سنت کی اہمیت

            سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ ہمارے لیے سب سے بہترین ہدایت، رہنمائی اورسب سے اعلیٰ درجہ کی تعلیم قرآن ہے، اسی طرح سے دین ِاسلام میں سنت کی بھی وہی شرعی حیثیت ہے، جو قرآن کی ہے کیوں کہ سنت قرآن کی تفسیر اورتشریح ہے، قرآن کو سمجھنے کے لیے سنت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے، سنت کے بغیر قرآن کا سمجھنا اوراس پرعمل کرنا مشکل ہے، زندگی کے ہرمعاملہ میں قرآن و سنت پرعمل کرنا ہدایت وکامیابی کی ضمانت اور ان کو ترک کرنا ضلالت و گمراہی اور نقصان کا باعث ہے۔

            مسلمانوں کو تمام عمرجس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہیے، وہ ہے اپنے تمام حرکات وسکنات مثلاً کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنااورہنسنا رونا وغیرہ ؛یہاں تک کہ جب بندہ قضائے حاجت کو بھی جائے تو اپنے رسول کی سنت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جائے، چناں چہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پرعمل کرنا اور صبح سے لے کرشام تک اپنی ساری کی ساری زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق منظم کرنا ہرانسان کے لیے ضروری ہے۔

            جس طرح توحید کی ضد شرک ہے؛ اسی طرح سنت کی ضد بدعت ہے،اگرعقیدہ اوراعمال کی بربادی میں شرک کا پہلا نمبر ہے تو بدعت دوسرے نمبرپرفائز ہے۔ افسوس کہ آج مسلم معاشرے میں مختلف طریقوں اورناموں سے بے شمار بدعات وخرافات کا سلسلہ جاری ہے، ایسے ایسے اعمال جن کا قرآن و سنت سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں اورلوگ اسے دین کا حصہ سمجھ کرانجام دے رہے ہیں، وہ تمام اموربدعات میں شمار کیے جائیں گے، اکثر مسلمان بدعت کو سنت سمجھ کرعمل کررہے ہیں۔

            لہٰذا ایک مسلمان کے لیے سنت اوربدعت میں تفریق کی سمجھ ہونا لازم ہے، ہم مختصراً سنت اوربدعت پرتبصرہ کریں گے۔

سنت کی تعریف:

             سنت کا لغوی معنی ہوتا ہے طریقہ یا راستہ۔

            شرعی اصطلاح میں سنت کا مطلب ہوتا ہے ،جورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہو اس کوہم سنت کہتے ہیں۔

سنت کے اقسام:

             سنت کی تین قسمیں ہوتی ہیں: ۱۔ سنت ِقولی ۲۔ سنت ِفعلی ۳۔سنت ِتقریری

            ۱۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زبانی ارشاد یعنی کہ جو بات آپ نے خود اپنی زبان سے بتلائی ہو، سکھائی ہو وہ سنتِ قولی کہلاتا ہے۔

            ۲۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل یعنی کہ جو اعمال آپ نے خود کیے ہوں اسے سنت فعلی کہتے ہیں۔

            ۳۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جو کام کیا گیا ہو اورآپ نے خاموشی فرمائی ہو یعنی کہ فاعل (کرنے والے) پرکوئی نکیر یا روک ٹوک نہ کی ہو اس کو سنت ِتقریری کہتے ہیں۔

            رب ذوالجلال عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْم﴾۔

            ”اے نبی آپ کہہ دیں کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہوتومیرے فرماں بردار ہوجاؤ، اللہ بھی تم سے الفت رکھے گا اور وہ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اوراللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے“۔(آل عمران:۲۱)

            ایک دوسرے مقام پراللہ کا فرمان ہے:﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾۔

            ”جس نے رسول کا حکم مانا گویا کہ اُس نے اللہ کا حکم مانا“۔(النساء:۸۰)

