رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوبِ دعوت کیا تھا؟

             حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نوجوان تھے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک عرصہ گزارا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ایمان سیکھا ،پھر قرآنِ کریم سیکھا اور یوں قرآنِ کریم سیکھنے سے ہمارے ایمان میں مزید اضافہ ہوا۔

(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ۶۱)

            نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایمان پر خوب محنت کی، اس کے بعد قرآن پر، پھر اخلاق پر، پھر احکام پر، پھر فضائل پر۔ ہماری ترتیب معکوسی ہے ہم پہلے فضائل اور بعد میں احکام، اس کے بعد اخلاق اور آخر میں قرآنِ کریم کی جانب توجہ کرتے ہیں۔

اپنی ترتیب درست کریں!!

  •              ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سے پہلے ایمانیات، ضروریاتِ دین اور عقائد پر خوب محنت کریں، ہر چھوٹے بڑے کو اسلامی صحیح عقائد سے واقف کرائیں اور گمراہ کن افکار سے بھی آگاہ کریں۔جیسے مکی دور میں جو دو تہائی سورتیں نازل ہوئیں اس میں عقائد پر مکمل روشنی ڈالی گئی ہے، خاص طور پر توحید، رسالت، آخرت پر خاص توجہ ہے، اسی طرح اخلاقیات پر بھی کافی زور دیا گیا ہے،نیز مکی سورتوں میں بتایا گیا ہے کہ جن اقوام نے انبیا کو نہیں مانا ،ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ حق و باطل کہ اثرات تاریخی اعتبار سے انسانی معاشرے پر کیسے پڑے، ساتھ ساتھ اللہ کی نعمتوں کی بھی خوب یاد دہانی کروائی گئی ہے، تاکہ اس کی عظمت دل میں بیٹھے؛لہٰذا ہم بھی اس ترتیب سے اصلاحی پیش رفت کریں!
  •            ایمان و عقائد ۔
  •             تدبر ِقرآن ۔
  •              اخلاق۔
  •              تاریخ ۔
  •          آلاء اللہ ۔( اللہ کی نعمتیں)
  •           احکام

            اس بار خصوصی شمارہ کاارادہ کیا تو دل میں یہ داعیہ قوت سے پیدا ہوا کہ ہمارے جو طلبہ تراویح کے لیے جاتے ہیں ان کے ذریعے رمضان کی مناسبت اور” شاہراہِ علم“ کے پلیٹ فارم سے امت کے ہر فرد تک عقائد کو عصری اسلوب میں پہنچا دیا جائے۔

            اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح اسلوب میں ضروریاتِ دین، وعقائد ِاسلام کو جمع کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسلوں کو اسلام پر ثابت قدم رکھنے کا سامان مہیا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!

عصری اسلوب میں دین کی تفہیم کا کیا مطلب؟

            اسلام کامل و مکمل دین ِبرحق ہے، اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، خاص طور پر عقائد اور اصول میں تو تغیر و تبدل اور کمی و زیادتی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام جو اول البشر تھے،آپ سے لے کر خاتم الانبیاء تک سب اصولِ ایمان میں متفق ہیں یعنی سب کا اصول ایمان ایک ہی ہے، صرف حالات کے اعتبار سے شرائع، فروع اور احکام میں قدرے تبدیلی ہوتی رہی ہے۔

            عصری اسلوب میں تبدیلی کا مطلب مادی اعتبار سے ترقی پذیر دنیا میں لوگوں کے سمجھنے سمجھانے کے انداز میں تبدیلی ہوتی رہی ہیں، لہٰذا مخاطب اور مدعو کی ذہنی سطح اور فکری پرواز کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کو سمجھانے کی کوشش معیوب نہیں، بل کہ مطلوب ہے۔ صحیح ابن حبان کی روایت ہے:

             ”وعلی العقائل ان یکون بصیرا بزمانہ “(حدیث: ۳۶۱)

            ” عقلمند کو اپنے زمانے سے واقف ہونا چاہیے۔ “

             یعنی Applied way (عملی طریقہ)کا ماہر ہو اور the time Idiomatic(محاوراتی الفاظ) میں اپنے مدعیٰ کو پیش کرنا چاہیے، ہم بھی یہی کوشش کرنے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قدم قدم پر مدد فرمائے۔ آمین!

دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ:

            انسان خیال کرے کہ دنیا میں ہمیشہ کوئی نہیں رہا۔ آخر ہر شخص ایک روز یہاں سے جائے گا اور آخرت میں اپنا کیا پائے گا، لہٰذا ضروری ہے کہ یہاں سے کمال حاصل کر کے جائے؛ تاکہ وہاں کے عذابوں سے بچے اور دائمی عیش و آرام پائے۔ اور وہ کمال یہ ہے کہ اپنے خالق و مالک کے سب احکام کو جانے اور مانے۔ اور ان احکام کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ کہ جن میں ہاتھ پاؤں وغیرہ اعضا کے عمل کی حاجت ہو جیسے نماز، روزہ یعنی عبادات اور معاملات۔ دوسرے وہ کہ جن میں اعضا کے عمل کی حاجت نہ ہو، بل کہ ان کا صرف مان لینا ہی کافی ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جاننا اور اس کو سمیع و علیم و بصیر سمجھنا یا قیامت اور جنت و دوزخ کو حق سمجھنا۔

فقہ اورعقائد :

            علما نے لوگوں کی آسانی کی خاطر قرآن وحدیث سے پہلی قسم کے احکام نکال کر ان کو تفصیل سے جدا مرتب کیا اور اس علم کا نام” فقہ“ رکھا اور دوسری قسم کے احکام کو الگ تفصیل سے لکھا اور اس کا نام” عقائد“ رکھا۔

(اسلامی عقائد ،ص:۱۱)

علمِ عقائد کا آغاز اور گمراہ فرقوں کا رد:

            شروع کے دور میں علمِ عقائد میں وہ دینی عقائد جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت تھے ذکر کیے جاتے تھے؛ جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتاب ”فقہِ اکبر“ میں ملتا ہے۔ فلسفیانہ بحثوں کو ان میں دخل نہ تھا، البتہ اس وقت کے گمراہ فرقوں مثلاً معتزلہ اور خوارج وغیرہ کے رد کا اہتمام کیا جاتا تھا، تاکہ عام لوگ ان کی گمراہی سے بچے رہیں۔ (اسلامی عقائد ،ص:۱۲)

            جاننا چاہیے کہ وہ عقائد جو کتبِ اسلامیہ میں درج کیے جاتے ہیں تین قسم کے ہیں:

            قسم اول: وہ ہیں کہ جو یقینی اور قطعی ہیں اور پھر ان کی تین نوع ہیں۔

            ۱- جو قرآن کی ظاہر عبارت سے ثابت ہیں، مثلاً جنت دوزخ اور قیامت کا وقوع۔

            ۲- جن کا مضمون نبی ا سے بہ نقل متواتر ثابت ہو، خواہ متواتر لفظی ہو یا متواتر معنوی ہو، جیسے عذابِ قبر۔

            ۳- جن پر امت کا اجماع ہو گیا ہو، جیسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت۔

            قسم دوم: وہ عقائد ہیں جو محض عقلی دلائل سے ثابت ہوں، اگر چہ ان کی تائید میں نقلی دلائل بھی موجود ہوں۔ شریعت کی باتیں نبوت پر موقوف ہیں اور وہ موقوف ہے ثبوت باری تعالیٰ اور مسئلہ ثبوت نبوت اور مسئلہ عصمت انبیا پر جو کہ عقلی دلائل سے ثابت ہیں۔

            قسم سوم: وہ مسائل ہیں جو اخبارِ آحاد سے ثابت ہوں یا علما نے ان کو قرآن وحدیث سے استنباط کر کے ثابت کیا ہے، لیکن ان میں اسلامی فرقوں کا آپس میں اختلاف ہے، جیسے قرآن کے قدیم یعنی ہمیشہ ہمیش سے ہونے کا مسئلہ اور فرشتوں پر انبیا کی فضیلت کا مسئلہ اور یہ مسئلہ کہ کراماتِ اولیا حق ہیں وغیرہ۔ ان مسائل میں اہلِ سنت، سلفِ صالحین، صحابہ و تابعین کے پیرو ہیں اور ان کے مخالف لوگ محض اپنے خیالات سے ان نصوص کا انکار یا تاویل کرتے ہیں۔

 (اسلامی عقائد ،ص:۱۳-۱۴)