یعنی
مادر زاد ولی کا سانحۂ ارتحال -ایک سبق ، ایک پیغام ، ایک پروگرام
مولانا عبد الرحیم فلاحیؔ مظاہریؔاستاذ تفسیر و حدیث جامعہ اکل کوا
کسی نے سچ کہا ہے کہ : ……زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے
آج ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۴۴۰ھ – ۱۲؍ اگست ۲۰۱۹ء ہے ۔ ایک طرف مذہبی اعتبار سے حج کا مہینہ ہے تو دوسری طرف ملک ہندستان کا تاریخی اور ملکی مہینہ جس ماہ میں ہمارے ملک کو آزادی کا پروانہ حاصل ہوا ۔
بہر کیف ! حجاج حج سے فارغ ہوکر آخری رمی کے ذریعہ شیطان کو خوار کرکے حج سے فراغت پانے کی تیاری میں ہے ، مسلمانانِ ہند تکبیر تشریق کی صدا ئے دلنواز سے اپنی اپنی زبانوں کو تر وتازہ کرتے ہوئے اللہ کے دربار میں اپنی اپنی قربانی پیش کرنے میں مشغول ہیں ۔ ہر کوئی نماز عید سے فراغت پاکر قربانی کی تیاری میں مصروف ہے ۔ گھڑی ۴۵:۲؍ پرآکر کھڑی ہے کہ یکایک سوشل میڈیا پر ایک غمناک ، المناک پیغام گردش کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ زمانہ کے عظیم محدث یعنی حضرت شیخ زکریا ؒ کے حقیقی جانشین اورمجدد تبلیغ حضرت مولانا الیاس ؒ کے نواسے اورحضرت مولانا یوسف صاحب ؒ کے بھانجے ،ایک طویل علالت کے بعد میرٹھ کے آنند ہاسپیٹل میں ہمیشہ کی نیند سوگئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون !
یہ خبر جیسے ہی جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے احاطہ میں پہنچی ؛ تعطیلات کے باوجود ادارے میں موجود چھے ہزار سے زائد طلبہ نے بعدِ نماز ظہر قرآن خوانی کرکے ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی سعادت حاصل کی ۔ تغمدہ اللہ برحمۃ واسعۃ
عام طور پر مرحومین کی خبر سن کر لوگ قصیدہ خوانی اور مضمون نگاری میں ایسے مصروف ہوجاتے ہیں کہ مقصود کو چھوڑ کر غیر مقصود کا اشتغال ہوجاتا ہے۔ حالاں کہ مرحومین کوایصال ثواب ،دعائے مغفرت اور ترقیٔ درجات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ اذکرو محاسن موتاکم ‘‘کے پیش نظر حدود شریعت میں رہ کر اپنے مرحومین کا ذکر اور ان کے محاسن واوصاف کا تذکرہ ایسا کرنا چاہیے، جس سے اخلاف کو اسلاف کی اتباع اور نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ ملے ، اسی لیے اکابرین کے تذکرے اور سوانح بھی لکھی جاتی ہیں ۔ اور مرحومین کے ان اوصاف کو معرض تحریرمیں لایا جاتا ہے ، جس میں سبق آموز ی اور درس پذیری ہو؛چناںچہ خود حضرت مرحوم کے والد گرامی قدر نے اپنی آپ بیتی مرتب کی تاکہ بعد والوں کے لیے عموماً اورآپ کے روحانی متوسلین اور افراد خاندان کے لیے خصوصاً مشعلِ راہ ثابت ہو۔
مرحوم حضرت مولانا طلحہ صاحبؒ کو پیری مریدی اور مشیخت کے انداز و اسلوب وراثت میں ملے تھے ؛ اسی لیے ہمارے اکابرین میں حضرت باندوی ؒ اور حضرت پیرجی مولانا طلحہ کو مادر زاد ولی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرت باندوی ؒ کی ولایت ، مجاہداتِ مسلسل محنتِ شاقہ اور توجہات اساتذہ اور مشائخ سے عبارت تھی۔ تو حضرت مولانا طلحہ صاحب کی ولایت مشایخ کاندھلہ سے نسبت ،مشایخ تبلیغ سے مناسبت، والد محترم کی شفقتوں اور اس دور کے مدنی رائے پوری اجرا ڑوی جیسے مشائخ کی لطف ومہربانی کا پرتو تھی ۔
