سوشل میڈیا کے پیغامات و تحریرات اور ہماری اخلاقی ذمہ داریاں

مقصوداحمدضیائی

            آج کے اس دور پر آشوب میں ہم لوگ روز بروز دینی تعلیمات سے دور اور اسلامی فکر و مزاج سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ شریعت ِمطہرہ میں کسی کو تکلیف دینے کی اجازت قطعاً نہیں ہے ؛لیکن آج کل ہم لوگ دانستہ و نادانستہ اس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔ بعض حضرات کسی کارِخیر کو نیک سمجھ کر دوسروں کو تکلیف دے رہے ہوتے ہیں، کیا اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ نیکی کرتے ہوئے دوسرے کی اذیت کا باعث بنیں؟ اس بارے میں معلمِ انسانیت سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کتب ِاحادیث کے صفحات پر چمک رہی ہیں۔

             حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خوبصورت ذاتی معمول سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ بوقت ِتہجد نبی ٴاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوتے تو خاموشی سے بستر سے نکلتے، چپکے چپکے وضو کے لیے تشریف لے جاتے اور آہستہ آہستہ قدم رکھتے؛ تاکہ ازواج ِمطہرات میں سے کسی زوجہٴ مکرمہ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو۔ ایک حدیث پاک میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ سلامت رہیں اور مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگ اپنی جان و مال کے معاملے میں مامون ہوں ۔

             آج سوشل میڈیا ایک ایسا موٴثر ذریعہ اظہار اور پیام رسانی کے لیے مفید چیز ہے کہ اس سے موثر اور آسان شاید کوئی اور ذریعہ اظہار ہو۔ آج کا ایک عام انسان بھی نہایت آسانی کے ساتھ اپنا پیغام چند لمحات میں شرق و غرب ،شمال و جنوب میں پہنچا سکتا ہے ؛ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حق و صداقت کی آبیاری کے لیے اس کا بھرپور استعمال ہوتا! دیکھا جائے تو بڑی حد تک اس باب میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے، تاہم اس کو غلط طور پر بھی بہت زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ بعض اوقات شریر قسم کے لوگ فیس بک پر جعلی اکاوٴنٹ بنا کر یا بذریعہ واٹس ایپ کوئی جھوٹا پیغام کسی بھی شخص کی جانب منسوب کرکے ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں، جو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے، بریں بنا سوال و جواب کا ایک طویل سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔

             بعض اوقات اس وجہ سے فکری و نظری، علاقائی و شخصی، مسلکی و مذہبی اور ملکی رسہ کشی اور مناقشہ شروع ہو جاتا ہے اور اس قسم کی فضول و لا حاصل بحثوں کا حصہ بنتے ہی بسا اوقات معمولی اختلاف ِرائے کو بھی تکفیر کی بنیاد بنا کر﴿واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا﴾ کے خدائی حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک امت اور ایک ملت ہونے کے تصور کو بھی بھلا دیتے ہیں۔ بعض شریر اور نا ہنجار لوگوں کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ اس قسم کی بیہودہ و طنزیہ پوسٹ لگاتے ہیں، جس سے با وقار تعلیم گاہوں اور قیمتی جماعتوں اور جمعیتوں کی ساکھ اور لائق ِفخر شخصیات کا کردار مجروح ہو کر رہ جاتا ہے؛ ہمیں چاہیے کہ ہم اس سے ہوشیار رہیں۔ شعوری و غیر شعوری کسی بھی طور پر کبھی بھی ان بحثوں کا حصہ نہ بنیں اور ہر سطح پر اس سے اجتناب کرتے رہیں۔

            ان سطور کا شان ِورود یہ ہے کہ گزشتہ سے پیوستہ شب کسی شریر نے ایک عزیز کی جھوٹی خبر ِوفات چلا دی، جس کی اطلاع صبح میں ملی کہ اس قسم کی خبر وفات رات بھر گردش کرتی رہی۔ یہ سن کر انتہائی افسوس ہوا، چوں کہ یہ سفید جھوٹ تھا، ابھی اسی بات پر ماتم کناں تھے اور منہ بسورے بیٹھے تھے کہ عالم اسلام کی ہر دل عزیز اور مقبول ترین علمی و روحانی شخصیت مفسر قرآن فقیہ زماں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی جانب غلط منسوب ایک تحریر مسلسل گردش میں رہی؛ جب کہ وہ سراسر مولانا محترم کی تحریر نہ تھی اور شام تک حضرت والا کا وضاحتی آڈیو بھی آگیا ،جس سے معلوم ہوا کہ کئی بار تحریری و زبانی وضاحتی بیان دے چکے ہیں۔ توبہ توبہ کس قدر زیادتی ہے، نامعقول قسم کے لوگ کس کس طرح کام کے لوگوں کو دکھ پہنچاتے ہیں، اس دوران غالب کا یہ شعر ذہن میں تازہ ہوگیا جس کا مصرعہ اولیٰ حاضر ہے#

