سخاوت نازکرتی ہے

بہ قلم:ص۔ن مظفرپوری/جامعہ کوارٹراکل کوا

            قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:﴿وَمَاتَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۔﴾وَفِیْ مَقَامٍ آخَر:﴿کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّاوَجْہَہ وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرجَعُوْنَ۔﴾وَقَالَ اَیْضاً:﴿اِنْ تُبْدُواالصَّدَقٰتِ فَنَعِمَّا ہِیَ وَاِنْ تُخْفُوْہَاوَتُوٴتُوْہَاالْفُقُرُآءَ فَہُوَخَیْرٌلَّکُمْ وَیُکَفِّرُعَنْکُمْ مِنْ سَیِّاٰتکُمْ۔﴾

            وَعَنْ حَکِیْمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِّیِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”اَلْیَدُ الْعُلْْْْیَا خَیْرٌمِّنَ الْیَدِ السُّفْلیٰ ، وَابْدَأ بِمَنْ تَعُوْلُ، وَخَیْرُالصَّدَقَةِ عَنْ ظَہْرِ غَنیً ، وَمَنْ یَسْتَعْفِفْ یُعِفَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ یَسْتَغْنِ یُغْنِہِ اللّٰہُ۔“ (بخاری:ج۱/ص:۱۹۲)

وہی سنا،جسے سننانہیں چاہتاتھا:

            ۱۷/شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء کو اتوارکاسورج جب مشرق سے طلوع ہواتویقین جانیے کہ اِس خبردلخراش نے کردیادل پاش پاش۔جب دفتری علاقے میں آیا تووہی کچھ سنناپڑا،جسے کان سننے کے لیے بالکل ہی آمادہ نہیں تھے۔یہ غم ناک،الم ناک،افسوس ناک،کرب ناک اوردردناک خبر؛ بلامبالغہ سیکڑوں اور لاکھوں نہیں،بل کہ کروڑوں دلوں کوایک جھٹکے میں سوگوارکر گئی کہ رئیس الحفلات والمسابقات حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی ثم المظاہری ابن محمدابراہیم پٹیل صبح ۸/ بجے انکلیشور کے نزدیک کھروڈ میں واقع ”ویل کیئراسپتال “ سے آخرت کے سفرپرروانہ ہوگئے۔اورپھربادلِ ناخواستہ ہی سہی! یقین بھی کرناپڑا، کیوں کہ اِس کے علاوہ اب کوئی راستہ ہی نہیں بچاتھا۔اناللہ واناالیہ راجعون!

محرومیوں نے پاوٴں پساراہے:

            یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ سے درازہے کہ جیسے ہی ارشادباری تعالیٰ:﴿اِذَاجَاءَ اَجَلُہُمْ فَلَایَسْتَاخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ﴾کانقارہ بجا،ویسے ہی علم وعمل ،سعیٴ پیہم اورخلوص ووفاکی دنیاسے ایک اورستارہ آسمانِ حکمت ودانائی سے ٹوٹ کر زیرِ زمیں آبادہوگیا ۔کہنے والے نے تویہ کہہ کرچپکی سادھ لی کہ ایک مخلص انسان دنیاسے خلاص ہو گیا۔لکھنے والے یہ لکھ کراپنے دل کوتسلی دیں گے کہ اُن کی کمی کاپوراہونامشکل ہے ۔قلم کارخامہ فرسائی کریں گے کہ ایسی ہستی صدیوں میں پیداہوتی ہیں۔لیکن یہ سچ بہرحال اورہمیشہ سچ ہی رہے گاکہ مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحیکی شکل میں خشیت وللہیت،صدق وامانت،جودوسخاوت،طلبہ پرہردم نظر عنایت، تھوڑ ے پر صبروقناعت،کم زورں اورلاچاروں کی اعانت، معاملات میں امانت ودیانت،علم دین کی اشاعت کی جو ہفت رنگ مجلس جمی ہوئی تھی ،وہ یک بارگی بے نورہوگئی اورہرطرف گھنگھوراندھیراچھاگیا۔