چنا ں چہ آپ کا کتب خانہ یحیوی میںبچوں کے درمیان بچپنے میں بیعت کا سلسلہ قائم کرنا اور حضرت مدنی ؒ کا گھر کے سامنے ٹانگے سے اترنا اور از راہِ تلطف مولانا طلحہ صاحب سے بیعت کی درخواست کرنا اور آپ کا بیعت ہوجانا اور پیرجی کے لقب سے ملقب کرنا یہ سب عنایات مشائخ کے قبیل سے ہیں۔
بزرگان وقت کی عنایات:
دوران حفظ وقت کے مفتی اعظم حضرت مولانا قاری مفتی سعید احمد اجراڑوی ؒ کا آپ کا قرآن سننا ، حضرت رائے پوری ؒ کا آپ کے لیے سفر کا موقوف کرنا ، حضرت مفتی محمود الحسن صاحبؒ کا آپ کو دلار کرنا اور گود میں کھلانا ، یہ سب وہ پہلو ہیں جس نے آپ کو بزرگوں اور اکابرین کا منظور نظر نہیں بل کہ مشیخت کے مقام کو پہنچایا ۔ پھر حضرت شیخ ؒکے انتقال کے بعد شیخ زکریاصاحب ؒکے خلفائے باوفا نے آپ کو شیخ ہی کا مقام دیا ۔ اور کچے گھر کی باغ و بہار اور رونق کو باقی رکھنے میں آپ کے خاندان کے افراد بالخصوص حضرت مولانا عاقل صاحب شیخ احدیث مظاہر علوم، حضرت مولانا سلمان صاحب مظاہری ناظم مظاہر علوم اور ان کے اعزا و اقربا کا جہاں دخل رہا؛ وہیں حضرت شیخ کے خلفا میں سے بہت سے خلفا نے آپ کی عزت اور مشیخت کو چار چاند لگا ئے۔ جس میں بالخصوص ہمارے استا ذ محترم حضرت شیخ زکریا ؒ کے علمی جانشین مولانا شیخ یونس صاحب جونپوری ؒنے وہ مقام ومرتبہ دیا کہ؛ بسا اوقات حضرت مولانا طلحہ صاحب کی مرضی کے خلاف کوئی کام یہ کہ کر نہ کیا کہ اگر آج میرے حضرت کا منشا یہ ہوتا تو میںیہ کام نہ کرتا ، اس لیے بھائی کے منشا کے خلاف کوئی کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔
حضرت شیخ زکریا ؒ کی رحلت کے بعد جب جب جامعہ مظاہر علوم میں تکمیل بخاری شریف کی مجلس ہوئی تو حضرت مولانا یونس صاحب ؒ نے درس ختم بخاری دیا تو دعا کا اعجاز حضرت پیر طلحہ صاحب کو دیا ، اور کہتے کہ تمہاری دعا میں اثر ہے ۔
بہت سے متوسلین بیعت کی غرض سے آتے اور عوام کا طبقہ ہوتا تو ان کو ترغیب دیتے کہ جائو ، مولانا طلحہ صاحب سے بیعت ہوجاؤ۔
علما میں سے کوئی شیخ یونس صاحب ؒ سے ملنے جاتا تو دریافت فرماتے بھائی طلحہ سے ملے یا نہیں ؟ اورپھر ان سے ملنے کی ترغیب دیتے ۔پیر صاحب کی رعایت میں حضرت شیخ ؒ نے کبھی الگ سے اپنی خانقاہ نہ شروع کی، اس میں ہر طبقہ کے لیے درس عبرت ہے کہ بڑوں کی اولاد کیساتھ ہمارے بڑوں نے کیسا سلوک کیا ۔
وہیں مولانا طلحہ صاحب بھی حضرت شیخ ؒ کے خلفا اور دعوت و تبلیغ سے وابستہ افراد کے ساتھ ایسی اپنائیت کا سلوک کیا جو مثالی بھی ہے اور قابل تقلید بھی ۔ حضرت شیخ زکریاؒ کی نسبت پر نا آشنا سے نا آشنا آدمی آجاتا اس کی بھی خاطر داری کرتے ۔ خلفائے شیخ میں سے کوئی پہنچتا تو حضرت شیخ جیسی توجہ ہر کسی پر فرماتے اوراسی انداز کا سلوک کرتے ۔
حضرت شیخ یونس صاحب ؒ کو ایک مدت تک اپنے کچے گھر کا ایک کمرہ رہنے کے لیے عنایت فرمایا؛ جہاں مطلوبہ کتابوں کی فراہمی بھی ہو ، سکون بھی ملے ، واردین وصادرین سے ملاقات بھی ہو اور ان کی ضیافت بھی ۔
جب جامعہ اکل کوا میں بخاری شریف کا آغاز ہونا تھا، تو حضرت شیخ یونس صاحب ؒ کو دعوت دینے کے لیے حضرت رئیس جامعہ اور مرحوم مولانا عبد الرحمان گوئم(سابق صدر شعبۂ حفظ)ا اور راقم الحروف بندہ فلاحی پہنچے، تو کچے گھر کے اسی کمرے میں ملاقات ہوئی اورحضرت شیخؒکا سرزمین گجرات کا پہلا علمی روحانی تربیتی سفر کی منظوری اسی کچے گھر سے ملی تھی ۔
