سائنسی اعتبارسے ترقی یافتہ اکیسویں صدی اور اس میں زندگی

سائنسی اعتبارسے ترقی یافتہ اکیسویں صدی اور اس میں زندگی

 بسر کرنے والے بے رحم انسان اور جھوٹا میڈیا

 مسلمانوں کی خدمت میں دو انتہائی ضروری تجاویز

حذیفہ وستانوی #

            غزہ العزہ پر بموں کی بارش کو ۲/ مہینے ہوچکے ۔ہزاروں بے گناہوں کو قتل کیا گیا ہے جن میں اکثر بچے عورتیں یہاں تک کہ نومولود اور طبی عملہ کو بھی نہیں بخشا گیا ہے۔ ہزاروں گھر ،دسیوں اسکول، مدرسے اور یونیورسٹیاں یہاں تک کہ ہسپتالوں کو بھی نہیں نشانہ بنایا گیا ہے ۔کئی ہسپتال اپنے ڈاکٹروں نرسوں زیر علاج مریضوں بلکہ ان کی عیادت کے لیے آئے ہوئے رشتہ داروں سمیت ملبے کے ڈھیر میں موت کے حوالے ہوگئے۔ اپنی زمین، اپنا ملک اوراپنے مقدسات سب کچھ اپنا اس کے باوجود طاقت میں مست ملعون اسرائیل ؛ جس کے ساتھ جھوٹے ساہوکار امریکہ ،برطانیہ، جرمنی اوریورپ سب کھڑے ہیں؛ بلکہ منافق مسلم حکمران بھی ان کے ساتھ ہیں۔ کیسی بے ضمیری ہے کہ کوئی آگے آنے کو تیار نہیں؟

 جھوٹا میڈیا :

            بائڈن کذاب نے اسرائیل کو مزید شہ دی اور کہا کہ حماس نے۰۰ ۳/ بچوں کے سر قلم کردیے۔ بالکل جھوٹ ہے اور انٹرنیشنل میڈیا نے اسے خوب چلایا ۔اس جھوٹی خبر کو پھیلانے میں امریکہ انڈیا کی میڈیا کا سب سے بڑا رول رہا ہے جیسا کہ” الجزیرہ “نے اپنی رپورٹ میں واضح کیاہے ۔سراسر بے بنیاد جھوٹی خبر کو عام کرنے میں میڈیا کا سب سے بڑا رول اسرائیل اگر جھوٹ بولے تو یہ کوئی نئی بات نہیں؟! قرآن نے کہا ہے:﴿سَمّٰعُونَ لِلْکَذِبِ أَکَّالُونَ لِلسُّحْتِ ﴾ بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور

            سابقہ آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی عوام تھی ،جو پادریوں اور سرداروں کے جھوٹ سن کر اس پر عمل کرتے تھے اور اِس آیت میں جھوٹ سننے والوں سے مراد یہودی حکمران اور پادری ہیں، جو رشوتیں لے کر حرام کو حلال کرتے اور شریعت کے احکام کو بدل دیتے تھے۔

﴿وَمِنَ الَّذِینَ ہَادُوا سَمّٰعُونَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِینَ﴾

            یہاں سے یہودیوں کا کردار بیان کیا گیا کہ وہ اپنے سرداروں کا جھوٹ خوب سنتے ہیں اور ان کے اِفتراؤں کو قبول کرتے ہیں تو جھوٹ اور پروپیگنڈہ تو یہود بے بہبود کا شعار ہے اورآج کا میڈیا بھی انہی کا زرخرید غلام ہے۔

            #…حق اور سچ چھپانا اور دبانا یہ بھی ان کی عادت مستمرہ ہے۔

            #…مسلمان حکمران صرف بیان بازی ہی کرتے رہیں گے؟

            #…عوام صرف احتجاج ہی کرتے رہیں گے؟

            #…امن امن کا صرف بول بچن ہی ہوگا کہ عملی اقدام بھی ہوگا؟

            #…سائنس اور ٹیکنالوجی انسان کو راحت پہنچا نے کے لیے ہر طرح کے سامان بنانے میں مصروفِ عمل ہے۔ سیاست داں امن و امان کے لیے قوانین وضع کرنے میں، ادیب اور قلمکار شانتی پر مقالات اور آرٹیکلز لکھنے اور کانفرنسوں میں اسے پیش کرنے میں، آرگنائزر سلامتی اور امن پر قراردادیں مرتب کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ ہے کوئی جو پریکٹیکلی اور عملی طور پر یہ سب کچھ کرکے بتائے؟

