مفتی عبد المتین اشاعتی کانڑ گانوی /استاذ جامعہ اکل کوا
(محترم قارئینِ کرام! درج ذیل تحریر میں موبائل کی سلبیات وایجابیات یعنی منفی ومثبت پہلوٴوں کو بالتفصیل بیان کرنا مقصود نہیں، وہ عیاں ہیں، بہت سے لوگوں کی اس بارے میں تحریریں موجود ہیں، اور نہ ہی سوشل میڈیا کی فضیلت واہمیت بیان کرکے اس کے استعمال کی ایسی ترغیب دینا مقصود ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کربس اسی میں لگے رہیں ۔ اصل مقصود یہ ہے کہ اگر آپ موبائل پر سوشل میڈیا کا استعمال وقت کی ایک اہم ضرورت سمجھ کر، کرہی رہے ہیں ہے،تو پھر بعض چیزوں کا پاس ولحاظ رکھا جائے، اس لیے کہ سوشل میڈیا در اصل دجالی پروپیگنڈہ کا گڑھ ہے، جہاں دجل وفریب سے کام لے کر عوام کی تعمیراتی فکروں، صاف ذہنوں کو خراب ووِیران کیا جارہا ہے، اور معصوموں کی جانوں اور مالوں سے کھلواڑ کیا جارہا ہے !…عم)
ضرورت اِیجاد کی ماں ہے:
مشہور کہاوت ہے کہ ” ضرورت، اِیجاد کی ماں ہے“ ، اور موبائل کا وجود بھی ضرورت کے تحت ہی ہوا تھا، در اصل ”موبائل“ قدرتِ خداوندی کی طرف سے عقلِ انسانی کے ذریعے عطا کردہ ایک زرّین وقیمتی تحفہ ہے؛ بشرطیکہ مقاصدِ حسنہ اور طاعات میں اس کا استعمال کیا جائے، ورنہ مقاصدِسیئہ اور لایعنی وبے کار کاموں میں اس کا استعمال انسان کو گنہگاروں اور نافرمانوں کی فہرست میں شامل کرسکتا ہے۔
آج کے دور میں موبائل اور سوشل میڈیا کے موضوع کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے اعتبار سے ہندوستان دنیا کا تیسرابڑا ملک ہے۔ اور جہاں تک موبائل فون استعمال کرنے کی بات ہے تو اس معاملے میں ہندوستان پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ (انقلاب:(۱۸/ اکتوبر ۲۰۱۳ء)
کرلو دنیا مٹھی میں:
ماضی میں ریلاینس ایل جی کمپنی (Relince LG Company)کا یہ اشتہار کئی مرتبہ نظروں سے گزرا ”کرلو دنیا مٹھی میں“…جو اس وقت ایک خواب اور مزاق معلوم ہوتا تھا، مگر آج حقیقت میں انسان اپنی مٹھی میں دنیا (اسمارٹ فون / اینڈرائڈ فون )لیے گھوم رہا ہے۔
اینڈرائڈ فون جو فی الوقت حضرتِ انسان کی خلوت وجلوت میں ہم درد،حضر وسفر میں ہم سفر، سالکین ومسترشدین کا مرشد ورہبر ،شائقینِ کتب ومطالعہ کے لیے زادِ خیر، میت وتعزیت میں مونس وغم خوار، مرض وصحت میں ہم نشیں،عزیز وقریب کا نعم البدل، … وغیرہ جیسے کئی مثبت ومنفی کردار بیک وقت ادا کررہا ہے۔
موبائل معاشرتی زندگی کا ایک اہم جزو کی حیثیت اختیار کرچکا ہے،چھوٹا بڑا ، مرد وعورت، جوان بوڑھا کوئی شخص اس سے بے نیاز نہیں ، اجتماعی، اقتصادی، طبی ، ایجابی وسلبی (مثبت ومنفی)ہر اعتبار سے اس کا اثر معاشرے پر پڑا ہے۔ انسانی سماج ومعاشرے میں موبائل کے ذریعے سوشل میڈیا (Social Media)کا بڑھتا ہوا اثر ورُسوخ دیکھ کر ”سخاوت حسین جی“ کہتے ہیں کہ آج پرنٹ میڈیا (Print Media)اور الیکٹرانک میڈیا (Electronic Media)کو بھی سوشل میڈیا (Social Media) کے ساتھ ہی چلنا پڑتا ہے، گزشتہ چند سالوں میں ”چائے والے“ کا ایسا شور اُٹھا کہ جسے دیکھو ہاتھ میں چائے لے کر سوشل میڈیا کے طواف کرنے لگا۔ سوشل میڈیا ایک بے لگام ادارے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔اس وقت دنیا میں لگ بھگ ایک ارب سے زیادہ لوگ سوشل میڈیا سے وابستہ ہیں، زیادہ تر آبادی سوشل میڈیا ہی کو بہترین پلیٹ فارم سمجھتی ہے۔
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال:
سوشل میڈیا نہ صرف لوگوں سے تعلقات قائم کرنے کا ذریعہ ہے ؛بلکہ اپنے مسائل بھی اس پر پوسٹوں (Posts) کی صورت میں حکامِ بالا تک پہنچائے جاسکتے ہیں۔سوشل میڈیا میں ٹویٹر ٹرینڈ (Twitter Trend) کو اسی لیے اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ عموماً اس پر جو موضوع ٹاپ ٹین ٹرینڈ (Top10 Trend) یا ٹاپ ٹوینٹی (Top20) میں گردش کرتا ہے، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر وہی موضوع، زیرِ بحث ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ بھارتی ” لشکرِ میڈیا“ مسلمانوں کی طرف سے چلائے گئے ”ٹرینڈز“ (Trends) کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، اور فالتو کی کوئی چیز ہو؛ جیسے کسی فلم اسٹار کا کسی فلم یا گانے کا ٹرینڈ، کسی وزیر اور صدروغیرہ سرکاری وغیر سرکاری مشہور شخصیت کے جنم دن کا ٹرینڈ، تو اس پر سب لوگ پیغام ارسال کرتے ہیں، فضولیات میں وقت برباد کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد ایسی ہے، جو اندھا دھند سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو حقیقت کی نظرسے دیکھتی ہے، بلکہ اس کی پیروی بھی کرتی ہے۔
سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور احساسِ ذمہ داری:
سوشل میڈیا ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے، اُس کے ذریعے جہاں ایک طرف سب کچھ شیئر (ارسال) ہوتا ہے، خبروں، مسئلوں کے علاوہ نفرت سے بھرا مواد، مذہبی منافرت پھیلانے والی پوسٹیں، اقلیتوں کے خلاف پوسٹیں، لسانی وعلاقائی تعصبات سے بھر پور چیزیں مِن وعَن شیئر کی جاتی ہیں؛ اسی لیے موجودہ دور میں نفرتیں کم ہونے کے بجائے بڑھتی جارہی ہیں، رشتہ داریاں سمٹ رہی ہیں، قرابت داریاں دُھندلا رہی ہیں۔عوامی حقوق میں دَر اندازیاں ہورہی ہیں،تو وہیں دوسری طرف عوام کو اپنے حقوق کے حصول کا احساس بھی اسی میڈیا سے دلایا جاسکتا ہے۔آج کل احساسِ بیداری وذمہ داری کا فقدان ہوگیاہے ، دوبارہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُسے بیدار کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ آن لائن سوشل میڈیا کا صحیح سمت میں استعمال ہو، لوگ اپنے مافی الضمیر کا اظہار اپنے وزیروں، نمائندوں اور سرکار کے رُو برو براہِ راست کرسکیں۔ان کی شکایتیں سنی جائیں، عوامی مسائل کو سوشل میڈیا کے ذریعے حل کیا جائے، کوئی کسی کی صحیح آواز کو دبانہ سکے۔ اگر اس انداز سے سوشل میڈیائی صارفین کی تربیت وذہن سازی ہو، تو ملک وملت امن کا گہوارہ بن جائیں گے۔
سوشل میڈیا پر آئی ٹی سیل (IT Sell) کی زہر افشانی اوراس کا دفاع:
آج سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال کرنے والا شخص ایگ گروپ وجماعت کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا وتنہا ہوتا ہے، پھر بھی سوشل میڈیا میں لگا ہے کہ اُسے اس کی لَتْ لگ چکی ہے۔ بہت سے لوگ ڈپریشن (ذہنی تناوٴ) اور مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں۔میڈیا کے مثبت پہلوٴوں سے زیادہ نوجوان منفی پہلوٴوں سے آشنا ہوچکا ہے۔ نوجوانوں اور بچوں کو علم کے ٹیکے کی ضرورت تھی ، اُس کی جگہ انہیں سوشل میڈیائی جہالت کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں؛ اس لیے سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت کے ساتھ ساتھ عوام کی تربیت بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ فرقہ پرست سیاسی طاقتیں ملک ومعاشرہ اور نسلِ نو کے ذہنوں میں نفرت کا زہرگھولنے کے لیے آئی ٹی سیل (IT Sell) کے ذریعے سوشل میڈیا کا بے جا وغلط استعمال کرکے ہندوستانی فضا کو مزید مسموم کرنے کی کوشش کررہی ہیں، مثلاً:
غازی آباد ”مجلس اتحاد المسلمین “ (MIM)کی الیکشن ریلی میں ایم آئی ایم کے کارکنان ”حاجی ذیشان زندہ باد“ کے نعرے لگا رہے تھے، اور آئی ٹی سیل (IT Sell) نے الزام لگادیاکہ یہ لوگ ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگا رہے تھے، جس کا ردّ خود پولیس ایس ایچ او نے کیا کہ یہ غلط الزام ہے، سوشل میڈیا نے ”ذیشان“ کو بھی ”پاکستان“ بنادیا۔
دہلی کے منصوبہ بند فساد(۲۰۲۰ء) کے موقع پر بھی سوشل میڈیائی وار کا سہارا لے کر، بے سہارا وغریب مسلمانوں کی بستیوں کو پھونک دیا گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں کروڑوں کا نقصان ملک وقوم کو سہنا پڑا۔
اسی طرح وہاٹس ایپ، فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ پر جعلی پیج اور آئی ڈی بناکر دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ مسلم لڑکوں کے نام پر آئی ڈی بناکر نفرت پھیلاکر نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، مسلکی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے، فرقہ پرستی کو فروغ دیا جاتا ہے۔حضور پاک علیہ الصلاة والسلام، ازواجِ مطہرات، صحابہٴ کرام اور حرمین شریفین کی شان میں نازیبا وبھونڈے جملے کسے جاتے ہیں۔اسلام، قرآن اور مسلمانوں کی غلط شبیہ پیش کی جاتی ہے، مقاماتِ مقدسہ کے سلسلے میں غلط وجھوٹے تبصرے کیے جاتے ہیں، جس سے اہلِ ایمان واسلام کی دل شکنی ودل آزاری ہوتی ہے؛لیکن اسی سوشل میڈیا کے ذریعے اس طرح کی بکواسوں کا منظم طور پر دفاع بھی کیا جاسکتا ہے، اور غیروں کو اسلام وقرآن سے قریب کرنے کی دعوت بھی دی جاسکتی ہے۔
ٹویٹر ٹرینڈ (Twitter Trend) کی اہمیت:
گزشتہ سالوں میں ملعون مستشرق ” طارق فتح“ کے خلاف ٹویٹر ٹرینڈ(Twitter Trend) چلاکر اسے زی نیوز چینل (Zee News Channel)سے بھگایا گیا،یہ شخص اسلام اور مسلمانوں سے متعلق بہت زہر افشانی کیا کرتا تھا۔
اسی طرح ماہ نامہ ”گلشنِ نعمانی“ مالیگاوٴں کے مطابق ماہِ ربیع الاول (۱۴۴۱ھ) میں ہندوستان کے ٹویٹر پینل پر سنگھیوں اور اسلام دشمن گرگوں کی جانب سے چلائے گئے ایک ٹویٹر ٹرینڈ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کو جس طرح نشانہ بنایا گیا اور آپ کی مبارک شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی، جو بلا شبہ نازیبا حرکت اور مذموم عمل تھا، مگر اس نازیبا اور اشتعال انگیز حرکت کا معتدل ، متوازن اور ہمت وحکمت سے لبریز جواب دینے کے لیے عام مسلم نوجوانوں، عصری تعلیم یافتہ حضرات، سیاست دان، علماء وفضلاء کی طرف سے جوابی ٹرینڈ چلایا گیا۔ پورے ملک سے باغیرت مسلمانوں اور عشقِ نبوی سے سرشار اہلِ ایمان نے اپنے عمل واِقدام اور محبت بھرے پیغام کے ذریعے، اور ہر قسم کی اشتعال انگیزی سے بچتے ہوئے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت وسیرت کو بہترین انداز اور اچھے اسلوب میں اس طور پر پیش کیا کہ نہ صرف وہ نفرت انگیز ٹرینڈ کا جواب بن گیا، بلکہ اسلام کی دعوت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعارف کا وسیلہ ہوگیا۔بارہ گھنٹے سے زائد ٹویٹر کے ٹاپ ٹین ٹرینڈز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وشخصیت سے متعلق درج ذیل ٹیگ ہی سرفہرست رہے اور یکے بعد دیگرے پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر یہ ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے:
ProphetCompassion
ProphetMuhammad
MercifulProphet
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت وتعارف پر مشتمل مثبت جوابی ٹرینڈ میں ۵/ لاکھ سے زائد مثبت انداز میں ٹویٹ اور تبصرے کیے گئے، جن کی غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں نے بھی پذیرائی کی، نفرت کے جواب میں محبت پھیلانے پر خوشی کا اظہار کیا، ان غیر مسلم بھائیوں اور بہنوں کے نام ہیں: آدتیہ مینن، سنگھ مترا،آریہ سری واستو، پربھا، نیکھل، پوجا ناگروغیرہ۔ (مستفاد بشکریہ: ماہ نامہ گلشن نعمانی، نومبر ۲۰۱۹ء)
اس سے پتہ چلا کہ اگر سوشل میڈیا کو اشاعت اور دعوتِ اسلام کے لیے استعمال کیا جائے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کو اس پر اُجاگر کیا جائے، اسلامی اخلاق ومحاسن کو بیان کیا جائے، اسلام، قرآن اور مسلمانوں کے بارے میں کیے گئے اعتراضات واشکالات کے معقول جوابات دیئے جائیں، تو غیروں اور اسلام سے دور ہوچکے اپنوں کو اسلام سے قریب لایا جاسکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اپنوں کو؛ ایمان ویقین کی مضبوطی واستحکام، عبادتوں کی ترغیب، طاعتوں پر صبر واستقامت کی دعوت دی جاسکتی ہے، اور غیروں کو اسلام وقرآن سے مانوس وقریب کرنے کی مثبت کوشش کی جاسکتی ہے۔
سوشل میڈیاپرمصروف یوزرس(Users) کیا کریں؟
اگر نوجوان سوشل میڈیا پر وقت گزاری کرتے ہیں، تو پھرفرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کا مثبت استعمال یوں کریں کہ اگر انہیں بیانات اور تقریریں سننے کا شوق ہے، تو کسی مستند ومعتمد عالمِ دین یا دانشور کا دینی اسلامی پروگرام ؛ بیان وغیرہ سماعت کریں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت سننے کا شوق ہے، تو سینکڑوں قرائے کرام کے آڈیو، ویڈیو اور آن لائن وآف لائن ایپلی کیشنز موجود ہیں، اُن کو سنیں۔ حمد ونعت سننے کا شوق ہے، تو ”ابن الاسلام اسٹوڈیو“ ، ”اسلامک ریلیز“، ”الوستانوی ٹی وی“(Alvastanvi TV)، جے ٹی آر میڈیا ہاوٴس آفیشیل (JTR Media House Official) ، تحفظِ دین میڈیا سروس انڈیا (Tahaffuze-E-Deen Media Service india)، ”دار العلوم امام ربانی“ (Darul Uloom Imam Rabbani) وغیرہ پر بہترین حمد ونعت اور اسلامی پروگرام اَپ لوڈ کیے جاتے ہیں، وہ سنیں۔ (اور بھی بہت سے دینی اسلامی چینل ہیں جن کے بارے میں مستند، ماہر وجان کار لوگوں سے معلوم کیا جاسکتا ہے)۔
وہاٹس ایپ یوزرس(WhatsApp Users) :
اس وقت ہندوستان میں سوشل میڈیا میں ”فیس بُک“ (Facebook)، ”انسٹا گرام“ (Istagram)، ”ٹیلی گرام“ (Telegram)، ”وہاٹس ایپ“ (WhatsApp) اور ”ٹویٹر“ (Twitter) کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، خاص کر اخیر کے تینوں ایپلی کیشنز زیادہ مشہور ہیں،کیوں کہ انٹرنیٹ سُست رفتار ہو تو بھی یہ ایپلی کیشنز بآسانی چل جاتے ہیں، اب ان ایپلی کیشنز کا استعمال کرنے والے لوگ کئی طرح کے ہوتے ہیں، جن میں وہاٹس ایپ کے استعمال کا رجحان زیادہ ہے۔
وہاٹس ایپ (WhatsApp)پر اکثر وبیشتر صارفین (Users) ایسے ہیں، جن کے پیش نظر اچھا یا برا مقصد نہیں ہوتا، وہ صرف اور صرف وقت گزاری کے لیے وہاٹس ایپ استعمال کرتے ہیں۔ان کی آپسی گفتگو قیل وقال (فضول بحث) کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی، لہٰذا اس طرح کے گروپ بنانے اور ان میں شامل ہونے سے مسلم نوجوانوں کو مکمل طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔کچھ لوگ وہاٹس ایپ پر نئے نئے وارد ہوتے ہیں اور جو کچھ اُن کے وہاٹس ایپ پر آتا ہے، سب آگے فارورڈ اور شیئر کرتے رہتے ہیں، جب کہ وہ وہی چیزیں کئی بار اس شخص کو یا گروپ میں آچکی ہوتی ہیں، اور مکرر دیکھنے وپڑھنے میں یا سارے مواد کو ڈیلیٹ (Delete)کرنے میں بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔
بعض وہ لوگ ہیں جو اپنے گروپ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ایڈ کرتے چلے جاتے ہیں، تاکہ مختلف لوگ مختلف خبریں،تحریریں، امیج، آڈیو اور ویڈیو ارسال کریں، اور ان سے استفادہ کیا جاسکے۔اس طرح کے گروپوں کے سلسلے میں یہ بات یاد رہے کہ جب تک اس پر آنے والی خبروں کی صحیح طرح سے تحقیق نہ ہوجائے انہیں آگے نہ بھیجیں، خاص کر دینی واسلامی تحریروں کو پورا پڑھ کر اور اطمینان کرلینے کے بعد ہی آگے بھیجیں، کسی بھی آڈیو کے بارے میں معتبر ذرائع سے جب تک تحقیق نہ ہو آگے شیئر نہ کریں؛ اسی طرح ویڈیو بھی بغیر تحقیق کے آگے سینڈ (Send) نہ کریں، کیوں کہ آج کل ڈیپ فیک ویڈیو (Deep Fake Video) کے ایسے ایپلی کیشنز بھی وجود میں آگئے ہیں ،جس میں کسی بھی ویڈیو میں اس طرح اِیڈیٹنگ (Editing)کی جاسکتی ہے کہ تصویر، چہرہ، اشارات سب آواز کے موافق معلوم ہوتے ہیں، حالانکہ آواز کسی اور کی ہوتی ہے اور ویڈیو کسی اور موضوع سے متعلق ہوتا ہے۔ این ڈی ٹی وی انڈیا (NDTV INDIA) کے بے باک صحافی ”رویش کمار“(Ravish Kumar) نے گزشتہ دنوں اسی طرح کے ایک ویڈیو کی تحقیق اپنے پرائم ٹائم (Prime Time) میں بتائی تھی۔
بعض دین بے زار وبد عقیدہ (انجینئر محمد علی مرزا، جاوید غامدی، اور شکیل بن حنیف قادیانی جیسوں کے پیروکار) لوگ بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے دام میں پھانسنے کے لیے ابتدا میں کسی خالص اسلامی موضوع پر ویڈیو بناتے ہیں، پھر جب شہرت مل جاتی ہے اور اچھے خاصے فالوورز(Follwers) ہوجاتے ہیں، تو پھر گل کھلانا شروع کرتے ہیں، اور غلط عقیدوں کی اشاعت وترویج کا آغاز کردیتے ہیں،اس لیے مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ اگر انہیں کسی گروپ میں اس طرح کا ویڈیو موصول ہوتو پہلے کسی مستند عالم سے اس کی تحقیق کرالیں، اس کے بعد اس سے استفادہ کریں، یا آگے بھیجیں۔
بعض لوگ وہ ہیں جو حمد ونعت، بیانات وتقریروں کے گروپ تشکیل دیتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ اس طرح کے گروپوں میں صرف وہی حمد ونعت، یا بیان وتقریر ارسال کریں جو اسلامی عقیدے کے خلاف اور شرکیہ وکفریہ جملوں پر مشتمل نہ ہوں، اگر ایسا ہے تو پھر آگے فورورڈ (Forward)نہ کریں بلکہ ڈیلیٹ (Delete)کردیں۔
بعض لوگ وہ ہیں جو ”شرعی مسائل کے حل اور معلومات کے لیے مخصوص گروپ (مثلاً؛ دار الافتاء، آن لائن دار الافتاء، دار القضاء) بناتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ عبادات ومعاملات؛ نماز، روزہ، زکوة ، حج، نکاح وطلاق اور خرید وفروخت سے متعلق مسائل کا جواب سوچ سمجھ کر، اور مکمل تحقیق وتفتیش کے بعد ہی سائل کو بتائیں، اور نکاح وطلاق کے سوالات میں بسا اوقات سائل بہت کوتاہیاں برتتے ہیں، اس لیے ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنے علاقے کے کسی دار الافتاء یا معتبر ومستند عالمِ دین ومفتی صاحب سے رابطہ کریں، کیوں کہ طلاق کے الفاظ کے سلسلے میں مختلف علاقوں کا عرف جدا جدا ہوتا ہے۔
ٹویٹر یوزرس (Twitter Users):
”ٹویٹر“ (Twitter) استعمال کرنے والے نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ اس پر مثبت جملوں کا استعمال کریں، کیوں کہ ہر ٹویٹ ۲۰۰/ حروف پرمشتمل ہوتا ہے، یعنی کم وقت اور کم الفاظ میں اپنی بات کو موٴثر انداز میں لکھا جاتا ہے، حکومتوں اور تنظیموں کو مخاطب کیا جاتا ہے، طاعون اور فسادات جیسے غیر مساعد ونامناسب حالات میں عوام اور حکومت سے تعاون کی اپیل کی جاسکتی ہے، اسی طرح روزانہ بحوالہ محقق ومدلل کوئی قولِ زرّین، حدیث شریف یا قرآنِ کریم کی آیت (اردو، ہندی، مراٹھی، انگلش) ترجمہ کے ساتھ ارسال کی جاسکتی ہے۔بعض ٹویٹر صارفین صرف اپنے فالوورز بڑھانے کے لیے بار بار فالو بیک (Follow Back) کے میسیج ارسال کرتے رہتے ہیں، ہر کس وناکس کے پیغام کو رِی ٹویٹ کرتے ہیں، یعنی آگے بڑھا تے ہیں، یا لائک (Like)کرتے ہیں، یہ بھی غیر مناسب ہے۔ خاص کر موجودہ حالات میں اس طرح کی پوسٹیں شیئر نہ کی جائیں جن سے فساد بھڑکنے، یا فرقہ وارانہ نفرت کا بازار گرم ہونے کا خطرہ ہو، جیسا کہ دہلی فساد (۲۰۲۰ء) میں یہی ہوا۔ متعصب ہندوتوا جماعتیں سوشل میڈیا کا زیادہ تر استعمال مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور برانگیختہ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں، تاکہ نہ چاہتے ہوئے بھی دو فرقے آپس میں متصادم ہوں، اور اس طرح کی جماعتوں کے ذریعے سرکار ی کارندوں کا بھی سیاسی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔مسلم نوجوانوں کو اس سازش کا حصہ بننے سے احتراز کرنا چاہیے۔
فیس بک یوزرس (Facebook Users) :
فیس بک (Facebook)پر زیادہ تر سیلفیوں والی تصویروں اور غیر ضروری پوسٹوں کے شیئر کرنے کا رواج ہے، لہٰذا فیس بکی صارفین (Facebook Users)کو بہت زیادہ احتیاط برتنا چاہیے، اور غیر ضروری چیزوں کے بجائے معتمد ومستند علماء، مثلاً مفتی یاسر ندیم صاحب کے ”سرجیکل اسٹرائک“ (Surgical Strike) جیسے پروگراموں سے استفادہ کرنا چاہیے۔
یوٹیوب یوزرس (Youtube Users):
یوٹیوب صارفین(Youtube Users) کو بھی چاہیے کہ عریانیت وفحاشی کو فروغ دینے والے چینلوں سے دور رہیں، صرف دینی واسلامی چینلوں سے استفادہ کریں، جن کی جان کاری یوٹیوب کی معلومات رکھنے والے کسی عالمِ دین سے حاصل ہوسکتی ہے۔ (اوپر چند اسلامی چینلوں کا ذکرآچکا ہے)اور خاص کر وہ نیوز چینلز (News Channels)جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں، جن کے بارے میں مشہور صحافی رویش کمار کا کہنا ہے کہ عوام ایسے چینلوں کو دیکھنا بند کردیں، تو نفرت خود بخود دم توڑدے گی، لیکن کیا کریں آج کل عوام کے نزدیک ٹی وی نیوز چینل اور اردو ہندی ومراٹھی اخبارات ہی نصِ قطعی (قرآن وحدیث) کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں، جب بھی کوئی خبر یا واقعہ بیان کرتے ہیں، تو فخر سے ٹی وی چینل اور نیوزپیپر کا حوالہ ایسے دیتے ہیں، جیسے آسمان سے وحی نازل ہوئی ہو۔
سوشل میڈیا انسانوں کو نفسیاتی مریض بنارہا ہے:
تمام لوگ خاص کر مسلمان ٹی وی نیوز چینل (TV News Channel)دیکھنے سے پرہیز کریں، کیوں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں فیک نیوز(Fake News)یعنی غلط خبروں اور افواہوں کا بازار بہت زیادہ گرم ہوچکا ہے، ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ کورونا وائرس (Corona Virus)کے بہانے، پورے ملک میں اچانک کرامتی لاک ڈاوٴن (Lock Down)کے بعد ”مرکز نظام الدین“ میں پھنسے تبلیغی جماعت کے لوگوں، عام مسلمانوں اور مذہبِ اسلام کو جم کر نشانہ بنایا گیا، گھٹیا ، بے بنیاد وبے ہودہ تبصرے کیے گئے، اندھ بھکت عوام تو عوام، سیاسی اثر وروسوخ رکھنے والے بڑے بڑے نیتا لوگ تک الیکٹرانک سوشل میڈیا وپرنٹ میڈیا کے اس غلط پروپیگنڈے سے شدید متأثر نظر آئے، جب یوٹیوب کھولا گیا ، تو اکثر وبیشتر ہندوستانی نیوز چینلوں پر، نفرت آمیز زہریلے جلی عنوان کچھ یوں تھے:
”نکالے گئے 1548جماعتیوں میں سے 441کرونا پازیٹیو۔“ (راجستھان پترکا/Rajasthan Patrika)
”دیش کو سَنکَٹ میں ڈالنے والی جماعت۔ “ (زی ہندوستان/ Zee Hindustan)
”مرکز نظام الدین کرونا کانڈ کا سٹیک وِشلیشن(یعنی درست تجزیہ)۔“ (آج تک/ Aaj Tak)
”تبلیغی جماعت کا دیش سے وِشواس گھات(یعنی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا)۔ “ (زی نیوز/ Zee News)
”نظام الدین مرکز کی تبلیغی جماعت کی لاپرواہی پر مولانا سعد کے خلاف ایف آئی آر (FIR)۔“ (دَینِک جاگرن/Dainik Jagran )
”کرونا والی جماعت کا ذمہ دار کون؟“ (روہت سردانا/Rohit Sardana)۔ (آج تک/Aaj Tak)
”کرونا جہاد سے دیش بچاوٴ۔ کرونا جہاد پر سخت کارروائی کرو۔“ (بِنداس بول/Bindas Bol)
”نظام الدین کا وِیلَن(کام بگاڑنے والا) کون؟“ (ABP NEWS)
”دھرم کے نام پر جان لیوا اَدھرم۔ دیش کی سب سے بڑی بحث؛آر پار“۔ (نیوز 18/ News18 india)
”کرونا سے جنگ میں جماعت کا آگھات(صدمہ)۔“ سیدھا سوال۔ (ABP NEWS)
الغرض! امیش دیوگن، دیپک چورسیا، رومانہ ایثار خان، روبیکا لیاقت، انجنا اوم کشّیپ، روہت سردانا، ارنب رنجن گوسوامی وغیرہ یہ سب زہریلے اور فتّین نیوز اینکرز (News Anchors) ہندوستانی میڈیا میں دیش کے نام پر کلنک ہیں، اپنی ٹی آر پی (TRP/یعنی ٹیلی ویژن ریٹنگ پوائنٹ)بڑھانے کے لیے یہ دن بھر نیوز چینلوں پر گند پھیلاتے رہتے ہیں، افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان لوگوں کی نیوز(News) ہمارے سماج میں بڑے شوق ، دھیان،عمل کرنے اور دوسروں تک اسے پہنچانے کی نیت سے سنی جاتی ہے، اور پھرصحیح وتحقیق شدہ خبروں سے زیادہ غلط خبریں پھیلانے کا ہم ذریعہ بن جاتے ہیں،خاص کر یوٹیوب پر جب کوئی بھی چینل کھول کر نیوز سنی جاتی ہے، اور اس کے وِیورس (Viewers)یعنی دیکھنے والوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے، نیوز اینکروں کو لگتا ہے کہ لوگوں کو ہماری یہ نیوز بہت پسند آئی، اسی لیے وہ سن رہے ہیں، پھر وہ آئندہ کی نیوز مزید بھڑکاوٴ اور جذباتی بناکر پیش کرتے ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اُسے سنیں ، دیکھیں، اور ملک میں بے چینی ونفرت کا ماحول پیدا ہو۔
کورونا وائرس(Corona Virus) پھیلنے کی ایک وجہ:
موجودہ کورونا وائرس (Corona Virus)کے بکثرت پھیلنے کی جہاں اور بھی وجوہات واسباب ہیں، ان میں سے ایک وجہ ملک کی میڈیا کا اس وائرس (Virus)کو گھاتک ونہایت خطرناک بناکر پیش کرنا بھی ہے، بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو کورونا وائرس(Corona Virus) سے نہیں بلکہ اس کی خبروں کی دہشت وہیبت سے ہی اس وبائی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ اسلام میں (کمزور عقیدہ والوں کو)مجذوم وکوڑھی سے احتیاطاً اختلاط ومیل جول سے باز رہنے اور دوری بنائے رکھنے کو کہا گیا، نیز طاعون اور وبازدہ علاقوں میں جانے اور وہاں سے نکلنے سے منع فرمایا گیا ،اس ممانعت کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان کا ایمان کمزور نہ ہوجائے، اور توحید کے سلسلے میں وہ شک میں مبتلا نہ ہوجائے، یعنی کمزور عقیدے والا ، خارش زدہ ، یا مجذوم وکوڑھی کے مریض کے ساتھ رہتے ہوئے اگر اس بیماری میں مبتلا ہوجائے گا، تو کہے گا کہ کھُجلی اور کوڑھ والے کی صحبت کی وجہ سے مجھے بھی بیماری لگ گئی، نیز شہر میں جانے سے اگر وہ بیماری بہ تقدیر الٰہی لاحق ہوگئی، تو کمزور ایمان والا سمجھے گا کہ فُلاں شخص شہر میں آیا، تو اس کی وجہ سے بیماری لگ گئی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے کی خرابی سے بچانے کے لیے سدّ باب کے طور پر اُس شہر میں جانے سے ہی منع فرمادیا۔
آف لائن آپشن(Offline Option) کااستعمال:
بہت سے لوگ اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں اینڈرائڈ موبائل (Android Mobile)تھما دیتے ہیں، جو ان کی جسمانی وروحانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے، اور بہت سے بچے تو از خود یوٹیوب کھول کر کارٹون(Cartoon) وغیرہ دیکھنا شروع کردیتے ہیں، جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے،بچوں کو اس کے نقصانات بتاکر اس سے باز رہنے کی کوشش کریں، اور خود بھی بچوں کے سامنے یوٹیوب وغیرہ پر غیر ضروری وقت گزاری سے احتراز کریں۔ بہتر یہ ہے کہ یوٹیوب پر آف لائن ڈاوٴن لوڈ نگ (Offline Downloading)کا جو آپشن ہوتا ہے، وہاں سے حمد ونعت ، تلاوت اور بیانات ڈاوٴن لوڈ کرکے رکھ لیں، بچہ کو وہیں سے سنائے، کیوں کہ آن لائن یوٹیوب (Online Youtube)کے استعمال میں بے احتیاطی ہوسکتی ہے، کمپنی خود سے غیر ضروری وبے ہودہ اشتہارات دکھاتی رہتی ہے، جس سے بچنا مشکل ہوتا ہے، اگر بچہ کسی فحش اشتہار پر کلک (Click) کردے، تو پھر بچوں کے اخلاقی وروحانی نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، اور دجالی میڈیا کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسانیت خاص کر امتِ مسلمہ دینی، فکری ، روحانی واخلاقی ہر اعتبار سے ذلت وپستی کا شکار ہوکر رہ جائے۔
اللہ پاک دجالی میڈیا کے فکری حملے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے! آمین