رہے گا ساتھ تمہاری یاد کا سایہ

             رفیق محترم حضرت مولانا عبد اللہ ابن مولانا سلیمان جھانجھی کی غیر متوقع رحلت نے قلب و دماغ پر گہرا اثر کیا۔حضرت مولانا بیمار ہیں یہ تو اطلاع تھی؛لیکن وہ اتنی جلدی داغ فراق دے جائیں گے یہ متصور نہیں تھا۔اس حادثے نے دنیا کی بے ثباتی کے احساس کو اور تازہ کر دیا۔مولانا مرحوم کے ساتھ فلاح دارین ترکیسر کے زمانہٴ طالب علمی سے دوستانہ روابط قائم ہوئے ،جو ہمیشہ خوش گواری کے ساتھ برقرار رہے۔بندے نے مولانا کی ذات میں ہمیشہ ایک سخی و فیاض، کشادہ دست،ملنسار، علمادوست، محب مشایخ،خادم غربااورغم خوار مساکین شخصیت کا مشاہدہ کیا۔ اکابر ملت کو اپنی بستی میں مدعو کر کے عوام و خواص کو فیض یاب ہونے کا زریں موقع فراہم کرنا مولانا کا شیوہ تھا اور بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کا یہ انداز بطور خاص عوام میں اکابر و مشایخ کی محبت کے دلوں میں جا گزیں ہونے اور ان سے ربط و ضبط کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا موثر ذریعہ بنتا تھا۔افسوس کہ مولانا کے جنازے کے ساتھ وہ رونقیں بھی لد گئیں اور اگر یہ روٹھی بہار کبھی لوٹ کر بھی آئے تو بہ قول خواجہ مجذوب 

ہمیں کیا ، جو تربت پہ میلے رہیں گے

تہہ خاک ہم تو اکیلے رہیں گے

            یہ اندوہ ناک حادثہ جہاں ایک طرف مولانا مرحوم کی آل عیال کے لیے برق بے اماں ہے،وہیں دوسری طرف اس نے باشندگان رویدرا کو حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی،رویدروی کی وفات ناگہانی کا زخم بھرنے سے پہلے ایک اور زخم سے دوچار کر دیا ہے۔اس موقع پر ہم مولانا کے جمیع متعلقین و لواحقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے اور اس کرب ناک صدمے کی چوٹ میں اپنے آپ کو ان کا شریک حال پاتے ہیں، باری تعالیٰ سب کے لیے اس زخم کو برداشت کرنا آسان اور خوئے تسلیم و رضا میں اضافے کا ذریعہ بنائے۔مولانا کے نیک عادات و اطوار اور اخلاق و اوصاف کو ان کے خاندان میں جاری و ساری فرمائے۔ آمین!

از:ایوب فلاحی،پانولی

خادم:جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ

۳۱/ذی الحجة ۱۴۴۱ھ

سہ شنبہ