں عملی رسالت و تبلیغ کے ذریعے بتایا ہے؛لہٰذا کوئی بھی اچھی بات یا اچھا عمل یا اچھاحکم یا اچھاکردار یا اچھا عقیدہ یا اچھی تہذیب اس وقت تک اچھی قرار نہیں دی جا سکتی ،جب تک محمد ﷺکی رسالت کی زبان سے تصدیق شدہ نہ ہو۔
اگر کسی شخص کو کوئی بات اچھی لگتی ہے،یا کوئی عمل ہنر معلوم ہوتا ہے یا کوئی کردار با عظمت معلوم ہوتا ہے تو محض اس وجہ سے کہ ہمیں یا آپ کو یا کسی کو وہ اچھا،بہتر اور با عظمت لگتا ہے اس کو عمل میں لاکر خدا وند ِقدوس کے یہاں ہم منظور نظر اور محبوب بن جائیں گے ایسا نہیں ہو سکتا۔کسی عمل یا کردار کسی حکم یا طریقہ کے عمدہ ہونے کی پہچان یہ ہوگی کہ وہ نبی ا سے عمدگی کا پروانہ لے چکا ہو۔
قرآنِ کریم کی یہی دوسری بات رسالت ،حضور کی سیرت میں اسی لیے ہے کہ تمام احکام کا امت تک پہچانے میں آپ میڈیم اور ذریعہ ہیں۔آپ کو بیچ سے نکال کر کوئی خیر؛ خیر نہیں رہ جاتا اور نہ کوئی اچھائی؛ اچھائی رہ جاتی ہے۔
حضور اکو خالق ِارض وسماء پروردگارِ عالم کی طرف سے بندوں کو پہنچانے کے لیے جتنے احکام ملے، ان تمام احکام کا مکمل لبادہ اوڑھ کر ،بل کہ اندرون و بیرون سے ان احکام میں رچ بس کر آپ انے بندگانِ خدا کو خدا کے احکام دیے ہیں۔ اسی لیے جہاں قرآن کریم میں ﴿اطیعوا اللہ والرسول﴾بغیر اطیعوا کے دوبارہ ذکر کے مذکور ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے اللہ کی مکمل اطاعت اور اللہ کی مطلوبہ فرماں برداری،محمد اکی مکمل اطاعت اور رسول اللہ اکی مطلوبہ فرماں برداری میں مضمر ہے۔اس کی مثال مولانا نانوتوی بانی ٴدار العلوم دیوبند کی دی ہوئی مثال سے پیش کی جا سکتی ہے۔مولانا محمد قاسم نانوتوی نے محمداکو خورشید اور آفتاب کہا ہے اور سارے نبیوں اور رسولوں کو اس آفتاب و خورشید کی شعائیں اور کرنیں کہا ہے،کہ کرنیں آفتاب نہیں، لیکن آفتاب سے جدا بھی نہیں۔ایسے ہی اور انبیاروشنی اور شعاع میں آفتاب سے جدا نہیں۔نبی کے صدقے میں ہی سارے نبیوں کا وجود ہے،لیکن ضو پاشیاں ان کی خود ہیں جو عالم کو منور کر رہی ہیں۔اور غور سے دیکھا جائے تو وہ ساری ضو پاشیاں خورشید کی ہی ضو پاشی ہے ۔سچ ہے”محمد نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا“اسی مثال کو یوں کہا جائے کہ اللہ کے احکام کا سارا نور محمدانے مانند ِخورشید اپنے اندر ایسا جذب کر لیا ،جیسا کہ قرص ِآفتاب نے نور کو جذب کر رکھا ہے کہ پورا آفتاب ظاہر وباطن اندرون و بیرون سب تہ بہ تہ نور کی ان گنت پرتیں جو ایک پر ایک جمع ہوکر مکمل نور کا قُرص ہیں۔ایسے محمدا نے رسالت کا منصب ِجلیل پاکر احکام خداوندی کا نور اپنے اندر بالکل آفتاب کی طرح یوں جذب کر لیا ہے کہ اندرون و بیرون اور ظاہر وباطن سب انوار ِاحکام خداوندی کی جلوہ سامانی ہے۔
اب جسے اللہ کے حکم کا نور چاہیے وہ اللہ کے رسول اکی سیرت کا نور دیکھے،جس نے اللہ کی فرماں برداری کی اس نے اللہ کے رسول کی سیرت اور عمل کی ہی اطاعت کی، جس کا نور وہی اطاعت خداوندی کا نور ہے۔شیخ سعدی نے اسی حقیقت کو واشگاف کیا ہے :
