سلطان القراء فی الہند کا سانحہٴ ارتحال

پہلی قسط:

وفات ۲۹/ رجب المرجب ۱۴۴۵ ھ مطابق ۱۰/ فروری۲۰۲۴ء

قاری جابر /استاذ شعبہ تجوید و قرأت جامعہ اکل کوا

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی

جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

            آج بتاریخ ۲۹/رجب ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۰/ فروری ۲۰۲۴ء کو میں نے اپنے روحانی والد کو کھو دیا،جس نے مجھے اور میرے جیسے ہزاروں کو تراش کر کسی قابل بنایا،آج ایسا لگ رہا ہے کہ میں یتیم ہو گیا ہوں،غم سے سینہ پھٹا جا رہا ہے اور کیوں نہ پھٹے کہ جس نے چلنا سکھایا جس نے اس بے ہنگم و بے مقصد ناکارہ کو اپنے دامن سے وابستہ کیا،ابھی کل ہی کی بات ہے میں نے دعا کی کہ اللہ میرے استاذ محترم ، شیخ زمن کو میری عمر بھی لگا دے، لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا اور صبح اطلاع آئی کہ حالت تشویشناک ہوتی جا رہی ہے،استاد محترم قاری رضوان صاحب حفظہ اللہ و رعاہ سے اجازت مانگی کہ حضرت کی زیارت کے لیے حاضر ہونا چاہتا ہوں استاد نے فرمایا آجائیں ورنہ نہ آنے کا زندگی بھر ملال رہے گا۔

            چناں چہ ابھی ہم دوست احباب مشورہ ہی کر رہے تھے کہ کیسے نکلنا ہے، سو ہمارے ایک عزیز دوست قاری حمزہ سے صورت حال معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا توانہوں نے بڑی غمناک کربناک اندوہناک خبر سنائی،دل بیٹھ سا گیا زار و قطار گنہ گار آنکھوں نے اشکوں کی برسات کر دی، دل تھا کہ اس خبر پر یقین کرنے کو آمادہ نہ تھا؛ لیکن پھر یکے بعد دیگرے واٹس ایپ پر مراسلات آنے شروع ہو گئے، حواس باختہ روتا بلکتا درسگاہ سے باہر آ گیا اور ”اکل کوا“ سے ڈابھیل کے لیے نکل گیا، راستہ میں ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ پہلے جب کبھی پا بہ رکاب ہوتا تھا تو استادِ محترم سے کیا بات کرنی ہے، کیسے بات کرنی ہے اس کی ترتیب اور ترکیب سوچتا ہوا خوشی خوشی جاتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہوں اور آج کا حال یہ ہے کہ غمگین دل، نم آنکھیں، بجھے چہرہ کے ساتھ جا رہا ہوں، ہماری محرومی رہی کہ امسال ”جامعہ اکل کوا“ حضرت کی تشریف آوری نہ ہو سکی،کل ہند کے موقع سے جب مدیر تنفیذی مولانا حذیفہ صاحب وستانوی حفظہ اللہ و رعاہ نے مجھے مکلف کیا کہ حضرت قاری صاحب کو دعوت دینا ہے تو بڑی مشکل سے حضرت تیار ہوئے اور یہ فرمایا کہ بھئی میں جلسہ جلوس کا آدمی نہیں ہوں، میں نے کہا حضرت اسی موقع سے طلبہ کا جائزہ بھی ہو جائے گا تب جاکر تاریخ، ایام، وقت،راستہ سب طے ہوا پھر اچانک حضرت نے فرمایا کہ سال کے آخر میں آکر طلبہ کا جائزہ لوں گا، اس وقت طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔

            ہائے رے محرومیٴ قسمت۔ ابھی دو دن قبل اس عاجز نے حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی سے کہا کہ اب حضرت کی طبیعت تو اس قابل نہیں کہ” اکل کوا“ تشریف لائیں،اس لیے ہم لوگ ڈابھیل جاکر ہی حضرت کی عیادت بھی کر لیں گے اور ان سے مشورہ بھی کر لیں گے، کسے پتہ تھا کہ ہمیں مشورہ دینے والا اپنا وقت پورا کرکے اپنے مالک حقیقی کے حضور اپنی مزدوری لینے چلا جائے گا، پوری زندگی قرآن کی خدمت میں گذاری سفر و حضر، سردی و گرمی،رات و دن، صبح و شام قرآن ہی اوڑھنا بچھونا تھا۔

