جمع وترتیب:مفتی اویس رنجنی و مفتی عبد الشکورنائے گاؤںٰ
۵؍ مئی۲۰۲۵،بعدنمازِ مغرب ، جامعہ اکل کوا کے دینیات کی پرشکوہ عمارت کے وسیع میدان میں طلبہ اوراساتذہ کا ایک عظیم اجتماع تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ کرسی وزمین پر بیٹھے تھے، اورہرچہرہ غم، احترام اورعقیدت کی تصویربنا تھا۔ اس محفل کی قیادت خاندانِ وستانوی اوردیگر جلیل القدرعلما ودیگر حضرات کے ہاتھوں میں تھی، جو اسٹیج پرجلوہ افروز تھے۔ ان بزرگوں کی موجودگی نے محفل کو ایک خاص روحانیت اوروقار سے بھر دیا تھا۔ اس اجتماع میں ہرشخص کی نظریں انہیں حضرات کی طرف مرکوز تھیں، اور دلوں میں دعا اور مغفرت کے جذبات تھے۔
محفلِ تلاوت کا ایک روح پرور منظر :
محفل کا آغاز قاری محمد علی صاحب( داماد حضرت مولانا غلام صاحب وستانوی رحمۃ اللہ علیہ) کی دلنشین تلاوت سے ہوا۔ ان کی آواز میں ایک ایسی تاثیر تھی جس سے فوراً محفل کی فضا میں روحانیت گھل گئی۔ جیسے ہی انہوں نے تلاوت کی، محفل میں سکوت چھا گیا اورہردل میں عقیدت واحترام کی لہر دوڑ گئی۔ قاری صاحب کی آواز کی پرزورگونج نے حاضرین کے دلوں کو مسحورکردیا، اوریہ لمحہ ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت ٹھہرسا گیا ہو۔ ان کی تلاوت نے محفل کی روحانیت میں ایک نئی جان ڈال دی۔
محفل کی نظامت مولانا بنیامین صاحب وستانوی اورمولانا صادق صاحب اشاعتی نہایت پروقاراندازمیں انجام دے رہے تھے۔ نظامت کے دوران مولانا بنیامین صاحب نے جامعہ کے مؤقراستاذ، ماہرِادبِ عربی حضرت مولانا عبدالرحمن ملی ندوی صاحب کو خطاب کی دعوت دی۔
اخلاصِ نیت اور رجال سازی: حضرت مولانا غلام وستانویؒ کا عملی نمونہ:
حضرت نے اپنے معروف ولولہ انگیز انداز میں فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً}(الملک:۲) الحمدللہ!یہاں علما، مفسرین، اہلِ علم حضرات تشریف فرما ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف عمل کا مطالبہ نہیں فرمایا،بل کہ احسانِ عمل مطلوب ہے ۔عمل میں حسن، نیت میں صفائی، اور اخلاص کا جذبہ۔‘‘
انہوں نے مزید فرمایا:
’’میرے بھائیو!جتنی نیت میں پاکیزگی ہوگی، اتنا ہی عبادت میں طاقت آئے گی۔ عبادت میں اثر، اعمال میں توانائی، اوردینی سرگرمیوں میں جوش اگر مطلوب ہے تو پہلے نیتوں میں اخلاص پیدا کیجیے۔ الحمدللہ!بندہ نے حضرت مولانا غلام وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تدریسی زندگی کو جامعہ میں قریب سے دیکھا ہے۔ اُن میں ایک عجیب للہیت، بے مثال اخلاص، اور جذبۂ عمل نمایاں تھا۔‘‘
مولانا نے دو عظیم صفات کی نشان دہی کی جو حضرتؒ کی شخصیت کا خاصہ تھیں:
اوّل،’’رجال سازی‘‘ :مستقبل کے کارکنوں اور قائدین کی تربیت و تشکیل۔
دوم،’’ مردم شناسی‘‘۔افراد کی صلاحیتوں کو پہچاننا اورانہیں ان کے مناسب مقام پررکھنا۔
’’حضرت رئیس الجامعہؒ دور سے پہچان لیتے تھے کہ کون کس صلاحیت کا مالک ہے، اور فوری طور پر اُس کی تربیت و راہ نمائی کا اہتمام کرتے تھے۔‘‘
مولانا نے مزید فرمایا:
’’ایسے اہتمام کو کوئی۴۰، ۴۵ سال تک سنبھالنا معمولی بات نہیں۔ ہم نے بہتوں کو دیکھا، مگر اللہ تعالیٰ جنہیں توفیق اور مقام عطا فرماتا ہے، انہی کی مدد فرماتا ہے۔ حضرتؒ ان ہی منتخب بندوں میں سے تھے، جورات کی تنہائیوں آہ وسحرگاہی میں اللہ کوراضی کرتے، اوردن میں اسباب و وسائل اختیار کرتے۔یہی انبیا واولیاکی سنت ہے۔‘‘