 دل مرا خوش ہوا مسجد ویراں دیکھ کر

مصرعہ ثانی تحریر کرنے کی ہمت نہیں۔ واقعی غالب کی شاعری ساحری اور ان کا تخیل کہکشاں، اسلوب ِبیاں ندرت مآب، ان کے افکار گنجینہ اسرار، ان کی نکتہ آفرینی گوہر تابدار، ان کے اشعار ان کی شاعرانہ عظمت کے گواہ، بہرحال دن بھر اس واقعہ کا ذہن پر خاصہ اثر رہا یہ خیال آ کر کہ جو جھوٹی خبر ِوفات رات بھر گردش کرتی رہی گھرانے کے وہ لوگ جو وطن سے دور ہوں گے یا وہ لوگ جو قریب تو ہوں گے ،لیکن رات کو ان کا پہنچنا نا ممکن ہوگا، جس جگہ کی خبر تھی وہاں کا نیٹ ورک بھی موثر ہوگا یا نہیں؟ سردی کی یہ طویل رات کیسے کٹی ہوگی؟ جب کہ یہ نامعقول شخص تو نامناسب حرکت کرکے نیند کی وادی میں چلا گیا ہوگا۔

             غرض طرح طرح کے خیالات نے گھیر لیا میں سمجھتا ہوں اس قسم کی حرکات وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو نامعقول ہوں، کوئی بھی ذی شعور انسان اس قسم کی حرکات نہیں کر سکتا، چناں چہ ایسے حالات میں جب کہ نئی نسل کا عموم مبائل فون میں ضم ہو کر رہ گیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے روز فیس بک اور واٹس ایپ پر نئے نئے کرشمے رونما ہوتے رہتے ہیں، ان کی نامعقول حرکتوں اور غیر ضروری اقدامات کی وجہ سے حیا دار انسان کا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے ،ظاہر ہے اس طرح کے امور کی برآمدات کا نتیجہ مبائل ہی ہے، جس نے ان کو اس دنیا کا ہیرو بنا دیا ہے جب کہ پڑھنے میں زیرو ہیں؛ جہاں انہیں ہیرو ہونا چاہئے تھا۔ موبائل نے کتابوں سے انہیں بے نیاز کر دیا، درسیات اور اس کے متعلقات کی حیثیت ثالثی درجہ کی ہو گئی، غیرمقصود اشیاء مقصود بن گئیں، استاذ اور بڑوں کی حیثیت عرفی موبائل کی حقیقت و ماہیت کے تحقق کے با وجود بس شئ جامد کی ہوگئی، گناہ کا تصور بس تصور ہی رہا، اس کے انجام کی ہیبت و رہبت دلوں سے نکل گئی ۔بس اللہ تعالی سے التجا ہے کہ وہ ہماری عزیمت کو بحال کر دے۔

            آخرش: اس بات پر ہر ایمان والے کا یقین ہے کہ ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے اور میزان ِعدل نے بھی قائم ہونا ہے؛ جہاں ہر شخص نے اپنے مالک و خالق کو زندگی کے اعمال و اقوال اور احوال و واقعات کا حساب دینا ہے، لہٰذا ہر پوسٹ کرتے ہوئے اس کی تصدیق و تحقیق لازماً کرنی چاہئے ،کہیں وہ تحریر ہماری پکڑ اور دوسرے کی غلط فہمی کی وجہ نہ بن جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر معاملہ میں عقل و خرد اور حاضر دماغی سے کام لیں۔

            بہرحال جب سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کا ذکر چھڑا ہے تو جاتے جاتے یہ بھی سن لیجیے کہ ہمارا تعلق سرحد سے ہے، ہمارے سروں پر گولہ بارود کی برسات عام سی بات ہے۔سالِ رواں میں ایک مرتبہ سرحدی فائرنگ میں شیرخوار بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے بکھر گئے ،جس پر پورے گروپ کے دانشوران حرف غلط کی طرح بھی (انا للہ) لکھنے سے رہے۔ جب کہ من پسند ترسیلات کا سلسلہ برابر چلتا رہا، اس عمل سے اندر کی انسانیت کا بھی پتہ چلا ،ایسے ہی ایک مکتبہٴ فکر کی ایک با اثر شخصیت کا انتقال ہوا، تو اس پر بھی کچھ ایسے مخصوص انداز سے اظہار ِافسوس کیا جانے لگا جو صاف صاف اس بات کا عندیہ معلوم ہوا کہ یہ اظہار افسوس نہیں ،بل کہ طریقہ واردات ہے۔ فقط دوسرے مکتبہ فکر والوں کو چڑانا مقصود ہے اور بس! جس سماج میں وڈیروں کا یہ حال ہو تو پھر اس سماج کے چھوٹے کیسے نا وہ سارے مراحل بھی طے کریں جو انہیں نہیں طے کرنے چاہیے ۔ غرض کہ اس قسم کی واردات جب کسی بندہ مومن کی آنکھوں کے سامنے گردش کرتی ہیں تو مایوسی کے عالم میں اس کے پاس ایک دعا ہی کی قندیل رہ جاتی ہے ،ہماری بھی یہی دعا ہے اللہ پاک ایسوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے انہیں صحیح سمجھ دے عقل سلیم دے اور امت بن کر جینے کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین

 قلم بایں جا رسید سربہ شکست