            #…ہے کوئی جو بچوں اور عورتوں کے قتل کو روکے؟

            میڈیا حقائق کی پردہ پوشی کرنے کے بجائے یہ بتائے کہ کس طرح بزدل اسرائیلی فوج حماس کے مجاہدین سے آمنے سامنے لڑنے کے بجائے کمزور اور نہتے لوگوں پر بم برسا کر ظلم کی انتہاکررہی ہے اور بتائے دنیا کو کہ کس طرح چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ان حملوں کے زد میںآ رہے ہیں۔

            دس ہزار سے زائد زخمی افراد کی چیخ و پکار ان کا درد کوئی سننے اور بتانے کو تیار نہیں، جو ان چیزوں کو کوریج کررہے ہیں ان کے اکاؤنٹ بند کردیے جاتے ہیں!

            اہل غزہ العزہ بے گھر بے سہارا بے یار و مددگار ہیں، نہ کھانے پینے کی اشیا ہے نہ سر پر چھت۔ اوپر سے خوف و ہراس۔

            وہ تو ایمان کی قوت ہے جو وہ یہ صبر کررہے ہیں۔فلسطین کے پڑوسی مسلمان ممالک سورہے ہیں۔

            مصر، لبنان، ایران ،عراق اورسوریا؛ ان کی سرحدیں فلسطین سے ملی ہوئی ہیں اگر چاہے تو بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ مگر﴿ الیس منکم رجل رشید ﴾کیا تم میں کوئی ایک آدمی بھی نیک کردار والا نہیں؟

            آزادی اور حقوق انسانی کے ٹھیکیدار کہاں ہیں؟

            کہاں ہیں حقوق انسانی کے ادارے؟ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے، آنکھوں پر پٹیاں ڈال لی ہیں اور تعصب کا چشمہ لگا لیا ہے۔کوئی بات نہیں!! آج اگر ہمارے یہ مظلوم فلسطینی احباب ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں تو کل اللہ کی عدالت میں سب کو جواب دینا ہوگا، جو ظلم کررہے ہیں انہیں بھی، جو خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، انہیں بھی۔ وہاں جواب بھی دینا ہوگا اور سزا بھی پانا یقینی ہے۔

مسلمانوں کی خدمت میں دو انتہائی ضروری تجاویز:

            اخیر میں مسلمانوں سے دو گزارش۔ گناہوں سے اللہ کی مدد رک جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ امت کے اجتماعی طور پر گناہوں کا بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ اللہ کی مدد رک جاتی ہے ،جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا:

            انکم لا تغلبون عدوکم بعدد و لا عدة و لکن تغلبونہم بہذا الدین فإذا استویتم انتم و عدوکم فی الذنوب کانت الغلبة لہم۔

            تم اپنے دشمن پر اپنی تعداد اور بھرپور جنگی تیاری سے غالب نہیں آتے ہو ،بلکہ دین اسلام کی برکت سے غلبہ ملتا ہے؛ لہذا تم اور تمہارے دشمن گناہ میں برابر سرابر ہوگئے تو دشمن کو غلبہ ملے گا۔

            اب ذرا ہم اپنی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو سب صغیرہ نہیں کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہیں۔ مرد، عورت، جوان، بوڑھے سبھی بد نگاہی، بد زبانی، بد اخلاق ،بد اعمالی ،بد کرداری، سود خوری ،رشوت ستانی، خیانت واذیت ؛ان میں سے کون سا گناہ ہے، جس سے ہم بچتے ہوں۔

            جب تک ہم دین سیکھ کر گناہوں سے توبہ نہیں کرتے، ہوسکتا ہے مدد میں مزید تاخیر ہوجائے۔ خدا را! سب مل کر گناہوں کو چھوڑنے کا عزم کیجیے !امر بالمعروف نہی عن المنکر کیجیے۔

 ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کلی بائیکاٹ وقت کی اہم ضرورت:

            دوسری بات کلی طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں سے پوری زندگی کے لیے بائیکاٹ کیجیے اور متحد ہو کر مسلمان معاشرے کی ضرورت کے سامان ہم خود بنائیں اور اسی کو استعمال کریں ۔فضول عادتوں سے اپنے آپ کو بچائیں، تعلیم و تربیت کی جانب خصوصی توجہ دیں، نماز، تلاوت اوردعا کا اہتمام کریں، آپس میں محبت سے رہیں، لڑائی جھگڑے، اختلاف سے پرہیز کریں ،زبان اور خواہشات پر کنٹرول کریں۔

            اللہ غزة العزہ کے مسلمان کی مدد فرمائے۔