سلطان عبد الحمید الثانی کا غیرت مندانہ رول :

                آج سے تقریباً ۱۵۰؍ سال قبل یہودو نصاری کے گٹھ جوڑ نے کس طرح قیامِ اسر ائیل کی راہ ہموار کی اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے سے قبل یہاں اجمالاً اس پر روشنی ڈالی جاتی ہے ۔

                تاریخی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ ارضِ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کی قرار داد کو روبہ عمل لانے میں پیش قدمی کی اولین بنیاد کی استواری کے لیے ’’ایمانویل قرہ صو‘‘ نام کے ایک سرگرم اور عیّار یہود کو، غیرت مند سلطانِ عثمانی: خلیفہ عبد الحمید ثانی (۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ – ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء) کی خدمت میں بھیجا گیا، جس نے اُنہیں یہودیوں کی طرف سے یہ پیش کش کی کہ اگر عالی جاہ سلطان فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کی اجازت مرحمت فرمادیں، تو صہیونی تحریک خلافتِ عثمانیہ کو پچاس کروڑ پاؤنڈ اور بہ طورِ خاص عالی جاہ کے ذاتی خزانے کے لیے مزید پچاس لاکھ پاؤنڈ دینے کے لیے، بہ سروچشم تیار ہے۔ پیشِ نظر رہے کہ اُس وقت خلافتِ عثمانیہ شدید مالی بحران کا شکار تھی اور دشمنوں کے نرغے میں بھی گھری ہوئی تھی، اگر آج کے ضمیرفروش وبے غیرت اور نام کے مسلمان بادشاہ اور حکمراں ہوتے تو کیا کرتے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں؛ لیکن سلطان عبد الحمید ثانیؒ نے اُنہیں جو جواب دیا، وہ تاریخِ اسلامی میں آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے، مسلم مُؤرّخین نے اُ ن کے جواب کو اِحساسِ اِفتخار کے ساتھ اِس طرح درج کیا ہے:

                ’’ڈاکٹر ’’ہرزل‘‘ سے جاکے یہ کہہ دو کہ اِس سلسلے میں آج کے بعد کوئی سلسلۂ جُنبانی نہ کرے؛ کیوں کہ میں ہرگز دوسروں کو دینے کے لیے، ارضِ مقدس کے ایک بالشت سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتا ۔ ارضِ فلسطین میری مِلکیت نہیں؛ بل کہ وہ میری قوم مسلم کی ملکیت ہے، جس نے اپنے لہو سے اُس کی خاک کو سینچا ہے۔یہودی اپنی لاکھوں کی رقم اپنے پاس رکھیں۔(۱)

                کچھ مؤرخین نے سلطان عبد الحمیدؒ کی یہودی نمایندے سے گفتگو کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:

                ’’اپنے ملک ِفلسطین کے تعلق سے جس کے ایک ایک بالشت کو اپنے اجداد کے خونِ گرم کے صرفے کے ذریعے حاصل کیا ہے، ہم ایک بالشت زمین کے تئیں کبھی کسی کوتاہی کو راہ نہ دیںگے، بل کہ ہم تو، ماضی سے زیادہ اپنا خون دے کر،اُس کی حفاظت کریں گے۔ ہم کسی طور وہاں یہودیوں کی ریاست قائم ہونے نہیں دیں گے۔‘‘(۲)

سقوط ِخلافتِ عثمانیہ کے منصوبے :

                سلطانؒ نے اِس کے بعد بیت المقدس کی حفاظت کے لیے، کئی ٹھوس اِقدامات کیے، وہاںیہودیوں کی ہجرت اور آباد کاری کو باقاعدہ فرمان کے ذریعے روک دیا،نیز بیت المقدس کو انتظامی طور پر، شام سے علاحدہ کرکے، بہ راہ راست اپنے انتظام میں لے لیا؛ تاکہ یہودیوں کی کسی بھی سازش سے فی الفور نمٹا جاسکے۔(۳)

