سانحہ ارتحال ؛حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی

(استاذ حدیث و تفسیر اشاعت العلوم اکل کوا)

محمد شہزاد اورنگ آبادی

(فاضل جامعہ ڈابھیل وخادم مکتب ہدایت الاسلام عائشہ مسجد مرزا کالونی سلوڑ)

کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے

یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے

            حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر سنتے ہی کلیجہ منہ کو آگیا ۔آنکھیں نم دیدہ ہو گئیں ۔ اولاً تو یہ خبرسن کر یقین ہی نہ آیا۔ چناں چہ تحقیق حال کے لیے حضرت کے شاگرد خاص حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب سلوڑی زیدفیضہ (استاذ فقہ جامعہ ابوہریرہ بدناپور )سے رابطہ کیا تو معلوم ہواکہ خبر بالکل صحیح ہے ۔پھر ایسے ناموافق حالات میں حضرت کے رحلت کرجانے پر انتہائی افسوس کا اظہار فرما یا اور انتقال کی مختصر کیفیت سنا کر اس ناآشنا کو واقف کرایا ۔مفتی صاحب سے بات مکمل ہوئی تھی کہ حضرت مرحوم کی کچھ یادیں ذہن کی اسکرین پر آگئی ،جسے اس شعرکے ساتھ آپ کے سامنے پیش کیے دیتا ہوں۔

اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت

ڈ ھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی

            آج سے تقریبا ً۱۱/سال پہلے کی بات ہے ۔مدرسہ مرکز اسلامی سلیمیہ سلوڑ، اورنگ آباد( مہاراشٹر) کے زمانہ طالب علمی میں حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تھا۔ اس وقت عمر کچی تھی، اس لیے حضرت کی شخصیت کو سمجھنا میرے لیے مشکل تھا۔ البتہ اس عمر میں حضرت کے تعلق سے اتنا نقش ؛دل و دماغ پر تیار ہوگیاتھا کہ آپ ایک بڑے مولانا ہیں۔ پھر کچھ ہی مہینے گذرے تھے کہ راقم الحروف کواپنے دو خالہ زاد بھائیوں کی تکمیل حفظ کی خبر سننے کو ملی اور اسی موقع سے جامعہ اکل کوا حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ جب جلسہ کی ابتدا ہوئی تو رس گھول دینے والی آوازکان سے ٹکرائی۔ آواز کچھ ایسی تھی کہ کان میں پڑتے ہی صاحب آواز کے دیدار کاشوق پیدا ہوا ۔چناں چہ مسجد میمنی پہنچتے ہی حضرت مولانا کا بارونق چہرا دکھائی دیا ۔انداز نظامت ایسا تھا کہ اس کے لکھنے کے لیے میرے قلم میں طاقت نہیں ہے۔

             ویسے آپ کے بہترے شاگردان آپ کے اس ملکہ لا مثال کا تذکرہ کیا ہی کرتے ہیں ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جہاں آپ کا تذکرہ ہوتا ہے وہاں آپ کی نظامت؛ خصوصاًآل انڈیا مسابقوں میں آپ جس انداز سے نظامت کے فرائض انجام دیتے تھے اس کا تذکرہ ضرور ہواکرتا ہے ۔یہ منظر اس لیے لکھ رہاہوں کہ حضرت کا تعارف اسی حوالے سے ہواتھا۔

            حضرت کی شخصیت کیا تھی؟ آپ میں کون کون سے اوصاف وکمالات موجود تھے ،اس کا تذکرہ آپ کے ہم عصر علما آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والے، آپ کے ہزاروں شاگردان؛ نیزصاحب قلم حضرات ضرورکریں گے۔ میں اپنی سعادت سمجھتے ہوئے آپ کی سخاوت کی چند جھلکیاں قارئین کے حوالے کیے دیتا ہوں۔

            راقم الحروف جامعہ ڈابھیل گجرات کے درجہ عربی چہارم میں زیر تعلیم تھا۔ جامعہ میں معمول کے مطابق یوم جمہوریہ کے دن چھٹی تھی۔ طلبہ مختلف تفریحی مقامات پر جانے کا پلان پہلے سے بناچکے تھے ۔اتفاق سے مجھے معلوم ہواکہ طلبہ کی ایک جماعت اکل کوا کے لیے بھی روانہ ہو نے والی ہے، اس بات کو سن کر میں نے بھی جامعہ اکل کوا جانے کا قصد کرلیا؛ چناں چہ جب ہم وہاں پہنچے تو جامعہ کے اساتذہٴ کرام کی ملاقات کا نظام بنایا گیا۔ حضرت مولانا سے بھی وقت لیاگیا ۔حضرت نے اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود ہمیں ایک متعینہ وقت پر اپنے دولت کدہ پر بلایا۔جب ہم وہاں پہنچے تو خندہ پیشانی سے ہم خردوں کا پر تپاک استقبال کیا اور انتہائی ادب واحترام کے ساتھ ہم کو اپنے گھر کے عمدہ قالین پر بیٹھنے کا حکم دیا، پھر علیک سلیک کے بعد ہر ایک کا تعارف پوچھا اورہر ساتھی کے تعارف پر الگ الگ انداز میں خوشی کا اظہار فرما یا۔اخیرمیں جب میرے تعارف کا موقع آیا تو میں نے ہمت کے ساتھ کہا کہ حضرت میرا وطن اندھاری ہے تو فوراً میرے وطن کے جو اساتذہ وہاں خدمات انجام دے رہے تھے ،ان کا تذکرہ کرنے لگے ۔پھر جب میں نے کہاکہ میری مرکز اسلامی سلیمیہ سلوڑ میں حفظ کی تکمیل ہوئی ہے ،تو بہت ہی خوشی کا اظہار فرما یا اور پھر کچھ دیر مرکز اسلامی سلوڑ کا تذکرہ کیا اور اس پر تعارفی مجلس پوری ہوئی۔ بعدہ تمام واردین طلبہ سے دل کو موہ لینے والی گفتگو فرمائی، جس میں جامعہ ڈابھیل اور فلاح دارین ترکیسر کا باربار ذکر آتا تھا۔ اس گفتگو سے یہ انداز ہ ہورہا تھا کہ حضرت کے دل میں اپنے مادر علمی کی بڑی قدر وقیمت ہے۔ آپ کے اس انداز سے ہمیں بہت فائدہ ہوا نیز کچھ علمی گفتگو بھی فرمائی۔

             ساتھ ہی انتہائی متواضعانہ انداز میں کچھ پند ونصائح کا سرمایہ ہمارے خالی کشکول میں ڈالا، جس کا فائدہ آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ گفتگو کا سلسلہ ختم ہوتے ہی ہم تمام مہمان طلبہ کے سامنے اس عظیم میزبان کی طرف سے مکہ کا سب سے عمدہ مشروب زم زم اورمدینہ کی سب سے عمدہ خوراک ؛کھجور پیش کی گئیں۔ مذکورہ دونوں چیزوں کو ہم نے اپنی سعادت سمجھ کر نوش فرما یا۔ اس کے بعد حضرت نے ڈابھیل سے اکل کوا آنے کی کار گذاری لی۔ ہمارے یہ بتانے پر کہ اتنے پیسوں میں فلاں گاڑی لے کر آئے ہیں ،آپ نے ڈرائیورکے زیادہ پیسے لینے پر افسوس کا اظہار فرما یا اور کہا کہ مجھے اس کا نمبر دو۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ بھائی تو نے ہمارے ان عزیزوں سے اتنے زیادہ پیسے کیسے لے لیے؟ آپ کی اس اپنائیت نے محبت میں اور اضافہ کردیا ۔ہم نے حضرت سے کہا حضرت آپ ڈرائیورسے کچھ نے کہیں ہم اپنے طور پر بات کرلیں گے۔ حضرت مولانا راضی ہوگئے اور اپنے جیب خاص سے ۱۵۰۰/ روپے نکال کر امیر سفر کو دیئے۔ امیر سفر نے سب کی ترجمانی کرتے ہوئے لینے سے انکار کیا ،مگر حضرت اصرار کرتے رہے ، آخرہم نے اپنی سعادت سمجھ کر ان پیسوں کو لے لیا۔ اس پر ہمارے تمام ساتھیوں نے حضرت کا شکر یہ ادا کیا اس وقت ہمارے ساتھ بیرون کے بھی ایک طالب علم تھے، وہ حضرت کے اس عمل سے بہت خوش ہوئے اور حضرت سے کہا کہ آپ جب کبھی ہمارے ملک تشریف لائیں تو ہمارے یہاں ضرور آنا۔ حضرت نے ہامی بھرلی پھر اپنے خادم کو بلاکر ان سے کہاکہ کل صبح آپ ہماری طرف سے ان آنے والے مہمانوں کو ناشتہ کرائیں۔ حضرت کے حکم پر خادم محترم نے ہمیں شاہی ناشتہ کرایا۔ تمام ساتھیوں نے اس پر بھی بڑی خوشی کا اظہار فرما یا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو اس کاخوب سے خوب بدلہ اورجنت الفردوس میں آپ کو اعلی مقام نصیب کرے، پسماندگان، شاگردان اور اہالیان جامعہ کو صبرجمیل عطا فرماکر آپ کا نعم البدل عطا فرمائے آمین-

حضرت کی علمی وملی تصنیفی وتالیفی خدمات کا دائرہ کئی دہائیوں پر محیط ہے، جسے یکجا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اخیر میں بس اس شعرپر رخصت چاہتا ہوں ۔

کڑے سفر کا تھکا مسافر تھکاہے ایسا کہ سو گیا ہے

 خود اپنی آنکھیں تو بند کرلی ہزاروں آنکھیں بھگو گیا ہے