             استادِ محترم علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے ان اشعار کے مکمل مصداق تھے۔

و خیر جلیس لایمل حدیثہ

وتردادہ یزداد فیہ تجملا

و حیث الفتی یرتاع فی ظلماتہ

من القبر یلقاہ سنا متھللا

            اور مجھے امید ہے کہ استادِ محترم جناب قاری احمد اللہ صاحب رحمہ اللہ رحمةً واسعةً کے ساتھ اللہ وہی معاملہ کرے گا، جس کا وعدہ اس نے اہل قرآن سے کر رکھا ہے بلکہ میرا تخیل تو یوں کہتا ہے کہ آج قاری کامل صاحب، قاری عبد الرحمن صاحب مکی، قاری عبد اللہ صاحب مکی، شیخ سعد المصری، علامہ جزری، علامہ شاطبی، علامہ دانی و ائمہ عشرہ و روات و طرق اپنے اس عظیم شاگرد اور روحانی اولاد کے پہونچنے سے فرحاں و شاداں ہوں گے۔

رہنے کو صدا دہر میں آتا نہیں کو ئی

تم جیسے گئے ایسے بھی جا تا نہیں کوئی

 بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

            ولادت با سعادت ۱۲/ ربیع الآخر ۱۳۶۳ھ مطابق۵/ اپریل ۱۹۴۴ء بروز بدھ ضلع بھاگل پور کے ایک گمنام گاوٴں” کرنپور“ کے ایک شریف دیندار علمی گھرانے میں ایک بچے نے آنکھیں کھولی اور دستِ قضا و قدر نے ”کرنپور“ کے اس معصوم بچے سے پورے عالم میں تجوید و قر آت کی کرنیں بکھیرنے کا فیصلہ کر لیا۔

 اسم گرامی:

             ”احمد اللہ“ تجویز ہوا، والد صاحب کا نام :حاجی معارف حسین، امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کے دامنِ عقیدت سے وابستہ۔ حضرت قاری صاحب کے دو بھائی تھے، بڑے بھائی مولانا سیف اللہ صاحب قاسمی جو مزار قاسمی دیوبند میں مدفون ہیں،جمیعت کے فعال کارکن تھے، دوسرے بھائی مولانا رفیع اللہ صاحب قاسمی خلیفہ حضرت فدائے ملت رحمة اللہ علیہ اپنے آبائی وطن ”کرنپور“ میں مدفون ہیں اور تیسرے خود حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ جو ڈابھیل سملک کے قبرستان میں مدفون ہوئے، تین بھائی لیکن دین کی خدمت کرتے ہوئے ایک ”دیوبند“ میں ایک” آبائی وطن“ میں اور ایک” ڈابھیل“ میں آسودہ خاک ہوئے۔

تعلیم و تربیت:

            تعلیم کا آغاز آغوشِ مادر سے ہوا، پھر کرنپور کے مکتب میں قاعدہ بغدادی مولوی اختر لکھنپوری مونگیری سے پڑھا، پارہٴ عم کی چندسورتیں حافظ سلیم صاحب چکدریابھاگل پور سے پڑھی،حافظ ابو الحسن گرہوتیہ بھاگل پور سے ۲۰/پارے قرآن ناظرہ پورا کیا، حفظ قرآن کا آغاز مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر بھاگلپور میں حضرت مولانا قاری عبدالرشید صاحب(تلمیذ رشید قاری محب الدین احمد صاحب) کے پاس ہوا، مختلف اساتذہ سے پڑھنے کے بعد تکمیل مدرسہ شاہی مراد آباد میں قاری ابراہیم صاحب رام پوری کے ہاں ہوئی، فارسی کی چند کتابیں مراد آباد میں اوربقیہ کتب کے لیے مونگیر خانقاہ رحمانی تشریف لے گئے، اس کے بعد عربی کی تعلیم کے لیے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی طرف رخت ِسفر باندھا، ہدایہ تک کی کتابیں مکمل کرنے کے بعد دوبارہ شاہی مراد آباد تشریف لے گئے اور یہیں سے سند فراغ حاصل کی،سن فراغت ۱۳۹۳ھ، مطابق ۱۹۷۳ء ہے۔

