سلطان القراء فی الہند کا سانحہٴ ارتحال

دوسری قسط:

وفات ۲۹/ رجب المرجب ۱۴۴۵ ھ مطابق ۱۰/ فروری۲۰۲۴ء

قاری جابر /استاذ شعبہ تجوید و قرأت جامعہ اکل کوا

تدریسی زندگی کا آغاز:

             ۱۳۹۳ھ ماہ ذی الحجہ میں جامعہ کے استادِ تجوید قاری عباس صاحب دھرمپوری جامعہ سے علیحدہ ہوکر دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر تشریف لے گئے، تو جامعہ ڈابھیل کے سابق مہتمم مولانا سعید صاحب بزرگ رحمة اللہ علیہ جو کہ تجوید سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے ماہر فن کی تلاش شروع کردی، چناں چہ قاضی زین العابدین صاحب میرٹھی پر نگاہِ انتخاب رکی، ان سے خط وکتابت ہوئی تو انہوں نے اپنے استاد قاری کامل صاحب رحمة اللہ علیہ کا حوالہ دیا،مہتمم صاحب نے قاری کامل صاحب کو جامعہ میں تشریف آوری کی دعوت دی، انہوں نے جواب میں لکھا کہ اب تومیں بوڑھا ہو چکا ہوں، البتہ میرا ایک جواں سال شاگرد قاری” احمداللہ“ ہے، اسے رکھ لیجیے،چناں چہ وہ خط حضرت مہتمم صاحب نے اپنی نجی تحریر کے ساتھ بعینہ حضرت مولانا ارشد صاحب مدنی دامت برکاتہم کی خدمت میں بھیج دیا، جو اس وقت شاہی میں استاد حدیث تھے، چناں چہ حضرت مولانا دامت برکاتہم نے بھی اس کی پرزور تائید کی، مشفق اساتذہ یعنی قاری کامل صاحب اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب نے چہیتے شاگرد کو بلا کر آئندہ کے عزائم کا پوچھا، آپ نے مزید حصولِ تعلیم کے لیے دارالعلوم جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، ارشاد ہواکہ تدریسی زندگی کی بابت فرمائیے؟ آپ نے بہار کے کسی مدرسے کا نام لیا ،ارشاد ہوا گجرات میں ”ڈابھیل“ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ عرض کیا: حضرت شرح صدر نہیں ہے، امرہواکہ” ڈابھیل“ ہی جانا ہے، تعمیلِ حکم میں سر جھک گیا،اس جھکنے نے ہمیشہ کے لیے سر بلند کر دیا ملحوظ رہے کہ حضرت اس وقت ”دورہٴ حدیث“ میں زیرِ تعلیم تھے۔

جامعہ ڈابھیل میں آمد:

            حضرت مولانا سعید صاحب بزرگ کی پرخلوص دعوت اور اپنے اساتذہ کی ایما پر ۱۱/ شوال۱۳۹۴ھ میں اس جواں سال فاضل کی ”جامعہ ڈابھیل“ میں آمد ہوئی، آپ کی ڈابھیل آمد کے بعد جامعہ میں جیسے بہارآگئی۔ یہاں پہلے سبعہ عشرہ کی تعلیم نہیں تھی، مشق وغیرہ کا بھی کوئی اہتمام و انتظام نہ تھا، حضرت نے آتے ہی خارج میں سبعہ ثلثہ کی تعلیم شروع کر دی اور۱۳۹۸ھ میں مدرسہ کے نظام کے تحت مستقل اس شعبہ کا افتتاح ہوا اور دیگر مدارس کے فضلا بھی حصہ لینے لگے اور حضرت سے کسبِ فیض کر کے ہزاروں شاگردان اکنافِ عالم میں آج اس فن شریف کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ ۱۹۷۵ء میں جب شیخ الازہر جامعہ ڈابھیل تشریف لائے، اس وقت جلسے میں آپ نے بروایت ِورش تلاوت فرمائی، شیخ الازہر بہت متاثر ہوئے اور آپ کو بلا کر مصافحہ، معانقہ کیا اور کلمات ِتحسین سے نوازا۔

