پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کی روشنی میںعصرحاضرکے انسان کے مسائل زندگی اور درپیش عملی مشکلات کا حل تلاش کرنے کا تصوراہلِ اسلام خصوصاًعلما ،محققین سیرت طیبہ کی (ایک اہم ذمے داری ہے)۔ یہ اس لئے کہ سیرت طیبہ حکمت ومعرفت کا ایک ایسا سرچشمہ ہے،جوباقی ودائم بھی ہے اور ہر ایک انسانی تشنگی کو مٹانے کا سامان بھی اس میں موجودہے ،یہ روشنیوں کا ایک ایسابلند وبالامینارہے، جس کی ضیاء پاشیان زندگی کے ہر تاریک گوشے اور قلب انسانی کے ہرزاویے کوہر جگہ اور ہرزمانے میں منورکرتی رہیں گی ۔اس لئے اللہ تعالی نے اپنی کتابِ زندہ میں فرمادیا ہے کہ یہ سرچشمۂ ہدایت اور مینارِنورہرجگہ اورہرعہد کے تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے، جو اللہ تعالی پرایما ن رکھتے اوراپنی آخرت کو سنوارنے کے آرزومند ہیں ۔سیرت نبوی کاتاریخی عہد تئیس سال سے کچھ اوپر عر صے پرمحیط ہے ،اس عرصہ میں علم وعمل کے علمبردارپیغمبرِ انسانیت کواتنے مراحل پیش آئے،اتنے واقعات وحوادث کا سامناہوااورآپ نے اتنے عملی نمونے چھوڑے ہیں، جونہ صرف قابلِ یقین ریکارڈمیںثابت اورمحفوظ ہیں؛ بل کہ اتنے تنوع اور کثرت کے ساتھ موجودہیں کہ ان میں ہرزمان ومکان کے انسانی مسائل ومشکلات کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت طیبہ کانئے اندازاورنئے زاویوں سے مطالعہ کیا جائے روایتی اندازمیں احوال ووقعاتِ سیرت کودہراتے رہنے اورصرف جگالی کرتے رہنے سے بات آگے نہیں بڑھ سکتی؛ ان احوال ووقعات کے محض تکرارتک ہی سیرت نگاری کو محدودرکھنا کارِثواب وبرکت تویقینا ہوگا ،مگراس اندازسے کوئی نئی بات پیدانہیں کی جاسکتی اورنہ اس سے کسی مسئلے کاحل نکالاجاسکتاہے۔(ورفعنا لک ذکرک )(ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکرکو بلند کردیاہے )کامنشائے خداوند ی تبھی پوراہوسکتا ہے، جب ہم سیرت پاک کوعصرحاضرکے انسان کے سامنے آسان اورعام فہم اندازمیں پیش کریں بل کہ مسائل میں الجھے اورمشکلات میں گھرے ہوئے اس انسان کے تمام مسائل ومشکلات کا حل اورنسخۂ کیمیابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجودہے اور اسے عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس طرح اگر ہم نے اپنی تحقیق کوصرف مکی اورمدنی زندگی کے حالات وغزوات سے بحث کرنے والے مآخذِسیرت تک محدود رکھاتوبھی ناکافی ہوگا ۔ان چیزوں کودہراتے رہنا خیروبرکت کا باعث تویقینا ہوگا مگر زندگی کے متنوع وبے حساب مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مأخذسیرت طیبہ کے ان لاکھوں صفحات کوبھی کھنگھالناہوگا ،جو آج تک پوری طرح تصرف میں نہیں لائے جاسکے ۔ان مآخذمیں سرفہرست قرآن کریم اوراس کی لاتعداد کتبِ تفسیر کاعظیم الشان ذخیرہ ہے۔تاریخِ حرمین شریفین ،کتب جغرافیہ وسیاحت نامے ،سیرت صحابہ وتابعین ،تراجم وانساب کی کتابیں ،حدیث نبوی اوراس طرح کی شروح کا قابلِ فخر سرمایہ فقہ اسلامی ،کتب فتاوی کی وسیع وعریض دنیا کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاونین اور مخالفین کے حالاتِ زندگی اوراس عہد کی عمومی تاریخ پر بھی گہری نظررکھنے کی ضرورت ہے۔یہ جومشہورانگریزادیب ودانشورکارلائل نے اپنی بے مثال کتاب ’’ہیروزاینڈہیروزورشپ ‘‘میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبطور ’’رسول ہیرو‘‘منتخب کرتے ہوئے یہ کہاکہ آج بھی الجھی ہوئی دنیا کی گتھیوں کو صرف آپ ہی سلجھا سکتے ہیں ۔بقول ظفرخان۔
جوفلسفیوںسے حل نہ ہوا،اور عقد ہ وروں سے کھل نہ سکا
وہ راز ایک کملی والے نے سمجھا دیا چند اشاروں میں
اوریہ جوامریکی مصنف مائیکل ہارٹ نے آپ کو تاریخ انسانی کے رہنماؤں میں پہلے نمبر پررکھتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتاریخِ انسانی کاہرلحاظ سے کامیاب لیڈر قراردیا ہے، تویہ ان روایتی انداز کی کتب سیرت سے متاثرہوکر نہیں؛ بل کہ وسیع مأ خذسیرت اور گہرے اثرات کی بناپر قراردیا ہے اس لئے عصرحاضر کے مسائل کا حل بھی اگر کہیں موجود ہے تو وہ صر ف اور صرف سیرت طیبہ کے وسیع تر مأخذ ومصادر میں موجود ہے ۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری ہے؛ بل کہ ہم اپنے اس موضوع کو واضح تعریف اوراس کی حدود کا تعین کر لیں؛ تاکہ بات کہنا اور سمجھنا آسان ہوجائے اور مربوط انداز میں ان حدود پربھی توجہ مرکوز کی جاسکے ۔