روشن ستارے

مفتی نجم الحسین آسام /استاذ جامعہ اکل کوا

            حضرات صحابہ کا قافلہ؛ وہ قافلہ ہے جن کے بار ے میں آج تک دنیا حیران و سرگرداں ہے کہ یہ کون اور کیسے لوگ تھے؟ جنھوں نے اس دار الاسباب میں بے سروسامانی کے عالم میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیے، جس کو آج تک اس مادہ پرستی کے دلدادہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں ؛کیوں کہ ہوتا یوںہے کہ آج اگر قوم کا کو ئی سرغنہ کسی کام کا بیڑا اٹھائے تو قوم کے اراذل لوگ اس کے رئاست سے خائف ہو کر اس کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ خواہ وہ کام بجا ہو یا بیجا، لیکن کیا کبھی آپ نے سنا کہ لوگ کسی ایسے آدمی کے فریفتہ ہوگئے جو یتیم ہو ،وہ اپنے معاشرہ میں صرف نان شبینہ کا مالک ہو ۔نہ اس کے پاس حشم و خدم ہے اورنہ ہی جاہ و جلال ۔ نہ وہ کسی کی کاسہ لیسی کرتاہے ،نہ کسی کے سامنے وہ جھوٹ کو سچ کرنے کا ہنر رکھتاہے اور نہ ہی وہ ساحر ہے ۔اور اس کی پوری زندگی ایسے شہر میں گزری ،جس کا خطہ میں کوئی مقام نہیں ہے۔ اور اس کی بالیدگی و نشو و نما ایسے شہر میں ہوئی ،جس کے باشندوں کی حماقت و عقائد فاسدہ پر ابلیس بھی خوش ہوتا ہے۔یقینا آپ کا جواب ہوگا کہ نہیں !ایسے آدمی کی پیروی کوئی نہیں کرے گا۔کیوں نہ ہو ہم اور آپ جس معاشرہ میں اپنے لیل و نہار گزاررہے ہیں ،اس میں اسی کو وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس کے پاس مال کی ریل پیل ہو اور شہر کے سرغنہ اور چیدہ لوگوں میں اس کا شمار ہوتاہو ۔جب وہ کسی محلہ یا گلی سے گزرے تو اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاتاہو۔شہر میں اس کے گفتار و رفتار کا غلغلہ ہو ۔وہ حدیث الناس ہونے کے ساتھ معیار زندگی میں بھی بالا و بر تر ہو ۔ا س کا مسکن فلک بوس عمارت ہو ،وہ عمدہ اورقابل رشک لبا س زیب تن کرتا ہو ،خواہ پھر وہ کیسا ہی آدمی ہو ۔مادہ پرستی صرف مرعوب کرتی ہے مادیت سے خواہ وہ پیشوا و مقتدیٰ ظالم و سفا ک ،جاہل،احمق،مورکھ،و گامڑ ہونے کے ساتھ ساتھ سنگ دل، بے رحم ،درندہ طبع ہی کیوں نہ ہو ۔لیکن صحابہ کی مقدس جماعت وہ جماعت ہے، جن کے بارے میں مؤرخین نے اپنی تالیفات میں سنہرے حروف میں لکھا کہ ان مقدس نفوس نے اسی دار الاسباب میں صرف لوجہ اللہ دینِ اسلام کی خدمت کی ۔اپنی بے بسی ،بے کسی ،لاچارگی ،غریب الوطنی کے باوجودہمیشہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دست گیری و پشت پناہی کرتے رہے ۔ایسا لگتا ہے گویا کہ اللہ رب العزت نے ان پاکبازوں کے قلوب میں حق گوئی ہی ودیعت کر رکھی تھی؛یہی وجہ ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع رسالت کے روشن ہوتے ہی تہہ در تہہ تاریکیوں میں ،سرگشتہ و حیران اورسلیم الفطرت روشنی کے دیوانوںاور پروانوں کی صورت میں اس محبوب و مقدس شمع کے گرد جمع ہوگئے ۔ان میں سے بہتیروں نے اس شمع کو کفر اورگمراہی و ضلالت کے پھونکوں سے بجھانے کی خاطر یوں مر مٹے کہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ کر ہی راحت کی سانس لی۔اور کچھ دوسرے جاں نثاروں اور اصحاب نے اس شمع ربانی کی لا زوال ضیاؤں سے مستفید ہوکر افق عالم میں ایسے ستارے بن کر چمکے کہ پھر انہوں نے سیاہ دلوں کو سفید کردیا ۔ ظلمات و تاریکیوں میں صداقت ،حق گوئی،عفت و پاکبازی،امانت و دیانت ،عدل و انصاف،شجاعت و استقامت ،ایثار و قربانی کے ایسے چراغ روشن کیے کہ نور حق اور شمع رسالت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کے روشن چراغ بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے ایسے مشعل راہ بن گئے کہ قدرت نے ہر دور میں مؤرخ و قلم کار سے ان پاکبازوں کی سیرت و سوانح کا کام وقتاً فوقتاً لیا۔ تاکہ ملت کی نوجوان نسل کی ذہنی تربیت اور عملی تحریک کے لیے ہر زمانہ و دور میں ایسے لٹریچر تیار ہو؛ کہ جس کے مطالعے سے نوجوانوں کے اندر اسلامی روح پیدااورمستحکم ہوسکیں ۔ خوابیدہ شعور جاگ اٹھے اور انہیں اپنی طاقت و قوت کا احساس ہو ۔ وہ اقتدار کی بام عروج کو پہنچ کر بے پناہ قوتِ تسخیر کا استعمال کر کے گمراہ لوگوں کی راہ نمائی کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرکے دنیا کی زمامِ حکومت اور باگ ڈور کواپنے ہاتھ میں لیں ۔اس مختصر تمہید کے بعد ذرا آئیںاور ان آیات و احادیث پر نظر ڈالیں ،جو زبان رسالت سے اس مقدس جماعت کی مدح سرائی میں صادر ہوئی ۔

            قرآن کریم سورہ فتح آیت نمبر ۱۸؍ میں ارشادباری ہے :

             {لقد رضي اللہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبہم فأنزل السکینۃ علیہم و اثابہم فتحا قریبا،و مغانم کثیرۃ یأخذونہا،وکان اللہ عزیز ا حکیما}

             ’’ بالتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ لوگ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے ۔اور ان کے دلوں میں جو کچھ تھا اللہ کو وہ بھی معلوم تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے ان میں اطمینان پیدا کر دیا تھااور ان کو ایک لگتے ہاتھ فتح دی ۔اور بہت سارا مال غنیمت بھی، جن کو یہ لوگ لے رہے ہیں۔اور اللہ بڑا زبردست بڑا حکمت والاہے ۔‘‘

            ا س آیت کی تفسیر میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اپنی مایہ ناز تفسیر’’ معارف القرآن‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ اس بیعت سے مراد بیعت حدیبیہ ہے ،جس کا ذکر اس سے پہلے بھی آچکاہے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ  اس بیعت کے شرکا سے اپنی رضا کا اعلان فرمارہا ہے ۔اسی لیے اس کو بیعت رضوان بھی کہا جاتاہے اور مقصود اس سے ان شرکائے بیعت کی مدح اور ان کو اس عہد کے پورا کرنے کی تاکید ہے ۔صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو نفر کی تھی ۔ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’أنتم خیر أہل الأرض‘‘ یعنی تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔اور صحیح مسلم میں ام بشر رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے کہ’’ لایدخل النار احد ممن بایع تحت الشجرۃ‘‘یعنی جن لوگوں نے اس درخت کے نیچے بیعت کی ہے ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا ۔اس لیے اس بیعت کے شرکا کی مثال شرکائے بدر کی سی ہے؛جیسا کہ ان کے متعلق قرآن و حدیث میں رضائے الٰہی اور جنت کی بشارتیں ہیں؛ اسی طرح شرکائے بیعت رضوان کے لیے بھی یہ بشارت آئی ہے ۔یہ بشارتیں اس پر شاہد ہیں کہ ان سب حضرات کا خاتمہ ایمان اور اعمال صالحہ مرضیہ پر ہوگا ؛کیوں کہ رضائے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت دے رہا ہے ۔تفسیر مظہری میں فرمایا کہ جن خیار امت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے غفران و مغفرت کا اعلان فرمادیا ہے اگر ان سے کوئی لغزش یا گناہ ہو ا بھی تو یہ آیت اس کی معافی کا اعلان ہے ۔پھر ان کے ایسے معاملات کو جو مستحسن نہیں ہیں۔غور و فکر اور بحث و مباحثہ کا میدان بنانا بد بختی اور بظاہر اس آیت کی مخالفت ہے ۔یہ آیت روافض کے قول کی واضح تردید ہے جو ابوبکر و عمر اور دوسرے اکابرصحابۂ کرام پر کفر و نفاق کے الزام لگاتے ہیں۔ (معارف القرآن تفسیر سورہ فتح)

            قارئین!حضرات صحابۂ کرام کی عزت و اکرام اس لیے بھی ضرور ی ہے کہ ہمارا پورا دین حضرات صحابہ کی وساطت سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس لیے صحابہ پر طعن و تشنیع کے روا نہیں،اگر ایسا ہوا تو و ہ دن دور نہیں کہ دیگر مذاہب باطلہ کی طرح دین اسلام بھی اپنی شناخت کھودے گا۔کیوں کہ صحابہ پر طنز کا مطلب ہے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنا اور اگرنعوذ باللہ احادیث پرہی اعتراض کیا جائے تو صاف مطلب ہو گا کہ دین اسلام پر اعتراض ۔اور پھر یہ سلسلہ کہاں تک چلے گااس کا کسی کو علم نہیں ہے ؟یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اہل سنت کے علما و دانش وروں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ان کے مشاجرات کے بارے میں تکلم سے منع کیا۔ امام طحاویؒ کی مشہور کتاب’’ عقیدۃ الطحاوی‘‘ میں حضرت امام فرماتے ہیں ’’ونبغض من یبغضہم و بغیر الحق یذکرہم ، ولا یذکرہم إلا بالخیر‘‘یعنی جو صحابہ سے بغض رکھے اور غلط لہجوں میں ان کا تذکرہ کرے ہم ان سے بغض رکھیں گے اور حضرات صحابہ کا ہم صرف ذکر خیر ہی کریں گے ۔

            اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے حکیم الاسلام قاری طیب صاحبؒ لکھتے ہیں :کہ طبعی طور پر محبوب سے بغض رکھنے والا محب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے (چوںکہ حدیث شریف میں ہے کہ’’ ومن أبغضہم فببغضي ابغضہم ‘‘ کہ صحابہ سے جو بغض رکھے گاوہ مجھ سے دشمنی کی وجہ سے بغض رکھے گا۔)

            نیز صحابہ سے محبت ایمان و دین کا جز ہے ۔صحابہ اللہ کے محبوب اور ان تمام لوگوں کے محبوب ہیں جو اللہ کو مانتا اور اس کی اطاعت کرتا ہے ؛کیوں کہ قرآن میں صراحت ہے کہ ’’ویحبہم و یحبونہ‘‘کہ اللہ ان سے محبت کرتاہے اور وہ لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔آگے حکیم الاسلام صاحب ؒ فرماتے ہیں :کہ قرآن کریم نے حضرات صحابہ کے لیے ایسی شہادت دی جو دوسرے کسی اور کے نصیب میں نہیں اور وہ ہے{ أولئک الذین امتحن اللہ قلوبہم للتقویٰ لہم مغفرۃ و أجر عظیم}یہی وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لیے خالص کردیا ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (سورۂ حجرات)

            یہ اس لیے کہ ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنہرے حروف کو گوش گزار کرنے کا موقع ملا ۔حضو ر کے ساتھ مصافحہ کرنے کا شرف حاصل ہوا اور ایمان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے ایام سعیدہ کے لمحات گزارے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے اپنے دل ودماغ اور ارواح کو منور کیااور یہ شرافت ان کے علاوہ کسی اور کے نصیب میں کہاں؟اسی بناپر ہماراعقیدہ ہے کہ صحابہ تمام کہ تمام عادل اور ان کا اجماع حجت ہے اور اس کا انکار کرنے والاکافر ہے۔ (عقیدۃالطحاوی )

            قارئین !  صحابہ کے قلوب اور تزکیۂ نفس کے بارے میں اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ان کو قرآن سے{ رضي اللہ عنہ} کا خطاب ملا۔اللہ جس سے راضی ہوجائے اس کی موت کفر یا نفاق پر ہو یہ محال ہے۔علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیںکہ اللہ کی رضاصفت قدیم ہے اور اللہ اس بندے سے راضی ہوتاہے ،جس کے بارے میں علم ہے کہ یہ بندہ رضاکی ساری شرطیں پوری کر ے گا۔ اور اللہ جس سے راضی ہو جائے کبھی اس سے ناراض نہیں ہوگا۔ (الصارم المسلول )ابن حزمؒ کہتے ہیں: کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بتلایا کہ وہ صحابہ کے دلوں کو اچھی طر ح جا نتاہے اور وہ ان سے ر اضی ہوااوران پر سکینت نازل کی۔ اس لیے کسی کو یہ حق نہیں کہ صحابہ کے بارے میںبحث ومباحثہ کرے،کیوںکہ یہاں ادنیٰ شک بھی حرام ہے ۔(الفصل فی الملل والنحل )