                سلطان کا ایک بہت بڑا ’’گناہ‘‘ اہلِ صلیب وقاتلانِ انبیا یہود کو پہلے سے ہی کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا کہ وہ فرزندانِ تثلیث کے اپنے دور میں بڑھتے ہوئے استعماری عزائم اورعالمِ اسلام کے خلاف، اُن کی ریشہ دوانیوں کی راہ روکنے کے لیے، اسلامی اتحاد واجتماعیت واشتراک کے بہت بڑے داعی اورسپاہی تھے(۴)؛ اب یہ دوسرا خطرناک ’’گناہ‘‘ اُن سے سرزد ہوگیا کہ انہوں نے صلیبیوں اور صہیونیوں کے عزائم کی راہ روکنے کی کوشش کی؛ لہٰذا خدا وندانِ مغرب کے لیے انہیں اور اُ ن کی’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کو معاف کردینے کی راہ مکمل طور پرمسدود ہوچکی تھی؛ چناں چہ اُسی وقت سے نہ صرف سلطان عبد الحمید کو تختِ سلطنت سے اتار دینے، انہیں اَذیّت ناک تنہائی کی زندگی میں مرجانے؛ بل کہ خلافتِ عثمانیہ کے بالکلیہ خاتمے کی مُحکم اور دور رس منصوبہ بندی کرلی گئی۔ ’’ہرزل‘‘نے صاف لفظوں میں کہا:

                ’’فلسطین میں یہودیوں کے لیے، اہلِ مشرق کی طرف سے دروازوں کے واہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو‘‘(۵)۔


(۱) رسالہ ’’التبیان ‘‘ قاہرہ ، شمارہ ۳۸، جلد ۴، ص :۲۴، کالم ۳ ، مضمون: ’’ ریاست خلافت عثمانیہ ، دور فاتحین ‘‘ بہ قلم : ڈاکٹر ’’ رضا طیب ‘‘ ۔

(۲) ’’فتوی علماء المسلمین بتحریم التنازل عن أی جزء من فلسطین ‘‘ شائع کردہ ’’ جمیۃ الاصلاح الاجتماعی ‘‘ کویت ، پہلی اشاعت ۱۴۱۰ھ / ۱۹۹۰ء ، ص:۱۰)…(۳) حوالۂ سابق

(۴) التبیان ، شمارہ ۳۹، جلد ۴، ص : ۲۲ ، کالم ۳۴۔

(۵) فتوی علماء المسلمین ، ص : ۱۰۔

یہ کام یہودیوں کی ماسونی تحریک اور ڈونمہ (۱)یہودیوں نے اپنے سر لیا۔


                (۱) یہ وہ یہود ہیں ، جو عہد اسلامی میں اندلس میں رہتے تھے ، صلیبیوں کے وہاں بر سر اقتدار آجانے کے بعد ، وہاں کی زمین ان کے لیے تنگ ہوگئی ، تو یہ سلطنت عثمانیہ کی حدود میں یونان کے ’’ سالونیک ‘‘ شہر میں آکر آباد ہوگئے ، جو سلطنت عثمانیہ کی حدود حکم رانی میں تھا ۔ انہوں نے بعد میں مسلمان ہوجانے کا مظاہر ہ کیا ۔ ان کا قائد خبیث النفس یہودی ’’ شبستارے زئیفی تھا ‘‘ جس نے ۱۷ ؍ ویں صدی عیسوی میں ’’ مسیح منتظر ‘‘ ہونے کا دعوی کیا اور کہا کہ وہ یہودیوں کی قیادت کرے گا ، ساری دنیا پر  فلسطین سے حکم رانی کرے گا اور شہر قدس کو یہودی ریاست کا دارالحکومت بنائے گا ۔ اس کے یہ خیالات شدہ شدہ یہودیوں میں رواج پانے لگے؛ چنا ں چہ مختلف خطوں سے یہودیوں کے وفود کی اس کے پاس آمد شروع ہوگئی ۔ یہودیوں نے تاج شہنشاہی پہنادیا ؛ لیکن اس سے دگر علمائے یہودبہت چراغ پاہوئے اور اس کے خلاف ، ان کی تگ و دو شروع ہوگئی ، بالآخر ترکی کے صدر اعظم ’’ احمد کو بریللی ‘‘ کو اس کی اطلاع مل گئی ۔ انہوں نے اس کو گرفتار کرلیا ، اس پر مقدمہ قائم ہوا ، قاضی نے اس سے عدالت میں کہا: تم مسیح موعود ہونے کے قائل ہو ، تو ہمیں اپنا معجزہ دکھاؤ ، اس کے ایک صورت یہ ہے کہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیتے ہیں اورہم تمہارے اوپر تیر چلاتے ہیں ، اگر یہ تیر تمہارے جسم میں پیوست نہ ہو ے تو سلطان تمہارے مسیح موعود ہونے کے دعوے کو تسلیم کرلیںگے ۔ زئیفی کو اس وقت دن میں تارے نظر آنے لگے ۔ اس نے فوراً سارے الزامات مسترد کردیا کہ یہ ان کے خلاف بہتان ہیں ۔ اس سے مسلمان ہوجانے کی پیش کش کی گئی ، اس نے بہ ظاہر اسلام قبول کرکے اپنا نام ’’ محمد عزیز افندی ‘‘ رکھ لیا ۔ اس نے عثمانی حکام سے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دینے کی اجازت طلب کی ، جو منظور کرلی گئی ۔ اس نے یہودیوں کو سمجھا یا کہ بہ ظاہر اسلام قبول کرلو اور بہ باطن اپنے مذہب پر قائم رہو ۔