آخر میں مولانا نے فرمایا:
’’آج ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال میں اخلاص، حسن اوراللہ کی رضا کا جذبہ پیدا کریں۔ ان شاء اللہ! اگر ہم حضرتؒ کے بتائے ہوئے طریقوں پرچلیں، تو کامیابی و مقبولیت ہماری منتظر ہوگی۔‘‘
مولانا عبدالرحمن ملی ندوی کے بصیرت افروز خطاب کے بعد، مولانا بنیامین صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم، حضرت مولانا راشد صاحب کودعوتِ خطاب دی۔
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے( مولانا غلام وستانویؒ کی ہمہ جہت شخصیت):
حضرت نے نہایت وقاراور سنجیدگی کے ساتھ خطبۂ مسنونہ ادا کرنے کے بعد فرمایا:
’’میں نے آپ کے سامنے دو حدیثیں پیش کیں۔ پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’المؤمنُ یألَفُ ویُؤلَفُ ‘‘(رواہ الطبرانی ) مومن وہ ہوتا ہے، جس سے لوگ مانوس ہوں اوروہ لوگوں سے مانوس ہو۔‘‘
حضرت نے فرمایا:
’’مولانا غلام وستانوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے زندہ وتابندہ مصداق تھے۔ ان کے پاس امیر آئے یا غریب، عالم آئے یا طالب علم، ہرایک کو محبت سے ملتے، ہرایک کی دل جوئی کرتے، اور کسی کو مایوس واپس نہ لوٹاتے۔ ان کی مجلس میں آنے والا، خواہ کوئی ہو، ان سے مانوس ہوجاتا، جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ وہ سراپا شفقت ومحبت تھے۔‘‘
مولانا ارشد صاحب نے مزید فرمایا:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’خیرُ الناسِ مَن ینفَعُ الناس‘‘(رواہ الطبرانی)لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔ میرے نزدیک حضرت مولانا وستانویؒ ملک بھر میں لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں صفِ اوّل کے فرد تھے۔ جو بھی ان کے پاس کوئی ضرورت لے کر آتا، وہ پوری کوشش سے اسے پورا کرتے۔ ملنے والے سے ہمیشہ تبسم کے ساتھ پیش آتے، جو کہ خود سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ان کی یہی ادائیں دلوں کو چھو جاتی تھیں۔‘‘
حضرت نے فرمایا:
’’دوردراز سے کوئی طالب علم آتا، تو بلا تاخیر داخلہ دے دیا جاتا۔ وہ اپنے شیخ حضرت قاری صدیق احمد صاحبؒ کے پرتو تھے۔ کبھی کسی طالب علم کاجلدی اخراج نہیں کرتے تھے، اورجو استاذ آتا، وہ زندگی بھریہیں کا ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اسی سرزمین میں اس کی آخری آرام گاہ بنتی۔‘‘
قرآنِ کریم کی خدمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’مولانا وستانویؒ نے قرآن کی تعلیم کو ملک کے چپے چپے تک پہنچایا۔ ہرجگہ مدرسے قائم کیے، جہاں بہترین انداز میں قرآن پڑھایا جا رہا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں خادمِ قرآن تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کا حشر خدامِ قرآن کے ساتھ فرمائے، اور ان کی انمول خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے حضرت کی آواز میں رقت اوردارالعلوم یوبند کا درد نمایاں تھا:
’’پورا دارالعلوم دیوبند سوگوار ہے۔ مہتمم صاحب، اساتذہ کرام اورطلبہ غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جب حضرت دیوبند تشریف لاتے تھے تو گویا جامعہ میں ایک بہار آ جاتی تھی۔ ملاقات کے لیے رش لگ جاتا تھا۔ آج ہم دارالعلوم کی جانب سے، تمام اساتذہ و طلبہ کی طرف سے، حضرت کے خانوادے کی خدمت میں تعزیت ِمسنونہ پیش کرتے ہیں۔‘‘