            اس دار ِفانی میں جب کوئی بندہ کسی انسان سے محبت کرنے لگتا ہے، تواپنے محبوب کے نقش ِقدم پرچلنے لگتا ہے، اس کے عادات واعمال کواپنانا شروع کر دیتا ہے؛ حتیٰ کہ اپنے محبوب کی محبت میں وہ ایسے کام بھی انجام دیتا ہے جو اسے ناپسند ہو۔

سنت کی اہمیت:

             آپ میں سے کس کا اللہ کے دربار میں کتنا مقام و مرتبہ ہے، اس کا دارو مدار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری پر ہے یعنی کہ جس قدرآپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے پیروکار ہوں گے اتنا زیادہ اللہ کے یہاں لائق و قابل احترام ہوں گے۔

سنت پر عمل کرنے کے فائدے:

  •         سنت پرعمل پیرا ہونے سے بندہ مومن کواللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔
  •          فرائض میں جوکمی رہ جاتی ہے، وہ ان سنتوں پرعمل کرنے کی وجہ سے پوری کر دی جاتی ہے۔
  • اتباعِ سنت کی بنا پرانسان بدعت سے محفوظ رہتا ہے۔
  •           سنت کی پیروی کرنا شعائرِالٰہی کے احترام کا حصہ ہے۔
  •           سنت پرعمل کرنے والا انسان اللہ کے یہاں ہمیشہ محبوب ہوتا ہے۔
  •       سنت پرعمل کرنے سے زندگی خوشگواربنتی ہے۔
  •            ان سب کے علاوہ بھی سنت پرعمل کرنے کے بے شمار فائدے ہیں۔

            آپ غور فکر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں نمازادا کرو،زکاة ادا کرو، روزے رکھو، استطاعت ہونے پر حج کرو وغیرہ کے تعلق سے آپ کو دیکھنے کو ملے گا، لیکن نمازکب اور کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں؟رکوع اور سجود میں کون سی دعا پڑھنی ہے؟زکاة کب واجب ہوتی ہے؟ روزے کے مسائل کیا ہیں؟ اسی طرح سے حج کے مسائل کہ منیٰ میں کتنی راتیں گزارنی ہیں؟ عرفات میں کتنی راتیں گزاریں گے؟ وغیرہ یہ سب تفصیلات ہمیں کون بتائے گا؟ اگرآپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی عالم یا مفتی بتا دے گا تو یہاں پرمیں واضح کردوں کہ کوئی عالم یا مفتی اپنی جانب سے یا اندازہ لگا کرآپ کو نہیں بتاتے؛ بل کہ سنتوں کا رخ کرتے ہیں،سنتوں کا خاص مطالعہ کرتے ہیں تب کہیں جا کرآپ تک مسائل کا حل پہنچتا ہے۔ لہٰذا سنت کی اہمیت کو سمجھیں اوراس کو اپنی اپنی زندگیوں میں نافذ کریں کیوں کہ جس طر ح عبادات(نماز،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباعِ سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق وکردار،کاروبار، حقوق العباد اوردیگر معاملات میں بھی اتباعِ سنت مطلوب ہے۔گویا اپنی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہویا اجتماعی،مسجد کے اندرہویا مسجدکے باہر، بیوی بچوں کے ساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ،ہروقت اورہرجگہ سنت کی پیروی مطلوب ہے۔ مختصر یہ کہ سنت کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں۔

سنت پرعمل کرنا واجب ہے: اللہ رب العزت پارہ۲۸سورہ الحشر کی آیت نمبر۷ میں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَہُوا﴾

            ”یعنی کہ اور جو کچھ تمہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا کریں وہ لے لواور جس سے منع کر دیں اس سے دور رہو“(الحشر:۷)

            اسی طرح سے ایک حدیث ہے کہ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم انے ارشاد فرمایا:”فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَہْدِیِّینَ الرَّاشِدِینَ“۔

            ”یعنی کہ تمہارے اوپرمیری سنت اورہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے“(ابوداود)

            معلوم یہ ہوا کہ سنت کو نظرانداز کرنے سے ایک انسان کامل مومن ہو ہی نہیں سکتا، ایک انسان کے مکمل مومن ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں کا اعتراف کرے اوران کو دل وجان سے اپنانے کی کوشش کرے۔

            آئیے! ہم سب مل کریہ عہد کریں کہ اپنے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پرعمل پیرا ہوکر اپنی دنیا اورآخرت کو سنواریں گے۔ ان شاء اللہ!

            اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ سنت کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

حدیث اور فن حدیث کیا ہے 

            حدیث کے لیے چند متقارب یا ہم معنی الفاظ بھی مستعمل ہیں مثلاً روایت خبر اثر اور سنت۔ یہ تمام الفاظ اصحابِ حدیث کی اصطلاح میں بطور ِمرادف رائج ہیں اور بکثرت باہم دیگر معنی میں استعمال ہوتے ہیں،لیکن بعض ارباب حدیث نے ان اصطلاحات میں فرق کیا ہے، اس کی اصل وجہ علم ِحدیث کا تنوع ہے۔ جہاں تک روایت کا تعلق ہے،اس کا اطلاق حدیث کے لغوی مفہوم پرہوتا ہے،کوئی واقعہ کسی کا قول اورفعل روایت کہلاتا ہے۔ باقی حدیث، اثر، خبر اور سنت کے معانی کے تعین میں اربابِ سنت و حدیث میں اختلاف ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اوراحوال کو بعض محدثین حدیث سے تعبیر کرتے ہیں اورخبر کو دیگر لوگوں یعنی اصحاب ِرسول رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین، تابعین وغیرہ کے ساتھ مختص کرتے ہیں؛ لیکن بعض اصحابِ علم (خبر) کو ہی اس علم کا جامع مانتے ہیں؛یہی وجہ ہے کہ قدیم مصادرِ شریعت میں ”حدثنا “کے بجائے ”اخبرنا“ ہی کے الفاظ مستعمل ہیں۔ مثال کے طورپرکتاب الآثار قاضی ابو یوسف و محمد رحمہ اللہ، سنن ِدارمی، مسانید الامام الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مسند بن الجعد،موطا محمد و الجوہری و سوید بن سعید وغیرہ۔قدیم مآخذ میں اخبرنا کثرت سے مستعمل ہے اوراہل علم نے اخبرنا اور حدثنا کے خلیج کو پاٹنے کے لیے اخبرنا اور حدثنامیں ایک خفیف فرق بتادیا ہے،اگر صاحب ِحدیث خود ہی حدیث بیان فرمائے تو اخبرنا استعمال ہوتا اوراگر مستملی یا شاگرد کسی حدیث کی تلاوت کرے اور اس کی سندات پر صاحب حدیث بحث کرے تو حدثنا کا لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ یہ ایک جملہ معترضہ تھا ؛تاکہ خبر اورحدیث کے معانی سمجھنے میں آسانی ہو۔

 

            حدیث اور اثر میں بعض ارباب حدیث نے ایک فرق یہ بھی کیا ہے کہ حدیث مرفوع کے لیے اوراثر موقوف کے لیے استعمال ہوگا(ان الحدیث اسم للمرفوع والاثر موقوف علی الصحابة والتابعین رضوان اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین)لیکن جمہور سلف وخلف کے ہاں حدیث واثرمیں کوئی فرق نہیں، دونوں کا اطلاق مرفوعہ،موقوفہ اورمقطوعہ سب پرہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ اور قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ نے کتاب الآثار میں ہر قسم کی احادیث کو نقل کیا ہے ۔امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتابِ حدیث کا نام (معانی الآثار) رکھا ہے، اگرچہ اس میں اکثر احادیث مرفوعا مروی ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ جو بیک وقت مفسر،محدث اور مؤرخ گزرے ہیں اپنی کتاب حدیث کا نام (تہذیب الآثار) رکھا ہے ۔

            اصطلاحی طور پر سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عملی پہلو سے بحث کرتی ہے، لیکن کتب سنن کے مرتبین نے اپنی سنن میں بکثرت قولی احادیث درج کی ہیں؛ جیسا کہ سنن ترمذی دارمی، ابوداود، نسائی،ابن ماجہ، بیہقی،دارقطنی وغیرہ کے مطالعہ سے ظاہرہے۔ حدیث کے لیے یہ ہم معنی الفاظ ہردور میں فقہاء، محدثین، ارباب اصول اور شراح حدیث کے پیش نظر رہے ہیں اور ان سے ازحد اعتناء کیا گیا ہے۔ علم حدیث کی تعریف کی طرف پھر سے اشارتاً قارئین کی توجہ مبذول کرنا چاہتے ہیں،اگرچہ اس پر کسی قدر سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔ حافظ بدر الدین عینی  اپنی عظیم شرح بخاری میں حدیث کی تعریف یوں فرماتے ہیں: (علم یعرف به اقوال رسول اللہ صلی اللّٰہ علیه وسلم و أفعاله وأحواله)

            وہ علم جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اوراحوال کی معرفت ہو۔علامہ اکفانی رحمہ اللہ نے”ارشاد المقاصد“ میں علم حدیث کو دو انواع میں تقسیم کیا ہے۔ علم روایة الحدیث اور علم درایة الحدیث۔

            علم رویة الحدیث کی تعریف یہ ہے: (ھو علم بنقل اقوال النبی صلی اللہ علیه وسلم و افعاله وأحواله بالسماع المتصل وضبطہا وتحریرہا)

             یعنی وہ علم جس میں اقوال و افعال واحوال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے بحث ہو اور سننا،یاد رکھنا اورپھر تحریر میں لانا اسکی غایت ہے۔

            اسی طرح علم درایة الحدیث کی تعریف یہ ہے:(ھو علم یتعرف به أنواع الروایة وأحکامہا وشروط الرواة وأصناف المرویات واستخراج معانیہا)

             یعنی وہ علم جس سے روایت کی اقسام اس سے مستنبط احکام، رواة و روایات کی شرائط اوراس سے اخذ معانی ممکن ہوسکے۔

علم حدیث کا موضوع کیا ہے؟

             مختلف آراء ہیں، لیکن علامہ کرمانی رحمہ اللّٰہ شارح بخاری نے علم حدیث کاموضوع ذاتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرار دیا ہے،جس میں اقوال، افعال،احوال، سیرت، شمائل، غزوات، سیاسی کردار، سماجی راہنمائی،مہارتِ فقہ و قانون، عائلی زندگی، معاشی زندگی، عبادت، معاشرت، معاملات، اخلاق وغیرہ تفصیلات سے بحث ہوتی ہے۔

 علم حدیث کی غرض و غایت:

             علم حدیث کی غرض و غایت کے بارے میں ارباب فن رقمطراز ہیں :(الاہتداء بھدی النبی صلی اللہ علیه وسلم)

             رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت سے بہرہ مند ہونا، اگرچہ تمام علوم ِدینیہ کی غایت ایک ہی ہے یعنی”الفوز بسعادة الدارین“ دونوں جہانوں کی کامیابی،اس علم کا شرف و فضل انتہائی بڑا ہے۔اس علم کے ساتھ تعلق مسلمان کو درود و سلام کی برکات سے بہرہ ور کرتا ہے اور درود و سلام کے فضائل دفتر ِسنت میں تفصیل سے موجود ہیں۔ علومِ نقلیہ میں علم ِحدیث کا مقام دوسرے نمبر پر ہے۔ پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن ِمقدس کے بعد حدیث و سنت ہمارا اہم ترین مصدر ِشریعت ہے۔جس سے قران میں غوطہ زن ہونے کے لیے اور درر وجواہر کے حصول میں مدد ملتی ہے۔