سودی رقم کے مصارف

سودی رقم کے مصارف

مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری      

ناظم دار الافتاء برائے تجارتی و مالیاتی امور (الہند)

            سود کی رقم کا لینا ہی حرام ہے ،البتہ اگر کسی نے لاعلمی یا کسی مجبوری کی بنا پر سودی رقم لے لی ہو اور وہ اب اس گناہ سے توبہ یا تلافی کرنا چاہتا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سود کی رقم جس سے لی ہو اگر وہ مالک معلوم ہو اور زندہ ہو تو اس رقم کے مالک کو وہ رقم واپس لوٹادے،اور اگر باوجود کوشش کے مالک معلوم نہ ہوسکے تو ایسی صورت میں بوجہ مجبوری بغیر ثواب کی نیت کے اصل مالک کی طرف سے کسی مستحق ِزکوٰة کو دینا ضروری ہوگا۔

سود کی رقم استعمال کرنا حرام ہے تو غریب کو کیوں دی جائے؟

            اگرخبیث مال آدمی کی ملک میں آجائے تو اس کواپنی ملک سے نکالنا ضروری ہے، اب دوصورتیں ممکن ہیں: ایک یہ کہ مثلاً سمندر میں پھینک کر ضائع کردے، دوسرے یہ کہ اپنی ملک سے خارج کرنے کے لیے کسی محتاج کو صدقہ کی نیت کے بغیر دیدے، ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت کی شریعت نے اجازت نہیں دی لہٰذا دوسری کی اجازت ہے۔ (آپ کے مسائل اوران کا حل:۶/۱۸۴)

بینک کا سود اورزکوٰة سادات کو دینا:

            سادات کا اکرام واحترام لازم ہے، اس لیے ان کو زکوٰة وصدقات ِواجبہ دینے سے احتراز کا حکم ہے، کیوں کہ ایسا مال اوساخ الناس کہلاتاہے، لیکن جو سادات اس قدر حاجت مند ہوں کہ گزار ے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں، ان کے حق میں حنفیہ میں امام طحاوی اورشافعیہ میں سے امام رازی نے زکوٰة کو درست قراردیا ہے کہ زکوٰة لینے میں جس قدر ان کے احترام پر زد پڑتی ہے اس سے زیادہ بھیک مانگنے میں ہے ،یہ سب کی نگاہوں میں بڑی ذلت ہے، اس بڑی ذلت سے بچانے کے لیے اگراس کو زکوٰة دے دی جائے تو یہ اہون ہے۔

            اگرچہ یہ قول ظاہر الروایت ہے اورعامةً اس کو فتویٰ کے لیے اختیار نہیں کیا جاتا، لیکن سخت مجبوری اورمحتاجگی کی حالت میں اس پر عمل کرنے کی دیگر اکابر کے کلام میں گنجائش معلوم ہوتی ہے، حضرت علامہ انورشاہ صاحب کشمیری کے کلام کا خلاصہ فیض الباری اورالعرف الشذی میں منقول ہے؛ تاہم جہاں تک ہوسکے ساداتِ کرام کو اس سے بچانا اعلیٰ وافضل اور ان کے احترام کا تقاضا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ:۱۶/۳۸۳)

سودی رقم سے مدرسہ کے لیے کتابیں خرید کردینا:

            بینک سے ملی ہوئی سودی رقم سے دینی کتابیں: تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی کتابیں خرید کر دینی مدرسوں کو دینا درست نہیں، ایک تو ایسی بابرکت نورانی کتابیں مالِ خبیث سے خرید نا یہ ان کتابوں کی توہین ہے، دوسرے یہ کہ سود کی رقم واجب التصدق ہوتی ہے، جس میں غریب ومحتاج کودے کر مالک بنانا ضروری ہوتاہے، مدرسہ کی کتابیں مدرسہ کے کتب خانہ میں پہنچ کر رکھی رہتی ہیں، اس میں تملیک کی صورت نہیں پائی جاتی ہے۔

 (مسائل سودص:۱۵۶)

سودی رقم سے مدرسہ کے لیے تپائی خریدنا:

            مدرسہ کے لیے تپائی جس پر قرآن مجید اور دینی کتابیں رکھی جائیں گی، ایسے مقدس اوربابرکت کام کے لیے سودی رقم استعمال کرنا بالکل ناجائز ہے ۔سودی رقم تو غرباء اورمحتاج لوگوں کا حق ہے، ایسے لوگوں کو ثواب کی نیت کے بغیر اس کے وبال سے بچنے کی نیت سے دیدینا چاہیے۔(فتاویٰ رحیمیہ: ۹/ ۲۸۰)

