رسالہ حکیم الامت ”التقصیر فی التفسیر“کی وجہِ تالیف ایک مطالعہ

از: حکیم فخر الاسلام الہ آبادی

رسالہ حکیم الامت ”التقصیر فی التفسیر“کی وجہِ تالیف ایک مطالعہ

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی(۱۸۶۳تا۱۹۴۳ء) کی تالیف ”التقصیر فی التفسیر“ ، مولانا احمد علی لاہوری(۱۸۵۸تا۱۹۶۳ء) کے تفسیری استنباطات کے رد میں تصنیف کردہ وہ شہرہٴ آفاق ؛لیکن نایاب و نا مستفاد(یعنی اہلِ علم کی نظرِ رغبت واستفادہ سے اکثر محروم اور بیشتر کے لیے نامانوس)رسالہ ہے۔اِس کی نوعیت یہ ہے کہ تفسیر کا مخصوص طریقہٴ کارمفسر لاہوری نے علامہ سندھی سے سیکھا،سمجھا اور اپنے دورہٴ تفسیر میں جاری کیا۔مولانا علی میاں ندوی کی یہ صراحت اِس باب میں شاید کافی ہو،وہ لکھتے ہیں:

            ”قرآن مجید کے درس میں مولانا(لاہوری) اپنے استاذ مولانا عبید الله سندھی کے پورے متبع اور پیرو تھے۔ “ایک الگ مضمون میں وہ رقم طراز ہیں:

            مولانا عبید الله سندھی ”تاویل کرنے میں بہت توسع سے کام لیا کرتے تھے“،اُن کے اِس طرز و طریقہ پر …اُن سے تفسیر پڑھنے والوں میں”شیخ احمد علی لاہوری ہیں اوراُن کے اِس تفسیر کے طرز و طریقہ پر شیخ اشرف علی تھانوی نے تنقید فرمائی ہے اور ایک رسالہ تالیف کیا ہے جس کا نام ”التقصیر فی التفسیر“ رکھا ہے ۔“

            اصل عربی عبارت یہ ہے:”وقد تخرج علیہ فی ہذ الاسلوب من التفسیر ی بعض کبار علماء الذین نفع اللہ بہم خلقا کثیرا اشہرہم الشیخ احمد علی الاہوری وقد انتقد علی ہذا الاسلوب الشیخ اشرف علی التہانوی والف رسالة سماہا التقصیر فی التفسیر“(۳)

(۱)مولاناسیدسلیمان ندوی :دیباچہ مولاناعبید ا لله سندھی اور اُن کے افکارو خیالات پر ایک نظر“از مولانا مسعود عالم ندوی ص ۲۲۴تا ۲۲۵(۲)ایشیا کی عہد ساز شخصیتیں اور خل؛افتِ الٰہی ص۷۷

(۳)مفتی محمد رضوان :”مولاناعبید ا لله سندھی کے افکار اورتنظیم فکر ولی اللّہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ بہ حوالہ تکملہ نزہة الخواطر از علی میاں ص۳۰،۳۱،ادارہ غفران راول پنڈی ۲۰۱۴ء۔ (نزہة الخواطرو بہجة المسامع والنواظر ج ۸ ص ۱۳۰۲،الطبقة الرابعة عشرة فی اعیان القرن الرابع عشر تحت ترجمة مولانا عبید اللہ السندہی مطبوعہ دار ابن حزم بیروت لبنان )

اِس بنا پر دوباتیں توجہ کے قابل ہیں:   

       # اگر ”التقصیر فی التفسیر“میں مفسر لاہوری کا رد ہے اور خودمفسر کوعلامہ سندھی سے تفسیری اصولوں کے اخذ و استفادہ کا اقرار ہے،تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ صورتیں علامہ سندھی کے پہلے ہی دور میں واقع ہوئی ہیں۔لیکن اِس کے ساتھ ہی اِس بات سے بھی ذہول جائز نہیں کہ

            # علامہ سندھی کی توجیہات صحیح اصولوں سے منحرف تھیں۔فاسد اصولوں پر مبنی قرآنی توجیہات کو علامہ سندھی علمِ اعتبار کا نام دیتے تھے،وہی وتیرہ تلمیذ ذی وقارمفسر ذی احتشام دورٴ ہ تفسیر خدام الدین لاہورکے بانی نے بھی اختیار کیااور اپنے تفسیری دورہ میں اُنہی صواب سداد سے ہٹے ہوئے سندھی اصولوں کو جا ری کیا۔