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بہ منزل نہ خواہد رسید
تیسری چیز ؛جو خصوصیت سے قرآن کریم میں بتلائی گئی ہے وہ ”معاد کی اصلاح “اور مرنے کے بعد والی زندگی میں حساب وکتاب کے بعد جنت و دوزخ کا فیصلہ ہے۔
”کان خلقہ القرآن “کے پیش نظر قرآن کی تیسری چیز ”اصلاح معاد“اللہ کے رسول کی سیرت میں اس طرح رچی بسی اور شیر وشکر ہو گئی تھی کہ آپ کا وجود آخرت کی تیاری،خدا کے حضور میں جواب دہی اور خوف ِخدا کا ایسا پیکر تھا کہ رات بھر آپ قیام کی حالت میں محو ِمناجات الٰہی رہتے کہ پاوٴں میں ورم آجاتا۔آپ کی زوجہ ٴمطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاترس کھاتیں اور کہتیں آپ کو اتنی مشقت آمیز رات گزارنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟آپ تو بخشے بخشائے ہیں۔ تو حضور پر نورا کا جواب ہوتا ”افلا اکون عبدا شکورا“ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
بندگانِ خدا کی مرنے کے بعد والی زندگی درست ہو جائے،لوگ خداکی خوش نودی اور جنت حاصل کرنے کے مستحق ہو جائیں،اس کے لیے آپ کی دوا دوش کا عالم دیکھنے کے لائق تھا کہ آپ نے ہر طرح کا راحت و عیش خیر آباد کہہ دیا تھا۔عرش کے مالک کو آپ کا اضطراب دیکھا نہ گیا ’جبرئیل کو بھیج کر پیغام سنایا ﴿فلعلک باخع نفسک علی آثارھم ان لم یوٴمنوا بھذا الحدیث اسفا﴾(الکھف ۱۵۱)لگتا ہے ان کے ایمان کے پیچھے آپ اپنی جان کو جوکھم میں ڈال دیں گے، اگر ایمان میں یہ لوگ داخل نہ ہوئے تو افسوس کے مارے خود کو ہلاکت کے حوالے کر دیں گے۔
جو کچھ قرآن میں ہے ان سب کے لیے آپ اکی سیرت مظہر بھی ہے،مخبر بھی ، منظر بھی ،مقصد بھی۔ اسی کے پیش نظر قرآن میں جو بھی اصلاح ِمعاد سے متعلق مضامین و واقعات اور بیان و توضیحات ہیں اللہ کے رسول ا کی سیرت میں وہ تمام چیزیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔انہیں چیزوں کو آپ نے بندگان ِخدا کی ذات میں منتقل کرنے کی قولی و عملی محنت و جفا کشی اور جاں گسل دوا دوش فرمائی۔ پتہ چلا کہ جوکچھ قرآن کریم بتلاتا ہے وہ سب محمد رسول اللہاکی سیرت اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے۔کلیدی طور پر توحید و رسالت اور آخرت کا مضمون پورے قرآن میں پھیلا ہوا ہے تو نبی کی سیرت نے انہیں اپنے اندر سمو یا ہوا ہے۔قدرے تفصیل میں جائیں تو قرآن نے (۱)عقائد(۲)عبادات( ۳)معاملات (۴)معاشرت اور (۵)اخلاقیات کو بیان کیا ہے تو حضور سرکار ِکائنات اکی سیرت نے ان تمام امور کو اپنے اندر عملی طور پر سمیٹ رکھا ہے۔
اب رہی بات امت کی سیرتِ رسول سے غفلت پردازی اور بے اعتنائی کی تو یہ حقیقت ہے کہ امت نے اللہ کے احکام کو حرز ِجاں بنانے کے بجائے نفس و شیطان کے اشاروں اور حکموں کو اپنا ہادی وحاکم بنا لیا ہے، جس کی وجہ سے سیرت ِرسول اور کلام باری عز اسمہ سے غفلت شعاری و دوری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔نفس و شیطان کی تسویلات اور بہکانے والی باتیں جس قدر امت سے دور ہوں گی سیرت ِرسول اور فرمان ِکلام ربانی سے اسی قدر قرب بڑھتا چلا جائے گا۔
