سننِ الٰہیہ کو سمجھیں

پہلی قسط:    

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مولانا الطاف حسین اشاعتیکشمیری/ استاذ جامعہ اکل کوا

الحمد للہ والصلاة والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ و صحبہ و من والاہ۔ أمابعد.

            قارئین کرام! میرے لیے بڑی سعادت مندی اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ میں آپ کے اس دینی، اصلاحی، فکری، علمی اور ادبی مؤقر ماہنامہ” شاہراہ علم“ کے توسط سے ایک انتہائی اہم، دل چسپ، مفید اور بہترین موضوع پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ دعا کریں اللہ رب العزت اس سلسلہٴ مضامین کو میرے اور آپ کے حق میں خیر و برکت ، علمی افادے اور استفادے کا باعث بنائے، ہمیں اس سے بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے اور اپنی عملی زندگی میں لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

تمہید:

             اللہ رب العزت کی حکمت، مشیت اور ازلی ارادے کا یہ تقاضا ہوا کہ دنیا کی ہر چیز کو اسباب کے تحت کیا جائے، لہٰذا اس دنیا میں ہونے والا ہر کام اللہ کی سنت، اس کی مشیت اور ارادے کے تحت ہی ہوتا ہے، کوئی چیز بھی ذرہ برابر اس سے ادھر ادھر نہیں ہوسکتی۔

            یہ وسیع و عریض کائناتِ خداوندی بڑے مستحکم اور منظم قواعد، قوانین اور اصول و ضوابط پر قائم ہے۔عالم وجود و ہست کی کوئی چیز اس محکم ِنظام اور انتہائی منظم قوانین سے باہر نہیں۔

            اس ارض وسما، بر و بحر کی کسی چیز میں خلل، بد نظمی، اضطراب اور انارکی کا دور دور تک کوئی گزر نہیں۔قرآن کریم میں حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:

            ﴿ اِنَّا کُلَّ شَیءٍ خَلَقنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ (القمر:49)

            ترجمہ:” ہم نے ہر چیز اندازہ ٴمقرر کے ساتھ پیدا کی ہے۔“

کسی چھوٹی یا بڑی چیز کی کیا مجال ہے کہ وہ اس مقرر کردہ خدائی اندازے سے سرِ مو آگے پیچھے ہو سکے۔

یہ موضوع کیوں ضروری ہے؟

            جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں یا ہمیں اس کا ترجمہ اور تفسیر دیکھنے کی سعادت ملتی ہے تو ہمارے سامنے بار بار یہ الفاظ آتے ہیں ”سُنَّةُ اللّٰہِ“،”سُنَّتُا“، ”سُنَنٌ“، ” سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِن رُّسُلِنَا،وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا“، ”سُنَّةُ الْأَوَّلِینَ “ وغیرہ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ بالآخر ان الفاظ اور مصطلحات کی مراد کیا ہے، ان کا معنی و مفہوم کیاہے؟

            تو یاد رکھیں کہ دنیا کے اس مستحکم اور منظم نظام کو اللہ رب العزت نے جن قوانین، قواعد اور اصولوں کے تحت جاری و ساری رکھا ہوا ہے، قرآن کریم کی زبان میں انہیں ”سنت اللہ“ یا”سنن الٰہیہ“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے

جو ہے راہِ عمل میں گام زن، محبوبِ فطرت ہے

            جب قرآن ِکریم میں اس کثرت سے یہ الفاظ و مصطلحات وارد ہوئی ہیں، تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل اسلام و قرآن کے لیے ان کی معرفت اور پہچان کس قدر ضروری اور اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات کو پہچاننے اور دنیا و آخرت میں کامیابی، سعادت مندی اور سرخروئی حاصل کرنے کے لیے سنن الٰہیہ کی معرفت اور ان کے تقاضوں کے مطابق چلنا لا بدی ہے۔سنن ِالٰہیہ کے خلاف چل کر، ان سے ٹکرا کر، ان سے انحراف کر کے آج تک کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکا، بل کہ ناکامی اور نامرادی سے ہی دوچار ہوا ہے۔لہٰذا ان سنن الٰہیہ کے بارے میں پڑھنا، سمجھنا اور لوگوں میں ان کے تعلق سے بیداری اور سمجھ بوجھ پیدا کرنا اہل علم کے ذمے لازم ہے۔