بہر حال آج کا دور مادی دور ہے ، خود غرضی کا دور ہے ایسے دور میں حضرت کی سادہ لوحی، سادہ مزاجی کو کچھ ابن الوقت افراد نے اپنے مطلب براری کے لیے نامناسب طور پر بھی استعمال کرنے کی کوشش کی ، لیکن خدا جسے رکھے اسے کون چکھے؟! اللہ نے حضرت کی حفاظت فرمائی ۔
حضرت مولانا طلحہ صاحب ؒنے اپنے خاندانی اور اخلاقی روایات کو بہتر سے بہتر طریقے سے آگے بڑھایا ۔ بلند اخلاقی ، مہمان نوازی ، مجالس ذکر وموعظت اور خانقاہی رونق باقی رکھنے میں حتی المقدور کوشش کی۔
حضرت مولانا طلحہ صاحب حامل سنت بھی داعی سنت بھی:
حضرت مولانا طلحہ صاحب حامل سنت بھی داعی سنت بھی تھے۔ آپ کے تعلیمی اور تربیتی زیادہ ایام مظاہر علوم سہارن پور اور مرکز تبلیغ میں گزرے ہیں ، اس لیے مزاج میں دینی حمیت اور جذبۂ دعوت بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔اگر کوئی ڈارھی منڈا شخص سامنے آتا تو بہ طور اظہار ناراضگی مصافحہ کرنے میں تأمل کرتے ، اگر کوئی نامناسب وضع قطع میں ہوتا تو فوراً نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ۔ بیعت کرنے میں اپنے والد بزرگوار کا طریقہ اختیار کرتے اور دعا کرنے میں حضرت مولانا یوسف صاحب ؒ کا اسلوب اپناتے ۔ دعوت و تبلیغ کی طرف عوام کو متوجہ فرماتے ؎
اللہ سے ملواتی ہے صحبت اللہ والوں کی
اپنا رنگ دکھاتی ہے صحبت اللہ والوں کی
باپ کا بیٹے کے متعلق تاثر:
اگرکوئی باپ اپنے بیٹے کے سلسلے میں کوئی تاثر پیش کرتا ہے ، اس میں جہاں شفقت ہوتی ہے وہاں احتیاط کا پہلو بھی سامنے رہتا ہے ، اس لیے ایسا تاثر قابل توجہ ہونا چاہیے ، چناں چہ حضرت شیخ الحدیث ؒ تحریر فرماتے ہیں: کہ صاحب زادہ گرامی عزیز گرامی قدر مولوی محمد طلحہ میری زندگی ہی میں حافظ وعالم ،ذاکر وشاغل اور صاحب اجازت ہوگئے۔ اور شروع سے ہی حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ کی خاص نگاہ اور شفقت رہی؛ بعض اوقات حضرت رائی پوری ؒنے ان کے خاطر اپنے سفرکا پروگرام بھی ملتوی فرمادیا اور فرمایا کہ طلحہ نے مجھے روک دیا ۔
یہ وہ توجہ تھی جس نے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچادیا تھا ۔ سچ کہا کسی نے ؎
کوئی اندازہ کرسکتا ہے ان کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
آپ کی مدارس و جامعات سے وابستگی:
والد مرحوم کے صدقے امت نے جہاں آپ کو اعجازِ مشیخت بخشا وہیں پر امت کے خواص میں سے بہت سوں نے مسرت وشادمانی کے موقع پر دعاگزاری کے لیے بھی طلب فرمایا ۔ وہیں اطراف واکناف کے بہت سے مدارس نے اپنے اپنے ادارے ان کی سرپرستی میں قائم فرمائے۔ جامعہ مظاہر علوم کے فوقانی شوریٰ کے آپ پہلے تو رکن منتخب ہوئے بعد ازاں ایک مدت تک مظاہر علوم کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اعجازی عہدے پر بھی فائز ہوئے اور تا دم آخر سرپرست شوریٰ کی حیثیت سے آپ کا مقام رہا ،وہیں آپ دارالعلوم دیوبند کے بھی تا حیات رکن شوریٰ رہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام تعلیمی سرپرستی کو قبول فرمائے۔
جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا اور بانی جامعہ سے آپ کا تعلق :
الحمدللہ ! حضرت وستانوی دامت برکاتہم آپ کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو آپ نے جامعہ اکل کوا کی دعوت دی تو آپ نے بہ خوشی اس کو منظورکرلیا ؛اگر چہ جامعہ میں تعطیل تھی پھر بھی تشریف لائے ، دعا کی اور مسرت کا اظہار فرماتے ہوئے فرمایا آپ کے ساتھ اکابرین کی توجہ بھی ہے اوردعا بھی ۔اور وقتاً فوقتاً مظاہر علوم سہارنپور کی شوریٰ کے موقع پر بھی ملاقات کا سلسلہ جاری رہا ۔