                ’’ یہود دونمہ ‘‘ جو اسی آدمی کے پیرو تھے ، اسلام اور اسلامی اقدار کی بیخ کنی کے لیے کمر بستہ ہوگئے ۔ الحاد ، آزادی ِ رائے ، مغربی طرز زندگی کی دعوت ، عورتوں کو بے حجابی پر آمادہ کرنے اور مدارس وجامعات میں مردو زن کے اختلاط کی حو صلہ افزائی جیسے کار نامے انہی یہودیوں نے عثمانی معاشرے میں انجام دیے ۔ سلطان عبد الحمید کے خلاف بغاوت ارو ہمہ گیر دشمنی کی آگ انہی نے فروزاں کی ۔ انہی میں سے اکثر لوگ انجمن ’’ اتحاد وترقی ‘‘ کے ارکان تھے ۔ ان کے خلاف ساری تحریکیں ، مظاہرے اور بغاوتیں انہی نے منظم کیں ۔ یونان کے ’’ سیالونیک ‘‘ سے اٹھی آندھی سے’’ آستانے ‘‘میں جو تباہی مچی ، اس کے پیچھے یہی لوگ تھے ۔ انہوں نے ترکی افواج میں اختلاف وانتشار کا بیج بویا، جوانوں کو بغاوت وسر کشی پر آمادہ کیا ، لوگوں کے افکار وخیالات کو مسموم کیا، نشر و اشاعت کے اداروں پر قابض ہوگئے ، بینکوں اور مالی اداروں پر ان کا تسلط ہوگیا ، تجارت واقتصادیات انہی کے قبضے میں آگئے اور عثمانی سلطنت کے سارے شعبوں اور زندگی کے سارے گوشوں پر ان کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔ (دیکھئے : التبیان ، شمارہ ۳۹، جلد ۴، ص: ۲۱، کالم :۳، ص : ۲۲، کالم : ۱)