خوشی کے ساتھ غم بھی ہوتے ہیں:

            قارئین گرامی:جیساکہ ہم سب جانتے اوراِس بات کومانتے ہیں کہ سورج نکلتاہے ڈوبنے کے لیے، شمع جلتی ہے بجھنے کے لیے ،دن چڑھتاہے اترنے کے لیے،چمن میں پھول کھلتے ہیں مرجھانے کے لیے، بستیاں آباد ہوتی ہیں اجڑنے کے لیے،آشیانے بنتے ہیں ویران ہونے کے لیے،سبزے لہلہاتے ہیں سوکھ جانے کے لیے، چیزیں بنتی ہیں بگڑنے کے لیے،ٹھیک اِسی طرح ہرکوئی یہاںآ تاہے جانے کے لیے ۔خلاصہ یہ کہ اِس دنیا میں اگر خوشی کے پھول کھلتے ہیں توساتھ میں غم کے کانٹے بھی اگتے ہیں،اگرکہیں مسرت وشادمانی کے شادیانے بجتے ہیں تو وہیں پررنج والم کے بادل بھی برستے ہیں۔کیوں کہ یہی حقیقت ہے کہ

خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں

جہاں شہنائی بجتی ہے ، وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

 رخصت ہورہی ہے:   

            قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی خوبیوں میں سے شایدہی کوئی خوبی ایسی ہو،جو اُن میں نہ رہی ہو۔حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحیکی ذاتِ عالی صفات گوناگوں خوبیوں کا ایک سدابَہارگل دستہ تھی، جس کی دل آویز خوش بوسے ہرکوئی اپنے اپنے ظرف کے مطابق زندگی بھرفیض یاب ہوتا رہا ۔لیکن میں آج کی تحریر میں پوری زندگی کی کہانی ، میں اپنی زبانی،چہرے کی تابانی،اُن کی طلاقتِ لسانی،اُن کے ساتھ تائیدِ ربانی ، فیض رسانی،جامعہ کے حق میں قربانی ،خدمتِ لافانی،مہمانوں کی میزبانی،اُن کی زبان دانی، زورِ بیانی یاشیریں بیانی اورقلم کی روانی کو ہرگزجگہ نہیں دوں گا۔بل کہ میں تواُن کی صرف ایک ہی خوبی پرروشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔اوروہ ہے”حضرت مرحوم کی شاہانہ جودوسخاوت“۔جوکہ اب مادّی ، بل کہ لالچی دنیاسے رخصت ہورہی ہے ۔حالاں کہ قرآن وحدیث میں اِس صفت کی بڑی تعریف کی گئی ہے، چناں چہ اللہ پاک ارشادفرماتے ہیں:﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَاءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔﴾

            ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جواپنامال راہِ خدامیں خرچ کرتے ہیں،اُس دانے کی طرح ہے ،جس میں سات بالیاں ہوں اورہربالی میں سودانے ہوں۔ اوراللہ تعالیٰ دوچندکرتاہے ،جس کے لیے چاہتاہے اوراللہ بڑی وسعت والاجاننے والاہے ۔

 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ایک مثال:

            جولوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،یعنی حج میں یاجہادمیں،فقراومساکین، بیواوٴں اوریتیموں پریابہ نیتِ امداداپنے عزیزوں اوردوستوں پر۔اُس کی مثال ایسی ہے،جیسے کوئی شخص ایک دانہ گیہوں کاعمدہ زمین میں بوئے۔اُس دانہ سے گیہوں کاایک پودانکلے،جس میں سات خوشے گیہوں کے پیداہوں۔اورہرخوشے میں سو دانے ہوں،جس کانتیجہ یہ ہواکہ ایک دانہ سے سات سودانے حاصل ہوگئے۔

            مطلب یہ ہواکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کااجروثواب ایک سے لے کرسات سوتک پہنچتاہے۔ ایک پیساخرچ کرے توسات سوپیسوں کاثواب حاصل ہوسکتاہے ۔(معارف القرآن :ج۱/ص:۶۳۱)

اونچاہاتھ بہترہے:

            اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں کہ:”اونچاہاتھ نیچے ہاتھ سے بہترہوتاہے “۔یعنی دینے والے ہاتھ کامرتبہ لینے والے ہاتھ سے بڑھاہواہوتاہے۔کیوں کہ دینے والے کاہاتھ اوپراورلینے والے کا نیچے کی جانب جھکا ہوتاہے ۔آپ مولانا مرحوم پر لکھی گئی تحریریں پڑھیں گے ،تو آپ کو نہ صرف اندازہ ہوگا بل کہ یقین ہو جائے کہ آپ کے اندر سخاوت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔تکرار اور طوالت کی وجہ کر میں یہاں ان چیزوں کو تحریرنہیں کر رہا ہوں۔

”سفینہ چاہیے اس بحربے کراں کے لیے“

کسی کوبھنک نہ لگے:

            حضرت والامیں یہ بھی خوبی پائی جاتی تھی کہ اگراساتذہٴ جامعہ سے کوئی مع اہل وعیال کے احاطہٴ جامعہ میں تشریف لاتا توپہلی ہی بارکے ملاقات ومصافحہ ہونے پربڑی گرم جوشی سے ملتے،اپنی خوشی کااظہارفرماتے اور ساتھ ہی دعاوٴں کی سوغات بھی پیش کرتے۔اِسی پربات ختم نہیں ہوتی ،بل کہ رقم کی شکل میں چپکے سے دست ِتعاون بھی بڑھاتے۔اگرکسی نے معذرت پیش کی اورلینے سے انکارکیاتوکہتے کہ:”یہ آپ کونہیں دے رہاہوں۔ میری طرف سے بچوں کو دے دیجیے گا“۔ کئی احباب نے اِس طرح کی خبرسنائی ہے اورخودراقم السطوربھی حضرتکی اِس اعلیٰ ظرفی،دریادلی اور سخاوت کااحسان مند ہے ۔

            اگرکسی کے متعلق آپ کومعلوم ہوتاکہ بیمارہے توفوراًپوچھتے کہ کہاں ہے؟گھرہی پرہیں یاہاسپیٹل میں۔ اور پھربلاتاخیر عیادت کے لیے پہنچ جاتے ۔اورمحض رسمی عیادت پراکتفانہیں کرتے،جیساکہ آج کل ہم لوگ کیا کرتے ہیں کہ حاضری دے کراورشکل دکھاکرآگئے؛بل کہ مولانا مرحوم مسنون عیادت فرماتے اورچپکے سے ملاقات کے وقت کچھ رقم عنایت فرماتے اور منع کرنے پر فرماتے کہ” ارے بھائی !رکھ لیجیے ،علاج کے لیے کام آئے گا“۔گویاکہ وہ اِس شعرکی کسوٹی پر بالکل کھرے اترتے تھے 

یہی ہے عبادت ، یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

ولادت کی خوشی:

            اگر احباب یارشتہ داروں میں سے کسی کے متعلق معلوم ہوتاکہ فلاں کے یہاں لڑکایالڑکی کی ولادت ہوئی ہے تو مبارک بادی پیش کرنے میں کبھی بخالت سے کام نہ لیتے ۔اورپھربچہ زچہ کی بھی خیرخیریت معلوم کرتے اور خصوصی دعاوٴں سے نوازتے ۔

 یہ دنیاغم تودیتی ہے،شریک غم نہیں ہوتی:

            لیکن مولانافلاحیکی زندگی کامطالعہ کیجیے توپتاچلے گاکہ حضرتکی زندگی اِس سے حددرجہ پاک تھی۔ اگر احاطہٴ جامعہ میں مقیم اساتذہٴ کرام میں سے کسی کے متعلقین کے وفات کی خبرسنتے توغم میں برابرکے شریک ہوتے۔ اُن کو تسلی دیتے،ہرطرح سے اُن کی دل جوئی کرتے اورڈھارس بندھاتے،بل کہ سفرکاارادہ ہو تو سفر کا مکمل انتظام فرما کر خاموش نہیں ہوجاتے،بل کہ گھرپہنچنے تک فکرمیں رہتے ۔اور اگراحاطہٴ جامعہ میں کسی کاانتقال پُرملال ہو جائے تو تجہیزوتکفین سے لے کرتدفین تک ساتھ رہتے اورمکمل انتظام فرماتے۔حدیث پاک میں آتاہے کہ ”دائیں ہاتھ سے دو تو بائیں ہاتھ کوخبرنہ ہواوربائیں ہاتھ سے دو تو دائیں ہاتھ کوبھی بھنک نہ لگے“پرمکمل طورسے کاربند اورعمل پیراتھے۔

            ہائے افسوس!

کیا لوگ تھے جو راہِ وفا سے گزر گئے

جی چاہتا ہے نقشِ قدم چومتے چلیں

 وہ بھی عرش کے سایہ میں ہوں گے:

            آسمان کے نیچے اور زمین کے او پرلکھی جانے والی صحیح ترین کتاب”بخاری شریف“ کی ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ؛جب کہ اولین وآخرین؛یعنی ازآدم تاایں دم کاعظیم الشان اجتماع اورہرطرف نفسی نفسی کا عالم ہو گا،سارے لوگ روح کو جھُلسادینے والی گرمیوں سے پریشان ہو کرکسی سایے کی تلاش میں ہوں گے،اُس دن وہاں پر عرشِ الٰہی کے سایہ کے علاوہ کوئی بھی سایہ نہیں ہوگا۔اُن میں صرف ۷/ ہی لوگوں کوپناہ ملے گی ،جن میں سے ایک وہ بھی ہوں گے، جس کے بارے میں فخرکائنات وفخرموجودات محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: ”رَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَاَخْفَاہَا حَتّٰی لَاتَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ“۔(ج:۱/ص:۱۹۱)

            اب اِن آثارواحادیث کی روشنی میں حضرت مولاناعبدالرحیم فلاحیکی زندگی کے اوراق کھول کر دیکھیں تو صاف طورپرمعلوم ہوگاکہ اُن کی حیات میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم موجودہے ۔لیکن اِس کی مکمل منظرکشی ہم جیسوں کے بس کاروگ ہی نہیں ہے ۔یہ کام تووہی بہترطریقے پرانجام دے سکتاہے،جن کوہمہ وقت اُن کاسایہ نصیب ہوا ہو اور قریبی تعلق رہاہو۔

نیکی کردریامیں ڈال:

            غربت کے ماروں،لاچاروں،بے سہاروں،ناداروں اوربیماروں کے کام آنااُن کاوصفِ خاص اور آیت ِقرآنی،سورہ ٴبقرہ کی زبانی:﴿یٰاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوْالَاتُبْطِلُوْاصَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذیٰٰٰٰ﴾سے بالکل پاک تھا۔وہ اِس دنیاکی چارروزہ فصل بَہارمیں یہ امدادی اور رفاہی کام خالصاً لوجہ اللہ انجام دیاکرتے تھے۔اِس طرح پر دیکھاجائے تووہ” نیکی کر دریا میں ڈال“کے سچے مصداق تھے۔

ایسوں کی بھی کمی نہیں:

            ورنہ تواِس دنیامیں ایسے لوگ بھی ہول سیل میں موجودہیں،جوصرف نام ونمودحاصل اوردولت کی نمائش کاکوئی بھی موقع ہاتھ سے بھول کربھی نہیں جانے دیتے اور شہرت کے مینار پر چڑھنے کے لیے اپنامال خرچ کرتے ہیں۔اُسی مقام پرشاہِ سخاوت حاتم طائی کی طرح خرچ کریں گے،جہاں سے خوب واہ واہی کی امید نظرآتی ہو، ورنہ توکسی کی دست گیری اورفلاحی ورفاہی کاموں کے موقع پریہی صاحب کنگال بینک نظرآئیں گے۔لیکن حضرت مولانا عبد الرحیم فلاحیایسے بے موقع خرچ کر کے اپنے نامہٴ اعمال پر خوداپنے ہی ہاتھوں سیاہی نہیں پھیرتے تھے، بل کہ ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا﴾اوراسی کے ساتھ ہی ﴿تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ﴾جیسی آیات پر پورایقین رکھتے اور جہاں کہیں بھی موقع مل گیا،اُس پر عمل کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے تھے۔

            یوں تومولاناعبدالرحیم فلاحیسے متعلق باتیں توبہت ساری ہیں،کیوں کہ اُن کی ذات ؛بے شمارخوبیوں اور کمالات کا ایک خوب صورت گل دستہ تھی۔اِس لیے سمجھ میں نہیںآ تاکہ حضرت مرحوم کی کن کن خوبیوں کا تذکرہ کر کے اوراق کو سیاہ کیا جائے اورکن کن صفات کوکنارے پرڈالاجائے ۔

”سمجھ میں کچھ نہیںآ تا،لگی ہے دل میں اِک الجھن“

شام تک آجاوٴں گا:

            جودوسخاوت کابہتاہوایہ سیلِ بے کراںآ خرکارزندگی کی۵۷/بہاریں دیکھنے کے بعد؛اپنی زندگی کے کل۲۰۹۳۷/ایام پورے کر کے ۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۲/ اپریل ۲۰۲۰ء کو اتوارکی صبح ۸/ بجے انکلیشور کے نزدیک کھروڈ میں واقع ” ویل کیئر اسپتال“میں جاکرہمیشہ کے لیے خشک ہو گیا۔ جب کہ اپنے بہنوئی خادم القرآن والمساجد حضرت مولاناغلام محمد وستانوی# مدظلہ العالی سے تویہ کہہ کرگیاتھاکہ”شام تک آ جاوٴں گا“۔ لیکن کسی کوپتاہی کہاں تھا کہ ارشادباری ہے: ﴿وَمَاتَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ۔﴾یہ آیت ہمیں آگاہ کر رہی ہے کہ یہ بات ہمیشہ دماغ کے شوروم میں سجاکررکھناہے کہ کون؟ کہاں پر؟ کب اورکس حال میں سارے رشتے ناطے توڑکراور اِس دنیاکوچھوڑکرجائے گا؛ معلوم نہیں۔

آخری ہے التماس:

            جامعہ اکل کوا کامقبولِ خاص وعام ماہنامہ” شاہ راہِ علم “کاخصوصی شمارہ ”مولاناعبدالرحیم فلاحی نمبر“شائع ہورہاہے ، باذوق حضرات وہاں سے اپنی تشنگی دور اورعلمی معلومات کاسامان حاصل کرسکتے ہیں۔ اُن کی کتابِ زندگی کے صرف اِسی ایک ورق کی ورق گردانی سے ہم بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارے اندربھی وہی جذبہ ٴ صادق ہو،جومولانامرحوم کے اندرسمندرکی طرح ٹھاٹھیں ماررہاتھا۔ ورنہ تو”خالی چنا،باجے گھنا“سے کچھ ہونے والانہیں ہے ۔اللہ رب العزت اُن کی تربت پراپنی رحمتوں کے پھول برسائے اور ہم سب کواُن کے اسوہٴ حسنہ کواپنانے کی توفیق دے۔آمین!