سیرت عربی زبان کا اسم مصدر ہے اور کردار ،گفتار رفتار اور قول وعمل کے تمام پہلوؤں پرمحیط ہے، لغت کی رو سے لفظ سیرت سنت اورطریقہ کے مترادف اورہم معنی ہے ۔لہذاسیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول،ہرعمل اورہر تقریر ی مؤقف ہے، اس طرح عصرحاضر کے مسائل سے مراد وہ تمام چھوٹی بڑی مشکلات ہوںگی جن سے سائنسی اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دورسے انسان دوچار ہے اور اس کے جیون کو ایک الجھن بل کہ الجھنوں کا مجموعہ بنا دیاہے ۔تاہم عصرحاضر کے انسان کی ان متنوع اوربے حساب مشکلات میںسے صرف چند ایک مسائل ہی کو لیا جائے گا اورہم یہ دیکھیں گے کہ سیرت طیبہ کی مددسے ہم انہیں کیسے حل کر سکتے ہیں اس مختصر مضمون میں، ہم صرف پانچ نہایت نمایاں اور سلگتے ہوئے مسائل لے رہے ہیں ۔
۱۔ عالمی امن ۔
۲۔ عالمی تجارت۔
۳۔ سمٹتی سکڑتی ہوئی اس دنیا میں اطلاعات اور ذرائع ابلاغ کا کردار۔
۴۔ غربت اورافلاس میں گرفتار انسان کی ضرورتیں کیسے پور ی ہوں ؟
۵۔ آج کے انسان کوپرسکون زندگی کیسے میسرآسکتی ہے ؟
۱۔عالمی امن :
ٖٖآج ہماری یہ زخمی و خوف زدہ دنیا جس امن کے لئے بے قراری سے کوشاں ہے اور صبح وشام جس کے لئے ترس رہی ہے، وہ کسی وضاحت یاتفصیلی بیان کی محتاج نہیں اورعیاں راچہ بیاں کے ضمن میںآتا ہے؛ ہر طرف روایتی اسلحے کے انبار لگے ہوئے ہیں اور مختلف گوشوں میںایٹمی اسلحے کے جہنم دہک رہے ہیں ،جرائم اورفسادات کے شعلے آسمان کو چھورہے ہیں ،بے کس اور کمزورکے لئے زندگی عذاب اوردنیاتنگ ہو چکی ہے ،مظلوموں کی فلک شگاف آہوں سے دنیا ایک ماتم کدہ نظرآتی ہے، مگر ظالموں کوپھر بھی ظلم پراصرار ہے۔ قیام امن کے علمبردار دعویدار دوڑتے پھرتے ہیں مگر امن کی فاختہ ہاتھ نہیں آرہی ۔اسی کیفیت اورصورتِ حال کا نقشہ کتابِ زندہ قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ پیش کرتی ہے، جو نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ وجاوید معجزہ ہے ۔۔
{ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقیہم بعض الذی عملوا لعلہم یرجعون}
ترجمہ ۔’ـــ’خشک وتر میں ہر طرف انسانو ںکے اپنے کرتوتوں کے باعث فساد برپاہے، یہ انہیں ان کی بد اعمالیوں کا کچھ مزہ چکھا نے کے لئے ہے تاکہ یہ بازآجائیں‘‘۔
آج انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کادم گھٹ رہاہے او رانسان انسان کا شکاری بنا پھر تاہے ۔آج کے انسان کو سیرت وتعلیماتِ نبوی کے پیغامِ حیات آفریں کی ضرورت ہے او ر مسلمانوں کے عملی کردار کی بھی ۔بلکل ایسے ہی جیسے ساتویں صدی عیسوی کے انسان کومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامِ حق اور روشن عملی مثال کی ضرورت تھی اور اس ضرورت کو آپ کے فیض علم وعمل کی تربیت یافتہ جماعت صحابہ کرام نے پورا کردکھایا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وتعلیمات کی اصل روح رحمۃ للعالمین ہے انسان کو آج یہی ’’رحمۃ للعالمین ‘‘درکار ہے ۔وہی رحمۃ للعالمین جسے اقبال نے اصول زندگی کی آوازاورمکارم اخلاق کی انتہا قرار دیا ہے ۔
خلق وتقدیر وہدایت ابتدا
رحمۃ للعالمین انتہا
تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت وشفقت بن کر آنے والی نبوت ورسالت کا حقیقی پیغام بھی امن وسلامتی ہے ۔اسلام کے لفظی معنی اور اشتقاق بھی دنیا کو سرجھکانے اور گہوارۂ امن میں لینے پردلالت کرتے ہیں؛ آج بھی عربی زبان میں امن وامان کے لئے سلم اور سلام کے الفاظ مروج ومستعمل ہیں ۔قرآن مجید کی عربی زبان میںبھی سلم ‘سلام اوراسلام کا مفہوم ومعنی یہی ہے۔ اسلام کا اصل مقصد اور ہدف امن وسلامتی کی فضامیں سکھ چین کی زندگی کا پیغام ہے ‘جہادوقتال توحسبِ موقع اور حسبِ ضرورت ہے، جس کے لئے اہل ایمان کوہر وقت امادہ وتیار رہنے کی تلقین ہے ؛مگر دورانِ جہاد وقتا ل بھی اگر دشمن امن وسلامتی کے طالب ہوںاور اسلام کی اس اصل راہ کی طرف مائل ہوجائیں توحکم ربانی یہی ہے کہ اہل ایمان کوبھی اللہ تعالی پربھروسہ کرتے ہوئے امن وسلامتی کا پیغام قبول کرلینا چاہئے ۔
{وان جنحو للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ}
’’اگر وہ امن کی طرف مائل ہوجائیں توآپ بھی امن کی طرف مائل ہوجائیے اور توکل اپنے اللہ پرہی کیجئے ۔‘‘