            یہاں پربعض اہلِ علم کو یہ خیال گزراہے کہ علامہ سندھی کے جمہور امت سے ہٹنے کی بات آخری دور میں پیداہوئی ہے اور جہاں تک پہلے دورکا تعلق ہے،تو اُس دور میں علامہ سندھی کی جانب سے جمہور امت سے ہٹنے کی بات شاذ و نادر مواقع پر صادر ہوئی ہے(ولا اعتداد بہا)۔دوسری طرف مفسر لاہوری کا اپنے استاذسندھی سے اخذ و استفادہ چوں کہ پہلے دور سے تعلق رکھتا ہے،اِس لیے یہ پہلا دورکم از کم مولانا لاہوری کے تفسیری طریقہٴ کار کے حق میں تو بالکل مامون و محفوظ ہے؛مگرمعلوم ہونا چا ہیے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے،کیوں کہ آخری دور میں تو بات بہت آگے جا چکی تھی،اصل مسلہ زیر بحث ”التقصیر فی التفسیر“کی تصنیف کے حوالہ سے پہلا دوراور اُس دور سے مستفاد طریقہٴ کار ہے ۔اس باب میں راقم الحروف کویہ بات مناسب معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کی ابتدا حضرت مفتی تقی عثمانی مد ظلہ کے ایک اقتباس سے کرے،حضرت مفتی صاحب اپنی ایک تحریر میں فرماتے ہیں:

            ”…وہ(مولانا سندھی)بعض عقائد و احکام میں وقتاً فوقتاً جا دہٴ اعتدال سے ہٹ جاتے تھے۔احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة الله علیہ سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ اُنہوں نے کسی ایسے ہی نظریہ کا اعلان کر دیا تھا جو جمہور علمائے امت کے خلاف تھا،تو حضرت شیخ الہندرحمة الله علیہ نے اُن کو فہمائش کی اور بات سمجھ آنے پر اُنہوں نے دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں علی ا لاعلان اپنی غلطی کا اعتراف اور ندامت کا اِظہار کیا۔“

            یہ ۱۹۱۲ء تک کی بات ہے ،جس وقت علامہ سندھی دیوبند میں تھے ۔بعد ازاں ۱۹۱۳ء میں علامہ سندھی نے دہلی جا کر ”نظارة المعارف القرآنیہ “قائم کیا اور خلافِ جمہور تفسیری اصولوں کا اِجرا کیا،وہی اصول جب مفسر لاہوری کے تفسیری اِفادات کی شکل میں دورہٴ تفسیری کے دروس میں جاری ہوئے ،تو حکیم الامت نے ”التقصیر فی التفسیر“کے نام سے اُن کا رد لکھا۔شیخ الہند کے سامنے نہ وہ اصول و مسائل آئے اور نہ اُنہوں نے اُن سے کچھ تعرض کیا۔ ۱۹۱۳ء میں ۲۴ سال تک کی طویل مدت کے لیے وہ بیرونِ ملک چلے گئے،اِسی درمیان شیخ الہندرحلت فرما گئے۔          

            اب اگر حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب یہ فر ما تے ہیں کہ:

            ”… شیخ الہندرحمة الله علیہ کی وفات کے بعدکوئی شخص ایسانہ رہا جو نظریاتی طور پر اُن کی رہنمائی کر سکے۔“

            تو یہ بات معلوم رہنی چا ہیے کہ اِس فقرہ میں دورانِ حیاتِ شیخ الہند(۱۸۵۱تا۱۹۲۰ء) کے ۱۹۱۳ء تا ۹۱۵ اکے تین سالوں کے ا فکارِ سندھی کا کچھ ذکر نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ افکارِ سندھی اِس عرصہ میں خطرناک صورت اختیار کر گئے تھے اور اِس ذکر نہ ہونے کی شایدیہ وجہ ہو،یوں ہی بیٹھے بٹھائے کسی کو کوئی مسئلہ پیدا کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اغلب صورتوں میں علماء کا تو ذوق یہ ہے کہ جب اُن کے سامنے کوئی مسئلہ آئے یا کوئی اِستفسار کرے ،تو وہ اُس کا جواب دیتے ہیں۔یہی وجہ ہوئی کہ استخلاصِ وطن کے لیے علامہ سندھی کی بے لوث جدو جہد اور تحریکِ ریشمی رومال میں نبھائے گئے کردارہی سامنے رہ گئے اور اُن افکار کا جائزہ لینے کی نوبت اُس وقت آئی،جب دورہٴ تفسیری کے پلیٹ فارم سے مفسر لاہوری کے افادات کی شکل میں اُن کا تعدیہ شروع ہوا۔

            اب حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کا یہ فقرہ بھی ملاحظہ میں آ جکائے کہ:

            ” اِس کے علاوہ اُن(علامہ سندھی) کے مزاج میں مسلسل مصائب جھیلنے سے تشدد بھی پیدا ہو گیا ؛چناں چہ آخری دور میں اُنہوں نے پھر ایسے نظریات کی تبلیغ شروع کر دی جونہایت خطرناک اور زائغانہ تھے ۔“ (۱)

            بس،یہاں اِتنی بات مستحضر رکھنے کی ہے کہ:

            حضرت شیخ الہندرحمة الله علیہ (م۱۹۲۰ء)کی فہمائش اورکبھی کبھی رجوع کا واقعہ پیش آنادیوبند اقامت کے زمانہ تک دکھائی دیتا ہے ۔دیوبند سے دہلی جانا،وہاں ”نظارة المعارف القرآنیہ “قائم کرنااورسیاست و حکومت و سلطنت کے تخیل کے طریقہٴ کار پرتفسیر کے سلسلے کا جاری ہونا ، یہ ساری سر گرمیاں علامہ سندھی کے جا دہٴ اعتدال سے ہٹ جانے کی ابتدا ہے جس کی شروعات جزئی جزئی واقعہ کے طور پر فی الواقع قیامِ دیوبند کے زمانے سے ہی ہوگئی تھی ،جس لیکن۱۹۳۹ء میں روس ،حجاز اور ترکستان سے واپسی کے بعداُسی وقت دیوبند کی فضا مکدر ہونے لگی تھی جس ے باعث علامہ سندھی کودہلی جانا پڑا اور یہ صورتِ حال رو بہ ترقی ہوتی چلی گئی۔

            علامہ عبیدا لله سندھی کی فکر اِنقلابی تھی،’انقلابی‘لفظ تو ایک کلی مشکک ہے،یعنی اِس کی نوعیتوں میں غلط،صحیح صالح،فاسد ،ملاوٹ زدہ اور خالص ،فتنہ کو دبانا،فتنہ کو اُبھارنا،ہر طرح کی کاوشیں بار پانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں؛

(۱)مولانامفتی محمد تقی عثمانی: ”تبصرے“بہ حوالہ” مولاناعبید ا لله سندھی کے متعلق مفتی محمد شفیع اور مولانا یوسف بنور ی کا موقف “ ص ۲۷۴ ،۲۷۵بہ حوالہ مفتی رضوان۔      

            لیکن علامہ سندھی کا اصل خیال کیا تھا،اِس کے متعلق حافظ محمد موسی بھٹو صاحب،مدیر:ماہ نامہ ”بیداری“حید رآ باد سندھ لکھتے ہیں:

            ”انقلابی فکر نے انہیں اسلام کی ایسی تشریح کرنے پر مجبور کیا جس میں مالداروں کے خلاف جہاد اورانقلابی جدو جہد کو دین کا نصب العین قرار دیا گیا ہے۔ “

            اِسی فکر کے لیے( جس کے حیاتِ شیخ الہند میں با برکت تلامذہ کی موجودگی میں پنپنا مشکل تھا ) دہلی میں تفسیر کا اِدارہ ” نظارة المعارف القرآنیة“قائم ہوا،اور تلامذہ تیار ہوئے:

            اِس فکر کو مولانا کے متعدد شاگردوں نے پھیلانے میں اپنی زندگیاں صرف کر ڈالیں ۔مولانا سندھی نے سارے قرآن کی تشریح اسی انقلابی فکر کی بنیاد پر کی اور دین کی ساری تعلیمات کو اسی مرکزی نکتہ کے تابع بنا کر پیش کیا۔ نماز روزہ حج زکوة وغیرہ ان سارے فرائض کو اس جہاد کی ادائیگی کے ذریعہ کے طور پر پیش کیا۔ چناں چہ اس رنگ میں تفسیری نکات پر مشتمل قرآن کی متعددد تفاسیر سامنے آئیں، جن میں سلف سے متصادم، قرآن کی جدیدیت سے ہمہ آہنگ نئی تعبیر سامنے آئی ۔“

            حافظ محمد موسی بھٹو صاحب آگے لکھتے ہیں:”مولانا(سندھی کے افکار زمانہٴ شیخ الہند میں بھی تجدد پسندانہ تھے اور) سوویت یونین جانے سے پہلے ہی اس فکر کے علمبردار بن چکے تھے اور متعدد طلبہ تیار کر چکے تھے۔…“

            یہ بتانے کے لیے حکیم الامت حضرت تھانوی کا رسالہ” التقصیر فی التفسیر“مولانا احمد علی لا ہوری کے رد میں ہے اور مفسر لاہوری کے افکارامام اِنقلاب علامہ سندھی کے افکار کا تسلسل ہیں،اِس تفصیل ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا ،تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ جب لاہور کے دورہٴ تفسیری کے پلیٹ فارم سے مفسر لاہوری کے افادات کی شکل میں امام انقلاب کے تفسیری افکار کا تعدیہ شروع ہوا،تو حکیم الامت نے اُس کے رد میں رسالہ لکھا۔

            حافظ محمد موسی بھٹو صاحب آگے لکھتے ہیں:”لیکن سوویت یونین میں(علامہ سندھی کے) قیام کے بعد ان کی اس فکر پر یقین میں مزید پختگی پیدا ہوگئی اور اس فکر میں مارکسزم کے مزید اجزاء شامل کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔…“(۱)

            پہلے کی تجدد پسندانہ فکرمیں مزید پختگی اور مارکسزم کے مزید اجزاء شامل ہونے کے بعدجب رجعتِ ہند کی نوبت آئی ،تودیگر اہلِ علم نے اُس کانوٹس لیا ؛مگرحکیم الامتنے علامہ سندھی کے طریقہٴ کا ر کے پہلے ہی دور کے افکار کی تغلیط اور اُس پربے رعایت تنقید فرمائی ہے ۔ ملفوظاتِ حکیم الامت سے چند نمونے پیشِ خدمت ہیں،حکیم الامت فرماتے ہیں:

(۱)حافظ محمد موسی بھٹو صاحب،مدیر:ماہ نامہ ”بیداری“حید رآ باد سندھ،پاکستان ”مولانا سندھی کی فکر بر صغیر کے ممتاز فضلاء کی نظر میں“بہ حوا لہ مفتی رضوان:”…تحقیقی جائزہ“ ص۴۳۴۔

علامہ سندھی کا تفسیری طریقہٴ کاربہ نظرِ حکیم الامت

            حکیم الامت فرماتے ہیں:

            ۱-”فلاں مولوی صاحب جن کو میں مولویوں کا سید احمد خاں کہا کرتا ہوں،یہاں آئے تھے ، انہوں نے دہلی میں ایک مدرسہ جاری کیا تھا، اس میں نئی روشنی کے اصول سے بی.اے . والوں کو تفسیر پڑھاتے تھے ۔… اور اِس جدید طرز کے متعلق وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ حضرت شاہ ولی اللہ  سے ماخوذ ہے ، جو محض غلط ہے ۔“

            پھر اس غلطی کاسبب بھی بتایا کہ ”اورکوئی بات نہیں، صرف وہی بات ہے جو میں کہہ رہا ہوں کہ اس کم بخت منحوس نیچریت کا اثر اورجھلک، اب سب میں نظر آنے لگی، اس کا بڑا زہریلا اثر ہے۔“ (۱)

            یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ علامہ سندھی کے متعلق، حکیم الامت کے یہ دونوں ملفوظ علامہ کے واپسیِ ہند سے کافی مدت پہلے کا ہے اور کیفیت بھی دور اول ہی کی مذکور ہے ۔لہذا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کا مقدمہ تفسیر لاہوری میں،مفسر لاہوری کے استاذعلامہ سندھی کے زائغانہ افکار کو دور آخر سے منسوب کرنا محل غور ہے، جب کہ ملفوظات تھانوی سے بوضاحت

            ۲-”ان ہی مولوی صاحب نے دہلی میں تفسیر کا مدرسہ جاری کیا تھا، مگر تفسیر بالرائے کے طورپر پڑھاتے تھے ۔… مولوی عبید اللہ صاحب مخلص تھے ؛ مگر ایسے ہی جیسے سر سیدمخلص تھے۔ ”مگر مولوی صاحب میں قوتِ عمل نہ تھی،صرف رائے رائے تھی“(۲)

            یہ معلوم ہورہا ہے کہ مفسر لاہوری نے جس دور میں مولانا عبید اللہ سندھی سے تفسیری اصول و منہج کے سلسلے میں کسب فیض کیا تھا تبھی ان کے افکار جمہور امت سے ہٹے ہوئے تھے۔

 مفسر لاہوری کا طریقہٴ تفسیر

            اب دیکھنا ضروری یہ ہے کہ مفسر لاہوری کا تفسیرقرآن کا طریقہٴ کار کیا تھا؟ اس سلسلے میں بلا کسی شک و شبہ کے یہ کہا جائے گا کہ ،اِس امر کے دلائل و شواہد موجود ہیں کہ لاہور میں جاری کردہ شیخ التفسیر کا دورہ تفسیر علامہ

سندھی کے طریقہٴ کار پر مبنی تھا۔اس کے ثبوت کے لیے دور کیوں جائیے ،خودمفسر لاہوری کا اقرا رسنیے،جس کا

(۱) ملفوظات حکیم الامت ”الافا ضات الیومیہ“ جلد ۶ ص۲۷۷ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۱ھ

(۲)ملفوظات حکیم الامت جلد۱۴”کلمةالحق“ص۱۲۰، ۱۲۱،تنظیم فکر ولی ا للٰہی ص۲۹،۱۳۴۴ھ

اِظہار اُنہوں نے علامہ سید سلیمان ندوی کو لکھے گئے ایک مکتوب میں خود فرمایا ہے،وہ لکھتے ہیں:

            ”استاذ سندھی مرحوم سے طالب علمی کے زمانہ میں سارا قرآن پڑھا تھا۔“

            اور اِس بالکل ابتدائی دورکے افکارِ سندھی کا تعارف وہ اِن الفاظ میں کراتے ہیں:

            ”اُس وقت وہ تردیدِ شرک و بدعت اور اِشاعتِ کتاب و سنت پرزیادہ زور دیا کرتے تھے۔“

            یہ زمانہ حضرت شیخ الہند کی شاگردی سے لے کرنظارة المعارف القرآنیہ (۱۹۱۵ء سے پہلے) تک کاہے۔شیخ التفسیر آگے لکھتے ہیں:

            ”اِس کے بعد جب اُنہوں نے دہلی میں ”نظارة المعارف القرآنیہ “قائم کیا،اُس وقت اُن کے ذہن میں دو چیزیں نمایاں تھیں:

            ۱-سیاست و حکومت و سلطنت کا تخیل زیادہ قوت کے ساتھ اُن کے ذہن میں تھا۔

            ۲- مسلمانوں کی موجودہ سیاسی غلامی پر قناعت کے زہر کا تریاق اِسی طریقہٴ تفسیر کو قرار دیتے تھے۔‘ ‘

             موصوف آگے لکھتے ہیں:

            ”جناب والا کو یہ بھی یاد ہوگا کہ” نظارة المعارف القرآنیہ “کی کلاس میں پانچ گریجوئیٹس (Graduates)اور پانچ روشن خیال عالم نوجوان لیے گئے تھے،اِسی لیے مولانا نے سیاست و حکوت و سلطنت کے تخیل کو مدِ نظر رکھ کر ہم لوگوں کو قرآن شریف پڑھایا تھا۔“(۱)

            ” نظارة المعارف القرآنیہ “کے اصولوں پر پروان چڑھنے والی فکر کا پروگرام دو نکاتی تھا،اِس کے منشور میں ذیل کے مقاصد شامل تھے:

            ۱- ”کلام الله میں اِس طرح غور و فکر کیا جا ئے کہ حالاتِ حاضرہ میں اُس کے نتائجِ عبرت بالکل واضح ہوں،گویا ’عبرت ‘اور’اعتبار‘کے اصول پر کلام الله میں غور و فکر۔‘ ‘

            ۲-مسلمانوں کی قومی اِجتماعی سیاست اور یورپ میں غالب سیاسی فکر و عمل کے درمیان موازنہ کرنا۔(۲)

(۱)مولانا سندھی کے افکار: ص۱۰۲

(۲)ایشیا کی عہد ساز شخصیتیں اور خلافتِ الٰہی ص۷۷

            مذکورہ تصریحات میں علامہ سید سلیمان ندوی کو مفسر لاہوری نے جو کچھ باور کرانا چاہا ہے،وہ شاید اِس بنا پر تھا کہ علامہ سید سلیمان ندوی مفسر لاہوری کی جس تفسیرپر(تقریباً دس سال پہلے) تقریظ لکھ کر اُس کی تحسین کر چکے تھے،وہ تحسین و تائید دوبارہ تصویب کے بعد حق بجانب ٹھہر سکے؛مگرمشکل یہ پیش آ گئی کہ اُس وقت علامہ سید سلیمان ندوی جانشینِ شبلی و حامیِ فراہی تھے اور اُنہوں نے اُس وقت کے سندھی طریقہ کارکو مکتبِ فراہی کی عینک سے دیکھ کرمکتبِ سندھی ومکتبِ فراہی میں اختلاف کو ذوقی اختلاف سمجھ کر دونوں کو اپنی اپنی جہت میں قابلِ قدر گرداناتھا۔مگر اب اہلِ حق کے اصولوں کو سامنے رکھنے کے نتیجہ میں سابقہ تحسین سے مختلف رائے ظا ہر فرمائی اور ماخوذ و ماخوذ منہ دونوں کو متجاوز عن الحدود قرار دیا ۔

            علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:”مولانا سندھی کے افکار و خیالات کی بوالعجبی کا پتہ اہل دیوبند کو تو ۱۹۱۲ء ہی میں مل گیا تھا جب وہ موتمر الانصار کی دعوت لے کر اٹھے تھے اور آخر وہ موتمر سے دست کش ہو کر دلی میں مسجد فتح پوری کے اندر نظارة المعارف القرآنیہ بناکر بیٹھے اورچند انگریزی و عربی کے فارغ التحصیل اور نیم فارغ التحصیل طلبہ کو قرآن کا درس دینے لگے ۔اُن کے اس درس کا منشا ء یہ تھا کہ پورے قرآن کو جہاد وسیاست ثابت کیا جائے اور تمام احکام کو اس جنگی رنگ میں پیش کیا جائے۔ اس تفسیر کی جھلک آپ کو ان کے تلامذہ مثلا خواجہ عبدالحی صاحب فاروقی کی تفسیر اور مولانا احمد علی صاحب لاہوری کی قرآنی حواشی میں پوری طرح نظر آئے گی ۔“(۱)

            اب تک کی گفتگو سے یہ معلوم ہو گیا کہ رسالہ”التقصیر فی التفسیر“ میں علامہ سندھی کے ”آخری دور“ کے اُسلوبِ تفسیر سے اِستفادہ کرنے والوں کے افکار کا تعاقب نہیں ہے؛بلکہ آخری دور سے بہت پہلے کے افکاریعنی ” نظارة المعارف القرآنیہ “کے ذریعہ قائم شدہ اس طریقہٴ کار پر کہ :

             ”کلام الله میں اِس طرح غور و فکر کیا جا ئے کہ حالاتِ حاضرہ میں اُس کے نتائجِ عبرت بالکل واضح ہوں،گویا ’عبرت ‘اور’اعتبار‘کے اصول پر کلام الله میں غور و فکر۔‘ ‘اورمسلمانوں کی قومی اِجتماعی سیاست اور یورپ میں غالب سیاسی فکر و عمل کے درمیان موازنہ کرنا۔(۲)کا تعاقب ہے۔

             واضح رہے کہ رسالہ”التقصیر فی التفسیر“میں حکیم الامت نے علامہ عبید ا لله سندھی کا تذکرہ اشارہ،کنایہ کے طور پر بھی نہیں کیا،جو کچھ ذکر کیا ہے،وہ لاہور کے دورہٴ تفسیر کا کیا ہے؛ یہاں تک کہ تفسیری توجیہات پر مبنی اقتباساتِ لاہوری کے نقل میں ایک جگہ مسئلہٴ نسخ کے تحت مفسر لاہوری نے علامہ سندھی کا قول بہ طور سند ذکر کیا ہے ،تواُس مقام پر بھی حکیم الامت نے علامہ سندھی سے علا حدہ طور پر کچھ تعرض نہیں کیا،مفسر لاہوری ہی کا رد کیا ہے ۔

            بہرحال مولانا احمد علی لاہوری جس طریقہٴ تفسیر کوصواب اور درست سمجھتے تھے،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویاُسے قبیح اور نا درست قرار دیتے تھے اور اُس کا رد لکھنا ضروری خیال فرماتے تھے،چناں چہ ردبھی لکھا جس کے محرکات اُسی رسالہ میں چار فصلوں کے تحت درج ہیں۔رد لکھنے کے ایک سال بعد ایک مجلس میں اُس کا ذکر فرمایا:

            ۱-” ایک مولوی لاہوری کے مسلکِ تفسیر کے رد میں ،میں نے ایک مضمون لکھا تھا ۔ اُس کو ایک مدرسہ والے مولوی خود چھاپنے کے لیے مجھ سے لے گئے تھے،وہاں جا کر اُنہوں نے اُن مفسر کے ایک خط سے متاثر ہو کرلکھا کہ اِس کو چھاپا نہ جائے ؛بلکہ اُن کو بلا کر سمجھا دیا جائے۔

 میں نے کہا کہ بھائی میرا مضمون مجھے دے دو،میں خود چھپوا لوں گا۔کیوں کہ اہلِ مدارس کی نظر مصالح پر ہوتی ہے۔اور میں اُس کو سالن کے مزہ دار کرنے کے لیے خوب پیستا ہوں۔“(۱)

            (چند صفحے قبل) ذکر کردہ ملفوظ میں حکیم الامتنے جو کچھ فرمایا ہے،اُسی میںآ گے وہ یہ بھی فرماتے ہیں:”اِس (رسالہ ”‘التقصیر فی التفسیر‘کے شائع ہونے ) کے بعداُن مفسر مولوی صاحب (شیخ التفسیر)نے لکھا کہ تم نے میرا رد لکھا ہے ،اگر میں نے بھی رد لکھا تو کیا عزت رہ جائے گی!میں نے کہا کہ کسی خاص کا نام لے کر تو لکھا نہیں،جس کا ایسا خیال ہو وہی اس کا مخاطب ہے، اگر تم ایسے ہو،تو تم ہی مخاطب ہو۔میں نے حق سمجھ کر لکھا ہے،آپ شوق سے رد لکھیں،ناظرین خود فیصلہ کر لیں گے۔پھر وہ خا موش ہو گئے؛بلکہ اُنہوں نے ایک کتاب لکھی تھی، میرے پاس اِصلاح کے لیے بھیجی،(مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا )اتباعِ حق کا یہ اثر ہوتا ہے جو ابھی ذکر ہوا(کہ اُنہوں نے تفسیر میں تو اصلاح نہیں کی،جیساکہ اُ نکی تفسیر میں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے؛مگر دوسری تحریر اِصلاح کے لیے بھیجی) اور جو شخص سب کو راضی کرنا چاہتا ہے،وہ سب کو نا راض کر دیتا ہے۔“(۲)(جاری)

(۱)جلد۱۱”حسن العزیز جلد دوم “ص۱۱۷،۱۱۸۔

(۲)یہاں چند باتیں قابلِ توجہ ہیں:۱-جدید ملفوظات ، د وسراحصہ موسوم بہ ”ملحوظات “میں مندرج یہ ملفوظ ۱۳۴۸ھ کا ہے ۔اِس کے ایک سال قبل ۱۳۴۷ھ میں رسالہ التقصیر فی التفسیر تصنیف ہوا ۔اِس کے ضابط مولانا محمد نبیہ ٹانڈوی ہیں ۔ حکیم الامت نے اِس مجموعہ ملفوظات کی نظر ثانی فرمائی اور نام یہ تجویز فرمایا:”اشرف التنبیہ فی کمالاتِ بعض ورثة الشفیع النبیہ “۔لفظ ”النبیہ“کی مناسبت تو ظاہر ہے کہ اِس سے مراد ضابطِ مجموعہ ملفوظات ہیں ۔اور” الشفیع “کی مناسبت ضبطِ مجموعہ ملفوظات کی تحریک دلانے کی حیثیت سے مفتی محمد شفیع عثمانی  کا نام تسمیہ ملفوظات کا جزوہے۔