احمد ٹنکاروی
خادم التدریس فلاح دارین ترکیسر
سنیچر کی صبح ساڑھے آٹھ بجے صدیق محترم مولانا محمد فاروق بروڈوی حفظہ اللہ نے مجھے فون پر غمناک اطلاع دی کہ رفیقِ درس مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !
اللہم اغفرلہ وارحمہ وسکنہ فی الجنة۔
بہت ہی درد و غم کے ساتھ محسنِ قوم و ملت کے احوال کے بارے میں قلم جنبش کر رہا ہے ۔ایک مسلمان کو تقدیر پر ایمان کا عظیم سرمایہ ملا ہے، اس سے سنگین حالات برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
صدیقم مولانا عبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ علیہ رحمة واسعة سے پہلی دید و ملاقات شوال ۱۳۹۶/مطابق اکتوبر 1976 میں فلاحِ دارین کے قدیم تحتانی کتب خانے میں ہوئی؛جب مولانا داخلے کے بعد درسی کتب کے حصول کے لیے آئے تھے۔ مرحوم کی فلاح دارین کی طالب علمی کا آغاز فارسی دوم سے ہوا، اس وقت چھریرے بدن کے اور جماعت میں سب سے کم عمر تھے۔ فلاحِ دارین میں دورہٴ حدیث تک کی رفاقت آٹھ سال پر مشتمل رہی، جو طویل داستان ہے۔دارالاقامہ میں مولانا کا آشیانہ کمرہ نمبر 16 میں تھا، میرا بسیرا کمرہ نمبر 14 میں ؛یہاں بھی رفاقت رہی۔
ذہانت، قوتِ گویائی، حرکت ونمو اور جذبہٴ خدمت کی وجہ سے اساتذہ سے بھی بہت قرب رہا۔ زبان میں قوتِ شیرینی و سلاست پہلے دن سے موجود تھی، گویا فطری تھی۔ انجمن کی بزم ہو یا سالانہ اجلاس کی رزم وبزم، مولانا کی تقریر ضرور ہوتی اور شاہکار ہوتی۔کئی دنوں تک رسیلی آواز کانوں میں گونجتی رہتی۔ اسٹیج کی شناخت طالب علمی ہی سے حاصل ہو چکی تھی، جو بڑھتی ہی چلی گئی؛ جو صوبائی سرحد سے نکل کر ملکی سطح تک پہنچی۔ میرے ساتھ رفاقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ نیاز مندانہ تعلق بھی رہا۔
فلاح دارین سے فراغت کے بعد مظاہر علوم سہارن پور میں ایک سالہ مزید رفاقت مقدر ہوئی 12 جولائی 1984 کو بوقت ِشام، بذریعہ ریل پچھم ایکسپریس سہارن پور کا سفر ہوا۔ وہاں مولانا دورہٴ حدیث سے منسلک ہوئے ،حضرت الاستاذ شیخ یونس صاحب رحمة اللہ علیہ کی بارگاہ میں خصوصی مقام حاصل کیا، راقم اس سال فنون سے وابستہ رہا۔
قیام و طعام ؛حتی کہ صبح کی چائے ناشتہ سال بھر ظہیر بابوکی لاری پر ساتھ میں رہا۔ دفتر مظاہر کے قریب امداد الغرباء نامی کتب خانے میں قیام رہا، اس لیے کہ اس سال مظاہرعلوم میں جدید داخلے بالکل بند تھے۔
سہارن پور سے واپسی پر ہم دونوں ایک ساتھ جامعہ مظہر ِسعادت ہانسوٹ میں مدرس ہوئے۔ ایک آدھ دو سال بعدہی مولانا اشاعت العلوم کی اشاعت میں جٹ گئے۔وہاں کام یاب استاذ ،مربیٴ کامل اور انتظام میں حضرت مولانا غلام محمد صاحب مدظلہم کے دستِ راس اور آخری گھڑی تک صدق و وفا کے پیکر بنے رہے۔
جامعہ اکل کوا میں آپ کی خدمات کا طویل سلسلہ ہے ،ہزاروں تلامذہ کی کھیپ ہے۔ آپ کا درس تحقیقی، فنی معلومات کامرقع، اجمالی نقاط، پھر تفصیل، وجوہِ تسمیہ، ماقبل سے ربط اور کتابیات و شخصیات کے تعارف پر مشتمل ہوتا تھا۔
تربیت طلبہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔تلامذہ کے ساتھ ہمدردی، تعاون، انسیت اور طلبہ کی مشکلات میں کام آنا یہ طویل الذیل باب ہے… القصہ باکمال مدرس اور بہترین مربی تھے۔
