از قلم: مولانا عرفان اشاعتی منی پوری
سرزمین ِمنی پورپر اکابرین ِجامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کی آمد
”منی پور“ ہندوستان کی آخری سرحد،سمت ِمشرق حدود ِبرما(میانمار) سے متصل، اونچے اونچے پہاڑوں سے محیط چھوٹے چھوٹے سولہ اضلاع پر مشتمل ایک صوبہ ہے۔۲۷یا ۲۸ لاکھ کی آبادی ہے، جن میں تقریباً دولاکھ مسلمان آباد ہیں،چھ سو سے زائد مساجد اور مکاتب ِدینیہ ہیں،۲۰/ سے زائد طلبہ وطالبات کے مدارس ہیں، اکثر رابطہٴ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند سے مربوط ہیں۔ مسلکاً حنفی ہیں،اہل السنت والجماعت کے پیروکار ہیں،فرقِ باطلہ کا وجودنہ کے برابر ہے۔ غیراسلامی رسومات سے ناواقف ہیں ،علماوطلبا کافی تعداد میں موجود ہیں، مسلمان یہاں تقریباً چھ سو سال سے آباد ہیں، اقتصادی اور معاشی حالات سے کمزور اور پسماندہ علاقہ ہے،یہاں کی زبان اور کلچرمنی پوری ہے،یہاں کے لوگوں میں دینی شعور موجود ہے، بس محنت کی کمی ہے؛ ایسی جگہ میں اکابر جامعہ کی تشریف آوری ہم لوگوں کے لیے باعث ِافتخار اور مسرت کی گھڑی ہے،اس موقع پر ایک دینی اجلاس ِعام منعقد کیاگیا،چناں چہ قبل اجلاس طے شدہ پروگرام کے مطابق ۲۳/فروری۲۰۲۳ء مطابق ۲/ شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ بروز جمعرات کو صوبہ کے امپھال انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر ایک عظیم ہستی خادم الخیر والامہ حضرت مولاناحذیفہ غلام محمد وستانوی( شیخ الحدیث ثانی وناظم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا) اپنے چند رفقا ڈاکٹر منور زماں حیدرآباد اور حضرت مولانا جاوید صاحب استاذ جامعہ کے ساتھ پہنچے۔
پروگرام کی تیاری چند ماہ قبل سے شروع ہوگئی تھی اور اس پروگرام کا عنوان تھا”علما اور حفاظ کی ذمہ داری“ نیز صوبہ منی پور کامایہٴ ناز ادارہٴ تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کا مرکز”دارالعلوم مرکز“ لیلونگ منی پور کے ختم بخاری شریف اور دستار ِفضیلت کا پروگرام بھی ہم راہ تھا۔ رفقائے سفر میں سے مولانا یحییٰ صاحب اشاعتی استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا پروگرام کے نظم ونسق اور دیگر امور کے دیکھ بھال کے پیشِ نظر ۲۱/فروری ۲۰۲۳ء کو جائے اجلاس دارالعلوم مرکز تشریف لاچکے تھے،حضرت مولانا یحییٰ صاحب کے پہلے آنے سے ہم منتظمین کو بڑی رہبری ملی،انہوں نے ہونے والے تمام پروگراموں کا جائزہ لیا اور مفید مشوروں سے ہم کنار کیا۔ فجزاکم اللہ۔
پھر مولانا یحییٰ صاحب اور دارالعلوم مرکز کے موٴقر اساتذہ جن میں حضرت مولانا محی الدین مظاہری نائب مہتمم دارالعلوم مرکز اور حضرت مولانا قاری قیام الدین صاحب استاذ دارالعلوم مرکز اور دیگرابنائے قدیم وفضلائے جامعہ نے ایک جم غفیر کے ساتھ آنے والے مہمانوں کا ایئرپورٹ میں پُرتباک استقبال کیا۔
ایئرپورٹ کی کارروائی سے فارغ ہوکر جب باہر تشریف لائے تو عقیدت مندوں کے استقبال کے منظر نے مہمانوں کے سفر کی تھکان کودور کردیا۔جب قافلہ دارالعلوم مرکز کے قریب پہنچا تو نعروں کی صدائیں گونجنے لگیں،دارالعلوم مرکز کے اساتذہ اور طلبا نے جوش وخروش کے ساتھ استقبال کیا،تقریباً دوپہر۳۰:۱۲ بجے دارالعلوم مرکز کے مہمان خانے پہنچے۔مہمانوں کے لیے اکرام کا خیال رکھاگیا، اس دوران مولانا حذیفہ صاحب فرمانے لگے:”جب ہم ائیر پورٹ پہنچے تو ایسا لگ رہا تھا کہ ہم دوسرے ملک میںآ گئے“ واقعتا ہمارا صوبہ کچھ ایسا ہی ہے،اس لیے جماعت کے بڑے جب کسی جماعت کو دوسرے ملک جانے کے لیے ویزا کی پریشانی پیش آتی ہے، تویہ کہہ کر منی پور بھیجتے ہیں کہ جاوٴ ہندوستان کے بیرون میں وقت لگا کر آوٴ!