آخر میں حضرت نے فرمایا:
’’وہ ایک تاریخی شخصیت تھے۔ ان کا فیض صرف ہندوستان تک محدود نہ تھا، بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں ان کے تربیت یافتہ افراد دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آغاز میں سخت مجاہدات اوردشوارحالات سے گزرے، مگر صبر و تحمل کے ساتھ اللہ نے ان سے عظیم الشان کام لیا۔‘‘
اورپھرانہوں نے ایک شعر کے ذریعے اپنی بات مکمل کی:
بہت لگتا ہے جی صحبت میں ان کی
وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے
جان کر من جملۂ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
مجمع کا حال یہ تھا کہ سب کے سب ساکت و صامت، ٹک ٹکی باندھے، حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب کوسن رہے تھے۔ فضا میں ایک سکوت اورروحانیت کی لہر دوڑرہی تھی، اورہردل پرایک خاص کیفیت طاری تھی۔اسی بیچ، مولانا بنیامین صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاذ، حضرت مولانا مزمل صاحب دامت برکاتہم کو تعزیتی کلمات اور اپنے احساسات کو پیش کرنے کی دعوت دی۔
حضرت نے نہایت درد مندانہ اوررقت آمیز لہجے میں حضرت وستانویؒ کی حیاتِ مبارکہ کے چند روشن واقعات ذکر کیے، جنہوں نے مجمع کے قلوب کو جھنجھوڑکررکھ دیا۔انہوں نے خطبۂ مسنونہ کے بعد ایک حدیثِ نبوی سے اپنے کلام کا آغاز فرمایا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صدقۂ جاریہ، علم نافع، اور صالح نسل کا روشن نمونہ: حضرت مولانا غلام وستانویؒ:
’’اذا مات الاِنسان انقطع عنه عمله اِلاَّ من ثلاث: صدقة جاریة، أو علمٍ یُنتفع به، أو ولدٍ صالحٍ یدعو له‘‘(رواہ مسلم)جب انسان وفات پاتا ہے تواس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقۂ جاریہ، نفع رساں علم اورنیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘
حضرت نے نہایت پُراثرانداز میں فرمایا:
’’اگر اس حدیثِ مبارکہ کا کوئی کامل اورزندہ مصداق ہمارے زمانے میں ہے، تو وہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات ہے۔‘‘
صدقہ ٔجاریہ کا عملی نمونہ دیکھنا ہوتو ملک بھر میں قائم وہ درجنوں ادارے، مساجد، مکانات، رفاہی کام، غریبوں و یتیموں کی سرپرستی –سب کچھ حضرت کی زندگی کا ایسا ورثہ ہے، جو ان کے بعد بھی جاری و ساری ہے۔
نیک اولاد کی مثال چاہیے توحضرت کے دو فاضل صاحبزادگان کو دیکھیے، جو نہ صرف علمی اورانتظامی اعتبار سے درخشاں ہیں ؛بل کہ اپنے والد محترم کے مشن کو پوری وفاداری سے آگے بڑھا رہے ہیں، اوردن رات دعاؤں میں حضرت کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
اورعلم نافع کی جھلک چاہیے توان ہزارہا علما، حفاظ، مفتیانِ کرام اورمدرسین کو دیکھیے، جنہیں حضرت نے براہِ راست یا بالواسطہ تیارفرمایا، اورجن کے ذریعے دنیا بھرمیں علم ودین کی روشنی پھیل رہی ہے۔
پھر مولانا نے اپنے طالب علمی کے ایک واقعے کا تذکرہ بڑے جذباتی انداز میں فرمایا:
’’۱۹۹۹ء کی بات ہے، جب حضرت دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ میں اس وقت ’’النادی العربی‘‘ کا معتمد تھا۔ سالانہ اجلاس کے مہمانِ خصوصی کے طورپرہم نے حضرت کا نام تجویز کیا۔ پی سی او سے حضرت کے گھرفون کیا، طالب علمی کے لہجے میں سیدھے عرض کر دیا کہ آپ ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں۔ حضرت نے بغیر کسی تردد کے فرمایا: تاریخ مجھے نوٹ کرا دو، میں حاضر ہو جاؤں گا۔ اورواقعی، وہ تشریف لائے، پورے پروگرام میں مکمل ڈھائی گھنٹے شریک رہے۔اورپروگرام کے بعد میرے ساتھ احاطۂ مولسری میں ہاتھ تھام کرگھومے۔ میں، ایک ادنیٰ طالب علم، اور یہ بلند حوصلہ افزائی ،اسے لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔‘‘
پھر ایک اور واقعہ بیان فرمایا:
’’بابلی رام پورم میں، جہاں میں تدریس سے وابستہ تھا، حضرت کے داماد سید حبیب مدنی بھی کام کرتے تھے۔ حضرت کئی بارتشریف لائے، اُس وقت وہاں اکیس مدرسے تھے۔ سب حضرت کو مدعو کرنا چاہتے تھے۔ وقت اور طبیعت کے لحاظ سے ہم تذبذب میں تھے، لیکن حضرت نے کہا:میری طاقت ہی مدرسہ ہے ،مدرسہ کو دیکھنے سے میں تھکتا نہیں ،بل کہ میری تھکان دور ہوتی ہے۔ میں ہرمدرسے میں جاؤں گا۔ ظہر سے رات گیارہ بجے تک، سترہ مدارس میں تشریف لے گئے۔ جب آخر میں عرض کیا کہ چارمدارس باقی ہیں، تو فرمایا: انہیں بلالو، اگروہ راضی ہوں تواگلی باران کا حق ادا کروں گا اوروعدہ پورا فرمایا۔ اس سفر میں بارہا قاری صدیق احمد صاحبؒ کا ملفوظ دہراتے رہے:
’مچھلی کا دل پانی میں لگتا ہے، اورمولوی کا دل مدرسے میں لگتا ہے‘
فرمایا:’’ ہم مدرسے میں نہیں جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟‘‘
اختتام پرمولانا مزمل صاحب نے کہا:
’’یہ واقعات میرے ذہن و دل سے کبھی محونہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کواعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے، اوران کے اہلِ خانہ کو یہ حوصلہ دے کہ وہ حضرت کے مشن کو آگے بڑھاتے رہیں۔آمین ثم آمین!‘‘
اسی تسلسل میں حضرت کے داماد مولانا حبیب مدنی صاحب کو دعوت دی گئی۔
والذین جاھدوا فینا: ایک مردِ مومن کی زندہ تفسیر:
مولانا نے سورۂ عنکبوت کی آیت تلاوت فرمائی:’’{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا}(العنکبوت:۶۹)اورپھرفرمایا:{أَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِي الْأَرْضِ}(الرعد:۱۷)یعنی جوچیزلوگوں کو نفع دیتی ہے، وہی زمین پرباقی رہتی ہے۔حضرت کی زندگی کے چمکتے ابواب ہمارے سامنے ہیں، لیکن ان کے پیچھے جوانتھک محنت، قربانی، جفاکشی اور شب و روز کی بے پناہ کاوشیں تھیں، ان کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔آج اگرحضرت کے ادارے، طلبہ، قرآن کی تعلیم اورعلمی خوشبو پوری دنیا میں پھیل رہی ہے، تو یہ سب اسی بے مثال اخلاص و قربانی کا نتیجہ ہے۔اللہ رب العزت نے حضرت کی محنت کو چمکا دیا، ان کے مشن کو قبولیت عطا فرمائی اوران کے فکر وکردار کو امت کے لیے مشعل ِراہ بنا دیا۔
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، ان کے مشن کی حفاظت فرمائے، اورپسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔!‘‘
ابھی مجمع حضرت مولانا حبیب مدنی صاحب کے پُراثر بیان کی گونج سے سنبھلا بھی نہ تھا کہ مولانا بنیامین صاحب نے بڑی محبت سے مولانا خالد صاحب(حضرت مولانا کے چھوٹے داماد ) کودعوتِ کلام دی۔
نرمی، محبت اوردین کی خدمت، حضرت وستانویؒ کی زندگی کا پیغام:
مولانا خالد صاحب اسٹیج پرتشریف لائے اور نہایت سادہ مگرمؤثراندازمیں دل کی باتیں کہنا شروع کیں۔ فرمایا:’’{ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ}(اٰل عمران:۱۵۹)
’’اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بدولت آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کے لیے نرم دل ہو گئے اوراگرآپ بد مزاج اورسخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے منتشرہو جاتے۔‘‘
مولانا خالد صاحب نے فرمایا: کہ
’’ اللہ جب کسی بندے کو دین کی خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے، تو سب سے پہلے اس کے دل کو نرم کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقبولیت کا ایک بڑا راز یہی تھا کہ آپ کی طبیعت سراسر نرمی، محبت اور شفقت سے بھری ہوئی تھی۔ اور یہی وصف ہمارے حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمہ اللہ علیہ کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھا۔حضرت رحمہ اللہ نہایت نرم خو، خوش اخلاق اورہرایک سے خوش دلی سے پیش آنے والے شخص تھے۔ وہ ہر چھوٹے بڑے، عالم فاضل، فقیر اورعامی کوعزت دیتے، ان کی بات سنتے، ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے۔ ان کے اسی اخلاق کی برکت تھی کہ ہر شخص خود کو حضرت سے قریب محسوس کرتا، اوریہی قربت ہی حضرت کی مقبولیت کی اصل بنیاد تھی۔‘‘
مولانا خالد صاحب نے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی ذکر فرمائی:
’’اے عائشہ!نرمی اختیارکرو، اللہ تعالیٰ رفیق (نرمی والا)ہے اورنرمی کوپسند فرماتا ہے، اورنرمی کے بدلے وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی سے نہیں عطا فرماتا۔‘‘(رواہ مسلم)
انہوں نے فرمایا کہ
’’کتنے ہی اہلِ علم ایسے ہیں جوعلمی صلاحیت میں بدرجہا بلند ہوتے ہیں، لیکن اگران میں نرمی نہیں ہوتی تو ان سے وہ دینی خدمات نہیں لی جاتیں، جوایک نرم خواور مخلص عالم سے لی جاتی ہیں۔‘‘
آخر میں انہوں نے فرمایا: کہ
’’ اگر ہمیں حضرت کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا ہے، اوردین کی مؤثر خدمت انجام دینی ہے، تو حضرت کی زندگی سے سبق لے کر اپنے اندرنرمی، بردباری اورخلوص پیدا کرنا ہوگا۔ یہی وہ جوہر ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی خدمت کی کنجی ہے۔‘‘
شدت ِ انتظاراورگہرے جذبات کے پس منظر میں جب مولانا بنیامین صاحب نے حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا اویس صاحب کا نام پکارا، تو مجمع پرایک خاموشی سی چھاگئی۔ سب جانتے تھے کہ جو بات اب ہونے جا رہی ہے، وہ صرف الفاظ نہیں،بل کہ دل کا دریا ہوگا۔مولانا اویس صاحب نے جب مائک سنبھالا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، جسے دیکھ کر مجمع میں موجود ہر شخص حال می ہردل اس کیفیت میں ڈوبا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
ریاض الصالحین کا ایک عملی نمونہ: حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ:
انہوں نے فرمایا:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مؤمن کے جواوصاف بیان فرمائے ہیں، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واوصاف کوجس طرح بیان کیا ہے، میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ تمام اوصاف میں نے اپنے والدِ محترم حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ کی شخصیت میں پائے۔‘‘
انہوں نے بتایا :کہ
’’ حضرت نے حضرت مولانا عبداللہ صاحب کاپودرویؒ کی صحبت سے خوب استفادہ کیا، اورچونکہ وہ جامعہ فلاح دارین کے اولین طلبہ میں سے تھے، اس لیے انہوں نے ایک مدرسہ کی ابتدا، اس کی ترقی کواپنی آنکھوں سے دیکھا اورسیکھا ہے۔آپ نے فرمایا:’’جو کچھ میرے والد محترم نے کیا، وہ ان کے اساتذہ کی صحبت اوران کی دعاؤں کی برکت ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی ۲۹سالہ(آپ جب اکل کوا آئے تھے تو آپ کی عمر ۲۹ سال تھی) نوجوان ایک غیرمعروف علاقے میں اتنا بڑا تعلیمی اوررفاہی انقلاب برپا کر دے گا۔‘‘
مولانا اویس صاحب نے اپنے والد محترم کے اس وصف پر خاص طور سے روشنی ڈالی: کہ
’’ وہ ہر اچھی چیز کو سیکھنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ حتی کہ ہسپتال میں بھی اگر کوئی اچھی ترتیب یا نظم دیکھتے تو فوراً اسے سیکھنے اوراپنے نظام میں لانے کی بات کرتے۔ وہ حکمت کو مومن کا گمشدہ خزانہ سمجھ کر جہاں بھی ملتی، اپنایا کرتے۔‘‘
انہوں نے مزید فرمایا:
’’میرے والد نے تقریباً ۲۰۰؍ علمائے کرام کو خود خطوط لکھے اوران سے تعاون، مشورہ اور دعا کی درخواست کی۔ جنہوں نے صرف دعائیں ہی نہیں دیں، بل کہ اپنے مکمل وجود کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ والد محترم ہمیشہ فرمایا کرتے تھے:’’اپنے محسن کو کبھی مت بھولنا!‘‘
اختتام پرمولانا اویس صاحب وستانوی نے کہا:
’’اگرکوئی میرے والد محترم کے اخلاق و اوصاف دیکھنا چاہے تو ’’ریاض الصالحین‘‘ کی پوری کتاب کھول کر دیکھ لے، وہ تمام اوصاف میرے والد کی ذات میں مجسم نظر آئیں گے۔ وہ علمائے کرام کی بے حد قدر کرتے تھے، ان کا اکرام کرتے تھے، ان کی بات سنتے تھے اوران کے لیے اپنا دل ودماغ کھول دیتے تھے۔‘‘
اس پُرنورتعزیتی مجلس کا ایک خاص لمحہ وہ تھا جب حضرت وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے صاحبزادے مولانا حذیفہ صاحب کودعوت دی گئی۔ مجمع میں ہرآنکھ منتظر تھی کہ وہ اپنے والد محترم کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اُن کی آواز میں جورقت، سوزاوردرد تھا، وہ اُسی شخص کا حصہ ہو سکتا ہے جس کے عظیم والد ابھی ایک ہی دن پہلے دنیا سے رخصت ہوئے ہوں، اورجس کا دل صبر کے ساتھ تڑپتا ہو۔
میرے والد، میری رہنمائی کا چراغ:
مولانا حذیفہ صاحب نے فرمایا:
’’اللہ رب العزت نے میرے والد محترم کو جن خوبیوں سے آراستہ کیا، وہ خوبیاں آج کے زمانے میں خال خال ہی کسی شخصیت میں نظر آتی ہیں۔
پھر آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا:
’’الأنبیاء لم یورثوا دیناراً ولا درھماً، اِنَّما ورثوا العلم، فمن أخذہ أخذ بحظ وافر۔‘‘(سنن ابن ماجه)
اور فرمایا:
’’میرے والد نے اپنی میراث میں کوئی دولت نہیں چھوڑی، نہ کوئی پلاٹ، نہ کوئی مکان، کوئی بھی ایسی چیز نہیں چھوڑی جس کی تقسیم کی نوبت آئے۔ ہاں!اگر کچھ چھوڑا تو وہ علم، خدمت، دعا، تواضع اورامت کی بے لوث محبت تھی۔‘‘
انہوں نے ایک سفر کا واقعہ سنایا جس نے پورے مجمع کو جھنجھوڑ کررکھ دیا:
’’ایک مرتبہ ہم سفر میں تھے، گاڑی میں ڈیزل ڈلوانا تھا، ڈرائیور نے گاڑی روکی، پیسوں کی ضرورت ہوئی۔ والد صاحب نے فرمایا: ’’میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔‘‘ میں نے جیب ٹٹولی، میرے پاس بھی کچھ نہ نکلا۔ پھر میں نے اہلیہ سے پوچھا، توانہوں نے کہا: میرے پاس کچھ پیسے ہیں، میں دے دیتی ہوں۔ ہم نے وہ دے دیے۔ تھوڑی دیر بعد ابا جان فرمانے لگے: ’’مجھے بڑی خوشی ہوئی۔‘‘میں نے پوچھا:کس بات کی؟