سنن ِالہیہ کی معرفت کے چند فوائد :

            سنن الٰہیہ کی معرفت سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرت، تخلیق، ارادے، تدبیر اور مشیت وغیرہ کے بارے میں بصیرت حاصل ہوگی اور ان صفات ِکمال سے متصف خلاقِ عالم جل جلالہ کے جلال و عظمت، قدر و توقیر اور محبت میں ازدیاد ہوگا۔سنن ِالٰہیہ کی معرفت سے قضا و قدر پر ہمارا ایمان اور یقین مزید پختہ ہوگا اور قضا و قدر پر ایمان اسلام کے بنیادی اصول اور عقائد میں شامل ہے۔

            دنیا میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث کے اسباب کیا ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سنن ِالہیہ کی معرفت رکھنے والا انہیں با آسانی سمجھ سکتا ہے۔سنن الٰہیہ کی واقفیت رکھنے والے لوگ آئے روز ‘رونما ہونے والے انقلاباتِ جہاں سے پریشان، مایوس، اور ناامید نہیں ہوتے،بل کہ ان کے ایمان اور ایقان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے۔

            انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کے معجزات، اولیائے عظام کی کرامات اور بددین، شعبدہ باز لوگوں کو پیش آنے والے حالات اور استدراج وغیرہ کو سمجھنے کے لیے بھی سنن ِالٰہیہ کی معرفت بہت زیادہ معین اور مددگار ثابت ہوتی ہے۔سنن الٰہیہ پر نظر رکھنے والے افراد اور قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں پوری بصیرت اور یقین کے ساتھ علم و معرفت رکھتے ہیں۔

سنن ِالٰہیہ اٹل اور ناقابل تسخیر ہیں:

            کائنات میں جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کا سب اللہ رب العزت کی مشیت، اللہ کے قوانین اور سنن کے تحت ہی ہو رہا ہے، اس لیے کہ زمین اللہ کی ہے، آسمان اللہ کا ہے، پوری کائنات کو پیدا بھی اللہ نے ہی کیا ہے، حکومت بھی اسی کی ہے، حکم بھی اسی کا چلتا ہے، وہ واحد و قہار ہے باقی سب اس کے بندے، اس کی سلطنت اور قدرت کے تابع اور اس کے جلال و عظمت کے سامنے بے بس اور عاجز ہیں۔

            اللہ تعالیٰ نے اطاعت اور عبادت کا حکم دیا ہے، معصیت اور مخالفت سے منع کیا، اطاعت اور عبادت کرنے والوں کے لیے اللہ نے جو سعادت مندی طے کر رکھی ہے وہ صرف انہی کا حصہ اور مقدر ہے، جو اس کی اطاعت اور عبادت کریں گے اور جو اس کی معصیت اور مخالفت پر اتر آئیں گے ان کے لیے اللہ رب العزت نے سزائیں مقرر کی ہیں، انجام کار ان کے مقہور و مغلوب ہونے کوطے کیا ہے، اس لیے وہی ہوگا جو طے ہوچکا اور ہوگا بھی سنن الٰہیہ کے مستحکم نظام عدل و انصاف کے تحت۔

            ”مَن یَفعَلِ الخَیرَ لا یَعدَم جَوازِیَہُ لا یَذہَبُ العُرفُ بَینَ اللہِ وَالناسِ۔“

            (جو بھلائی کرے گااس کا بدلہ ضرور پائے گا، اللہ اور لوگوں کے مابین ہونے والی نیکی کبھی رائگاں نہیں جاتی)

سنن ِالٰہیہ کے کچھ مظاہر:

             قرآن ِکریم نے امم سالفہ اور ایام ِخالیہ کے بہت سارے واقعات ذکر فرمائے ہیں ،جو سنن الٰہیہ کے اٹل، محکم اور ناقابل ِتغییر و تبدیل ہونے کو واضح کرتے ہیں، اسی طرح تاریخ ِاسلام کے چودہ سو سالہ ادوار میں اس چرخِ کُہَن نے سیکڑوں واقعات و حوادث اور انقلابات دیکھے ہیں، کبھی صحرائے عرب کے بادیہ نشین شش جہات عالم میں سنن الٰہیہ اور خدائی وعدوں کے مطابق فاتح و منصور اور”جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاںآ را“ نظر آئے۔اور کبھی ٹھیک سنن ِالٰہیہ کے تقاضوں کے عین مطابق ” آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے“ کا منظر نظر آیا۔

            کبھی بغداد میں اپنے محل کی چھت پر بیٹھ کر اسلامی عزت و رفعت اور شان و شوکت کے عالم میں مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید رحمہ اللہ بادل سے یوں مخاطب ہوتے نظر آئے:

            ” أَیَّتُہَا السَّحَابَةُ! أَمْطِرِیْ حَیْثُ شِئْتِ، فَسَوْفَ یَأْتِیْنِیْ خَرَاجُک“

            (اے بادل کی ٹکڑی! تجھے جہاں برسنا ہو جا کر برس، تیری پیداوار کا محصول تو میرے ہی پاس آئے گا)

            اور کبھی گردشِ ایام کے مارے ہوئے جہان آباد سے بستر سمیٹ کر ایک غُربت کدہ میں یوں کہتے دیکھے اور سنے گئے۔

بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ

قسمت میں قید تھی لکھی فصلِ بہار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمین بھی مل نہ سکی کوئے یار میں

            کبھی سقوط ِبغداد ہوا، تو کبھی سقوطِ اندلس، کبھی سقوط ِدہلی ہوا، تو کبھی سقوط ِخلافت عثمانیہ۔

            بالآخر یہ سب درد انگیز، الم ناک واقعات کیوں ہوئے؟ اور آئے دن یہ سب کیوں ہوتا ہے؟

            صرف سنن الٰہیہ کی روشنی میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان تمام کے پیچھے کیا اسباب و عوامل ہیں؟ قافلہ کیوں لٹا؟ کس کی رہبری پر سوالیہ نشان قائم ہوتا ہے؟

لِکُلِّ شَیءٍ إِذا ما تَمّ نُقصانُ

فَلا یُغَرَّ بِطیبِ العَیشِ إِنسانُ

            (ہر کمال کے بعد زوال ہے، اس لئے انسان کو وقتی خوش عیشی سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے)۔

            کسی بھی سلطنت اور حکومت کو جو عروج نصیب ہوتا ہے، اسے جو ترقی ملتی ہے وہ کیوں ملتی ہے؟ پھر جب وہ زوال کا شکار ہوتی ہے، انحطاط پذیر ہوتی ہے، تو اس کے پیچھے کیا اسباب کار فرما ہوتے ہیں؟

            سنن الٰہیہ کی روشنی میں ہم ان کو بہت عمدگی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔

            روزمرہ کے حالات کیا رخ لے سکتے ہیں اور کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ موجودہ حالات کن نتائج پر منتج ہوں گے؟

            سنن الٰہیہ کی روشنی میں ہم ان سب باتوں کا جائزہ لے سکتے ہیں۔اس لیے کہ جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اپنی نوعیت کے منفرد اور سب سے مستثنٰی حالات نہیں ہیں، بل کہ تاریخ میں ان کی بے شمار نظیریں موجود ہیں، مشہور مقولہ ہے: ”اَلتَّارِیْخُ یُعِیْدُ نَفْسَہ“ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ” وَسُنَّةُ اللہِ لاَ تُحَابِیْ أَحَدًا“ سنت اللہ کسی کی حمایت اور طرف داری نہیں کرتی۔