آپ کی آخری زندگی کے کچھ لمحات اورفکریں :
آپ چوں کہ اکابرین کے صحبت یافتہ تھے ، اس لیے امت کی فکر اور کڑھن بھی آپ کو اپنے بڑوں سے ورثہ میں ملا تھا ؛ چناںچہ مخلوق خدا کی خدمت اور ضیافت کرتے کرتے اپنی مجلسوں میں جن باتوں کا مذاکرہ بہ کثرت کرتے وہ یہ ہیں۔
(۱) دعوت و تبلیغ سے وابستگی پرعوام وخواص کو ترغیب دیتے ،اور دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں ہمیشہ متفکر رہتے ۔
(۲) مکاتب کے قیام پر زور دیتے ۔ مکاتب سے عقائد کی درستگی میں مدد ملتی ہے ، ایمانی استحکام نصیب ہوتا ہے۔
(۳) خانقاہ آباد کرتے اور آباد رکھنے کے سلسلے میں متفکر رہتے ، اعتکاف کی ترغیب دلاتے ، ذکر واذکار کی مجالس قائم کرواتے ۔ اوراس سلسلے میں بلا تفریق جس میں جو صلاحیت ہوتی اس کو اس کا مکلف بناتے ۔
ہم نے اپنی پیاری دینی درس گاہ مظاہر علوم کے قیام کے دوران یہ منظر بارہا دیکھا تھا کہ حضرت مفتی مظفر حسین صاحب ؒکے بھتیجے اورحضرت مولانا اطہر حسین صاحب ؒکے صاحب زادے حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب متولی وناظم مظاہر علوم وقف عصر کے بعد کی مجلس میں شریک ہوتے ،تو کتاب کی تعلیم کی ذمہ داری مولانا سعیدی کی ہوتی۔ اس وسعت ظرفی کی مثالیں نایاب نہ سہی کمیاب ضرور ہیں ۔
خانقاہوں کو آباد رکھنے کی فکر:
اسی طرح خانقاہوں کے آباد رکھنے کا جذبہ اتنا کار فرما تھا کہ آپ نے تقریباً ایک سوا سال قبل حضرت شیخؒ کا لگایا ہوا باغ اوران کی خانقاہ ،نورانی مجلس ذکر کی رعنائی سے زندہ تابندہ رہے ۔اس فکر کو لے کر وجہ کر مظاہر علوم کے ناظم باصفا استاذ الاساتذہ مشائخ کے محبوب و منظورِ نظر حضرت مولانا سلمان صاحبدامت برکاتہم کو اپنا جانشین مقرر کرکے فراست ایمانی اور دور بینی اور دور اندیشی کا فیصلہ فرمایا ۔ اللہ کی ذات سے امید ہی نہیںبل کہ قوی یقین ہے کہ،مظاہر علوم کی مسجد دار جدید میں حضرت شیخ زکریاؒ کی موجود گی میں قرآن پاک سنا سناکر معتکفین کو گرویدہ کرنے والا عاشق قرآن حضرت مولاناسلمان صاحب اس امانت کو ایسا سنبھالا دیںگے اورخانقاہِ زکریاؒ کو ایسا پروان چڑھائیںگے ،جس میں دعوت و تبلیغ کی کڑھن بھی ہو اور مدارس وجامعات سے وابستہ علما و طلبا کی فکر صحیح بھی کار فرما ہو ۔ اور دلوںکو منور کرنے والے خانقاہی اعمال بھی ہورہے ہوں اور افراد امت کو ایک لڑی میں پرونے والی مثالی خانقاہی نظام چلے، تو روح الیاسی اورروح یوسفی اور روح زکریا رحمہم اللہ سب کو مسرت بھی ملے گی اور اخروی درجات بھی حاصل ہوںگے ۔کیوں کہ راقم، آثم عبد الرحیم فلاحی کا یہ نظریہ ہے کہ دعوت سے ایمان بنتا ہے ، تبلیغ سے ایمان جمتاہے اور مدارس سے ایمان بچتا ہے اورخانقاہوں سے ایمان سجتا ہے۔ اوریہ اس زمانہ کا تقاضا بھی ہے اورضرورت بھی۔
مجھے امید ہے کہ جانشینِ حضرت طلحہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی صالحیت اور صلاحیت دونوں رکھتے ہیں اور خانقاہ ِزکریاؒ کو بارونق بنانے کا پورا اعتماد بھی ہے ۔ خدار کرے حضرت طلحہ صاحبؒ کی فکروں کو کامیابی ملے ۔باری تعالیٰ آں مرحوم کوکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ، مدارس وجامعات بالخصوص مظاہر علوم کو نعم البدل عطا فرمائے ۔
بہرحال آپ کی وفات سب کے لیے سبق ہے : زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے