سائنسی اعتقاد اور غیرتِ اسلام ایک ساتھ

حکیم فخرالاسلام مظاہری

            مگر جنہیں یہ اصول مستحضر ہے کہ:

             ”جب حقیقی معنی لینے ممکن ہیں،تو یہاں(وزنِ اعمال میں)بھی اُنہیں ترک نہ کیا جا ئے گا۔“( محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۲ص ۲۴،۲۰۰۸ ء ادارہ تحقیقات و نشریات اسلام لکھنوٴ ۲۰۱۳)اُنہوں نے ایک ترکیب نکالی کہ زمانہ کی فضا کا تتبع کیا جا ئے (اور یہ فضا پہلے سے چلی آ رہی ہے کہ) سائنس کے اعتقاد اور اسلام کی غیرت دونو ں کوجمع کرنے کی دیگر صورتیں بھی نکالی گئیں ہیں۔چناں چہ خارقِ عادت امورکو قانونِ فطرت کے مطابق بنانے کی طرح طرح کی تدبیریں کی گئیں۔اِس موقع پر چند مثالیں تفسیر ماجدی سے پیش کی جا رہی ہیں کہ رفتارِ زمانہ کی موافقت کرنے والے دیگرمفسرین کو اِنہی پر قیاس کیا جا سکتاہے :

            ۱:﴿اَلَمْ تَر اِلی الَّذین َ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِہِم وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَا لْمَوْتِ۔فَقَاَلَ لَہُمُ ا لله مُوْتُوا ثُمَّ اَحْیَاہُم﴾۔

            ترجمہ:کیا تجھے خبر نہیں اُن لوگوں کی جو اپنے گھروں سے نکل گئے تھے،موت سے بچنے کے لیے ،اور وہ ہزاروں ہی تھے،تو الله نے اُن سے کہا کہ مر جاوٴ،پھر اُس نے اُنہیں جِلا دیا۔“

            ”سید رشید رضا مصری صاحبِ تفسیر المنار نے نے…آیت میں موت( مُوْتُوا )اور تجدید حیات( ثمَّ اَحْیَاہُم)دونوں کو محض معنوی اور مجازی قرار دیا ہے کہ قوم کی قوم اپنی آزادی و خود مختاری کو کھو کراور دوسروں کی غلامی میں آکر مردہ ہو گئی تھی اور پھر الله نے اُسے نئے سرے سے زندگی یا آزادی بخشی۔“

            قرآن کریم کی آیت کے ترجمہ پرعلامہ سید رشید رضا مصری کی اِس تاویل کا حاشیہ درج کرنے کے بعد مفسر دریا بادی نے یہ لکھا:”بہ ہر حال گنجائش اِس تفسیر و تاویل کی بھی ہے،گو بہ تکلف۔“

( محقق عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۱ ص ۳۴ ۱،۲۰۰۸ ء )

            بہ ہر حال، یہاں رنج رشید رضا مصری کا نہیں ،کہ وہ تو تجدد پسند ہیں؛بلکہ شکایت محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی سے ہے کہ اُنہوں نے ”گو بہ تکلف“اِس تفسیر صاحبِ المنار کو” گنجائش“بخشی۔

            ۲: مفسر عبدالماجد دریابادی اپنی تفسیر القرآن میں اِسی رجحان کے اسیر دکھائی دیتے ہیں۔اُن کی تفسیر میں جگہ جگہ اِس کے نمونے موجود ہیں۔ مفسر دریا بادی نے اگرچہ اِس درست اصول کو مستحضررکھا ہے کہ:”جب حقیقی معنی لینے ممکن ہیں،تو یہاں(وزنِ اعمال میں)بھی اُنہیں ترک نہ کیا جا ئے گا۔“

( محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۲ص ۲۴،۲۰۰۸ ء )

            مگر اِسی کے ساتھ موصوف کے یہاں یہ بھی ایک دلچسپ اصول ہے کہ: ”کھلے ہوئے ظاہرِ معنی سے ہٹا کر مجازی استعمال کی طرف لے جا نے کے لیے آخر کوئی معقول وجہ بھی تو ہو۔“لہذا:

۳:آزر کو ابراہیم کے والد کہنے والوں کی اِس بنا پر اُنہون تردید کی کہ اُن کے پاس ”کوئی معقول وجہ “نہیں ۔ ( ” تفسیر ماجدی“ جلد ۲ص ۵۶،۲۰۰۸ ء ) اور جہاں کہیں”کوئی معقول وجہ “میسر آ گئی ،تووہاں تاویل کر دی۔مثلاً:

            ب:یہودیوں کے عقیدہ ابنیت کے لیے معاصر سر برآوردہ علماء یہود نے عزیر کے ابن الله ہونے کا انکارکیاکہ یہود کی طرف یہ عقیدہ منسوب کرنا غلط ہے،تو اِس کی وجہ سے قرآن میں آئے ہوئے ”ابن“کی قرینہٴ مقام کے بغیر تاویل کی حتی کہ

             ۴:﴿یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَا ئَہُم﴾میں: اَبْنَا ئَہُم سے مراد صلبی بیٹے نہیں،ابنائے قوم مراد لیے گئے۔ (تفسیر ماجدی ،جلد ۲ ص ۳۴۶،۲۰۰۸ ء )

            ۴:ہامان:”جو دیوتا آمن ،کے مندر کا سب سے بڑا پروہت یاپجاری تھا،عجب نہیں کہ وہی سلطنت کا میر تعمیر بھی ہوتا۔ “ (تفسیر ماجدی ،جلد ۶ ص ۱۶۶،۲۰۰۸ ء )

عقل و نقل کے اصول کے خلاف تفسیر کی بنیادمحض خیال آرائی :

            خود مفسر کی زبانی : ”یہود و نصاری کہتے ہیں کہ مصر میں اِس نام کا کوئی شخص تھا ہی نہیں؛البتہ ایران میں ایک شخص اِس نام کا گزرا ہے،قرآن نے دونوں میں خلط کر دیا؛لیکن ہامان کو شخصی نام فرض ہی کیوں کیا جائے؟جس طرح اِس کا عطف فرعون کے ساتھ یہاں اورآگے چل کربھی (۱۸صفحات بعد ص۱۵۳،۱۵۴پر)آیا ہے۔اِس سے تو قیاس یہی ہوتا ہے کہ جس طرح فرعون شخصی نام نہیں؛بلکہ شاہی لقب تھا،اسی طرح ہامان بھی کوئی سر کاری لقب ہی تھا“ (تفسیر ماجدی ،جلد ۵ص ۱۲۶،۲۰۰۸ ء )

            کیا آپ کو معلوم ہے کہ :”قدیم کتبہ جات اور و تحریرات پر مشتمل ایک ڈکشنری -جس کا نام پیپل اِن دی نیو کنگڈم(People in the new kingdom)ہے-میں ہامان کا ذکر پتھر کی کانوں کے مزدوروں کے سربراہ کے طور پر کیا گیا ہے۔اِس طرح جو حقیقت سامنے آئی وہ قرآن کے مخا لفین کے غلط دعووں کے بر عکس ہے،یعنی ہامان وہ شخص تھا جو مصر میں حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں گزرا وہ فرعون کا معتمد تھا اورتعمیراتی کاموں میں مصروفِ عمل رہتا تھا۔ “

(طارق اقبال:”قرآن مجید میں ہامان کا ذکر اور جدید سائنسی تحقیقات“-روزنامہ”خبریں“۵/نومبر ۲۰۱۵ص۳،ایڈیٹر اِن چیف قاسم سید)

۵: حضرت حواکا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہونے کا انکار:

            مفسر دریا بادی لکھتے ہیں:”روایتیں جو اس مضمون کی مروی ہوئی ہیں اُن میں سے کوئی ایسی نہیں ہے جسے قطعی صحت کا درجہ حاصل ہو اور قرآن مجید نے اس سلسلہ میں سورة النساء اورسورة الاعراف میں جو کچھ کہاہے اُس کی تعبیر اور طریقوں سے بھی ہوسکتی ہے“ ( محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۱ ص ۱۰۶،۲۰۰۸ ء )

            لیکن حکیم الامت فرماتے ہیں:”پس بعد ثبوت بالدلیل کے کسی صورت کا محض بنابر توہم پرستی انکار کرنا، جیسا کہ بعضے صورت ِثانیہ ( حضرت حواکا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا ہونے۔ف ) کے منکر ہیں،نہایت ہی ظلم ہے۔…“(بیان القرآن :جلد۱،پارہ ۴،ص۳۱۶)

۶:حیات و شعور ِ جمادات:

            محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی مرحوم رقم طراز ہیں:

            ” پہلے یہ حقیقت ذہن نشیں کر لی جائے کہ کائنات کی کوئی سی بھی شی ہو، بڑی سی بڑی یاچھوٹی سی چھوٹی احساس و شعور کسی نہ کسی درجہ میں ضرور رکھتی ہے۔“(۱)

            ”قرآن مجید کس زور سے اعلان کر رہا ہے کہ کائنات میں چھوٹی بڑی جو چیز بھی ہے ،بڑے بڑے آسمانوں سے لے کر زمین تک اور اُن کی درمیانی موجودات ،ہر ایک ا لله کی تسبیح ہی کرتی ہے۔یہ گویا اِس کا بھی اعلان ہے کہ ہر شی میں یہاں تک کہ جمادات میں بھی جان کسی نہ کسی درجہ میں ضرور ہی ہے۔ورنہ تسبیح کرنا کیوں کر ممکن ہوتا!“ (۲)

———————————————————————

(۱)” تفسیر ماجدی:جلد ۶۔سورة الدخان:۲۹ص ۳۲۲۔ (۲)جلد ۳ بنی اسرائیل:۴۴ص ۴۲،۴۳۔ )

۷:ملائکہ کی تاویل بادِ صرصر (علامہ شبلی کے تتبع میں):

            ” موٴرخ شبلی نے جنودًا لم تروہا کی تفسیرفرشتوں سے کرنے کے بجائے باد صرصر کو ہی اس کا مصداق قرار دیا ہے، حا لاں کہ آندھی تو دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہو تی ہے،پھر لم تروہا کے کیا معنی ہوں گے ،بہر حال وہ فرماتے ہیں: ”قرآن مجید نے اس باد صرصر کو عسکرِ الٰہی سے تعبیر کیا ہے“۔

( سیرة النبی:ج۱ص ۲۴۵ بحوالہ تفسیر ماجدی جلد پنجم سورہ احزاب:۹ ص: ۳۲۹، ایڈیشن ۲۰۱۳۔)

             مولا نا دریا بادی نے سیرة النبی کے حوالہ سے مذکورہ اقتباس ذکر کرتے وقت یہ خیال نہ کیا کہ شبلی کے پیش نظر تو فطرت کا وہ نظریہ اور تصور ہے جس کی رو سے ہر چیز کی توجیہ طبعی اسباب کے تحت ہی بیان کرنا ضروری ہے۔

۸:         پھر شہابِ ثاقب اور ستاروں کے رجم شیاطین کے متعلق لکھتے ہیں:ہم نے آسمان کو محفوظ کر دیا”اُن ستاروں کے ذریعہ سے کہ وہ شیاطین کی رسائی وہاں تک نہیں ہونے دیتے۔“آگے لکھتے ہیں:”اور یہ جس طرح سے بھی ہوتا ہو۔اِس کے جاننے کا انسان نہ مکلف ہے ، نہ اِس کے جاننے پر اُس کا کوئی نفع موقوف،نہ اس کے نہ جاننے سے اسے کسی ضرر کا اندیشہ۔“ (تفسیر ماجدی:جلد ۶۔سورة الحجر:۱۷:ص ۷۳۲،۷۳۳۔جلد۷ص ۲۷۲۔) محقق دریا بادی نے یہاں ڈپٹی نذیر احمد کا تتبع کیا ہے اور مفسر دریا بادی کی اتباع مفسر خالد سیف الله رحمانی نے کی ہے۔اِس کا رد حکیم الامت نے ”اصلاح،ترجمہ دہلویہ “میں کر دیا ہے جہاں لکھا ہے کہ یہ تو دب کر ماننا اور غیروں کو اعتراض کا موقع دینا ہے ۔” بجنسہ کو ئی ستارہ ہی شیطان پر پھینک مارا جا تا ہے“کی تسلیم سے محقق دریا بادی نے گریز کیا ہے ۔حکیم الامت نے اِس باب میں لکھا ہے کہ اِس میں عقلی نقلی کیا اِشکال ہے؟جو اِشکال ہو اُسے اہلِ علم سے حل کرانا چا ہیے۔ مگر مفسر موصوف نے سبب طبعی میں حصر کو اِستحکام دیتے ہوئے ”شہابِ ثاقب “کا طبعی میکانیہ تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔یہی مفسر مودودی صاحب نے کیا ہے اور انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا سے اِس شہاب ثاقب کے گرنے کے بڑے بڑے واقعات ذکر کیے ہیں،جن کا آیت کی تفسیر سے کوئی تعلق نہیں۔حالاں کہ اِس سبب طبعی کے علاوہ ایک سبب کی اطلاع اگلی ہی آیت میں قرآن خوددے رہا ہے !،دوسری طرف سبب طبعی میں حصر کی کوئی دلیل اہلِ سائنس کے پاس نہیں ہے۔اِس کی تفسیر علاوہ”اصلاح،ترجمہ دہلویہ “ کے ”بیان القرآن جلد ۶ ص۲۴،جلد ۹ ص ۱۲۰،جلد ۱۲ ص۲۶ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

             بعد مفسر دریا بادی نے سورة الشعراء:۲۱۲”وہ تو (وحی کے)سننے سے محروم کیے جا چکے ہیں“پر بیان القرآن سے اخذ کر کے یہ حاشیہ لکھا ہے :”(”چناں چہ متعدد کاہنوں اورمشرکوں سے اُن کے جنات نے اپنی نا کامی کا خود اعتراف کیا اور اُنہوں نے اِس کی خبر دوسروں کو بھی دی“)“مگر اِس کا دوسرا جزو نہیں نقل کیا جوبیان القرآن میں اِس طرح تھا:”مراد اِس سے شہابِ ثاقب سے مرجوم ہونا ہے۔“(حکیم الامت:بیان القرآن:جلد ۸ص ۷۸)

۹:سائبان واقعی نہ تھا:

            کانّہ ظلة ،وہ سائبان واقعی نہ تھا۔مثل سائبان کے تھا،سائبان کا سا معلوم ہو رہا تھا۔دوسری بات یہ کہ ظنّوا،انہیں ایسا یقین ہوا،اثبات واقعہ کا نہیں، بیان صرف ان کے یقین کا ہو رہا ہے۔ “ (تفسیر ماجدی: ج ۱ص ۲۴۳)

            باریک سے باریک فرق نکالنے والا بھی شاید اس تشریح میں اور تدبر قرآن اور تفہیم القرآن کی تشریحات میں فرق نہ کر سکے گا۔

۱۰:عہدِ الست کا مکالمہ :

            :”یہ ضرورت نہیں کہ یہ سارا مکالمہ لفظ و صوت کی مدد سے ہوا ہو؛ہو سکتا ہے کہ بجائے زبان قال کے،محض زبانِ حال سے ہوا ہو اور اُس مرتبہٴ وجود کے لیے وہی بالکل کافی ہے۔ “(علامہ رشید رضا کے تتبع میں)۔ ( محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۲ص ۲۴۳،۲۰۰۸ ء )

۱۱: گردشِ زمین :

             باوجود بار بار اِس اعلان کے کہ”قرآن مجید کو زمین و آسمان کی جغرافی ماہیت سے مطلق بحث نہیں“سائنسی تطبیق کی وجہ سے عقل و نقل کے درست اصولوں کو پا مال کیا گیا ہے۔اور یہ کہ:

            ”قرآن کو ہیئت و فلکیات اوردوسرے علوم طبعی و مادی کے مسائل سے دلچسپی نہیں۔“ ”قرآن کا مقصد فضائیات کی کسی حقیقت کو بیان کرنا نہیں ۔“

( محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۳ص ۱۹،سورة الروم:۴۸،ص۲۶۵، ۲۰۰۸ ء )

مفسر کا کہنا ہے:

            ”ہیئت و فلکیات پر بحث قرآن کے موضوع سے یکسر خارج ہے۔“( تفسیر ماجدی ،جلد ۶سورةحٰم السجدة:۳۷ص ۲۱۵۔۲۰۰۸ ء )،پھربھی لیل و نہار کے دور اور کور سے زمین کا زمین کا گول ہونا -زمین کی کرویت و بیضویت کا ذکر نہ ہونے کے باوجود-ثابت کیا گیا ہے۔

 (دیکھیے: محقق و مفسر عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۶سورة الزمر:۴ص ۱۰۴۔۲۰۰۸ ء )

            ”زمین کی طرح آسمان کی ہیئت سے قرآن مجید …کو کوئی تعلق نہیں۔“( محقق عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۱ ص ۷۶،۲۰۰۸ ء )

            اِس صراحت کے بعد بھی جہاں موقع ہوا، زمین کی حرکت اور اُس کی کرویت کاثبوت قرآن سے پیش کرنا ضروری جانا،جب کہ ،وہاں آیت ِقرآنی سے زمین کی حرکتِ ارض کا ثبوت اُسی طرح نہیں ہوتا،جس طرح سکونِ ارض کا ثبوت نہیں ہوتا۔

             حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں گردشِ ارض کا مسئلہ ایک عقلی مسئلہ ہے، قرآن کے ساتھ اِس کا تعارض نہیں ہے۔ حکیم الامت حضرت تھانوی فرما تے ہیں: ”کسی نص شرعی نے نہ اس (حرکت ارض) کا اثبات کیا ہے، نہ نفی کی ہے۔ پس اثباتاً یا نفیاً یہ مسئلہ اسلامی اور شرعی نہیں ہے، محض ایک عقلی مسئلہ ہے، دونوں جانب احتمال اور گنجائش ہے، اور کسی احتمال پرکسی آیت وحدیث پر کوئی اشکال لازم نہیں آتا“۔ اور قرآن سے اِس کا ثبوت فراہم نہ ہونا، قرآن کے حق میں کوئی عیب نہیں؛ کیوں کہ ”قرآن جس فن کی کتاب ہے، اس میں سب سے ممتاز ہونایہ فخر کی بات ہے، یعنی اثبات تو حید واثبات معاد واصلاح ظاہر وباطن۔ اگر سائنس کا ایک مسئلہ بھی اس میں نہ ہو، کوئی عیب نہیں، اور اگر سائنس کے سب مسئلے ہوں، تو فخر نہیں۔ قرآن کو ایسی خیرخواہی کی ضرورت نہیں، واللہ تعالی اعلم“(۱)۔

یہی حال زمین کی کرویت (گول ہونے یا بیضوی ہونے)کا ہے، دونوں مسئلے (حرکتِ ارض اور کرویتِ ارض) اگرچہ یقینی اور مسلمات میں سے ہیں؛ لیکن قرآن کی کسی آیت کا مدلول نہیں ہیں۔ چناں چہ جس طرح ”الأرض کیف سُطِحَت“ سے زمین کے کروی نہ ہو نے پر دلالت نہیں نکلتی، اسی طرح ”وَا لْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا“ سے زمین کے کروی ہونے پر بھی دلالت نہیں نکلتی۔

 ۱۲:کرویتِ ارض :

مفسر دریابادی نے زمین کی حرکت کا قرآنی آیتوں سے استنباط کرنے کے بعد زمین کا گول ہونا بھی نص قطعی ”یُکَوِّرُ اللَّیْل َعَلی النہَارِ و یُکَوِّرُالنَّہَارَ عَلی اللَّیْل“، (وہ رات کو گھما کر لپیٹتا ہے دن پر، اور دن کو گھما کر لپیٹتا ہے رات پر)(۲) کا مدلول ظاہر کیا ہے۔

(۱) حکیم الامت حضرت تھانوی، امدادالفتاوی، ج ۶، ص: ۱۶۰-۱۶۲۔

(۲) عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی، ج۶، ص:۱۰۲۔

زمین کی حرکت و کرویت؛ دونوں مسئلے سائنس کی راہ سے یقینی، قطعی اورمسلمات میں سے ہونے کے باوجود قرآن کی کسی آیت کا مدلول نہیں ہیں۔ چناں چہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ جس طرح ”الأرض کیف سُطِحَت“ سے زمین کے کروی ہو نے کی نفی پر دلالت نہیں نکلتی۔ اسی طرح ”وَا لْأَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا“ سے زمین کے کروی ہونے کے اِثبات پر بھی دلالت نہیں نکلتی۔

تاریخ علم کلام کے ذکر میں بھی بے احتیاطی کی ،مفسر دریا بادی نے لکھا:

            ”قدیم تفسیریں جس زمانہ میں لکھی گئی ہیں، کوئی حرکتِ ارض کا خیال بھی نہیں کر سکتا تھا؛ اس لیے اگر مفسرین کرام کے ہاں یہ قول نہ ملے، تو اِس پر حیرت ذرا بھی نہ کرنا چاہیے“۔

اوراپنی اِسی سادگی میں حرکتِ ارض اور کرویتِ ارض کے مسئلہ کو زور لگا کر قرآن کریم کی بعض آیتوں سے ثابت کرنے کی سعی نامشکور بھی کر ڈالی،جیسا کہ مذکور ہوا(۱)۔

            ۱۳:”…السماء کی وسعت ِمفہوم کا کوئی لفظ اردو میں موجود نہیں ۔بارش کے سلسلے میں جہا ں جہاں یہ لفظ قرآن میں آیا ہے،بے تکلف معنی بادل کے لیے جا سکتے ہیں۔سماء عربی میں ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کے اوپر واقع ہو۔“(۲)

             ”سماء ہر اُس چیز کو کہتے ہیں جو مثل چھت کے بلند ہو۔“(۳)

            ”قرآن مجید کو زمین و آسمان کی جغرافی ماہیت سے مطلق بحث نہیں۔بہت ممکن ہے کہ محض خلا مراد ہو۔“(۴)

            ”آسمان کوئی ٹھوس مادی جسم رکھتا ہے یامحض خلاء و منتہائے نظر ہے،اس قسم کے مسائل کا تعلق تمام تر دنیوی تجربی علوم سے ہے۔“( محقق عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۱ ص ۷۶،۲۰۰۸ ء )

             ”پھر اُس نے آسمان کی طرف توجہ کی ،اِس حال میں کہ وہ دھواں تھا۔“کے تحت لکھتے ہیں:”اہلِ سائنس کا بھی قول ہے کہ ابتداء ً مادہٴ کائنات گھٹی ہوئی دخانی یا گیسی شکل میں تھا،اُسی کو سائنس کی زبان میں Nebulaضبابہ بھی کہتے ہیں۔“(۵)

            ”سماء کا ترجمہ کوئی اِس سیاق میں اگر ضبابہ (Nebula) سے کرنا چا ہے،تو بے تکلف کر سکتا ہے۔ضبابہ یا کہر وہ لطیف مادی چادر ہے جو کرہٴ زمین کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے اور اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔“(۶)

(۱)دیکھیے: عبدالماجد دریابادی، تفسیر ماجدی، ج۵، ص:۴۶۲۔

((۲)تفسیر ماجدی جلد ۶ ص۱۱۳۔(۳)(۴)جلد۶ص۱۹۶۔(۵)ص۱۹۷۔(۶)۱۹۸،جلد ۷ ص۷۱۲۔)

            یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ تہیں اگر سات ہوں تو بھی ضبابہ یا کہر (سحابے)سات کے عدد میں محدود نہیں؛ بل کہ:” مدہوش کرنے والے یہ اعداد اصل میں بیرونی خلا میں شروع ہو تے ہیں جہاں کروڑوں سحابے (Nebula) اور اربوں ارب ستارے پائے جاتے ہیں۔“

(مولانا عبد الباری ندوی:مذہب اور سائنس ص۱۲۱)

            اِس کثیر تعداد کو نصوص میں مذکور اُس تعداد کے ساتھ کیسے منطبق کیا جا سکتا ہے،جہاں آسمان کی تعداد سات بتائی گئی ہے۔

            زمین کے متعلق بے اصولی کے ذکر کے بعد آسمان کے متعلق عرض کیا جا تا ہے:۔مفسر کا کہنا ہے کہ آسمان ”کے مسائل کا تعلق تمام تر دنیوی تجربی علوم سے ہے ۔“

            مگر یہ بات پورے طور پر اِس لیے درست نہیں کہ” آسمان کے متعلق نصوص: (قرآن و حدیث) نے خبر دی ہے کہ ہم سے جہت ِفوق میں (بلندی پر) سات اجسام عظام ہیں، کہ اُن کو آسمان کہتے ہیں۔اب اگر اِس نظر آنے والے نیل گوں خیمہ کے سبب وہ ہم کو نظرنہ آتے ہوں،تو“ جس طرح یہ لازم نہیں کہ” صرف محسوس نہ ہونے سے اُن کے وقوع(اور وجود) کی نفی کردی جاوے۔“اُسی طرح بغیر کسی عقلی و شرعی مجبوری کے ظاہر معنی سے عدول کر کے ” اور طریقوں سے“ تفسیر کرنا،بھی درست نہیں اور ایسا کرناگویافطرت پرستوں کے خیالات کی ہم نوائی کرنا ہے۔          

            ۱۴:”بڑے سے بڑے صناع کا کمال بجز اِس کے کیا ہے کہ اُس نے نظام تکوینی کے ضابطوں اور قاعدوں کی مزاج شناسی میں کمال پیدا کر لیا ہے۔اور مسبب الاسباب میں وہ دوسروں سے بڑھ کر بندہٴ قانت ہے۔“

( محقق عبد الماجد دریا بادی: تفسیر ماجدی ،جلد ۱ ص ۲۲۷،۲۰۰۸ ء )

            واضح رہے کہ اِسی ”نظام تکوینی کے ضابطوں اور قاعدوں کی مزاج شناسی میں کمال“کو سر سید احمد خاں”قانونِ قدرت“، ”نیچر“،”نیچری“،”نیچرلسٹ “اور ”مقدس“کے محاوروں کے پیرایہ میں دیکھتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ:

            ”کسی نے خدا کو اور کسی طرح نہیں جانا،اگر جانا تو نیچر ہی سے جانا،موسی نے ربِّ اَرِنِیْ کے جواب میں کیا سنا:”لَنْ تَرَانِیْ و لٰکِن ِانظُرْ اِلی الْجَبَل ِ ْ“پہاڑ پر کیا تھا،وہی نیچر قانونِ قدرت کا نمونہ کا نمونہ تھا…“

            سر سید اِسی نیچریت زدہ عالموں پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

            ”اِن ہی عالموں میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اُنہوں نے جس قدر زیادہ نیچر کی اور اُس کے قوانین کی تحقیقات کی ،اُسی قدر اُس کو ایسی ترتیب اور ایسی مناسبت اور ایسے نظام سے پا یا جس سے وہ حیران رہ گئے اور اُنہوں نے یقین کیا کہ یہ سب چیزیں آپ ہی آپ ایسی عمدگی سے نہیں ہو سکتیں۔بے شک اُن کو کسی بڑے کاریگر نے سمجھ بوجھ کر بنایا ہے۔

            اُنہوں نے اُس علة العلل کا جس کی یہ سب چیزیں معلول ہیں،یا نیچر کے قوانین بتانے والے کا، یااِن سب چیزوں کے پیدا کرنے والے کا،یااُس کا جس کو ہم خدا کہتے ہیں اقرار کیا اورب ٹھیک وہی رستہ چلے جو”آور کلدانیان “کے رہنے والے ایک نوجوان نے -جس کو ابراہیم کہتے ہیں-اِختیار کیا تھا۔یہی لوگ مذہبی خیال سے نیچرلسٹ ہیں۔وہ خود بھی مقدس ہیں اور وہ لفظ بھی مقدس ہے۔“

 (سر سید اور حالی کا نظریہٴ فطرت ۲۷۲تا۲۷۴بہ حوالہ مقالات سر سید حصہ یازدہم ص۱۵۵،۱۵۶ ،۱۹۹۰ء)

            سر سید کے ہی سُر میں سُر ملا کر اِن مقدسین کا تعارف ڈاکٹر ہارون یحیٰ نے اِس طرح کرایا ہے:

            ”جو لوگ سائنسی تحقیق کے لیے عقل وشعور کو استعمال میں لاتے ہیں اُن کا ایمان مزید پختہ ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو زیادہ قریب سے دیکھتے ہیں۔اس لیے کہ وہ اپنی جستجو اور تحقیق کے ہر قدم پر ایک بے خطا اور کامل ترین نظام کو نہایت قریب پاتے ہیں۔ ہر ہر لمحے اُن پر لطیف تر نقاط منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے حصول علم کے لیے نکلا ہوا آدمی جب تک واپس نہیں آ جاتا اس کا یہ سارا عرصہ عبادت میں شمار ہوتا ہے ۔“

            جی ہاں، جن کی غرض محض تحصیل دنیااور حاصلِ کاوش مقصودیتِ آخرت سے انکارکی روش رکھنے والوں کے متعلق لکھتے ہیں: ”اس طرح صاحب ایمان سائنسداں کو اپنے تحقیقی کاموں پر خدا کی طرف سے گرانقدر ثواب ملتا ہے۔“

(قرآن رہنمائے سائنس ص ۱۵)

            ڈاکٹر صاحب اُن منکرینِ نبوت کوبھی نجات کا مستحق جانتے ہیں جو کم از کم آئن سٹائن، کیپلر اور نیوٹن کی کاوشوں کی تقلید تو کریں جنہوں نے ” علائق دنیا سے الگ تھلگ رہ کر سالہا سال محنت کر کے فلکیات،میکانیات سے متعلقہ معلومات کے الجھا وے کو دور کیا۔“

            جی ہاں،یہ تصوراتی چیز نہیں ہے۔موصوف نے راجر بیکن (۱۲۲۰تا۱۲۹۲ ء) گلیلیو (۱۵۶۴ تا ۱۶۴۲ء) کیپلر(۱۵۷۱ تا ۱۶۳۰ء) نیوٹن( ۱۶۴۲ تا ۱۶۲۷ء) لوئی پاسچر (۱۸۲۲ تا ۸۹۵ء) سر جیمس جنیز (۱۸۷۷ تا ۱۸۴۶ء) البرٹ آئن سٹائن (۱۸۷۹ تا ۱۹۵۵ء) میکس پلانک ۱۸۵۸۳ تا ۱۹۴۷ء) وغیرہ بہت سارے سائنس دانوں کا ذکر اسی مذکورہ اصول کے تحت کر ڈالا ہے، جو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان ، اسلام کے عقائد اور تعلیمات کو نجاتِ اخروی میں غیر ضروری سمجھتے ہیں؛لیکن یہ سب ڈاکٹر ہا رون یحیٰ کے نزدیک خدا کے ہاں قرب و منزلت او راجر کے مستحق ہیں۔ ( دیکھیے:ڈاکٹر ہارون یحیٰ:” قرآن رہنمائے سائنس“ ص ۱۴۹ تا ۷ ۲۳)

            ۱۵:اِسارتِ سائنس کا یہ بھی ایک نمونہ ہے جسے تفسیر ماجدی میں ذکر کیا گیا ہے کہ فرشتوں کے شرعی مضمون کی تفہیم معاصر سائنسی اصطلاح میں کر دی:

 ”فرشتے اور ”نوری زنجیریں“،یہ محض اِصطلاحیں ہیں مذہب کی۔اہلِ سائنس اِنہی حقیقتوں کو اپنی اصطلاحوں میں”قانونِ فطرت“،”قوتِ کشش“وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔“

(تفسیر ماجدی جلد ہفتم ص۲۷۲ادارہ تحقیقات و نشریات اسلام لکھنوٴ ۲۰۱۳)

             اِن دو سطروں میں کہی گئی یہ بات کوئی ایک سادہ بات نہیں ہے۔اِس کا پس منظریہ ہے کہ یورپ میں” نشاة ثانیہ اور اصلاحِ مذہب کی جب بنا ڈالی گئی ،تو علوم و فنون کے ما بعدالطبیعاتی پہلو ٴوں کونظر انداز کر دیا گیا۔اور اُن کو صرف دنیاوی مفاد اور بہبود کا وسیلہ بنایا گیا۔ معاشرے میں روحانی ا ور دینی عقائد کی جگہ ایک نئی اور جدا گانہ لہر دوڑا دی (گئی )جس کی بنیاد … انسان پرستی پر قائم تھی“؛مگر” اِن رجحانات کے باوجودفطرت یا کائنات کے بارے میں سولہویں صدی میں جو تصور یا مفروضے تھے،اُن میں موجوداتِ عالم کے ایک نئے سلسلے اور زنجیر میں ایک ایک کڑی کی مدد سے درجات اور اہمیت کا پاس رکھتے ہوئے منسلک ہو ناایک نمایاں جزو تھا۔اس زنجیر‘کے اِستعارہ کی طرف پوپ نے بھی ’زندگی کی ایک بڑی زنجیرکہہ کر اپنی مشہور نظم Essay on Manمیں اِشارہ کیا ہے۔‘ ‘

(ڈاکٹر ظفر حسن:”سر سید اور حالی کا نظریہٴ فطرت“:ص۱۵۰،۱۵۱)

            سترہویں صدی عیسوی میں گلیلیو،سر والٹر رالے اور ڈیکارٹ کے زیر اثر ظاہر ہونے والے سائنسی نظریوں کے ساتھ عقل پرستوں کو بہت فروغ ہوااور”فطرت کا قانون مذہبی رشتوں سے دور ہوتا چلا گیا“اور یہیں سے” انسان کی مادہ پرستی کی طرف رغبت کا آغاز ہوتا ہے“۔

             فطرت پرستی کی جو بنیادیں سترہویں صدی میں رکھی گئی تھیں،(وہ اٹھارہویں صدی میں) بینتھم کی اِفادیت پسندی،والٹیئر کی (نئی)خدا پرستی، موٹس کیو کی مذہب سے فراریت اور پھر روسواورورڈز ورتھ کے توسط سے رومانی تحریکات،نظریات اور مفروضوں کا پیش خیمہ بنیں۔اِس دور میں”( آزاد) اخلاقیات پر زور بڑھتا گیااورما بعد اطبیعاتی علوم ختم ہوتے گئے“اور ایک فطری مذہب کی تلاش شروع ہو گئی ،جس کی بنیاد وحی پر نہیں؛بلکہ قانونِ فطرت کے چند آسان اور سادہ اصولوں پر ہو۔

(ڈاکٹر ظفر حسن:”سر سید اور حالی کا نظریہٴ فطرت“:ص۱۶۷،۲۵۹،۲۶۰)

             اٹھارہویں صدی کے اِنہی خیالات ،رجحانات ،نظریوں اور مفروضوں پر انیسویں صدی کا قانونِ فطرت پروان چڑھا اور سر سید وغیرہ نے اپنے مذہبی ،سیاسی،اخلاقی ،علمی،ادبی،تعلیمی اور معاشرتی پروگراموں کی بنیاد رکھی۔

            انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے ہاں ’فطرت‘اور اُس کا قانون کا مطلب یہ تھا کہ ”کائنات کا ایک جامع و مانع نظام ہے جو چند میکانکی و طبیعاتی اصولوں کے تحت وجود رکھتا ہے جس میں ہر حرکت اور فعل مستقل اور یکساں طور پر قائم ہے۔“(ص۲۷۶)

             تفصیلی حقیقت جاننے کے لیے ڈاکٹر ظفر حسن کی کتاب ”سر سید اور حالی کا نظریہٴ فطرت “کے پانچویں اور چھٹے باب کا مطالعہ کیا جائے ،تو اِس موضوع پر زیادہ بہتر حقیقت سامنے آ جائے گی۔اب اِس بہت مختصرط ،نہایت اِجمالی پس منظر میں:”فرشتے اور ”نوری زنجیریں“،یہ محض اِصطلاحیں ہیں مذہب کی۔اہلِ سائنس اِنہی حقیقتوں کو اپنی اصطلاحوں میں”قانونِ فطرت“،”قوتِ کشش“وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔“کی بات سے یہ اندازہ تو ضرور ہو تا ہے کہ مفسرمحقق عبدا لماجد دریا بادی بغیر پتے کی کوئی بات نہیں کہتے۔مگر فی زمانہ توفرشتوں سے متعلق قائم کردہ عنصر اثیر کا افلاطونی،ارسطوی،یہودِ اسکندریہ کے نو فلاطونی تصور سے ماخوذعیسائیوں کا کائنات کی جملہ مخلوقات کی تشکیل کے لیے چاند سے نیچے کے کثیف عناصر اربعہ اور چاند سے اوپر کی ہوائے لطیف (عنصر اثیر)سے فرشتوں کی تشکیل کو تو سائنسی قانونِ فطرت کے تصور نے تہ و بالا کر کے رکھ دیا،توشریعتِ اسلامی میں جس طرح ملائکہ کا وجودنصوص و اِجماع سے ثابت ہے،قانونِ فطرت میں اُس کے کھپنے کی کہاں گنجائش ہے ،سائنسی قانونِ کشش اور فطرت توغیر محسوس اور غیر مشاہد حقائق کی ہی منکر ہے۔