سیرت رسول؛ پریشان حالی اور دشمنوں کے کید ومکر سے حفاظت کے موقع پر اعلان کرتی ہے،قرآن میں جس کا یوں ذکر ہے :﴿و مکروا ومکر اللہ ،واللہ خیر الماکرین﴾اور﴿ ولا یحق المکر السیئ الا باھلہ ﴾آدمی اگر نفس و شیطان اور حرص و آز کے چکر میں آکر اسباب ہی پر بھروسہ کرکے دشمنوں کی چالوں کو ختم کرنا چاہے گا تو کام یابی کی منزل دور نظر آئے گی۔ اس لیے کہ اسباب و وسائل کا ذخیرہ دشمنان اسلام کی گرفت میں زیادہ ہوگا تو ناکامی کا خیال زیادہ آئے گا اور اگر نفس و شیطان اور حرص و آز کے بجائے اللہ کے کلام اور سیرت کے مطابق ان آیات کا عقیدہ بار بار ذہن میں گردش کرے گا تو ایمان کی چنگاری شعلہٴ جوالہ بن جائے گی اور کام یابی کی منزل تک پہنچنے کا یقین دھندلا ہونے کے بجائے مستحکم ہوتا چلا جائے گا۔
یہی اصلاحِ معاد کا نظریہ اور سیرت رسول میں اس کی وابستگی،آنکھوں میں مروت،لہجے میں نرمی،انسانی خیالات میں بلا کی ہمدردی اور دلوں کی دھڑکنوں میں آس پیدا کرے گی۔یہ نظریہ ہوس کاروں کو ٹھوس چٹانوں میں تبدیل کرنے کے بجائے ”نرم دم گفتگوگرم دم جستجو“کا حوصلہ دے گا، مرنے کے بعد حساب دینے کا مستحکم تصور ہی انسان کو حجاج، ہلاکو، چنگیز،نادر،پرویز،ابن زیاد اور یزید بننے سے روکے گا۔اور جب یہ طے ہے کہ شاہ سے لے کر گدا تک اور خرابات سے لے کرخانقاہ تک ہر سر اور ہر در پر موت کا خونی پرندہ منڈلا رہا ہے۔تو ایسی غافل زندگی کس کام کی جس کے ایک سکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی یہ اطمینان نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی ہم کو موت نہیں آئے گی۔
نبی کریم اکی زندگی اور سیرت کے تریسٹھ سالہ سفر میں توحید و رسالت اور مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان کی ایسی تیز و تند جھونکوں والی ہوا چلتی رہی جو آج بھی کفر و شرک اور فسق و فجور کے ہر خس و خاشاک کو اڑا لے جائے گی۔
آج جن لوگوں کو مرنے کے بعد والی زندگی پر ایمان نہیں ہے یا نبی کی سیرت اور موت سے غفلت والی زندگی گزارنے میں محو ہیں، ان کے سامنے جب مرنے کا ذکر کیا جاتا ہے اور ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ
بقدر ہر سکوں، راحت بود ، بنگر مراتب را
دویدن،رفتن،ایستادن، نشستن ، خفتن و مر دن
تو” مردن “اور” موت کی آمد“سن کر ان کی سانس رکنے لگتی ہے اور ان کی نبضیں بس اب ڈوبیں تب ڈو بیں کا نظارہ دکھانے لگتی ہیں۔اور اگر سیرت اور عمل ِصالح سے خالی زندگی کو مرنے کے بعد بھی اضطرابی کیفیت اور بے چینی میں گرفتار ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو لگتا ہے زندہ ہی در گور ہو جائے گا۔اگر شاعر کی آواز اس کے کانوں میں گونجے تو جیتے جی ہی مر نے لگے #
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گ گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ان حالات کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں جن اعمال و کردار اور جس رہن سہن کی زندگی مسلمان گزار رہے ہیں،بد قسمتی سے دنیا والے انہیں کی زندگی کے خد وخال،نشیب و فراز اور رامش و رنگ کو ”اسلام “ سمجھ بیٹھے ہیں۔مسلمانوں کی عادتیں،طور وطریق،رنگ ڈھنگ اور معاملات و معاشرت کو ”اسلام “سمجھ کر اسلام ہی سے بدکنے لگے ہیں۔
اس لیے مسلمانوں کی زندگیوں سے جو منفی پیغام پوری دنیا میں سیرت وقرآن سے برگشتہ لوگوں کے ماحول میں عام ہو رہا ہے، اس کو مثبت پیغام میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے غفلت کا پردہ بھی چاک ہوگا اوربد گمانی کی بیماری کا بھی علاج ہوگا۔اس غفلت کو ہوش میں تبدیل کرنے اور بدگمانی کی غیر محسوس بیماری کاعلاج ڈھونڈنے کے لیے چند ضروری امور پر توجہ مبذول کرنا لا بدی ہوگا۔
(۱)…مثلاً:انگریزی اور ہندی زبانوں میں ایسی کتابیں،لٹریچر اور پمفلٹ مہیا کرائے جائیں جن میں سرکارِ دو جہاں آقائے نامدار اکی پوری سیرت ولادت سے لے کر وفات تک آسان اور دلکش پیرائے میں بیان کردی جائے؛ تاکہ غفلت و بد گمانی میں پڑے ہوئے لوگوں کومعلوم ہو کہ اسلام میں جو کچھ نبی کی سیرت و کردار کے حوالے سے پایا جارہا ہے وہ بالکل قرین ِعقل و خرد اور لائق صد تحسین و آفریں ہے۔مسلمان کی زندگی میں بھی اپنی اسلامی معلومات کے تئیں بہت کچھ جھول ہے،مسلمان اپنے نبی کی سیرت کو اپنانے میں کوتاہی کر رہا ہے،جس سے اسلام کو سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے۔
(۲)…مساجد میں مسلمانوں کے سامنے پوری سیرت رسول کا درس دیا جائے ؛تاکہ امت میں سیرتِ رسول کا علم عام ہو اور لوگ سیرت کے حوالے سے اسلام اور قرآن سے قریب ہوں۔
(۳)…سیرت ِرسول کے موضوع پر مختلف محلوں اور علاقوں میں مسلمانوں کے لیے مجلسیں منعقد کی جائیں اور ان کو صحابہ و تابعین کی طرح عمل و کردار کی اصلاح پر آمادہ کیا جائے۔
(۴)…غیر مسلم برادران ِوطن میں پوری سیرت مختصرانداز میں پہچانے کا خطوط و پیغامات کی شکل میں اہتمام کیا جائے۔
(۵)…بچوں کو گلزارِ سنت،سنتوں کا گلستاں،اسوہ ٴرسول اکرم ،سیرت خاتم الانبیا،سیرت احمد و مرسل اور اکابر امت کی دیگر کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی جائے۔
(۶)…خواتین ِاسلام میں بھی سیرت رسول کے حوالے سے بیداری لانے کے لیے نبی کریم ا کی مکی و مدنی زندگی کے مطالعہ کو عام کرنے کی سعی کی جائے۔
(۷)…حضور اکی ازواج ِمطہرات، بنات ِرسول،پھوپھیاں،چچا اوردیگر رشتہ داروں کے حوالے سے معلومات کو معاشرے میں پھیلانے کا مناسب نظم کیا جائے۔
(۸)…سیرت ِرسول کے نورکو نوجوانوں میں پیدا کرنے کے لیے ان کا آئیڈیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی قدر کو بتلاکر اس عقیدے کو خوب مستحکم کیا جائے ؛تاکہ نوجوان سر پھری زندگی گزارنے کے بجائے ایک معتدل، بار آور، مرضیٴ مولی کے حصول والی اور دنیا و آخرت میں سرخ روئی فراہم کرنے والی زندگی بسر کرنے پر دل و جان سے آمادہ ہو جائیں۔اس طرح قرآن کریم پر عمل کی راہ سے سیرتِ رسول کے صدقے میں اہل ایمان دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی گزاریں گے اور آخرت میں بھی خدا کی خوش نودی اور جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین!