سنہرے بول

دوسری قسط:

محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#

 اللہ کے ولی کون؟!

            اولیاء اللہ وہ ہیں، جو ان تین کاموں کے ذریعہ اپنے رب کی رضا کے جستجو میں لگے رہتے ہیں:

            ۱- مامورات پر عمل۔

            ۲- محظورات کا ترک۔

            ۳- مقدورات پر صبر۔

            مامورات: جن کے کرنے کا حکم اللہ نے دیا اسے بجالا نا۔

            محظورات: جس سے منع کیا اس سے باز رہنا۔

            مقدورات: جو پریشانیاں ہیں، اسے مقدر سمجھ کر صبر کرنا۔

نماز کو موٴخر کرنے سے بچیں!

             اذان سنتے ہی اپنے قلم،کتاب اورکمپیوٹر وغیرہ کو چھوڑدیں۔میٹنگ مکمل کرلیں، مجلس ختم کردیں۔ غرض ہروہ کام،جس میں آپ مصروف ہوں، اسے چھوڑدیں؛کیوں کہ اللہ ہر چیز سے بڑے ہیں۔

            خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھیں،جس کسی چیز کے حصول میں آپ لگے ہیں وہ نماز سے کمتر ہی ہے۔اور جہاں تک دنیا کی بات ہے تو وہ آپ کا مقدر ہے، وہ حاصل ہوکر ہی رہے گی۔

            آپ دنیا کے لیے گھنٹوں نکال لیتے ہیں اپنے رب کے لیے کچھ منٹ ہی نکال لیں۔

باطل کو بڑھاوا نہ دیں!

            جب اہلِ حق باطل کے مقابل میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں،تو باطل خود کو حق سمجھنے لگتا ہے۔

            ہر جگہ خاموشی مطلوب نہیں،بل کہ بعض جگہ تو مذموم ہے۔

            باطل کے سامنے خاموشی؛ یہ حق کو دبانے اور باطل کو ابھارنے کی راہ میں پہلا قدم ہے۔

آیئے آپسی کینہ دور کریں!

 حاتم اصم آپسی اور گھریلو کینہ دور کرنے کا چار مجرب نسخہ بتاتے ہیں:

            ۱:بدنی تعاون۔۲: خوش کلامی۔۳: مالی دل جوئی۔۴: پس ِپشت دعا۔

بدنی تعاون: آپ اپنی ذات سے جو بھی مدد کر سکتے ہوں کریں اور اپنے اثر ورسوخ کا فائدہ پہنچائیں۔

خوش کلامی: حوصلہ افزا کلمات کہیں،سراہیں اورخوشی کا اظہار کریں۔

مالی دل جوئی: جو ہو سکے ہدیہ تحائف دیں۔

پس پشت دعا: اور غائبانہ میں اپنے اس بھائی کے حق میں دعا کریں۔

            آپسی کینہ ان شاء اللہ کافور ہو جائے گا۔

قلب ِسلیم کی علامت

            ابن عربی مالکی اندلسی  فرماتے ہیں:

            انسان کا قلب اس وقت تک سلیم نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ کینہ،حسد، عجب اورکبر سے پاک نہ ہو۔

            کیوں کہ نبیٴ پاک علیہ الصلاة والسلام نے ایمان کی شرط لگائی ہے کہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا،جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔

(احکام القرآن ابن عربی)

 سب سے اچھی اور بری چیز

سب سے اچھی چیز:

            ۱ تقویٰ سے بہتر اور افضل کوئی توشہ نہیں۔

            ۲- خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔

سب سے بری چیز:

            ۱- جہالت سے بڑا دشمن کوئی نہیں۔

            ۲- جھوٹ سے بڑی کوئی بیماری نہیں۔

(سیرت اعلام النبلاء)

حیا (شرم) کیا ہے؟

            حیا اور شرم یہ نہیں کہ آپ سر جھکالیں یا شرم سے آپ کا چہراسرخ ہوجائے۔

            حیا تو یہ ہے کہ اللہ آپ کو اس جگہ نہ دیکھے، جہاں سے آپ کو منع کیا ہے۔

            حقیقی حیا؛اللہ سے شرم کرنا ہے۔ ہر کام میں اس بات کا استحضار کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔

قربِ خداوندی کا عمل:

امام شافعی  سے کسی نے پوچھا:

            وہ کو ن سا عظیم عمل ہے،جس سے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرلیتا ہے؟

سوال سن کر امام صاحب روپڑے اور فرمایا:

            کہ جب اللہ تیرے دل کو دیکھے تو اس طرح پائے کہ تجھے دنیا اور آخرت میں اللہ کے سوا کسی اور چیز کی چاہت نہیں ہے۔

اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ۔

سب سے زیادہ شفاعت کا حق دار کون؟

            لوگوں میں شفاعت کا سب سے زیادہ حق دار آپ علیہ الصلوة والسلام پر کثرت سے درود بھیجنے والاہے۔اور آپ پر درود بھیجنے کا سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے۔

            اور یہ فضیلت جمعرات کے سورج غروب ہونے کے بعد سے لے کرجمعہ کے دن کے سورج غروب ہونے تک ہے۔اور جمعہ کے دن میں درود بھیجنا یہ رات میں بھیجنے سے افضل ہے۔

آئیے غموں سے چھٹکارا پائیں!!

            غم وپریشانی کو دور کرنے والا اور گناہوں کو دھو دینے والا عمل نبیٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ہے۔اور جمعہ کے دن درود کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔

            آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود شریف پڑھنے والے کے بارے میں فرمایا:

            (درود)تیرے غموں کا مداوا اور تیرے گناہوں کی مغفرت ہے۔

            حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن ایک ایسا وقت ہے، جس میں دعاقبول ہوتی ہی ہوتی ہے۔ اور صحیح قول کے مطابق وہ غروب سے پہلے کا وقت ہے۔

نماز سب سے پہلے کیوں؟

            نماز…قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کا سوال ہوگا۔

            نماز…درست تو سارے اعمال درست، نماز خراب سارے اعمال خراب۔

            نماز…بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے۔

            نماز…”بروقت“؛ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل ہے۔

            نماز…مومنوں پر مقررہ وقت میں فرض ہے۔

            نماز…نور ہے۔

            نماز…دنیا کے غموں سے راحت کا ذریعہ ہے۔

            نماز…کے ذریعہ اللہ گناہوں کو مٹادیتے ہیں۔

            نماز…اللہ اور بندوں کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہے۔

            نماز…نبی ٴپاک علیہ السلام نے انتقال کے وقت نماز کی وصیت کی۔

آوٴنماز کی طرف!!

            اے نماز چھوڑنے والو! کیا تم کو رب سے محبت کرنے والوں اور اس کی رضا کی تلاش میں رہنے والوں کی زندگی سے غیرت نہیں جا گتی؟

            کب تم اللہ کی پکار حی علی الصلوٰة… حی علی الصلوةآ وٴ نماز کی طرف! آ وٴ نماز کی طرف! کا اثر لوگے؟!

            بریں بنا شیطان تم پر ہنستا ہے اوراسی وجہ کر آج تمہاری زندگی کا تماشا بنا ہوا ہے۔

اے اللہ! ہمیں نماز قائم کرنے والوں میں سے بنا دیجیے اور موت تک ہم سے نماز نہ چھوٹے اس کی طاقت وتوفیق عطا فرمادیجیے۔

دنیا سے بچو!!!

            دنیا کا سحر(جادو)ہاروت ماروت سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

            وہ تو اپنے جادو سے میاں بیوی میں جدائی کرواتے تھے۔اور یہ(دنیا) بندے کو اپنے رب سے ہی دور کر دیتی ہے۔ (ابن الجوزی/المدہش)

اللہ سے ڈرنے والا کون؟

ابن رجب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            اللہ سے ڈرنے والا وہ شخص نہیں، جو روئے تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر بہہ پڑے، بل کہ (خائف) اللہ سے ڈرنے والا وہ ہے، جسے حرام کاری کی شہوت ہو اور وہ اس شہوت رانی پر قادر ہونے کے باوجود اپنے رب کے خوف سے اپنے پیدا کرنے والے سے شرم کھاتے ہوئے اسے چھوڑ دے۔

 (رسائل ابن رجب)

رَبِّ اِنیِّ مَغلُوْبٌ فَانتَصِرْ

آئیے بچی ہوئی زندگی کی قدر کرلیں!

            ہم نے اپنی زندگی کا کتنا حصہ غیر مفید کاموں میں ضائع کردیا۔ ضرورت ہے کہ شرمندگی کے وقت سے پہلے بقیہ زندگی کی قدر کرلیں۔

امام اوزاعی  فرماتے ہیں:

            دنیا میں گزارے ہر پل کا حساب روز ِقیامت بندے کو دینا ہوگا۔

            تو زندگی کا وہ وقت جو اللہ کی طاعت اورذکر وفکر میں نہیں گزرا،اس کے لمحہ لمحہ پر حسرت وافسوس ہوگا۔

            آج کس طرح ہمارا وقت، دن اور رات فضول؛بل کہ گناہوں کے کاموں میں گزررہا ہے۔ افسوس اور حسرت کے دن سے قبل اس زندگی کی قدر کرلیں۔

حق کی مدد ہوتی ہی ہوتی ہے:

            ابوجہل کا مکہ ہی میں رہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے ہجرت کرجانا،یہ باطل کی نصرت نہیں؛بل کہ اہل حق کی آزمائش ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہی شہر سے جلاوطن ہونا اور مجرمین کا کرسیوں پر صاحبِ منصب بنے رہنا،یہ تھوڑی ہی دیر کی بات تھی؛حق بہت جلد”فتح ِمکہ“ کی صورت میں منصور ہوا اور غالب آیا۔

            سبق:حق اور صاحب حق تھوڑی آزمائش کے بعد غالب آہی جاتے ہیں۔

پریشانیاں کیوں؟

            سوال: لوگوں کو آج غم، پریشانی، بدحالی اورتنگدستی کیوں لاحق ہے؟

            جواب:    صرف اور صرف اللہ سے دور ہونے کی وجہ سے، جسے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان کیا:

            دلیل:”اور جو میری نصیحت سے منہ موڑ ے گا، تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔“ (طٰہٰ:۲۱)

نکتہ:      ضنک میں تین حرف ہے۔

                        ض:       ضیق     تنگی

                        ن:         نکد        بدحالی

                        ک:        کدر       پریشانی

 ہرغم اور پریشانی ایک دوسرے سے بڑی ہے اور سب اللہ کے ذکر اور احکامات سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے۔

مایوسی کیوں!!

            کسی بھی حال میں مسلمانوں کو مایوسی نہیں جچتی۔

            وَرَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔(اعراف:156)

            (میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے)

            کیا آپ نے سمجھ رکھا ہے کہ کریم ورحیم ذات نے آپ کو اپنی اس آیت سے مستثنیٰ کر رکھا ہے؟

            اپنی تمام پریشانیوں اور امیدوں کواپنے کریم رب کے حوالے کردیں اور مطمئن وبے فکر ہو جائیں۔

بہنوں پردہ کرو!!

            آپ من چاہے کپڑے پہنتی ہیں اور کہتی ہیں دین دل میں ہونا چاہیے کپڑے میں کیا رکھا ہے!!

            یہ تو ایسی مثال ہوئی کہ آپ امتحان کا پرچہ کوراہی جمع کرادیں اور لکھ دیں:

            ”جوابات سارے میرے ذہن میں ہیں“۔

کیا آپ کے اس جواب کو کوئی ”معقول“ سمجھے گا؟؟

 میری پیاری بہنو! ہوش کے ناخن لیں؛اگر باطن صالح ہوگا تو ظاہر کا صالح ہونا یقینی ہے۔

لباس شریعت کے مطابق کریں خواہشات کے نہیں۔

رزق کے لیے پریشان نہ ہوں!

            اگر زندگی سوئی کے مانند ہے تو رزق دھاگا ہے۔وہ سوئی کے چھید سے پہنچ کر ہی رہے گا۔

            بالکل مطمئن ہو جائیں!!اللہ نے جو آپ کے لیے لکھ دیا ہے، وہ آپ کو مل کر ہی رہے گا اور جو دوسرے کا مقدر ہے آپ اس کو کبھی پا نہیں سکتے۔

صاف ستھری زندگی گزاریں!!

            جومکر وفریب،دھوکہ اور خداع والی زندگی گزارے گا،اس کی موت محتاجی،فقرو تنگ دستی میں ہوگی۔جوحسن ِنیت کے ساتھ صاف ستھری زندگی گزارے گا،اللہ ہر بلا سے اس کی حفاظت فرمائیں گے۔

سبق:

            دھوکہ سے حاصل کردہ فائدہ،انجام کار برا ہوتا ہے۔نیک نیتی سے اٹھایا ہوا وقتی نقصان انجام کار بھلا ہوتا ہے۔

ہم مرنا کیوں نہیں چاہتے؟

سلیمان بن عبدالملک نے ابو حازم سے پوچھا:

            اے ابو حازم! ہم موت کو کیوں پسند نہیں کرتے؟

            ابو حازم نے کہا: ”کیوں کہ تم نے اپنی آخرت برباد کررکھی ہے اور اپنی دنیا کو خوب آباد کر رکھا ہے، بریں بنا تم آباد جگہ سے ویران جگہ جانا نہیں چاہتے۔“

(تاریخ دمشق ابن عساکر)

فائدہ:آخرت کو آباد کیجیے! تاکہ اس یقینی شئ (موت) سے فراری کی کیفیت کے بجائے بے قراری کی کیفیت ہوجائے۔

آہ ہمارے اکابر اور ہم!

لمحہٴ فکریہ :

            ہمارے بزرگانِ دین تقویٰ اور عبادت کے باوجود روتے تھے۔

            اور ہم گناہ اور معصیت کے باوجو ہنستے ہیں۔

دل کو نرم بنائیے!

            امام ابن جوزی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

             ”دل“ بدن کے ”کان“ کا ایک قیمتی جوہر ہے، جسے عبادت و ریاضت کے کدال سے نکال کر”گوہر بے بہا“ بنانا ہوگا۔

            اوراس پرغفلت و سستی کی مٹی ڈال کرزیر زمین کرنے سے بچنا ہوگا۔

            فائدہ: غفلت و سستی کی چادر چاک کرکے عبادت و ریاضت کے میدان میں سرگرم ہوجائیں۔

نیکی کر دریا میں ڈال!

بشر بن حارث فرماتے ہیں:

            نام ونمود اور شہرت کے لیے؛ کوئی عمل (کار خیر)نہ کرو!

             جس طرح تم اپنے گناہوں کو چھپاتے ہو،اسی طرح نیکیوں کو بھی چھپاؤ۔

(سیر اعلام النبلاء)

دنیا میں کیسے رہیں؟

ابان ابن طفیل فرماتے ہیں:

            میں نے حضرت علی کوسنا وہ حضرت حسن  کو نصیحت کررہے تھے:

”دنیا میں اس طرح رہو کہ جسم تو دنیا میں ہو اور دل آخرت میں“۔                                     (روضة الزاہدین)

عقلمندوں پر تعجب!

یحیٰ ابن معاذ فرماتے ہیں:

            مجھے ایسے عقلمندوں پر تعجب ہوتا ہے جو دعا میں تو کہتے ہیں:

            اے اللہ! میرے دشمنوں کو مجھ پر خوش ہونے کا موقع نہ دے۔اور پھر خود ہی دشمنوں کو یہ موقع دیتے ہیں۔

پوچھا گیا کس طرح؟

            کہا:خوداللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔قیامت کے دن اس کی وجہ سے دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع ملے گا۔

(الحدائق لابن الجوزی)

بے چارہ انسان!

کسی زیرک نے کیا خوب کہا ہے:

            انسان پرترس آتا ہے، جس طرح و ہ فقرو تنگدستی سے ڈرتااور خوف کھاتا ہے؛

            اگرجہنم سے اس قدر ڈر لے، تو اس کی جنت پکی ہے۔

زہد کے تین درجے :

            پہلا:حرام کا چھوڑنا۔یہ عوام کا زہد ہے۔

            دوسرا:   حلال میں سے فضول کاچھوڑنا۔

            یہ خواص (خاص لوگ علما صلحا)کا زہد ہے۔

            تیسرا: یاد خدا سے مشغول کرنے والی ہر چیز کا چھوڑنا۔یہ عارفین کا زہد ہے۔

سب سے بہتر رزق

            ۱۔         روح کا سکون واطمینان۔

            ۲۔         عقل کا نور۔

            ۳۔         جسم کی تندرستی۔

            ۴۔         دل کی صفائی۔

            ۵۔         فکر کی سلامتی۔

            اے اللہ! ان چیزوں کا بڑا حصہ ہمیں عطا فرما اور ہمارے لیے مقدر کردے۔

صرف جنت میں!

             تین نعمتیں جو دنیا میں نہیں صرف جنت میں ہیں۔

            ۱ ہمیشہ رہنے والی زندگی۔

            ۲ اللہ کا دیدار اور قرب۔

            ۳ تمام غموں،پریشانیوں، مصیبتوں اور بیماریوں سے نجات۔

            أسأل اللہ لی ولکم ولوالدینا ولوالدیکم والمسلمین والمسلمات الجنة ونعیمہا. صلوا علی نَبِیِّنَامُحمَّدﷺ ۔ أسعد اللہ أوقاتکم بکل خیر