            سنن ِالٰہیہ بڑے اعتدال کے ساتھ، بڑے ہی انصاف کے ساتھ ہر مستحق کو اس کا حق دیتی ہیں، کسی گام پر کسی کے ساتھ بھی ذرہ برابر زیادتی کا معاملہ نہیں ہوتا۔سعادت و شقاوت، عروج و زوال، اور ترقی و انحطاط کے جملہ امور اللہ رب العزت کی ناقابل ِتبدیل سنن اور اٹل قوانین کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

سنن ِالٰہیہ کی معرفت بہت ضروری ہے:

            جب سنن ِالٰہیہ کا دائرہ اتنا وسیع ہے اور اس کا موضوع اتنا اہم، عجیب اور دلچسپ ہے، تو ہمارے لیے اس کی معرفت اور واقفیت بہت ضروری ہے، تاکہ دوسرے لوگ جس تباہی کا شکار ہوئے، اور ان کو جہاں سے ٹھوکر لگی ہم اپنے آپ کو اس سے بچا سکیں، اس ڈگر پر چلنے سے اجتناب کریں، ”وَالسِّعِیْدُ مَنْ وُعِظَ بِغَیْرِہِ“ خوش قسمت تو وہ ہے جو اپنے اوپر آنے سے پہلے دوسروں کو دیکھ کر نصیحت اور عبرت حاصل کر لے۔

سنن ِالٰہیہ اور قرآن کریم:

            جب یہ موضوع اتنا اہم اور ضروری ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ قرآن ِکریم نے اسے بڑی تفصیل اور وضاحت سے ضرور بیان کیا ہوگا، اس لیے کہ ایسا ممکن نہیں کہ انسانوں کی سعادت مندی، سرخروئی اور دنیا و آخرت میں ان کے کام آنے والی کوئی نفع بخش چیز ہو اور قرآن کریم اسے بیان نہ کرے!؟

            یقینا قرآن کریم نے اس اہم موضوع کو اپنے معہود منفرد معجزانہ، انوکھے اور دلچسپ اسلوب میں بڑی حلاوت، مٹھاس اور شیرینی بھرے پر شِکُوْہْ الفاظ میں خوب خوب بیان فرمایا ہے۔

            قرآن کریم نے سنن الٰہیہ کو سورہٴ آل عمران، الأعراف، الأنفال، التوبہ، ہود، ابراہیم، الإسراء، الکہف، الحج، النور، فاطر، اور غافر وغیرہ میں بالتفصیل واقعات اور امثال کے ساتھ بیان کیا ہے۔

            ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَٰبِ مِن شَیْءٍ﴾ (الأنعام: 38)

            ”ہم نے کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔“

            قرآن کریم میں آپ سنن ِالٰہیہ پر دلالت کرنے والے بہت سے صیغے پائیں گے، بہت سارے مقامات پہ آپ کو ”سنة اللہ“ اس کے مشتقات اور مترادفات ملیں گے۔اسی طرح بے شمار مقامات پر مضارع کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں، جو تجدد و استمرار پر دلالت کرتے ہیں اور ان کے سیاق و سباق ہی ان افعال و عادات کے سنن الٰہیہ کے زمرے میں ہونے پر دال ہیں، مثلاً آپ قرآن کریم میں بکثرت پائیں گے:

             ﴿وَکَذلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ﴾ (الأنعام:84)

            ”ہم محسنین کو یوں ہی بدلہ دیتے ہیں۔“

            تو کسی بھی زمانے میں، کسی بھی جگہ، جو بھی محسن ہوگا، اس کے ساتھ اللہ کی سنت یہی رہے گی کہ اللہ اسے بہترین بدلہ دیں گے، اس کے اجر کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

            اس کے بالمقابل﴿ وَکَذَٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِینَ﴾ (الأعراف:40)

            ”اور مجرموں کو ہم یوں ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔“

            ﴿وَکَذَٰلِکَ نَجْزِی الظَّٰلِمِینَ﴾(الأعراف:41)