                سلطان عبد الحمید ثانی کو طرح طرح سے گھیر نے اور سلطنت عثمانیہ کو مغربی طرز حکومت کی راہ پر ڈالنے کے لیے ، بہت سی جماعتیں اور تنظیمیںمعرض وجود میں آئیں، جن کا سہرا پردے کے پیچھے سے یہودیوں اورفرزندان تثلیث ہی کے سرجاتا تھا ۔ یہ تنظیمیں ٹوٹتی بکھرتی رہیں اور نئے نئے ناموں سے دوبارہ بنتی رہیں ۔ سب سے آخر میں جمعیت ’’ اتحاد وترقی ‘‘ بنی ، جس کی اساس تمام تر اسلام دشمنی اورقومی طورانی تہذیب کے احیا پر رکھی گئی ۔ ماسونی یہودی تحریک کے ارکان اور مغرب پرست ترک اس میں پیش پیش تھے ۔ طورانی تہذیب کے احیا کے نظریے کا بانی بھی ایک یہودی ’’ موئیز کوہین ‘‘ تھا ۔ اس نے ترکوں کے ذہنوں میں اس نظریے کی آب یاری کے لیے انتھک محنت کی ؛ تاکہ ترکوں کو اس میَ گل گوں سے بدمست کردینے کے بعد اسلام سے ان کے رشتے کو کاٹنا آسان ہو ۔ ’’ اتحاد وترقی ‘‘ نے شروع دن سے نسل پر ستانہ نعروں سے ترکوں کو سرشار کرنا شروع کیا اور شہری آئین ، استبداد سے جنگ آزادی کی بہ حالی وغیرہ مغرب سے برآمد کردہ خیالات کی دھن پر نچانا مشغلہ بنالیا ، جس کا بنیادی مقصد سلطان عبد الحمید کو راہ سے ہٹانا ، خلافت کا خاتمہ اور سلطنت عثمانیہ کی قبا چاک کردینا تھا۔

                جمیت ’’ اتحاد وترقی ‘‘ نے ، یہودی تحریکوں کی مدد سے ۱۹۰۹ء میں زبردست شورشیں بپا کیں، جن کا مقصد سلطان عبد الحمید کو بہ ہر صورت مغزول کردینا تھا، ان شورشوں کو دبانے کے لیے سلطان نے طاقت کا استعمال کیا ، جس کے لیے وہ مجبور تھے ، اس کے نتیجے میں ’’ اتحاد وترقی ‘‘ کے متعدد اہل کار ہلاک ہوگئے ۔ اس کو بہانہ بناکر اس انجمن کے عسکری بازو نے ، یہودیوں کی مدد سے یونان کے ’’ سالونیک ‘‘ شہر سے ’’ آستانے ‘‘ پر دھا وا بول دیا ، جو سلطنت عثمانیہ کا پایۂ تخت تھا اور سلطان کو ان کے سارے مذہبی وشہری اختیارات سے بے دست وپا کرکے معزول کردیا ، مغزولی کی اطلاع سلطان تک پہنچانے کے لیے ، اس جمعیت نے جو چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی ، اس کا سربراہ اور ترجمان بھی یہودی ’’ ایمانویل قرہ صو‘‘ تھا ، یہ اسپینی یہودی تھا اور مقدونیا کی مجلس ماسونی کا ہیڈ ماسٹر تھا ، اس نے شاہ کے خلاف شورشوں کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ، شاہ نے اس کو اپنے قلم رو سے دھتکار بھی دیا تھا ؛ لیکن مقدور کی بات کہ یہی ملعون آج ’’ فرمان معزولی ‘‘ پہنچانے آیا تھا ! ۔

                سلطان کو ۱۹۰۹ء میں معزول کیا گیا ۔ ان کے بعد ۱۹۲۴ء تک نام کی خلافت قائم رہی ؛ لیکن اسلامی اقدار و روایات کو اس اثنا میں باکل ختم کردیا گیا اور رہی سہی کسر ۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال اتا ترک (م ۱۳۵۳ھ / ۱۹۳۴) کو جمہوریۂ ترکی کا باقاعدہ صدر اعلان کیے جانے کے ساتھ ہی پوری کردی گئی ۔ سلطان عبد الحمید ثانی ، سلطنت عثمانیہ کے آخری ’’ مرد ہونہار ‘‘ تھے ، ان کا زوال ، در حقیقت خلافت عثمانیہ کا زوال ثابت ہوا ، چناں چہ ان کے بعد دو خلیفہ ہوئے ، ان کے دور میں خلافت کے لاشۂ بے جان کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا جاتا رہا ، تاآں کہ مصطفی کمال نے ۱۹۲۴ء میں اس کی تدفین کا اعلان کردیا ۔