            دوسرا واقعہ بھی پیش آیا کہ حضرت کے ڈابھیل آنے کے دوسرے یا تیسرے سال ترکیسر جانا ہوا وہاں باصرار تلاوت کرائی گئی، حضرت نے مختلف روایات میں قرآت سنائی، مولانا ابرار احمد صاحب دھلیوی رحمة اللہ علیہ وجد میں آگئے، اٹھ کر گلے لگایا اور فرمانے لگے ماشاء اللہ! اب تو ایسا پڑھنے والے خال خال بھی نہیں ملتے، اسی موقع کا ذکر کرتے ہوئے حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ایک مرتبہ قاری صدیق صاحب سانسرودی مدظلہ نے مجھ سے تفریحا ًکہا کہ حضرت ہم طلبہ تو آپس میں کہنے لگے کہ کیا یہ غلط سلط پڑھ رہے ہیں۔

            قرأتِ سبعہ کے افتتاح کے دوسرے سال۱۳۹۹ھ میں ۹/ طلبہ نے قرأتِ سبعہ کی تکمیل کی، اسی سال ایک مسابقہ بھی منعقد ہوا، جس میں آپ کے استاد شیخ القرا حضرت مولانا قاری محمد کامل صاحب رحمة اللہ علیہ نے مسند صدارت کورونق بخشی اور اپنے قابل شاگرد کے کام کی خوب تعریف کی اور حوصلہ افزا کلمات بشکل تاثر رجسٹر معائنہ میں تحریر فرمائے۔

جامعہ میں امامت :

            حضرت نے زمانہٴ طالب علمی میں بھی مراد آباد کی”حوض والی مسجد“ اور دیوبند کی ”مدنی مسجد“ میں امامت کے فرائض سر انجام دیئے، ڈابھیل آنے کے بعد اطراف کی مساجد سے امامت و خطابت کی دعوت ملی، تو مہتمم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بات رکھی، مہتمم صاحب نے فرمایا کہ آپ جامعہ میں نماز پڑھائیں، کیوں کہ دوسری مساجد میں آپ کو پابندی کرنی پڑے گی، جبکہ جامعہ میں آپ آزاد ہیں، کوئی آپ کو کچھ نہ کہے گا، آپ نے جامعہ میں تقریبا ً۱۰/سال تک امامت و خطابت کے فرائض انجام دیئے اور پھر تربیت کے مقصد سے اپنے شاگردوں سے یہ کام لینا شروع کیا، جس کی برکت سے آپ کے تلامذہ دنیا کے اکثر ممالک میں احسن طریقہ پر امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

            حضرت قاری صاحب دارالعلوم دیوبند میں۱۴۰۳ ھ میں حضرت مولاناارشد مدنی صاحب سے مشورہ کے لیے تشریف لے گئے تھے، مگر وہاں آناً فاناً حضرت فدائے ملت رحمة اللہ علیہ نے تقرری کا سارا عمل طے کر دیا، تب اپنے اساتذہ کے احترام کی خاطر ایک سال ”دارالعلوم دیوبند“ میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس وقت ڈابھیل میں آپ کے پاس پڑھ رہے کچھ ایسے بھی تلامذہ تھے، جن کو استاد کی جدائی برداشت نہیں ہوئی، تو وہ بھی حضرت کے ساتھ ہو لیے، جن میں سر فہرست قاری اسماعیل بسم اللہ مہتمم مدرسہ جامعة القر أت کفلیتہ تھے، چناں چہ دار العلوم میں ایک سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد جامعہ ڈابھیل واپس تشریف لے آئے اور پھر سے اپنے محبوب عمل افراد سازی میں لگ گئے، اس کے بعد بھی دیگر مدارس سے پیش کش آئی، جیسے مدرسہ شاہی مراد آباد، آزاد ویل جنوبی افریقہ، نیز دارالعلوم جاتے وقت مولانا عبداللہ صاحب کا پودروی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ دارالعلوم میں جی نہ لگے، تو ترکیسر کو اپنا مدرسہ سمجھئے گا، لیکن حضرت نے اپنے استاد کی متعین کردہ جگہ کو چھوڑنا گوارا نہ کیا، حضرت جب ڈابھیل تشریف لائے تو پورے گجرات میں جو آج تجوید و قرأت کی فضا ہے ندارد تھی، خود جامعہ ڈابھیل میں نہ مشق کا انتظام تھا نہ مسابقہ کا کوئی ذکر،سبعہ عشرہ کا وجود تھا نہ انجمن کا کوئی نشان، آپ نے آ کر سارا نظام بدل دیا اور تن مردہ میں نئی روح پھونک دی،