حد تو یہ ہے کہ اہل ایمان تو چلتے پھر تے اٹھتے بیٹھتے اور پانچ وقت کی نماز پڑ ھتے وقت بھی امن وسلامتی کو ہی اپنا ورد زبان بناتے ہیں ‘بیدار ہوتو دوسروں کو السلام وعلیکم (تم پر امن وسلامتی ہو)کہیں آئے تو سلام، کہیں جائے توسلام ۔دعا کرے ‘پانچ وقت کی نماز کے بعد توہر مسلمان کی زبان پر یہی پیغامِ امن وسلامتی رواں ہوجاتاہے کہ اے میرے اللہ توسراپا سلام ہے ۔امن سلام کاسرچشمہ توتوہی ہے ‘سلامتی کا مرکز توتوہی ہے، ہمیں امن وسلامتی سے زندہ رکھ اور مرنے کے بعد بھی امن وسلامتی والی جنت عطافرما!پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے توامن وسلامتی کی خاطر عمرہ اور زیارت بیت اللہ کئے بغیر لوٹ جانا بھی قبول کرلیا تھااور حدیبیہ کے مقام پر معاہد ہ صلح ہوجانے بعد عمرے کے احرام کھولنے اور مدینہ لوٹ جانے کا حکم دے دیا تھا۔حدیبیہ کایہی معاہدہ ٔامن تھا جو پرامن تھا طور پر فتح مکہ پر منتج ہوا تھا اورخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر پورا جزیرہ ٔعرب اسلام کے زیرِنگیں آگیا تھا۔سیرت طیبہ کا یہ تاریخی واقعہ دنیا کویہ پیغام دیتاہے کہ جو بات امن وسلامتی میں ہیں وہ جنگ وجدل میں کہاں۔ اس دنیا کو جنگ سے نہیں پیغام امن وسلامتی اورپرامن جدوجہد سے سنوارااو رراہ راست پر لایاجاسکتا ہے ۔
سیرتِ طیبہ کے حوالے سے آپ نے حلف الفضول یعنی فضیلت والوں کا عہد نامہ توسن ہی رکھا ہے۔دراصل یہ وہ معاہدہ امن وانصاف تھا جو طلوعِ اسلام سے پہلے دومرتبہ عمل میں آیا تھا۔قبیلہ جرھم جو جضرت ھاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کی آمد کے بعد اور قریش کی آمد سے پہلے وادی بطحامیں آبادہوگئے تھے۔اس قبیلے کے چند سرداروں نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ امن وسلامتی کی خاطر ظالم کاپنجہ مروڑیں گے ‘مظلوم کا ساتھ دیں گے او رظلم کاخاتمہ کریں گے ۔اتفاق سے ان سب سرداروں کے نام فضل یا فضیل تھے ‘فضل کی جمع فضول آتی ہے ۔یوں یہ معاہد ہ ’’حلف الفضول ‘‘قرارپایا اور مشہور ہوا۔پھر کئی صدیاں بعد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے تقریباً بیس سال قبل اس معاہدہ کی تجدید ہوئی ‘تجدید کے محرکِ اول اور سرگرم رہنماحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب تھے ۔یہ معاہدہ بھی مظلوم کی مدد، حمایت اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے تھا؛ لہٰذا اسے بھی پرانے معاہدہ یعنی حلف الفضول کے مماثل ومترادف ہونے کے باعث یہی نام دیا گیا، اس معاہدہ کے طفیل وادی بطحاامن کاگہوارہ بن گئی ‘جس پر فخر کرتے ہوئے زبیر بن عبد المطلب نے یہ شعر کہے تھے ۔
ان الفضول تعاہدواوتعاقدوا
الایقیم ببطن مکۃ ظالم
امر علیہ تعاہدوا وتواثقو
فالجار والمعترفیہم سالم
’’فضلوں نے یہ عہد وپیمان باندھا ہے کہ وادی مکہ میں اب ظلم کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی ۔یہی وہ معاہدہ ہے ،جس پر ان فضل نامی بزرگوں نے پختہ پیماں باندھا ہے کہ اب ان کے ہاں ہر پناہ لینے والا اور ہر نادارامن سے رہے گا ۔
اس تاریخی معاہدہ کی تجدید قریش کے معمر ومعتبر سردار عبد اللہ بن جدعان کے گھر ہوئی تھی ۔جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے سے تھا۔اس معاہدہ کی مجلس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بصد خوشی شرکت فرمائی تھی اور اس پرآپ کو فخر تھا ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا۔
’’لقد شہدت فی دارعبداللہ بن جدعان حلفًا لودعیت بہ بی الاسلام لا جبت تحالفوا ان ترد الفضول علی اہلہاولا یعز ظالم مظلوما‘‘
’’یعنی میں عبد اللہ بن جدعان کے ہاں ایک معاہدہ میں حاضر ہواتھا، اگر اسلام میں مجھے ایسے معاہدہ کی دعوت دی جائے تو میں لبیک کہوں گا‘ان لوگوں نے عہد یہ کیا تھا کہ مال ان کے مالکوں کو لوٹا نا ہوگا اور کوئی ظالم مظلوم کے ساتھ من مانی نہیں کرسکے گا‘‘۔
توسیرت نبوی کا پیغام یہ ہے کہ ظلم بھی ہواور امن بھی قائم ہوجائے یہ ممکن نہیں ہے، مگر یہ دنیا ممکن سے اعراض کرتے ہوئے ناممکن کے پیچھے بھاگ رہی ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا زخموں سے نڈ ھال ہو،سینے ظلم سے چھلنی ہوں ‘قلب وجگر میں خنجر چبھے ہوں اور خون کی ندیا ں بہہ رہی ہوں اور آپ اس زخمی زخمی مظلوم دنیاسے کہیں کہ وہ ظالموں،قاتلوں،لٹیروںاور انسان دشمن درندوں سے امن کے لیے معاہدہ صلح بھی کرلیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی جعلی ومصنوعی مصلحت کو ’’ہدنۃ علی دخن وجماعۃ علی اقذاء ‘‘(سلگتے ہوئے دھوئیں پر معاہدہ امن ومصالحت او رکدورتوں کی بنیاد پر اتحاد )قرار دیاہے ۔اعتدال کا لفظ بھی عدل سے نکالا ہے، جس طرح یہ نظامِ کائنات اعتدال اور توازن سے قائم او ر دائم ہے، جس دن اس اعتدال میں خلل پڑا اس دن کی شام قیامت کی شام ہوئی؛ اسی طرح پرسکون انسانی زندگی او ر قیامِ امن کا دارومداربھی عدل وانصاف پرہے، نظامِ عدل میں خلل واقع ہونے سے امن وسکون کا قیام ناممکن ہے ۔روئے زمین پر انسانیت توخون کے آنسو رو رہی ہو اور مظلوموں کی آہوں نے آسمان سروں پراٹھارکھا ہواور آپ امن کی فاختہ پکڑ نے کی فکر میں ہوں ’’ایں خیال است ومحال است وجنوں ‘‘سیرت النبی کا پیغام یہ ہے کہ تم عدل وانصاف کانظام قائم کردو دنیا میں امن وامان اور سکون وسلامتی خودبخود قائم ہوجائے گی ۔
۲-عالمی تجارت :
قیام امن کی سلگتی ہوئی آرزو کے بعد عصر ِحاضر کے انسان کو جس تازہ ترین آزمائش اور پرکشش فتنے کاسامنا ہے اسے یہودوہنود اور اقبال کے الفاظ میں خدا کی اس بستی اور دنیائے انسانیت کو ایک تجارت گاہ یا دکان سمجھنے والے اہل مغرب نے سودخوری ،پوری طرح سے لطف اندوزہونے کی خاطر عالمی تجارت کا نام دے رکھا ہے اور ’’عالمی تجارتی تنظیم ‘‘کے عنوان سے ایک نیا پر کشش استعما ری جال تیار کر لیا ہے ،جادوگری کے اس خطرناک مگر پرکشش کھیل کے لئے ایک شیطانی اصطلاح بھی گھڑ رکھی ہے، جسے وہ سب سے زیادہ لاڈلی یاقابل ترجیح قوم کانام دیتے ہیں ۔نئے عالمی استعمارکے اس شیطانی ہتھکنڈ ے کی خود یورپ اور امریکہ کاباضمیر اور باشعور انسان مخالفت کررہا ہے، عالمی سامراجیوں کا اصل مقصد تو ایشیا اور افریقہ کی نام نہادتیسری ‘دنیا خصوصا عالم اسلام کی معدنی دولت اور خام مال کو لوٹ کراسے غلام بنانا ہے؛ مگر خود باہمی حسد، منافقت اور حر یصانہ چپقلش سے بھی محفوظ رہناہے۔ اس لئے ایک ’’مشترکہ کمپنی ‘‘بنائی گئی ہے اور اسے ‘‘عالمی تجارتی تنظیم ‘‘کاپرکشش نام دے دیا گیا ہے۔ سود خورعالمی صیہونیت اور بنیا مہاراج کو اس کمپنی کے کارندے اور ایجنٹ کارول دیا جارہا ہے ۔بیچارے عربوں پر دباؤ ہے کہ ۱۹۴۸ء ۱۹۶۷ء میںیہودی چیرہ دستیوں اوراپنے غضب شدہ علاقوں پراسرائیلی قبضہ کو فراموش کردیں اور اسرائیل کی صیہونی ریاست کو اپنا سب سے زیادہ لاڈلا اور قابلِ ترجیح لٹیر اتسلیم کر یں؛ تاکہ وہ ان کاخون نچوڑ کر انہیں آسانی سے کنگال بناسکے ۔۔ صیہونیت کے علمبردار فلسطینیو ںکے مکان بلڈوزکرکے وہاں یہودی بستیاں آباد کررہے ہیں ،وہ نہ ۱۹۶۷ء میںقبضہ آنے والے عرب علاقے خالی کررہے ہیں اورنہ کلنٹن کی ضمانت کے ساتھ طے ہونے والے معاہدہ صلح کے مطابق فلسطینی ریاست کوقبول کرنے کے لئے تیار ہیں؛ پھر مسلمانوںکے لئے زبردستی بنائے گئے لاڈلے ۔اسرائیل اور اس کے شریک ممالک اقوام متحدہ کی قرار دادوں او ر فیصلوں کی مٹی بھی پلید کر رہے ہیں، اس صورت حال میں بھی مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ قیام امن کے لئے سرتسلیم خم کرو اور ساتھ ہی ان دونوں لاڈلوں سے تجارت بھی کرواور وہ بھی ترجیحی بنیادوں پر!
حقیقت واقعی یہ ہے کہ ڈسٹ سٹارم کے بعد جہا ں عرب تیل امریکہ کی مٹھی میں آگیا ہے وہاں پوری عرب دنیا بھی اس کے زیردام آچکی ہے ۔دوسری طرف عالمی بنک او ر بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے اسلامی دنیا کو قرضوں اور سودخوری کی بیڑ یاں پہنادی ہیں اب نیا عالمی استعمار عرب اور اسلامی دنیا کی دولت کا استحصال کرکے اسے غلامی کی بیڑ یوں میں جکڑ کر بھوک سے مارناچاہتاہے۔اس سامراجی استحصال کو عالمی تجارت کانام دے دیا گیاہے ۔یہ عالمی تجارت نہیں بل کہ استحصالی نشتر ہے، جس سے قرضہ اور سود میں جکڑ ے ہوئے مسلمان کے خون کاآخری قطرہ تک نچوڑنانئے عالمی سامراج کا اصل مقصدہے !تجارت تووہ کرتا ہے جس کے پاس پیسہ ہویا مال بیچ کر نفع کمانے کا امکان ہو؛ یہاں تومقروض مسلمان کے پاس سود ادا کرنے کے لئے بھی پیسہ نہیں وہ تجارت کیا کرے گا،اس کا توخام مال یہ سودخور لے جائیں گے اس کو یہ کاروبا کیا دے گا، جس طرح کسی زمانے میں برصغیر کے مقروض مسلمان کا شتکار کی ہر چیز حتی کہ زمین بھی ہندوبنیاکے پاس گروی تھی، اس لئے تمام پیداوار بنیامہاراج بیاج میںسب کچھ لے جاتا اور مسلمان کسان بھوک مٹانے کے لئے اس سود خو رسے اور مزید قرضہ اس کی منہ مانگی شرائط کے مطابق لینے پر مجبور ہوجاتاتھا ؛اسی طرح آنے والے وقت میں یہ عالمی سودخور بھی مسلمان سے سب کچھ چھین کرلے جائیں گے۔ اس لئے عالمی تجارت کے لئے مسلمان کے پاس تورہے گاہی کچھ نہیں گویا عالمی تجارت میں بھی ایک تکلف ہے، جس کا مقصد بچاکچھا سمیٹنا ہے اصل تووہ قرضوں پر سود کی شکل میں لے جاچکے ہیں ۔
مسلمان کے لئے سیرت وتعلیمات نبوی کا پیغام یہ ہے کہ ’’جعلت تسعۃ اعشار الرزق فی التجارہ ‘‘(نوے فی صد رزق توتجارت میں ہے !)مگر افسوس یہ ہے کہ یہ امت سفید پوش بننے کی شوق میں او ر تجارت کی مشقت او ر موقع شناسی کی زحمت سے پچنے کے لئے نوکری ،ٹوکری یاکھیت مزدروی پر قناعت کر بیٹھی۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت ہی کو ذریعہ معاش بنایاتھا۔صداقت وامانت داری کے ساتھ ساتھ تجارت میں اصول پسند ی کا بہتر ین نمونہ قائم کردیا تھا آپ کایہ بھی ارشاد ہے کہ :’’التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین ‘‘(سچااور دیانت داری تاجر تو حشر میں نبیوں اور صدیقوں کے ساتھ ہوگا )یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ تجارت کا نبوی طریق اہل مغرب نے اپنا لیا اور دنیا کا اعتماد کما کر اپنے کاروبارکوفروغ دیا، لیکن ہم یاتونوکری ،ٹوکری اور کھیت مزدوری پر قناعت کرگئے ؛بل کہ ان کاموں میں بھی سستی ،کام چوری اورہیر پھیراور چالبازی ا ن کا شعار ٹھہرا ۔حد تو یہ ہے کہ قومی اور ملکی ضرورت کے لیے ،ٹیکس کی ادائیگی کوایک فریضہ ایک ذمہ داری اور کار خیر تصور کرنے کے بجائے ایک بوجھ سمجھ کرٹال مٹول اور ہیراپھیری کو شعار بنالیا گیا ۔نبوی طریقہ تجارت سے محروم ہمارے یہ تاجر عالمی تجارت کے شہسوار یہودیوں ،بنیامہاراج اور خدا کی بستی کودکان تجارت تصور کرنے والے اصول پسند یورپی اور امریکی تاجروں کا کیا مقابلہ کریں گے ۔
عالمی تجارت کے علمبر داروں کے لئے سیرت نبوی کاپیغام یہ ہے کہ عالمی تجارت توایک نبوی ورثہ ہے، جو مسلمان کا حق بھی ہے اور اس کا فریضہ بھی ۔عالم اسلام اس تجارت وتعاون کوخوش آمدید کہتاہے اور اس کے لئے بصمیم قلب پوری طرح تیار بھی ہے، لیکن تجارت شروع کرنے سے پہلے لین دین کی منصفانہ فضاقائم کرنا ہوگی سب سے پہلے مالیات کا استحصال ہے ‘سودی نظام کاروبارنہیں ایک شیطانی انسان کا انسان کے ہاتھوں بدترین استحصال ہے ۔سودی نظام کاروبار نہیں ایک شیطانی چکر ہے ۔پرانے زمانوں کے سود خور اپنے لئے جو ازپیش کرتے ہوئے کہتے تھے یہ تجارت بھی تو سودکی طرح کا ایک لین دین ہی ہے اگر تجارت رواہے تو سود ی کاروبار کیوں روانہیں یہ عیار ذہنوں اورپھردلوں کی کٹ حجتی اور کج فہمی تھی آج کے سود خو ریہودی بنیا اور ان کے پنجے میں گرفتار اہل مغرب کااستدلال بھی یہی ہے، مگر قرآن کریم نے سیدھا سادہ جواب دیا ہے کہ لوگ توکہتے ہیں کہ تجارت بھی توسودخوری کی طرح کا کاروبار ہی ہے، مگر اللہ تعالی کافیصلہ یہ ہے کہ سود خوری حرام ہے اور تجارت حلال ہے۔ اس لئے عالمی تجارت کوتیسری اور خصوصا ًاسلامی دنیا کے لئے قابلِ عمل اور نفع بخش بنانے کے لئے سودی نظام کا خاتمہ لازمی شرط ہے ورنہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ تیسری دنیا کاغریب انسان قرضوں اورسود کا بوجھ بھی اٹھائے رکھے اور عالمی سامراج کے سر پٹ دوڑنے والے استحصالی گھوڑوں کی دوڑمیں بھی شریک رہے۔ اس لئے سیرت نبوی کاپیغام یہ ہے کہ پہلے قرضوں کی معافی اور سودخوری کا خاتمہ پھر عالمی تجارت !اس کے بغیر تیسری دنیا کا انسان توصرف استحصال کی چکی میںہی پستارہے گا‘عالمی تجارت میں اس کا مفید ‘تعمیری اور پرعزم کردار ناممکن ہے ۔
۳-عالمی میڈیا :
انسان جوکچھ دیکھتا ہے سنتا ہے یاپڑھتا ہے اس سے متاثربھی ہوتاہے اوریہ سب کچھ اس کے عملی کردار کو اپنے رنگ میں ڈھالتا رہتاہے عالمی میڈیا آج کے دورمیں یہی کردار ادا کر رہاہے ۔گویا عالمی میڈیا یاعالمی ذرائع ابلاغ کو بیک وقت معلم ،مرشد اور کتا ب کا کر دار مل گیا ہے ۔پرنٹ میڈیا (اخبار رسائل اور کتاب وغیرہ ) کا کر دار اگر چہ محدودہے مگر مؤثر دیر پا اور آسان یہی ہے ۔الیکٹرانک میڈیا (سکرین ٹی وی اور سینما)بہت وسعت پذیر‘زورداراور بے حد متاثر کرنے والا ہے مگر کمپیوٹر نے تو سب کو مات کردیا ہے یہ درست ہے کہ ہمارا تمدنی دور حقیقت میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کادور ہے ۔اس کے توسط سے ایک قوم دوسری قوم کو اس کے گھروں بل کہ سونے کے کمروں میں بلاروک ٹوک گھس کر ذہنوں کو متاثر کرسکتی ہے؛ لہٰذااس حوالے سے بھی آج مسلمان کوسیرت نبوی سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ؛تاکہ عصرحاضر کے اس سلگتے ہوئے مسئلے کابہترین حل ہمارے سامنے آسکے ۔