عربوں میں قومیتِ عربیہ کا بیج بویا گیا :

                دوسری طرف انگریزوں نے، اِس سلسلے میں بھرپور کردار ادا کیا، جنہوں نے عربوں کو عثمانی سلطنت کے خلاف یہ کہہ کر اُکسایا کہ عثمانی تمہاری زبان، تمہارے کلچر اور تمہاری تہذیب کے حوالے سے امتیازی برتاؤ کررہے ہیں۔ عثمانیوں کے خلاف یہ سراسر بہتان تھا اور دور رس سازش کا ایک حصہ۔اِس مشن کو ایک انگریزی فوجی افسر اور اور اہلِ قلم  ’’لورینس‘‘ Lawrence(۱۸۸۸-۱۹۳۵ء) نے بڑی محنت، ہوشیاری اور لگن سے انجام دیا۔ یہ شخص انگریزوں اور عربوں کے درمیان رابطہ افسر اور عربوں میں برطانیہ کا انٹلی جنس کمشنر تھا۔ جنگِ عظیم اول اور اُس کے بعد امیرِ مکہ شریف حسین (۱۲۷۰ھ/۱۸۵۴-۱۳۵۰ھ۱۹۳۱ء) کی اِمارت کے علاقوں میں برسرِ عمل رہا ۔ ۱۹۱۶ تا ۱۹۱۸ء توبہ طورِ خاص اُس نے عربوں کو ترکوں کے خلاف بھڑکانے کا فریضہ، اِس شدّومد سے انجام دیا کہ عالمی صحافت میں اُس وقت اُس کا نام ہی’’عربوں کا بے تاج بادشاہ‘‘ پڑگیا تھا۔ اُس نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ ’’ہمارا بنیادی مقصد ہی، اِسلامی اِتحاد کو پارہ پارہ کرنا اور سلطنتِ عثمانیہ کی بیخ کنی کرنا ہے ‘‘ نیز اُس نے صاف صاف کہا تھا:

                ’’اگر ہم عربوں کو ترکوں سے اپنا حساب بہ یک وقت اور سختی کے ساتھ بے باق کرنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو ہم ہمیشہ کے لیے اِسلام کے خطرے کا سدِّ باب کرلیں گے۔ اِس طرح ہم مسلمانوں کو اپنے خلاف لڑنے اور داخلی انتشار پر آمادہ کردیں گے۔وہ خانہ جنگی کا شکار ہوجائیں گے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ترکی میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہوگا اور اسلامی عربی دنیا میں دوسرا ہوگا۔ دونوں مذہبی خانہ جنگی میں مصروف رہیںگے۔ اس کے بعد ہمیں اسلام سے کوئی خوف کبھی نہ ستائے گا۔‘‘

ایک ہولناک سازش جنگ عظیم اول اور خلافت کے خاتمہ کا آخری حربہ :                 عالمی استعماری کے اِن ماہر کھلاڑیوں نے ۱۹۱۴-۱۹۱۸ء میں جنگِ عظیم اول کی آگ دہکائی، جس میں جرمنی اور اُس کے اتحادی ایک طرف اوربرطانیہ، فرانس اور روس دوسری طرف تھے۔ عربوں کی ہم دردی برطانیہ کے ساتھ تھی؛ کیوں کہ اُس نے عرصے سے عربوں کے احمقوں کو یہ باور کرارکھا تھا کہ برطانیہ اُن کا ہم درد ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ کے ساتھ یہودی بھی لڑ رہے تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ یہودیوں کی دور رس سازش کے نتیجے میں وہ امور سلطنت میں در آئے تھے اور اِلحاد اور اسلام بے زاری کی عثمانی معاشرے اور ترکوں کی سوسائٹی میں تخم ریزی کرچکے تھے، بے وجہ جرمنی کے ہم نوا فریق کے طور پر؛ اِس جنگ میں دھکیل دیا گیا۔اِس جنگ میں حسبِ توقّع جرمنی کی شکست ہوئی، جب کہ برطانیہ اور اُس کے اتّحادی فتح مند رہے