درسِ نظامی میں آپ کے مشہور اساتذہ:

             برادر گرامی مولانا رفیع اللہ صاحب، مولانا سیف اللہ صاحب،مولانا حامد میاں صاحب، مولانا وحید الزماں کیرانوی، مفتی واحد رضا صاحب مراد آبادی، حضرت مولانا عبدالجبار صاحب اعظمی رحمة اللہ علیہم اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم العالیہ ہیں۔

            آپ کو شروع ہی سے تجوید کی رغبت تھی چنانچہ زمانہٴ حفظ ہی میں ترتیل کی مشق شروع کر دی تھی اور بروایت حفص قاری کامل صاحب کو مکمل قرآن سنایا، جب دارالعلوم تشریف لے گئے تو اس وقت وہاں باقاعدہ درجات نہ تھے، طالب علم پر مدار رہتا تھا کہ وہ ایک دن میں کتنی کتابوں کے درس میں شامل ہو سکے گا؛ لہذا آپ تجوید کے لیے روزانہ تین گھنٹے فارغ کرتے یہی وجہ ہے کہ آپ کے رفقا آپ سے پہلے فارغ ہو گئے، آتش شوق مزید بھڑکی تو خوب سے خوب تر کی جستجو شروع ہوئی نگاہ قاری کامل صاحب کے علاوہ کہیں نہ ٹھہر سکی؛ چنانچہ دارالعلوم سے مراد آباد آگئے اور درسیات کے ساتھ تجوید وقرآت کی تکمیل کی، مراد آباد کے قیام کے زمانے میں رات کو ۱۲/بجے کے بعد محرابِ مسجد میں ترتیل کی مشق فرماتے،حدر سنانے سے قبل ہر رکوع کم از کم ۱۵/سے۰ ۲/بار مشق فرماتے۔

 تجوید وقرأت میں درج ذیل اساتذہ ہوئے:

            (۱)        قاری عبدالرشید صاحب استاد ا صلاح المسلمین چمپا نگر۔

            (۲)        حضرت قاری حفظ الرحمن صاحب صدر القرا ء دارالعلوم دیوبند۔

            (۳)        حضرت قاری عتیق الرحمٰن صاحب صدر القرا ء دارالعلوم دیوبند رحمت اللہ علیہ۔

            (۴)        حضرت مولانا قاری سید امیر علی صاحب رحمة اللہ علیہ صدر القراء جامعہ حیات العلوم مراد آباد۔

            (۵)        حضرت قاری محمد کامل صاحب رحمة اللہ علیہ صدر القراء جامعہ قاسمیہ شاہی مراد آباد۔

            (۶)        حضرت قاری عبداللہ سلیم صاحب دامت برکاتہم سابق استاد دارالعلوم دیوبند (حال مقیم امریکہ)

            جب قاری عبد اللہ سلیم صاحب ڈابھیل تشریف لائے، تو ہم نے دیکھا کہ حضرت قاری صاحب رحمة اللہ علیہ اپنے استاد محترم قاری عبداللہ سلیم کے لیے با ادب کھڑے تھے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ استقبال کیا، استاد شاگرد دونوں گلے ملے منظر عجیب دیدنی تھا۔

             یہ آپ کے وہ اساتذہ ہیں، جن کی خدمت میں رہ کر آپ نے تجوید و قراء ات کا سفر طے کیا آپ کی شخصیت کو بنانے میں حضرت قاری کامل صاحب کا بڑا عمل دخل رہا۔

فاصلوں کے اس دشت میں رہبر وہی بنے

جس کی نگاہ دیکھ لے صدیوں کے پار بھی

(جاری……)