مسلمان کے لئے سیرت وتعلیمات نبوی کاپیغام یہ ہے کہ علم وحکمت ایک ایسی دولت ہے جومومن کی گم شدہ میراث کی حیثیت رکھتی ہے ۔دانائی اورمعلومات کی دولت اسے جہاں سے میسرآئے اسے اپنی گم شدہ چیز سمجھ کرلے لینی چاہئے؛ البتہ چھان پھٹک سے کام لیناضروری ہوگا اور’’ خذماصفاودع ماکدر‘‘(جوصاف ستھراہے وہ پکڑ لواور جو کدوریت سے ملوث ہے اسے جانے دو)کے حکم نبوی پرعمل کرناہوگا ؛یہ خبر رسانی اور پرچہ نویسی جس نے آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا ابلاغیات یاذرائع ابلاغ کی متنوع شکل اختیار کرلی ہے دراصل ایجادہی مسلمانوں کی ہے ۔تاریخ انسانی میں حضرت عمربن خطاب نے اپنے مبارک دورمیں اس کا آغاز کیاتھا۔دوردرازکے شہروں اورمقامی آبادی کے ساتھ ساتھ حکومت کے احوال سے مکمل آگاہی کوضروری سمجھاتھا اورمصدقہ خبر رسانی پرزوردیا تھا؛ آگے چل کریہی سلسلہ کی انواع واقسام بھی منقسم وتبدیل ہوگیا ۔میڈیا یاذرائع ابلاغ نے جوترقی کی ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے، مگر ساتھ ہی خطرناک اورنازک بھی ہے اس سلسلے کے طفیل ہماری اس وسیع دنیانے ایک گلوبل ولیج یا کرّاتی بستی کی شکل اختیار کرلی ہے ۔
بنیادی طورپر سیرت وتعلیمات نبوی کسی بھی انسانی معاشرے کی تخریب کے حق میںنہیں ؛بل کہ تعمیر ی کردارکواولیت حاصل ہے؛ تاہم اگرمعاملہ ہوجنگ یادشمنی کا،تواس کا منہ توڑجواب دینے کی تاکیدہے ؛چوںکہ عالمی میڈیا یاذرائع ابلاغ نے ایک تباہ کن اسلحے کی شکل بھی اختیار کرلی ہے، جس سے دشمنوںکے گھروں میںپہنچ کران کے قلب ودماغ کومسنحرکیا جاسکتا ہے، اس لیے اس کا توڑکرناامت مسلمہ پرواجب ہو چکاہے ۔فرمان نبوی ہے ’’الحرب خدعۃ ‘‘(کہ جنگ توہوشیاری سے کام لینایادشمن کوبیوقوف بنانے کانام ہے )دشمن کے حالات کاسراغ لگانا اور خبر رسانی کرنا اسلام میں کتنا ضروری اوراہم ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوسکتا ہے کہ غزوات ومہمات کے دوران بعض مواقع پررسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی معیت میںیہ کام خودبھی بڑی احتیاط اور ہنرمندی سے انجام دیا ۔ابلاغیات یامیڈیا کے ضمن میں سیرت نبوی سے حاصل ہونے والی رہنمائی مختصر اًیوںہے کہ ۔
۱۔ خبر کی صحت اورتصدیق کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، قرآن کریم میں کئی ایک جگہ اس کی تاکید فرمائی گئی ہے ۔ارشاد ہوتاہے کہ :اے ایمان والو!جب کوئی نامعلوم یاغیرمعتبر شخص کوئی خبر لائے تواس کی اچھی طرح چھان بین کرلیا کرو؛کہیں بعد میں نادم نہ ہوناپڑے (الحجرات)اگرکسی عام آدمی کوکوئی خبر ملے تو اسے عام کرنے کے بجائے اپنے سے زیادہ صاحب علم وحکمت اور زیادہ سمجھدارلوگوںتک پہنچادینا چاہئے؛ تاکہ اس کی چھان بھٹک کرکے کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں ۔(نساء)
۲۔ معلوما ت دینے ولا ذریعہ یاخبر رساں آدمی ثقہ ومعتبر ہو‘اس کی ثقاہت ومعتبری کی ہر پہلوسے آزمائش اور چھان بین لازم ہے ہمارے محدثین کرام نے روایت حدیث کو کرنے والوں کی آزمائش اور چھان پھٹک کرضمن میں جو محنت کی ہے اور اصول دئیے ہیں وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔
۳۔ تخریبی میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی معاندانہ روش کا تو ڑضروری ہے، اس طرح مسلم کمیونٹی کاتحفظ بھی لازم ہے ’غزوات اور مہمات کے ضمن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی تخریبی اطلاعات کے تبادلے کی موثر روک تھام کی ہے اور اس کا حکم بھی دیاہے۔
۴۔ ذمہ دارانہ مکمل طورپر آزدانہ اظہا ررائے، جس سے تعمیر واصلاح مقصود ہو اس کی نہ صرف اجازت ہے؛ بل کہ اس کی تاکید بھی فرمائی گئی ہے ۔تعمیری تنقید بہترین رہنمائی کا کام دیتی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایاکر تے تھے :’’رحم اللہ عبد اہدی الی عیوبی ‘‘(اس بندے پر اللہ کی رحمت ہوجومجھے میرے ناقص کاموں کی نشاندہی کی شکل میں تحفہ پیش کرے ۔)
۵ ذرائع ابلاغ سے جو گمراہی اور تخریبی مقاصد کے لئے جو فحاشی پھیلائی جارہی ہے ؛اس کہ روک تھام کے لئے قرآنی احکام (سورۃ نساء )میں موجود ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے گمراہی اور فحاشی کے سیلاب کا تدارک امت کا فربضہ ہے ۔
۴- غربت وافلاس کا خاتمہ :
ہمیشہ کی طرح آج کے انسان کا بھی ایک اہم مسئلہ اور بنیادی ضرورت بھوک اور افلاس سے نجات ہے اور اس بھوک اور افلاس کا بنیادی سبب ہمیشہ کی طر ح آج بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے وسائلِ رزق تک ہر انسان کی آزادا نہ ویکساں رسائی میں رکا وٹ جو ایک محدود طبقہ افراد کی اجارہ داری میں رہتے ہیں ۔