چوں کہ ظہر بعد پروگرام شروع ہونا تھا، اس لیے جلدی جلدی دسترخوان تیار کیاگیا اور مہمانوں نے ماحضر تناول فرماکر سنت کی ادائیگی کے لیے تھوڑی دیر کمر سیدھی(قیلولہ)کی۔ظہر کی نماز دارالعلوم مرکز کی وسیع مسجد میں ادائیگی کے بعدمولانا حذیفہ صاحب اور ڈاکٹر منور زماں کو دو الگ الگ پروگرام کرنے تھے،چناں چہ مولانا حذیفہ صاحب ختمِ بخاری شریف اور دستار فضیلت کے لیے مسجد تشریف لائے اور ڈاکٹر منور زماں آڈیٹوریم ہال میں موٹیویشنل کلام کے لیے تشریف لے چلے۔
اقتباساتِ ختم بخاری:
حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے تقریباً سواگھنٹہ تقریر کی،تقریر کے دوران بہت سی مفید باتوں سے سامعین کو نوازا،دوران ِ تقریرفرمایا کہ” درس حدیث روایةً اور درایةً دونوں مفید ہیں،درایةً کا مفید ہونا تو واضح ہے، روایةً بھی مفید ہے، اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ جب کوئی آدمی کبھی گالی دیتا ہے تو سننے والے پر اس کا اثر پڑتا ہے، چناں چہ وہ فورًا غصہ میں آتاہے یعنی اس پر اس گالی کا اثر ہوگیا،جب عام کلام کا اثر سامع پر پڑتا ہے، تو جب کوئی حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم بار بار سنے گا تو اس کا اثر اس پر کیوں نہیں ہوگا“،پھر بخاری شریف لکھنے کی وجہ امام بخاری کے حالات اور بخاری کی ابتدا ئی حدیث اور آخری حدیث کے مابین جوڑ پھر آخری حدیث پر گفتگو فرماکر فضلا وحفاظ دارالعلوم مرکز کی تاج پوشی کی گئی اور دعا فرمایا۔
دوسری طرف ڈاکٹر منور زماں صاحب اسکول کے ٹیچرس اور اسٹوڈنس کو اپنی قیمتی نصائح سے مالا مال کررہے تھے،مولانا حذیفہ صاحب بھی مسجد کے پروگرام سے فارغ ہوکر آڈوٹیریم پہنچے ، اورمولانا نے بھی ان حضرات کونصیحت فرمائی اور دعاکرکے مجمع کو مغرب کی نماز سے پہلے فارغ کردیا ۔
مغرب کی نماز کے بعد اسی آڈیٹوریم ہال میں” علما وحفاظ کی ذمہ داری“ کے عنوان پر اجلاس ِعام کا انقعاد کیاگیا۔(بات آگے بڑھانے سے پہلے منی پور کے علما کی تعدادلکھتا چلوں،منی پور میں تین ہزار سے زائد علمائے کرام ہیں اور حفاظ پانچ سو سے زائد یا قریب ہوں گے)۔
اجلاس کا آغاز حضرت قاری عظیم الدین صاحب نے تلاوت ِکلام اللہ سے کی، پھر سید الانبیاء کی مدح میں نعت گو محمد رفاس متعلم مدرسہ ھٰذا نے نعت پاک پیش کی، اس کے بعد شیخ الحدیث مدرسہ ھذا نے کلمات ِتشکر پیش فرمایا اس کے بعد ڈاکٹر منور زماں نے موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں علما اور حفاظ کی ذمہ داری کے موضوع پر مختصر خطاب فرمایا۔
پھر مولانا حذیفہ صاحب نے بالتفصیل اس عنوان پر خطاب فرماکر دعافرمائی ۔اللہ تعالیٰ اس اجلاس کو سب کے لیے عموماً اور اس صوبہ کے لیے خصوصاً قبول فرمائیں(آمین)۔
تقریباً پندرہ سو علما وحفاظ نے اجلاس میں شرکت کی۔عشاء کی نماز کے بعد دارالعلوم مرکز کے وسیع صحن میں آنے والے علما وحفاظ کو کھانا کھلایا اور کھانے سے فارغ ہوکر اپنے اپنے وطن واپس ہوئے۔