فرمایا: ’’اس بات کی کہ میری اولادمیں بھی دنیا کی محبت نہیں۔‘‘
پھرفرمایا:’’والد صاحب نے ہماری تربیت ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرکی۔آپ فرمایا کرتے تھے: ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَاْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ-‘‘ (مشکوۃ المصابیح)دنیا کی محبت ہرگناہ کی جڑ ہے۔‘‘
حضرت کی نماز کی پابندی اور قرآن سے محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’والد صاحب کی زندگی میں اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ اہمیت تھی تو وہ نماز تھی۔
اکثر کہتے: ’’اِنَّ مِنْ اَھَمِّ اُمُوْرِکُمْ الصَّلَاۃ‘‘ ’’ تمہارے اہم ترین امورمیں نماز سب سے اہم ہے۔‘‘
پھرآپ نے والد صاحب کی بیماری اوروصال کے آخری لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:
’’اللہ کی قسم، میرے والد جیسا صابر شخص میری آنکھوں نے نہیں دیکھا۔ کبھی نہیں کہا کہ تکلیف ہے یا درد ہے۔ ہمیشہ کہا: الحمدللہ، اللہ کا شکر ہے۔آخری وقت میں جب بولنے کی طاقت نہیں رہی، تو ہم ذکرکرا رہے تھے، اور ابا بھی ہمارے ساتھ اللہ اللہ کررہے تھے۔ روح ایسی پرواز کر گئی کہ نہ آنکھ جھپکی، نہ بدن میں کوئی اضطراب۔ ایسی سکون بھری موت صرف خاص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔‘‘
آخر میں انہوں نے ایک ایسا جملہ کہا، جو حضرت کی پوری زندگی کا نچوڑ معلوم ہوتا ہے:
’’آپ نے فرمایا:جب کبھی والد صاحب سے آرام کی بات کی جاتی توفرماتے: ’’زمین پر کام ہے، نیچے (قبر میں) آرام ہی آرام ہے۔ کبھی کہا کرتے تھے: آرام حرام ہے، چھٹی کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے۔‘‘
حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی تعزیتی مجلس میں، حضرت کے بعد خطاب کے لیے حضرت کے دیرینہ رفیق اورجید عالم دین مولانا حبیب صاحب باندوی صاحب زادہ عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد باندوی رحمہ اللہ آپ حضرت وستانویؒ کے قریبی دوست، ہم نشین اورہم درد تھے۔
حضرت وستانویؒ،جن پراکابر نے فخر کیا:
مولانا حبیب صاحب دامت برکاتہم نے اپنی پرسوز گفتگو میں فرمایا:
’’حضرت وستانویؒ اساتذہ کے منظورِ نظر، بزرگوں کے محبوب اورسب کے معتمد ومعتبر تھے۔‘‘
ایک خاص بات انہوں نے حضرت کے اخلاص اور روحانی مقام پرروشنی ڈالتے ہوئے کہی:
’’میرے والد (قاری صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ)نے ایک موقع پرفرمایا تھا:
’’قیامت کے دن اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا لائے ہو؟ تومیں غلام محمد کو پیش کردوں گا۔‘‘یہ ایک عظیم گواہی تھی، ایک ایسے بزرگ کی زبانی جن کا شمار ہمارے بڑے اکابر میں ہوتا ہے اورجن کی بات سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
مزید فرمایا:
’’اخلاص کی برکت سے سب کچھ عطا ہوتا ہے۔ حضرت نے جتنا عظیم الشان کام انجام دیا، دنیا کی تاریخ میں اس جیسا کام کسی نے نہیں کیا۔‘‘پھر ایک نہایت بلیغ جملہ ارشاد فرمایا، جو دل کو چھو لینے والا تھا:’’حقیقی معنوں میں آپ مجدد تھے… دین کے مجدد۔‘‘