خطابت تو آپ کے گھر کی لونڈی تھی۔مخاطب طلبائے مدارس ، نظمائے مکاتب و اساتذہٴ مکاتب ہوں، بزم انجمن ہو یا سالانہ اجلاس، مسابقاتِ قرآنیہ کے عظیم اجلاس ہوں یا عوام کی بھیڑ ، سب میں برابرداد حاصل کرتے اوردعائیں پاتے۔ موقع کی مناسبت کی آیات و احادیث کا انتخاب، قابل شنید ہوتا، خطاب کا ابتدائیہ دل موہ لینے والا ہوتا، قیمتی اشعار کا ذخیرہ نوکِ زبان رہتا، تعبیرات سے اہل علم بے حد محظوظ ہوتے اور بیچ بیچ میں لطیفے اور چٹکلے پیش کرتے، جس سے مجلس زعفرانی ہو جاتی۔ گھنٹوں کی تقریر؛ لیکن مجمع پرسکون رہتا، خطابی فیض سے ملک کا چپہ چپہ مستفیض ہوا ؛بل کہ ملک کی سرحدوں سے باہر برطانیہ تک پہنچا، وہاں ایک امت مستفیض ہوئی۔ کسے معلوم تھا کہ یہ خطیبِ باکمال اچانک خطاب موقوف کر کے سامعین کو تشنہ لب چھوڑ کر راہیٴ آخرت ہو جائے گا۔
قسامِ ازل نے خطابت کے ساتھ کتابت، تقریر کے ساتھ تحریر کا اعلی ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ دونوں میدانوں کے شناور ہی، نہیں بل کہ شہسوار اور بے تاج بادشاہ تھے۔ آپ کے قلم کی جو لانی وروانی کا اندازہ لگانا ہو تو آپ کی تصنیفات ہاتھ میں لے لیجیے، خصوصاََ ”قطرہ قطرہ سمندر“ قلم توڑ دیا ہے۔ مسابقوں کی مناسبت سے آپ کے قلم سے صادر ہونے والا سلسلہٴ مذکراتِ تفسیر یہ بھی آپ کے قلم کے ساتھ اعلی تفسیری ذوق کا غماز ہے، جودرسِ قرآن کے لیے بے حدقیمتی اورمفیدنگینہ فراہم کرتاہے۔
آپ کی پہلی ہی تصنیف” تحفہٴ تراویح“ نے بڑی مقبولیت پائی ۔کئی زبانوں میں اور کئی ایڈیشن نکلے یہ تصنیفات بھی آپ کے باقیات الصالحات ہیں۔
جامعہ اشاعت العلوم نے بھی مواقع فراہم کیے، آگے بڑھایااورصلاحیتوں کو اجاگر کیا۔اس لیے مولانا کے خدمات جامعہ اکل کوا کے نامہٴ اعمال کابھی حصہ بنے رہیں گے۔ اللہ پاک جامعہ اکل کوا کو نعم البدل عطا فرمائے… رئیس الجامعہ وستانوی مدظلہ کی عمر میں عافیت کے ساتھ برکت عطا فرمائے۔
مولانا جس کام کو شروع کرتے پورے لگن اور جوش کے ساتھ انجام دیتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی لگالیتے۔ آپ کی زندگی جہد ِمسلسل، مجاہدے، انہماک، دعوت اور وفا سے عبارت ہے، جس پر جامعہ اکل کوا کی اینٹ اینٹ شاہد ہے۔کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ رفیق ِمعظم اتنی جلدی داغِ مفارقت دے جائیں گے؛ ایسا لگتا ہے کہ آپ کی روح لاک ڈاوٴن کی قید و بند کو برداشت نہ کر کے جنت کی آزاد فضا میں پرواز کر گئی۔ اسی وجہ سے صدمہ بالائے صدمہ یہ رہا کہ آخری مٹی بھی نصیب نہ ہوئی۔”مرے تھے جن کے لیے وہ رہ گئے وضو کرتے “
لیکن مرحوم کی ترقیٴ درجات کے لیے کتنی دعائیں ،کتنا ایصال ثواب ہوا ہوگا، اللہ ہی جانتا ہے۔ ان شاء اللہ یہ غائبانہ دعائیں ضرور مقبول ہوں گی۔
اللہ پاک آپ کے حسین کارناموں کے طفیل آپ کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند سے بلند تر فرمائے، جمیع پسماندگان کو صبر جمیل و اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین!
والسلام
قلب حزین
احمد ٹنکاروی
یکے از رفقائے مرحوم
خادم التدریس فلاح دارین ترکیسر