سر مایہ دارانہ نظام کا فلسفہ یہ ہے کہ وسائل پید اوار تک رسائی کو محد ود سے محدود تر کیا جائے ،دولت کواس طرح سمیٹا جائے کہ دوسروں کیلئے کچھ نہ بچے اور پھر اس دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جائیں، غر یب اکثر یت جائے بھا ڑمیں ۔اس کے بر عکس کمیونزم کہتا ہے کہ سرمایہ دارسے سرمایہ چھین کر سب پر برابر تقسیم کردیا جائے ۔کوئی مالک نہ ہو سب کی ضرورت پوری ہو،بے رحم سرمایہ داری یہ نہیں بتاتی کہ اس کے پاس غریب اکثریت کوبھو کو ںمارتے ہوئے ،اپنی خو د غرضی اور سنگدلانہ استحصال کا قانونی واخلاقی جواز کیا ہے؛ جبکہ کمیونزم یہ بتانے سے قاصر ہے کہ اس کے پاس سرمایہ دار سے سرمایہ چھین لینے کا لائسنس کہا ں سے آیا ؟ ایک مرتبہ تو سرمایہ چھین کر بانٹ دیا مگر پھر حسب ضرورت چھیننے اور بانٹنے کے لئے سرمایہ کہا سے آئے گا ؟نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دولت چند ہاتھو ں میں آجاتی ہے اور ایک جگہ جم جاتی ہے باقی محروم اکثریت جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی ہے؛ اسی طر ح کمیونزم میں بظاہر بیکاری تو ختم ہوجاتی ہے ،مگر بے عملی کا دور دورہ ہوجاتا ہے ۔کمیونزم کی ناکامی کا سب سے بڑ ا سبب یہی ہے کہ دل لگا کر محنت وجانفشانی سے ’’ کا مریڈصاحب ‘‘ کو دلچسپی نہیں رہتی؛ بل کہ کام سے بھی بے نیاز ہوجاتا ہے ۔اس کے مقابلے میں سیرت وتعلبمات نبوی کا پیش کردہ نظام ِقتصادیات اعتدال اور انسانی ہمدردی (جسے ایثار وانفاق کا نام دیا گیا ہے) کے اصول پر قائم ہے ’وسائلِ رزق تک رسائی سب کا مساویانہ حق ہے ،اور ’’اتھارٹی ’’کا فریضہ ہے کہ وسائل تک رسائی کے مساویانہ حق کو یقینی بنائے ۔قرآن ِکریم وسائل ِرزق اور دولت کو اللہ تعالی کی نعمت اور فضل قرار دیتا ہے، جس کی تلاش سب کا حق بھی ہے اور فرض بھی ہے ،اس پر اجارہ داری یارکاوٹ قانون اور اخلاق سے ماورا ہے ۔ دولتمند اپنی دولت کو اللہ تعا لی اور اس کی مخلوق کی امانت سمجھ کر اس میں بخل نہ کریں اور اسراف سے بچیں ،اس کے ساتھ ہی دولت کو وراثت ،زکوۃ،صدقات ،خیرات اور ٹیکسز کے ذریعے تقسیم ہو کر معا شر ے میں گردش کر تے رہنا چاہیے۔ اسے جمنے نہ دیاجائے اسی تنگ دست اور محروم کو شریک کیاجائے، مثلاً: محروم اور نادار کو یہ حکم ہے کہ اپنے خون پسینے کی کمائی ہی بہترین رزق ہے ،کمائی کرنے والا اللہ تعالی کا محبوب ہے، لینے والے ہاتھ سے دینے والا ہاتھ افضل ہے ۔ بہر حال دو باتیں ضرور ہیں ایک تو یہ کہ ہر فر د کو مفید شہر ی اوررکن معاشرہ بنانے کیلئے اسے وسائلِ رزق میں شرکت کے مواقع فراہم کئے جائیں ۔ہر شہری جانفشانی سے محنت کرے اور حسنِ عمل میں اپنا خونِ جگر صرف کردے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد بھی بھوکا نہ سوئے ،ورنہ تمام معاشرہ گنہکا ر ہے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے ۔امام ابن حزم کا کہنا ہے کہ اگر کسی بستی میں کو ئی بھوک سے مر جائے، تو پوری بستی مجرم ہے اور اس کا خون سب کی گردن پر ہے ۔سورۂ بلد کی آیات بینات کی رو سے اللہ تعالی نے ہر انسان کو اپنے لئے ابنائے جنس کے حوالے سے جومشن اور فریضہ سونپا ہے وہ یہ کہ انسانیت کوبھوک اور غلامی سے تحقظ فراہم کیا جائے؛ ہر فر د کا یہ مشن ہے کہ وہ دوسرے کی آزادی اور افلاس کا علاج کرے ۔اپنے بھا ئی کا لقمہ چھیننا نہیں ؛بل کہ اپنا لقمہ بھی اسے دے دینا ہے ،یہی اسلام کا جذبۂ ایثار اور فریضۂ انفاق ہے۔ ہرانسان اگرمان لے تو یہ دنیا بھی جنت بن سکتی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ وسیع وعریض سرزمین جواب گلوبل ولیج بھی ہے اور جو بحر و بر کے بے حدو حساب وسائل رزق پر مشتمل ہے ۔ اس میں قادر ورزاق نے اپنے تمام بندوں کے لیے رزق کی گنجائش رکھی ہے ۔ مصادر ووسائلِ رزق کی کمی نہیں اصل بیماری حرص اور خود غرضی ہے۔ وسائلِ رزق پر چند افراد اور مخصوص اقوام قبضہ کرکے اسے اپنے لیے مختص کیے ہوئے ہے ۔ خود بد ہضمی سے مررہے ہیں اور دوسروں کو بھوک سے ماررہے ہیں ۔ امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بے انصافی ختم کرنے کے لیے اسلام کا منصفانہ ومعتدل اقتصادی لائحۂ عمل اپنانے کی ضرورت ہے؛ یہی اس مسئلے کا صحیح حل ہے۔
۵- پرسکون زندگی کی تلاش:
عزت آرام کی پرسکون زندگی ہر انسان کی آرزو نہیں ضرورت بھی ہے۔ گزشتہ سطور میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ اگر قیام عدل سے دنیا میں امن قائم ہوجائے ، اظہار ِرائے کی مکمل آزادی کے ساتھ علم ومعلومات پر ہر انسان کا حق مان لیا جائے ، ذرائع ابلاغ تخریب کے بجائے تعمیر کو اپنا شعار بنالے اور فقر وافلاس سے انسانیت کو نجات مل جائے تو عزت آرام کے ساتھ پرسکون زندگی کا مسئلہ کا فی حد تک حل ہوجاتا ہے۔ جہاں انسان اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی سنوارسکتا ہے ، لیکن اس ضمن میں جو اہم اور مناسب سوال سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس پر سکون زندگی کے ہم متلاشی ہیں اس زندگی کا حقیقی مقصد پرکھا جائے ؟ کیا انسان اس لیے پیدا ہواہے کہ زندگی بھر تفکرات اورپریشانیوں میں مبتلا رہے اور وقت کی گردشوں کے تھپیڑے کھاتا پھرے ، مصائب کے پہاڑ برداشت کرے اور غم والم کی بھٹی میں خود کو پگھلاتا رہے؟ یا کیا ہم دنیا میں صرف عیش و آرام کے لیے آئے ہیں ۔ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں ہونا چاہئیں ، غم کا نام و نشان بھی نہ ہو ۔ بس کھانا پینا ، ہنسنا کھیلنا ، سونا اور بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مقولے پر عمل پیرا ہونا ہے ؟ لیکن اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے آپ سے ایک اور سوال پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے کبھی اس دنیا ئے دَوں میں کوئی امیر یا غریب انسان ایسا دیکھا ہے، جو ہمیشہ ہر لحاظ سی خوش اور بے فکر ہے ؟ غموں اور دکھوں سے انسان کا بیزار ہونا تو سمجھ میں آتاہے ، لیکن یہ کیا کہ ہر طرف خوشی وآرام کا سامان ہے ، پھلوں پھولوں سے لہلہاتے مہکتے باغات ہیں ، مگر یہاں اس یکسانیت کے ماحول سے انسان اکتا جاتے ہیں ؟ آخر کیا بات ہے کہ اس دنیا میں ابنِ آدم کوکسی پل بھی چین نہیں حتی کہ ایک عرب شاعر کو یہ کہنا پڑا کہ
کل من القاہ یشکو للزمن
لیت شعری ہذہ الدنیا لمن ؟
’’ میں جس سے بھی ملتا ہوں زمانے کی شکایت کرتا ہے ، میری سمجھ میں نہیں آتا آخر یہ دنیا کس کے لیے ہے؟ یہ سب کچھ نتیجہ ہے مقصد زندگی کو نہ سمجھنے کا ۔ قرآنی نقطۂ نظر سے یہ دنیا در اصل انسان کا گھر ہی نہیں ہے۔ انسان یہاں اجنبی ہے اور عارضی زندگی گزاررہا ہے۔ یہ دنیا تو اس کے لیے ایک عارضی پڑاؤ کی جگہ اور وقتی سامان (مستقر و متاع الی حین ) ہے۔ ظاہر ہے جو نقل کو اصلی اور غربت کدے کو مستقل وطن سمجھ بیٹھے گا، اس کا تو یہی حشر ہوگا ۔ اسی لیے تو قرآن کریم نے دنیا کی خوشی اورغم دونوں کو بے حقیقت قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا:
{لکیلا تاسوا علی ما فاتکم ولا تفرحوا بما آتاکم}(تاکہ تم کچھ کھو جانے پر غم سے نڈھال نہ ہو اور جو کچھ اللہ کی طرف سے مل جائے، اس پر خوشی سے اترانے اور اکڑنے کی ضرورت نہیں )تو پھر اس زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ اس کا جواب سیرت و تعلیمات نبوی سے ملتا ہے : ’’ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کا یہ سلسلہ اس لیے بنایا ہے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم میںسے کون ہے، جو اس آزمائش کے میدان میں حسنِ عمل کا مظاہر ہ کرتا ہے۔ {خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا}یہ دنیا تو میدان ِعمل اورمقام آزمائش ہے : ’’ الدنیا مزرعۃ الآخرۃ ‘‘ (یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ میں مسجدِ نبوی سے نکل رہا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لارہے تھے ،پوچھا کیا کررہے تھے؟ تو عرض کیا کہ نماز پڑھی ہے، اب بازار کی طرف جاؤںگا کہ اپنے اور اہل وعیال کے لیے کچھ کماسکوں ، اس موقع پر آپ نے مجھ کو نصیحت کے انداز میں فرمایا: اس دنیا میں اجنبی بن کر رہو ، بل کہ راہ چلتا مسافر بن کر رہو ۔
تویہ ہے دنیا اورآخرت کے درمیان توازن اور اعتدال کی زندگی جہاں اصل کام حسنِ عمل کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ اور آخرت کے لیے یہ تصور کرکے مصلے پر کھڑے ہوں کہ شاید یہ میری آخری نماز ہے ۔ تب اللہ بھی نماز میں یاد آئے گا اور نماز میں بھی لطف آئے گا ۔ آپ نے حسن عمل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ جہاں بھی ہوں، چھوٹے بڑے منصب پرہوں ، کہیںبھی ہوں ، کام یوں کریں کہ کہا جائے کہ کام ہوتو ایسا ہو، یہی وہ پرسکون زندگی ہے، جس میں آرام کی نیند سونا نصیب ہوتاہے۔ اورخوشی واطمینان کی حقیقی دولت میسر آتی ہے۔