مولانا حبیب صاحب نے حضرت کے سوزوگداز، انسانیت سے تعلق اورفطری شفقت کا ذکر یوں کیا:
’’حضرت کی طبیعت میں ہمدردی کا مادہ کوٹ کوٹ کربھرا تھا۔ مخلوق کے ساتھ محبت، ان کے لیے ترس کھانا، یہ ان کے خاص اوصاف تھے۔ اوریہی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی نمایاں اوصاف ہیں۔‘‘
آخر میں کہا:
’’حضرت، حبِ جاں اور حبِ مال، یعنی جان و مال کی محبت سے بہت دور تھے۔ ان کے اندر ایک فطری زُہد و قناعت تھی جو آج کے دور میں نایاب ہے۔‘‘
حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پرمنعقد تعزیتی مجلس میں جب حضرت مولانا حبیب صاحب باندوی کا خطاب ختم ہوا تو اس کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد جعفر صاحب ملی کو دعوتِ خطاب دی گئی۔
نہ صرف ایک انسان، بل کہ ایک زمانہ رخصت ہوا:
حضرت نے نہایت سادہ اورپُراثر انداز میں چند مختصر مگر دل میں اتر جانے والی باتیں فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ:
’’یہ محض موت کا واقعہ نہیں،بل کہ ایک عہد کا اختتام ہے۔ ایسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘
اس کے بعد تعزیتی مجلس کے خطاب کے لیے شیخ الحدیث حضرت مولانا رضوان الدین صاحب معروفی کودعوت دی گئی ۔
رَجُلٌ بَکّائٌ مُنیبٌ، حضرت وستانویؒ کا آئینۂ سیرت:
حضرت نے فرمایا:
’’وہ خوبیاں جو حضرت وستانویؒ میں تھیں، وہ ہم میں نہیں۔ اگر ہمیں وہ پیدا کرنی ہیں، تو اس کے اسباب اختیارکرنا ہوں گے۔ ہمت اورقربانی کے ساتھ محنت کرنی ہو گی۔‘‘
پھرحضرت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کو بنیاد بنایا:
’’صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ فکرمیں ڈوبے رہتے تھے۔ ایک درد بھرا دل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صرف نبی نہیں، بل کہ سید الانبیاء بنایا۔‘‘
اسی طرزپرحضرت وستانویؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت بھی امت کے درد میں ڈوبے رہتے تھے۔ دارالقرآن بن جائے، ادارہ چلے، دین کی خدمت ہو،بس اسی سوچ میں کڑھتے اور جیتے تھے۔‘‘
ایک اورنہایت پُراثرجملہ ارشاد فرمایا:
’’اللہ نے حضرت وستانویؒ کورَجُلاً بکّائً منیباً بنایا تھا ،یعنی ایک مردِ کامل، جومتوکل علی اللہ تھا، ہروقت اللہ پربھروسہ رکھنے والا۔‘‘
آخر میں ایک اہم پیغام دیا:
’’اگر ہمیں بھی زندگی میں کچھ بننا ہے، چمکنا ہے، تو ہمیں خدمت خلق کی صفت اپنانی ہوگی، دوسروں کی ضرورت کواپنی ضرورت سے مقدم کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم حضرت کے نقش قدم پرچل سکیں گے۔‘‘
اشکوں میں ڈوبا اختتامی لمحہ:
آخرکاراس پرکیفیت مجلس کا وہ لمحہ آیا کہ حضرت مولانا حبیب صاحب باندوی حفظہ اللہ تعالیٰ کودعا کے لیے دعوت دی گئی۔ مجمع کی نگاہیں جھکی ہوئی تھیں، دل اشکوں سے لبریز تھے، فضا میں سناٹا تھا۔حضرت نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا تو پورے مجمع پرسکوت طاری ہوگیا۔ہرزبان بھرائی آواز میں صدائے آمین بلند کررہی تھی، ہرآنکھ اشک بار،اورہردل حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے مغفرت، بلندی ٔدرجات اوران کے لگائے ہوئے دینی ،علمی ،فکری ،قومی وملی چمنستان کے مزید پھلنے پھولنے کی دعا کررہا تھا۔یوں یہ تعزیتی مجلس محبت، وفا، اوراخلاص کے آنسوؤں میں ڈوب کر اختتام پذیر ہوئی۔