سود کا پیسہ مسجد کی روشنی وغیرہ میں لگانا:

            ناجائز آمدنی کا پیسہ مسجد میں لگانا درست نہیں، اگربجلی کی فٹنگ اور پنکھے میں ناجائز پیسہ لگایاگیاہے تو جس نے لگایا ہے وہ پنکھا یہاں سے لے جائے اورحلال کمائی سے لگایاجائے، بجلی کی فٹنگ میں مٹیریل اورتاربلب جو کچھ بھی وہاں موجود ہے، اس کو نکال کر جائز آمدنی سے لگایا جائے ،اگرایسا کرنے میں فتنہ ہوتو مجبوراً یہ صورت کرلی جائے کہ جتنا پیسہ ا س میں خرچ ہواہے وہ پیسہ سود کا تھا تو اتناپیسہ اصل مالک کو جس سے سودلیاتھا اسی کو واپس کردیا جائے، اگراصل مالک معلوم نہ ہو تو اتنا پیسہ غریبوں کوصدقہ کردیا جائے۔(فتاویٰ محمودیہ: ۱۵/۱۰۸)

سودی رقم سے مسجد کابیت الخلاء بنوانا:

            سودی رقم سے مسجد کا پاخانہ ، پیشاب خانہ بنوانابھی جائز نہیں۔سود کی رقم زکوٰة کی طرح وجب التصدق ہوتی ہے یعنی اس کا مصرف در اصل فقراء ومساکین یاپریشان حال مقروض ہیں، اس مال کے وبال سے بچنے کی نیت سے غریبوں، مقروضوں پر تصدق کردیناچاہیے، اورانھیں مالک بنادینا چاہیے، پاخانہ کی تعمیر میں تملیک کی صورت نہیں پائی جاتی ہے اس لیے جائز نہیں۔ (مسائل سود: ص:۱۵۹)

سودی رقم مسجد کے بیت الخلاء میں استعمال کرنا کب درست ہے؟

            اگر مسجد کی رقم بینک میں رکھی ہواوراس پرسود ملاہوتو چوں کہ مسجد کی رقم کا حساب حکومت کو دکھانا پڑتاہے، حساب دینے کی آسانی کے لیے حاصل شدہ سود کو مسجد کے بیت الخلاء پیشاب خانے میں استعمال کرلیا جائے، تو استعمال کرنے کی گنجائش ہے اوراگر مسجد کی رقم کا سود نہ ہو؛بل کہ دوسروں کی رقم کا سود ہوتو، اس صورت میں بلامجبوری استعمال نہ کیا جائے ؛بل کہ ثواب کی نیت کے بغیر غرباء کو دے دیاجائے۔

            (فتاویٰ رحیمیہ:۹/۲۸۱)

مسجد کی تعمیر کے لیے سود پرقرض لینا:       

            سودپر روپیہ لینا حرام ہے خاص کر مسجد کی تعمیر کے لیے حرام فعل کا ارتکاب ہر گز نہ کیا جائے۔

(فتاویٰ محمودیہ: ۱۵/۱۰۰)

سود لینے والے کے روپئے سے کارِ خیر میں اعانت کرنا:

            سوال: جو شخص کہ سود لیتاہے، اس کے روپیہ سے کسی کارِ خیر میں مدد جائز ہوسکتی ہے یانہیں؟

            جواب: شریعت میں اعتبار غالب کاہے، لان التحرز عن القلیل کثیر حرج وما جمل الیہ فی الدین من حرج پس اگر غالب حلال ہے تو مصارف خیر میں صرف کرنا جائز ہے ورنہ حرام:لقولہ علیہ السلام ان اللہ طیب لایقبل الا الطیب رواہ مسلم وقولہ علیہ السلام لایکسب عبد مال حرام فیتصدق منہ فیقبل منہ ،رواہ احمد۔ (امداد الفتاویٰ:۳/۱۶۶)

سود کی رقم سے سوسائٹی چلانا:

            سودی رقم جماعت(سوسائٹی) چلانے میں یا مسجدومدرسہ کے ملازمین کی تنخواہ اورکرایہ وغیرہ اداکرنے کے کام میں نہیں لاسکتے۔

            الحاصل ان علم ارباب الاموال وجب رد ہ علیہم والا فان علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بنیة صاحبہ۔ شامی، مطلب فی ورث مالا حراما باب البیع الفاسد، ۵/۹۹

(فتاویٰ رحیمیہ :۹/۲۳۹)

اسکول کے ڈونیشن میں سود ی رقم استعمال کرنا:

            اسکول والوں کوبطور ڈونیشن سود کی رقم دینا گویا اپنے بچے کی تعلیم میں سود کی رقم استعمال کرنا ہے اور سودی رقم اضطراری صورت کے بغیر استعمال کرنا درست نہیں ہے؛ لہٰذا جب آپ صاحب مال ہیں توآپ یہ رقم اس کا م میں استعمال نہیں کرسکتے۔

 (فتاویٰ رحیمیہ: ۹/۲۸۰)

سودی رقم سے اسپتال تعمیرکرنا:

            سودی رقم سے اسپتال تعمیر کرنا جائز نہیں، یہ رقم واجب التصدق ہے، جس کے حقدار فقراء اورمساکین ہیں، کسی تعمیر میں لگانا یارفاہِ عام میں استعمال کرنا درست نہیں، اس میں غریبوں کی تملیک کی صورت نہیں پائی جاتی ہے۔      

(مسائل سود۱۵۷)

سودی رقم سے مقروض کا قرض اداکرنا:

            سودی رقم سے مقروض کا قرض اداکرنا جائز ہے ،مگر اس طرح پر کہ اگرمقروض بہت غریب ومجبور ہو صاحبِ نصاب نہ ہو تو اس کے ہاتھ میں سودی رقم بلانیت ِثواب دے کراسے مالک وقابض بنادیاجائے اورپھر اس سے کہا جائے کہ تم اس رقم سے اپنا قرض اداکردو،اوراگر اس مقروض کو دیے بغیر براہِ راست قرض خواہ کو سودی رقم دی گئی تو یہ جائز نہیں اوراس طرح قرض بھی ادانہیں ہوگا۔

            فیردہ علی أربابہا ان علمو والاتصدق بہ علی الفقراء۔

 (بزازیہ: ۶/۳۵۵)

سودکی رقم رشوت میں خرچ کرنا دوہرا گناہ ہے :

            سوال: سود حرام ہے اوررشوت بھی حرام ہے، حرام چیز کو حرام میں خرچ کرناکیسا ہے؟ مطلب یہ کہ سود کی رقم رشوت میں دی جاسکتی ہے یانہیں؟

            جواب: دوہراگناہ ہوگا، سود لینے کا اور رشوت دینے کا۔(آپ کے مسائل اوران کا حل:۶/۱۸۶)

سودی رقم سے کسی دوسرے کاسوداداکرنا:

 اپنی سودی رقم سے کسی دوسرے کا سود اداکرنا جائز نہیں، ہاں اگر دوسرا بہت مفلوک الحال ہوتو اسے سود کی رقم دے سکتے ہیں، اب اسے اختیارہے چاہے اپنے استعمال میں لے آئے یااس سے اپنا سود اداکرے۔

سود کی رقم سے انکم ٹیکس اداکرنا:

            بینک میں جورقم رکھی جاتی ہے، اس پر جو سود ملتاہے یااسی طرح سرکاری ادارے پوسٹ آفس کی جمع شدہ رقم کے سودکو اپنے ذاتی کام میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ البتہ حکومت جو غیر شرعی ٹیکس عائد کرتی ہے جیسے انکم ٹیکس وغیرہ تو اس میں سرکاری بینکوں سے ملنے والی سودی رقم کا استعمال کرنا جائز ہے ۔

 (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۵۴)

انکم ٹیکس میں ادا کردہ رقم کے بقدر سودی رقم استعمال کرنا :

            مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری بینک سے حاصل ہونے والی سودی رقم سے انکم ٹیکس ادا کرنا جائز ہے ،اوراگر انکم ٹیکس پہلے ادا کردیا گیا،تو بعد میں حاصل ہونے والی سودی رقم بھی اسی کے بقدراپنے استعمال میں لائی جاسکتی ہے، لیکن اگر سودی رقم پہلے حاصل ہوئی ہو تو اس کو اس بنیاد پر پہلے ہی اپنے استعمال میں لانا کہ بعد میں انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا ،درست نہیں ہے، اس لئے کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے انکم ٹیکس دینا ہی نہ پڑے مثلا ً دیوالیہ ہوجانے یا موت کے آجانے سے ، اس لئے اگر کسی کو پہلے سودی رقم حاصل ہو تو اس کے لئے یہ رقم اِس امید پر خرچ کرنا کہ بعد میں ٹیکس ادا کرنا ہوگا درست نہیں۔

(فتویٰ نمبر: 159331)

کسی دوسرے کے سودی رقم سے اپنا انکم ٹیکس ادا کرنا:

            مثلا ًوالد یا والدہ وغیرہ کے اپنے بینک اکاوٴنٹ میں رقم جمع کرنے کی وجہ سے ان کو سودی رقم حاصل ہو تو اس رقم سے بیٹا یا کسی دوسرے شخص کے لئے اپنے انکم ٹیکس میں اس رقم کو ادا کرنا درست نہیں، اس لئے کہ بینک سے جو سودی رقم حاصل ہوئی ہے، اس کی ذمہ داری انہی پر ہے نہ کہ کسی دوسرے پر، البتہ اگر ان پر انکم ٹیکس کی ادائیگی لازم ہو تو پھر ان کے بینک سے حاصل شدہ انٹرسٹ سے وہ ٹیکس ادا کیا جاسکتا ہے۔

سودی رقم سے بسوں وغیرہ کا ٹیکس اداکرنا:

            سودی رقم کا شرعی حکم یہ ہے کہ اسے صاحبِ مال کو واپس کردیاجائے، اوراگر صاحبِ مال تک پہنچانا دشوار ہو تو پھرغریبوں اورمحتاجوں کو اس مال کے وبال سے بچنے کی نیت سے صدقہ کردیا جائے، سودی رقم کو بسوں اورکاروں وغیرہ کے ٹیکس میں اداکرنا جائز نہیں۔ فیرد علی أربابہا ان علموا والا فتصدق علی الفقراء۔

 (بزازیہ:۶/۳۵۵)

سودی رقم سے ہاوٴس ٹیکس ادا کرنا:

            اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ یہ ہے کہ ہاوٴس ٹیکس بھی ایک طرح کا غیر شرعی ٹیکس ہے، لہذا بینک انٹرسٹ سے اس ٹیکس کا ادا کرنا جائز ہے،البتہ اگر کسی وجہ سے ہاوٴس ٹیکس کے بل میں صفائی وغیرہ کا بل بھی شامل ہو،جو کہ شریعت کی نظر میں جائز ٹیکس ہے تو صرف پراپرٹی ٹیکس کے بقدر انٹرسٹ کی رقم بھرنا درست ہوگا،دوسرے جائز ٹیکس میں نہیں۔

(فتوی نمبر: 162674)

 زمین یا مکان کی رجسٹری میں سود کی رقم استعمال کرنا

            اس سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ یہ ہے کہ زمین یا مکان کی رجسٹری کرانے کی صورت میں خاص اسٹیمپ کی خریداری میں جو رقم لگتی ہے ،اسے سرکاری بینک سے حاصل سود سے ادا کرنے کی گنجائش ہوگی، البتہ اس کے علاوہ جو فیس لگتی ہے یا وکیل اپنی محنت کی اجرت کے طور پر جو لیتا ہے اس کی ادائیگی سودی رقم سے کرنا جائز نہ ہوگا۔(فتویٰ نمبر: 167933)

سودی رقم سے کرایہ اداکرنا

 اگرکوئی شخص سود سے ملی ہوئی رقم کواپنے دکان یامکان کے کرایہ میں دینا چاہے تو یہ جائز نہیں، اس لیے کہ دوکان اورمکان کے کرایہ میں سودی رقم اداکرنا اپنے ہی لیے استعمال کرناہے اورمالِ خبیث اور حرام کا اپنے استعمال میں لانا قطعاً ناجائز اورحرام ہے۔ واحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا۔

(سورہٴ بقرہ/ ۲۷۵)

سودی رقم سے مسلمان ملازمین کو تنخواہ دینا:

            سودی رقم کواپنے استعمال میں لانا یا اپنے ملازمین کوا ن کے کام کرنے کے عوض میں بطور تنخواہ دینا جائز نہیں۔ اپنے مسلمان ملازمین کو حرام مال کھلانا سخت گناہ کا کام ہے اس سے بچنا چاہیے۔ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ۔(مسلم شریف:۲ /۲۷)     

غیر مسلموں کی مزدوری میں سودی رقم دینا:

            سرکاری بینک سے یا کسی بھی طرح سے ملی ہوئی سودی رقم کو غیر مسلم مزدوروں کو مزدوری کے عوض میں دینا مثلاً بھنگیوں کو ان کے پاخانہ اٹھانے کے عوض میں دینا جائز نہیں ، اس لیے کہ بھنگیوں وغیرہ کے عوض میں دینے سے اپنے ہی مصرف میں خرچ کرنا لازم آئے گا اور سودری رقم کو اپنے ذاتی منافع میں استعمال کرنا جائز نہیں ؛لہٰذا بھنگی وغیرہ کے عوض میں دینا بھی جائز نہیں ہوگا۔

اپنے پاس سے پیسہ دے کرسود کا پیسہ رکھنا:

            اگر کوئی شخص اپنے پاس سے سوروپے سود کی نیت سے نکالتاہے اوربینک میں جوسود کا اضافہ ہواہے اصل میں شامل کرکے گیارہ سوروپے کی اصل رقم قراردیتاہے تو اس کا یہ عمل کیساہے؟

            تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس مال کو سود کہہ کر دیا جائے خواہ وہ مال دینے والے کی ملک ہو یانہ ہو، بظاہر تو سود کا اطلاق اس پر آئے گا جس پر لعنت کی وعیدیں ہیں، اب حاصل یہ ہوگا کہ مال حلال کا صدقہ کیا اپنے پاس سے اورجو مال سود کے نام پر ڈاکخانہ بینک سے ملا جو شریعت کی نظرمیں حرام ہے اور موجب لعنت ہے، اس کو خود کھائے اس سے قلب سلیم اجتناب کرتاہے، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ معینہ سود کی رقم کو صدقہ کیا جائے، لیکن اگرسودی رقم پر کسی طرح سے ملک ثابت ہونے کے بعد ذمہ فارغ کرنے کے لیے کسی دوسری رقم کو صدقہ کیا جائے تو ذمہ فارغ ہوجائے گا، کیوں کہ نقود میں تعیین نہیں ہوتی، اوردوسری وجہ یہ ہے کہ بینک والے سودی رقم الگ نہیں دیتے بلکہ اصل رقم کے ساتھ ملاکر دیتے ہیں۔

            لوخلط السلطان المال المغصوب بمالہ ، ملکہ، لأن الخلط استہلاک اذا لم یمکن تمیزہ عندأبی حنیفة ، وقولہ : أرفق للناس، اذا قلما یخلو مال عن غصب۔ (الدرالمختار)

            (قولہ : لأن الخلط استہلاک)أی بمنزلة أن حق الغیر یتعلق بالذمة فتنبہ لابالأعیان لأنا نقول: انہ لما خلطہا ملکہا، وصار مثلہا دیناً فی ذمتہ، لاعینہا۔

(رد المختار:۲/۲۹۰کتاب الزکوٰة ،مطلب فیما لوصادر السلطان جائزاً الخ سعید)

سودی رقم غیر مسلم کو دینا:

 سودی رقم جس طرح غریب مسلمانوں کو دینا جائز ہے، اسی طرح غریب غیر مسلم کو دینابھی جائز ہے، مگر بہتریہ ہے کہ صدقہ کرنے میں غریب حاجت مند مسلمان سے پہل کی جائے کیونکہ وہ زیادہ حقدار اورلائق ترجیح ہیں ،ضرورت مند مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہنچانا چاہئے۔

 سود خور کو امامت سے ہٹانا:

            چوں کہ سود لینا شرعاً حرامِ قطعی ہے، اس لیے اگرکوئی امام واقعی سود لیتاہے تو وہ شرعاً فاسق اورمرتکبِ کبیرہ ہے۔ فاسق لائق امامت نہیں اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے، اس لیے ایسے امام کو امامت سے ہٹانا مقتدیوں پر لازم ہے ۔ (خیرالفتاویٰ: ۲/۳۶۳)

سودخور کے یہاں دعوت کھانا:

            ایک مسلمان جس کے یہاں باپ داداسے سودی لین دین چلاآرہاہے وہ خود بھی بیاج پر روپے دیتاہے اس کے یہاں دعوت کھانے میں تفصیل یہ ہے کہ:

            ۱) اگر کسی کی آمدنی خالص حرام ہو،اور وہ اپنی اس متعین حرام آمدنی سے کھانا کھلائے یا ہدیہ دے تو جان بوجھ کر ان کا کھانا کھانا یا ہدیہ لینا جائز نہیں۔

            ۲) اگر کسی کی آمدنی خالص حرام ہو ، لیکن وہ اپنی اس حرام آمدنی سے کھانا کھلانے کے بجائے کسی دوسرے شخص سے حلال رقم قرض لے کر کھانے کا انتظام کرے ،تو ایسی صورت میں اس کے یہاں دعوت کھانا جائز ہے۔

            ۳) اگر کسی کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ،اور دونوں آمدنی جدا جدا ہوں، تو ایسی صورت میں اگر وہ حرام آمدنی سے کھانا کھلائے ،تو اس کے یہاں دعوت کھانا جائز نہیں ، اور اگر حلال سے کھانا کھلائے تو پھر اس کا کھانا ،کھانا جائز ہوگا۔

            ۴) اگر کسی کی آمدنی حلال بھی ہو اور حرام بھی ہو ،اور یہ دونوں قسم کی آمدنی اس کے پاس اس طرح مخلوط ہو کہ ایک آمدنی کو دوسری آمدنی سے ممتاز کرنا مشکل ہو ، لیکن حلال آمدنی کی مقدار زیادہ اور حرام آمدنی کی مقدار کم ہو تو ایسی صورت میں اس کا کھاناکھانے کی گنجائش ہے،لیکن اگر اس صورت میں بھی اجتناب کیا جائے توزیادہ بہتر ہے۔

            ۵) اور اگر کسی کی آمدنی حرام و حلال سے مخلوط ہو لیکن آمدنی کی اکثریت حرام ہو تو پھر ایسی صورت میں اس کے یہاں کھانا کھانا جائز نہیں ہوگا۔

سودی رقم قرض پر دے کر دوبارہ وصول کرنا:

            ایک شخص نے بینک سے حاصل شدہ سودی رقم کسی دوسرے شخص کو بطور قرض دے دی، اور قرض لینے والے نے کچھ عرصے بعد وہ قرض واپس کردیا تو کیا قرض لینے والے نے جو رقم واپس کردی وہ قرض دینے والے کے لیے حلال ہوجائے گی یا نہیں؟

            تو اس سلسلہ میں حکم یہ ہے کہ سودی رقم کا جس طرح قرض پر دینے سے پہلے اس کا استعمال کرنا ناجائز اور حرام تھا ،اسی طرح وہ رقم قرض پردے کر واپس وصول کرنے کے بعد بھی اس کے لیے ناجائز و حرام ہی رہے گی ، لہذا بغیر ثواب کی نیت کے اس کا صدقہ کرنا لازم ہے۔

بینک سے حاصل شدہ سودی رقم سے بینک کی فیس ادا کرنا:

            بینک سے حاصل شدہ سودی رقم سے بینک کی فیس ادا کرنا جائز نہیں ،کیوں کہ بینک کی فیس ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے،اور سود کے پیسے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

بینک کی جانب سے لگنے والی پینلٹی کو سودی رقم سے ادا کرنا :

            اگر اکاونٹ ہولڈر پر کسی وجہ سے بینک پینلٹی ادا کرنا ضروری ہوتو اس پینلٹی کی رقم کوسودی رقم سے ادا کرنا جائز نہیں،کیوں کہ سود کی رقم سے پینلٹی جو کہ اپنی ذاتی ذمہ داری اور واجبات میں سے ہے ادا کرنا جائز نہیں۔

بینک کے قرضہ سے گاڑی خرید نا:

            اس زمانہ میں ٹرک، ٹریکٹر، بس، کار وغیرہ کی خریداری کایہ طریقہ رائج ہے کہ جس کو خریدنا ہے اس میں یاتو اکٹھی اتنی رقم اداکرنے کی سکت نہیں ہوتی، یااگر ہوتی ہے تو اس سے سوال ہوتاہے کہ اتناپیسہ کہاں سے آیا، اس کا انکم ٹیکس کہاں اداکیاہے اس قسم کی رکاوٹوں کی وجہ سے بینک کاسہارا لینا پڑتاہے، اور بینک اس کو اجازت دیتاہے کہ تم از خود کمپنی سے بات چیت کرکے اپنی پسند کی گاڑی خرید لو قیمت بینک اداکردے گا، اور بعد میں یہ شخص بینک کو جب قرض اداکرے گا تو مع سود کے ادا کردے گا۔ مثلاً اگرایک لاکھ روپیہ میں خریداہے تو بینک کو یہ شخص ایک خاص مدت میں قسط وارایک لاکھ دس ہزار روپیہ اداکرے گا توایسا معاملہ شرعی طورپر ناجائز اورحرام ہے۔