            ”اور ظالموں کو ہم یوں ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔“

            تو جو بھی مجرم ہوگا، جو بھی ظالم ہوگا، جس علاقے میں ہوگا، جس زمانے میں ہوگا، جس نوعیت کا ہوگا اسے اپنے جرم کا، اپنے ظلم کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

”جیسی کرنی ویسی بھرنی نہ مانے تو کرکے دیکھ“

            قرآن کریم نے جو فرعون، ہامان، قارون، اور بہت سارے ظالم افراد اور قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں، ان سے صرف چند مخصوص لوگوں کے واقعات بیان کرنا اور سننے والوں کے کانوں کو لطف پہنچانا اور تاریخی معلومات بڑھانا مقصود نہیں ہے، بل کہ ان لوگوں کو ظلم اور کفر کے رموز کے طور پہ پیش کرنا اور ظلم، کفر اور شرک کے ان سرغنوں کے ساتھ سنن ِالٰہیہ نے کیا معاملات کئے ان کو واضح کرکے رہتی دنیا کے لوگوں کو ان کے انجام ِبد سے باخبر کرکے اپنی رحمت و رافت اور عدل وانصاف کو واشگاف کرنا ہے۔

            قرآنی قصص و واقعات نے صاف کردیا کہ جو بھی فرعون کی روش پہ چلے گا اس کا انجام فرعون جیسا ہی ہوگا، جو بھی ہامان اور قارون کا رویہ اختیار کرے گا اس کا انجام بھی ہامان اور قارون جیسا ہونا طے ہے۔

            قرآن ِکریم میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے بہت ساری بری خصلتوں، بہت ساری قبیح عادتوں کو ذکر کیا ہے اور ان سے جو لوگ متصف تھے ان کے نام مخفی رکھ کر عموم پیدا کیا ہے اور یہ بتلا دیا گیا ہے کہ ان صفات و اوصاف کے حامل افراد جو بھی ہوں گے، جس زمانے اور جس جگہ بھی ہوں گے ان کا یہی انجام ہوگا۔

            اسی طرح قرآن ِکریم نے بہت ساری اچھی خصلتوں اور اچھے لوگوں کے تذکرے کیے، ان کی مدح سرائی کی، کچھ مقامات پر انبیا علیہم السلام اور صُلحا کے نام بنام تعریف بھی کی، مگر عموما صحابہٴ کرام یا دوسرے مومنین کے نام نہیں لیے گئے، بل کہ ان کے اوصاف بیان کیے گئے، صحابہ کے ایمان اور تقویٰ کو معیار قرار دیا گیا، مگر نام ذکر نہیں کئے۔نام نہ لینے میں یہ حکمت ہے کہ ان صفات اور ان اوصاف کے حامل افراد ہر جگہ اور ہر زمانے میں اسی طرح کامیاب ہوں گے، جس طرح نزول ِقرآن کے زمانے کے برگزیدہ، چنندہ اور خدا رسیدہ لوگ کامیاب ہوں گے۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ناطقِ وحی اور چلتا پھرتا قرآن تھے،آپ نے اپنی پوری عملی زندگی سے واضح کردیا کہ یہ سنت ِالٰہیہ ہے کہ خدا و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری میں کامیابی ہے اور ان کی نافرمانی اور مخالفت میں ناکامی اور نامرادی ہے، اس سنت کو کوئی بدل نہیں سکتا، جو شاہراہ ِہدایت سے ہٹے گا، ضلالت کے قعر ِعمیق میں جاگرے گا۔

            حاصل یہ کہ قرآن ِکریم میں جگہ جگہ سنن ِالٰہیہ کو مختلف انداز میں مختلف صیغوں میں بڑی تفصیل اور توضیح کے ساتھ بیان کر دیا کیا گیا ہے، ضرورت فقط ان سنن ِالٰہیہ کو سمجھنے اور ان کے ساتھ درست تعامل کرنے اور اس سے ہر طرح کے تصادم اور تقابل سے بچنے کی ہے۔

(اگلی قسط :”سنن الٰہیہ سنت ِمصطفویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں)

(جاری…)