بڑی مدت میں بھیجتا ہے ساقی ایسا مستانہ

 بدل دیتا ہے جو بگڑا ہواد ستور مے خانہ

             تجوید و قرأت کی اشاعت کے لیے حضرت نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا، اس کی اشاعت کے لیے چین و سکو ن صحت و توانائی خون ِجگر عقل و فکر سب کچھ قربان کر دیا غرض اس بابت جو کچھ ہو سکتا تھا سب کر گزرے۔

معمولات زندگی:

             حضرت صبح جلدی اٹھنے کے عادی تھے، جب ساری مخلوق نیند کی آغوش میں ہوتی آپ اٹھ کر نالہٴ نیم شبی میں مشغول ہوجاتے اور اس کے بعد اجراء قرائت سبعہ و ثلثہ سماعت فرماتے فجر کے بعد چہل قدمی کے دوران بھی تلاوت قرآن کی نغمہ گیرآواز سے لطف اندوز ہوتے، پھر چار گھنٹے مسلسل مشغولی کے بعد ظہرانہ تناول فرماتے اور اس وقت بھی کوئی نہ کوئی شاگرد قرآن سنا رہا ہوتا، بعدظہر دو گھنٹہ درسگاہ میں جلوہ افروز ہوتے پھر بعد العصراجرائے سبعہ عشرہ کی مجلس سجتی پھر عشائیہ میں بھی سننا سنا نا جاری رہتا۔ ابتدائی زمانہ میں شب میں لائٹ کا نظم نہ ہونے کی وجہ سے فانوس لے کر آتے اور دیر گئی رات اس کی مدھم روشنی میں قلب و جگر کے جلانے کا سلسلہ جاری رہتا۔

(ماخوذ ازشیخ التجوید و القرأ ت)

 حضرت کا ایک خاص ذوق:

             حضرت نے تراویح ہر سال الگ الگ روایت میں سننے کا اہتمام کیا اوراس کے لیے ماہر تلامذہ کا انتخاب فرماکر اپنے خرچ سے ”بھاگل پور“ بلاتے اور ان کے قیام و طعام کا معقول نظم فرماتے اور تقریبا ًاکثر روایتیں ہو چکی تھیں کچھ ہی رہ گئی تھیں کہ حضرت راہی ملک بقا ہو گئے۔

خواتین میں تجویدو قر اء ات :

            حضرت رحمة اللہ علیہ نے اس فن کی خدمت رجال میں خوب کی اور آخری عمر میں خواتین کی طرف رجحان بڑھااور خوب بڑھا، چنانچہ ڈابھیل میں ہم نے بارہا حضرت کو دیکھا کہ صبح کی تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت اپنے خادم خاص قاری اسحق صاحب زید مجدہ کے ساتھ خواتین کی تعلیم کے لیے گاوٴں تشریف لے جاتے، پھر عصر کے بعد جب ہم طلبہ کو اجرا پڑھا کر فارغ ہوتے تو قاری اسحق صاحب حضرت کو لے کر گاوٴں تشریف لے جاتے اور وہاں نیک صفت خواتین قرآن سیکھنے کا شوق لیے حضرت کی منتظر ہوتیں۔

            ایک مرتبہ کی بات ہے ہمیں شاطبیہ پڑھاتے ہوئے فرمایا تم لڑکوں سے اچھا تو لڑکیاں توجہ سے پڑھتی ہیں اور ایک زور دار قہقہہ لگایا اور یہ مبارک سلسلہ حضرت کے مدرسہ فرقانیہ سبیل السلام کرن پور میں بھی شروع فرمایا اور وہاں کئی بچیاں قرأتِ سبعہ و ثلثہ کی تکمیل کر چکی ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

            بہرحال حضرت رحمة اللہ علیہ نے وہ کارنامہ کر دکھایا، جس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے حضرت نے اس فن کی مزید اشاعت کے لیے بہار میں ایک ادارہ بنام جامعہ فرقانیہ سبیل السلام قائم فرمایا ؛جہاں آج قرآن کریم کی بہترین تعلیم لڑکے اور لڑکیاں حاصل کر رہے ہیں۔ ساتھ درس نظامی اور تجوید و قرأت عشرہ بھی پڑھ کر اپنے اپنے علاقوں میں حضرت کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

            اسی طریقے سے حضرت نے گجرات میں ایک مدرسہ بنام جامعة القرأت قائم کروایا جس کا مقصد تجو ید و قرأت کی نشر و اشاعت تھا اور اخیر تک ان دونوں جگہ بھی حضرت کا فیض جاری رہا۔

تصنیف و تالیف:

            حضرت کی کل تصانیف۳۳/ ہیں:مرقاة التجوید،مرآة التجوید،کتاب التلخیص،معلم الصبیان ۲ حصہ،تحفة الصبیان،مبادیات قراء ات،تلخیص المعانی، التحفة المکیہ،تحفةالنظرشرح طیبة النشر، کتاب التکبیر،اسلام میں قرآن مجید کا مقام،قواعد الصرف تین اجزاء، الدروس الاساسیہ فی تعلیم اللغة العربیہ آٹھ حصہ دو مطبوعہ، الفوائد الکاملیہ لشرح خلاصة البیان و فوائد مکیہ،نہایة الدرایات فی اسانید رجال القراء ات تین اجزاء(زیر تالیف)الدروس الوافیہ علی متن الشاطبیہ(مختصر)،ایضاح المعانی فی شرح حرز الامانی،(مطول)شرح الدرة المضیہ،(زیر تالیف) کتاب الکامل فی القراء ات العشر،(مسودہ)کشف البصر شرح طیبة النشر،(مسودہ)تحفة الدرر فی اجراء القراء ات العشر من طریق طیبة النشر،(مسودہ) المعانی الجلیہ فی اجراء القرآت الثلث من طریق الدرة المضیہ، (مسودہ) عمدة المعانی فی اجراء القراء ات السبع من طریق حرز الامانی،(مسودہ)تلخیص الفوائد فی رسم المصاحف علی عقیلة اتراب القصائد، تسہیل المعانی فی القراء ات السبع، کتاب المفردات فی القراء ات العشربروایة متواترة من طریق طیبة النشر،قواعد اللغة العربیہ تین اجزاء،توضیحات المرضیہ علی قواعد اللغة العربیہ دو اجزاء،القواعد النحویہ دو اجزاء،سراج المنیر علی نحو میر،(مسودہ) تعلیم اللغة العربیہ تین اجزاء۔

مکتب میں عربی سکھانے کا ذوق:

             عمر کے آخری پڑاوٴ میں ایک فکر دامن گیر ہوئی اور وہ یہ کہ مکتب کے بچوں کو عربی کیسے سکھائی جائے اور اس کے لیے کوشاں رہنے لگے۔ حضرت ہی کی فکر کا نتیجہ ہے کہ سورت میں مکتب کے بچوں کو عربی سکھانے کا نظام شروع ہوا،اور اس کے لیے حضرت نے ایک کتاب بنام ”لغات القرآن“ تالیف فرمائی، جس میں حضرت نے قرآن کی تمام لغات حذف مکررات کے ساتھ جمع کردیا، یاد کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ دو لغت عربی تلفظ کے ساتھ مع ترجمہ کے ذہن نشین کرائی جائے تو عربی بولنے اور قرآن فہمی میں بہت مدد ملے گی۔

(جاری……)