نماز ِعشاء کے بعد اکابر جامعہ حاجی مولانا محی الدین نائب مہتمم کے ہمراہ انجمن اصلاح ِمعاشرہ کے ہیڈ آفس میں تشریف لے گئے ،وہاں پر ڈرکس کی ز د میں آنے والے نوجوان طبقہ کو حسب ِحالت ۳/۴مہینہ رکھاجاتاہے ،جب ڈرکس کی عادت چھوٹ جاتی ہے تو ڈسچارج کیاجاتاہے، تقریباً اس طرح کے لوگ ۶۰،۷۰ کی تعداد میں سال بھر رہتے ہیں۔وہاں پر مولانا نے کارکنانوں اور نوجوانوں کو پُراثر نصیحت فرمائی، ان نوجوانوں نے سچی توبہ کی اور دعا میں خوب روئے۔اس کے بعد مدرسہ ھذا کے مہمان خانہ میں واپس ہوئے رات کا کھانا تناول فرمایا، اس دوران کسی نے آکر اطلاع دی کہ ایک ایم ایل اے ہیں ملاقات کے لیے۔․․․․کھانا اورملاقات سے فارغ ہونے کے بعد اجلاس میں شریک اسکول کالج کے مدیر اور پرنسپل حضرات سے اہم مشورے اور مذاکرے ہوئے۔اس کے بعد منی پور یونیورسٹی کے اسٹوڈینڈ سے خصوصی خطاب فرمایا، اس وقت رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔مہمانوں کو آرام کرنے کے لیے دیگر حضرات سے بمشکل اجازت چاہی گئی۔
بعد نماز فجر اشاعتی ابنائے قدیم کے ساتھ مجلس ہوئی اورخدمات دینیہ کے احوال معلوم کیے، اشراق کا وقت شروع ہوچکا تھا، معمولات سے فارغ ہوکر تفریحی گفتگو میں مصروف تھے۔ اتنے میں نیچے سے ندا آئی کہ دار ِجدید دارالعلوم مرکز کی سنگ ِبنیاد کا وقت ہوگیا ہے،چناں چہ اکابر ِجامعہ کولے جایاگیا بعد اشراق۲۴/ فروری ۲۰۲۳ء بروز جمعہ خادم الخیر والامہ حضرت مولانا حذیفہ غلام محمد وستانوی کے دست ِمبارک سے سنگ ِ بنیاد کرایاگیا، جس میں جناب ڈاکٹر منور زماں،جناب مولانا جاوید صاحب ناظم مکاتب جامعہ اور مولانا یحییٰ صاحب استاذ جامعہ شریک تھے اور دیگر دارالعلوم مرکز کے حضرات بھی شریک رہے۔
سنگ ِبنیاد کے بعد ناشتے سے فارغ ہوکر، ابھی کچھ اور مقامات پر جانا تھا اور اسی دن جمعہ بعد واپسی بھی تھی،لہٰذا وقت کی قلت اور تقاضے زیادہ ہونے کی وجہ سے اکابر جامعہ دوجماعتوں میں تقسیم ہوکر دوالگ الگ مقامات کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے۔
حضرت مولانا حذیفہ صاحب حاجی مولانا محی الدین مظاہری نائب مہتمم دارالعلوم مرکز اور مولوی عباس اشاعتی استاذ مدرسہ ھٰذا کا قافلہ اولاً مدرسہ شمس العلوم کے لیے روانہ ہوا، وہاں پہنچ کر اساتذہ اور طلبا کے سامنے اخلاص اور للہیت کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی،مدرسہ کی ترقی کے لیے مفید مشوروں سے نوازا اور دعائیں دیکر دوسری جگہ یعنی ”ایرونک“ کے لیے روانہ ہوئے۔
”مدرسہ جامعة الطاہرات ایرونک“ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سراج الدین ندوی ہم رکاب تھے،مدرسہ پہنچ کر احوال سنے،تھوڑی دیر آپسی گفتگو کے بعد ماسٹر ریاض بھائی کے یہاں جامعہ حلیمیہ عزیزیہ کے لیے روانہ ہوئے۔
دوسرا قافلہ ڈاکٹر منور زماں،مولانا جاوید صاحب اور مولانا یحییٰ صاحب جامعہ عزیزیہ للبنات مولوی عارف اشاعتی کے یہاں” کائرنگ “کے لیے روانہ ہوا،یہ حضرات بھی وہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر ماسٹر ریاض صاحب کے پاس پہنچے، پھر اکٹھا اکابر ِجامعہ نے ریاض بھائی کے یہاں دوپہر کا کھانا تناول فرما کر واپسی کے لیے امپھال انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے لیے ۱۲/بجے کے قریب روانہ ہوئے،اکابر ِجامعہ کی جدائی اور فراق کا وہ منظر جو آنکھوں اور دلوں میں چھایا ہوا تھا قلم و تحریر سے ادا نہ کرسکوں گا،پس چند مصرع قلمبند کرتاچلوں
الوداع الوداع منبعِ علم وفن
وہ سکھاکر گئے ہمیں صاف گوئی کا فن
اشک آنکھوں سے رواں ہے اور زباں خاموش ہے
غمزدہ ہے لب اور باغباں خاموش ہے
بالیقین فرقت سے تیری اک جہاں خاموش ہے
اشک آنکھوں سے رواں ہے اور زباں خاموش ہے
۲۸/ فروری ۲۰۲۳ء۔۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