            امام طحاوی فرماتے ہیں :کہ’’ ومن احسن القول فی أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وازواجہ وذریاتہ فقد بری من النفاق وعلماء السلف من الصالحین والتابعین ومن بعد ھم من اھل الخیر والأ ثر وأھل الفقہ والنظرلایذ کرون إ لابالجمیل ‘‘۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد کے بارے میں جوشخص مدح سرائی کرے وہ نفاق سے بری ہے۔ اور خیر القرون کے علما اور تابعین اوراہل فقہ ونظر صحابہ کا ذکرصرف اور صرف بھلائی کے ساتھ کرتے ہیں۔اسی عبارت پرحاشیہ لکھتے ہوئے حکیم الا سلام قاری طیب صاحبؒ لکھتے ہیں:کہ صحابہ سے بدگمانی کرنا اور اہل بیت کی مدح میں غلوکرنا ریاکاری اور وہ برارسم ہے ، جو روافض کا شیو ہ ووتیرہ ہے اور اس کا اصل نفاق ہے۔ کیوںکہ ان واہیات کی داغ بیل زندیق ،منافق یہودی ابن سبانے رکھا ۔سوجوابن سباکی پیروی کرے گا وہ نفاق میں ڈوبتا جائے گا ۔اور جوان خرافات سے برأ ت کا اظہا رکرے گا اور حدود شریعت میں رہ کر اہل بیت کی مدح سرائی کرے گا اور صحابہ سے حسن ظن رکھے گا وہ نفاق سے بری ہے ۔  (عقید ہ الطحاوی ) 

            علامہ نووی ؒحدیث إذا تواجہ المسلمان بسیفہا فالقاتل والمقتول في النار کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: واعلم الدماء التي جرت بین الصحابۃ رضي اللہ عنہم لیست بداخلۃ في ہٰذالوعید ومذہب أہل السنۃ والحق إحسان الظن بہم والإمساک عما شجر بینہم وتأویل قتالہم أنہم مجتہدون متأولون لم یقصد وامعصیۃ ولا محض الدنیا۔ بل إعتقد کل فریق أنہ الحق ومخالفہ باغ فوجب علیہ قتالہ لیر جع إلی امر اللہ۔ وکان بعضہم مصیبًا وبعضہم مخطئاً معذوراً في الخطاء لأنہ با جتہاد والمجتہد إذا أخطأ لاإثم علیہ ۔

            یعنی صحابہ کے درمیان جو جنگیں ہو ئیں وہ اس حدیث کے وعید میں داخل نہیں ہے ۔اور جمہور اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ صحابہ سے ہم حسنِ ظن رکھیں گے اور ان کے مشاجرات کے بارے میں چہ میگوئیاں سے باز رہیں گے ۔اور ان کے آپس میں جو مشاجرات ہوئے ہیں ان کی تاویل یہ کریں گے کہ وہ اس مشاجرات میں مجتہد تھے۔ہرفریق اپنی جماعت کو حق پرست اور مخالفین کو باغی سمجھتا تھااور اسی وجہ سے مخالف سے جہاد کو واجب سمجھتا تھا۔ جب تک وہ لوگ امر الٰہی کی طرف نہ لوٹ آئے ،سو ان میں سے بعض اپنے اجتہاد میں صواب پر تھے اور بعض خطا پر معذور تھے اس لیے کہ وہ خطا ئے اجتہادی تھی اور مجتہد سے اگر غلطی ہو بھی جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔اور اس سلسلہ میں سب سے اچھا اور فیصلہ کن جملہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے ’’تلک دماء طہر اللہ أیدینامنہا فلانلوث السنتنابہا‘‘یعنی وہ خون جن سے اللہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہم اپنی زبان کو اس کے بارے میں(چہ می گوئیاں کرکے) ملوث نہیں کرنا چاہتے۔

            قارئین! ان سب مضامین سے یہ خلاصہ نکل رہا ہے کہ حضرات صحابہ آپﷺ کی صحبت کی برکت سے اس مقام تک پہنچ گئے تھے کہ جان بوجھ کر دنیا وی ساز وسامان کے لیے ایسی جنگ وجدال نہیں کرتے تھے ۔

            بل کہ جب جب ان کی تلوار نیام سے نکلی توصرف اور صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے ہی لیے نکلی ،لہٰذا کسی بھی صحابہ پر حرف زنی کرنے سے پہلے ان آیات اور احادیث کا مطالعہ ضروری ہے جن سے احادیث و تفاسیر کی کتابیں بھری پڑی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم لوگوں کو صحابہ کے پیرو کار و مطیع بنائے اور تا قیامت ان کی محبت اور عظمت سے ہمارے قلوب کو منور فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !