رجب کے کونڈے

 ابوعریسہ نازقاسمیؔ ،اِجرا، مدہوبنی/استاذجامعہ اکل کوا

            سوال:سیدالسادات حضرت جعفرصادق علیہ الرحمۃ کے کونڈے جوآج کل عوام میں مروج ہیں ،ان کی شرعی حیثیت کیاہے ؟

            جواب:سیدالسادات حضرت جعفرصادق علیہ الرحمۃ(و: ۱۳؍ ربیع الاول ۸۰ھ بروز پیر۔م:۱۵؍ شوال المکرم ۱۴۸ھ ،مطابق اگست ۷۶۵ء بروز پیر)خانوادۂ نبوت کے چشم وچراغ ہیں اوراکابرین اسلام میں آپ کامقام بہت بلندہے۔

            تمام ہی مسلمان ؛صحابۂ کرام ؓ اوراہل بیت اطہارسے خلوص دل کے ساتھ محبت وعقیدت رکھتے اوراُن کی پیروی کودنیاوآخرت میںنجات کا باعث سمجھتے ہیں۔اِس مسئلہ میں تحقیق یہ ہے کہ ۲۲؍ رجب کوباتفاق مؤرخین نہ موصوف کایوم ولادت ہے اورنہ یوم وصال۔ماہ رجب المرجب حقیقت میں معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی عظمت وشان کا مہینہ ہے ،اس کی نسبت کومٹانے اوربدعت یعنی کونڈوںکے ساتھ منسوب کرنے کی ایک ناپاک سازش ہے ۔ اگرموصوفِ مذکورسے ایسی ہی عقیدت ہے تو کھاناپکاکرغریبوں مسکینوں کو کھلایاجائے، قرآن شریف پڑھ کرایصالِ ثواب کریں ،لیکن کونڈوں کوایک خاص انداز اورشرائط کے ساتھ بھرنااورکھاناکھلاناقطعی طورپر اسلام میں ایک نئی چیز کوداخل کرنااورٹھونسناہے ۔دین میں کسی چیزکی کمی زیادتی کرنامنصبِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو حکم خداوندی سے ہوتاہے ۔

اِس احسان کاکوئی بدلہ نہیں:

            قصہ عجیبہ یاکونڈوں کی کتاب میں جوواقعہ تحریرکیاگیاہے وہ قطعی جھوٹا،بے بنیادوبے اصل ہے ۔اسی طرح آپ کی طرف سے یہ وعدہ کہ ۲۲؍ رجب کوکونڈے کرواورمیرے توسل سے مرادیں طلب کرواور اگرمراد پوری نہ ہوتو قیامت کے دن تمہاراہاتھ اورمیرادامن ہوگا۔بلاشک وشبہ آپ پر بہتان ہے ۔مسلمانوں کے پاس کتاب اللہ ؛جس میں کوئی تبدیلی نہیں اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ قائمہ بھی موجود ومحفوظ ہے ۔آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امت پرایسااحسانِ عظیم ہے کہ ساری دنیاکے مسلمان تمام عمراُس احسان کابدلہ نہیں چکاسکتے ۔ اورامت سے اِس قدر پیار ہے کہ والدین کوبھی بچے کے ساتھ اتنی محبت نہیںہوسکتی ۔{النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم}آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے ۔قیامت کے دن ،جب کہ سبھی انبیا نفسی نفسی کی رٹ لگارہے ہوںگے اس وقت پر آپ امتی امتی فرمائیں گے ۔آپ نے اپنی محبوب امت کے مصائب ومشکلات کاحل اِس قسم کے کونڈے بھرنے میں نہیں بتایا،جب کسی نبی نے نہیں کیاتوپھرکوئی ولی کس طرح تجویزکرسکتاہے ؟قرآن مجیدمیںاللہ رب العرت کا ارشادہے کہ{ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُو وَاِنْ یَّمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ قَدِیْر’‘ }(الانعام:۱۷)

            ترجمہ: اگرتم کواللہ تعالیٰ تکلیف پہنچائے تواُس کے سواکوئی ردنہیںکرسکتااوراگروہ تم کوفائدہ پہنچائے تو وہ ہرچیزپرقادرہے ۔

            کسی نے ایک جھوٹاافسانہ گھڑلیااوراسے عورتوں کے حوالے کردیاتاکہ وہ اِس کوپڑھ کر یاسن کرمعتقد ہو جائیں،اِس لیے کہ عورتیں ایسی باتوں پربہت جلدایمان لے آتی اورگلے کاتعویذبنالیتی ہیں ۔

منافقین کی کارستانی:

            حضرت جعفرصادق کی حیات میں بنی امیہ کی حکومت کاسکہ قائم تھا،جس کی راجدھانی دمشق تھی ۔بعدہ عباسی خلافت کاڈنکابجا،جس کادارالخلافہ بغدادتھا۔اسی لیے من گھڑت قصہ میںنہ کسی بادشاہ کانام ملتاہے اورنہ ہی کسی وزیرکی صراحت۔دراصل مخالفین نے حضرت امیرمعاویہ ؓ کی وفات۲۲؍ رجب کوخوشی کادن منانے کے لیے ان رسوم کاسہارالیا۔امیرمعاویہ کاتبِ وحی،ہادی ومہدی اوررشتے میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چندپشتوں بعدایک جدکی اولادعم زاداوردوسرے رشتے سے برادرنسبتی تھے ۔

            چوں کہ منافقوں کو ان کے ساتھ ہمیشہ بغض وعداوت رہی ہے ،اِ س لیے اُن کی وفات کی خوشی میں ہندوانہ رسوم کے مطابق خستہ پوریاں پکاکر تقیہ(جھوٹ) کاسہارالے کراس رسمِ بدکو اہل سنت والجماعت میں پھیلا دی اور داستانِ عجیب یانیازنامہ حضرت جعفرصادق چھپواکر اس کی خوب تشہیرکردی ہے ۔بعض یادداشتوں سے معلوم ہوتاہے کہ کونڈے بھرنے کی شروعات۱۹۰۶ء میں ریاست رام پور(یوپی) سے ہوئی۔(جواہرالمناقب)

            اس رسم کاکرنابدعت اورگمراہی ہے ؛حدیث پاک میں ہے کہ’’کل محدث بدعۃ وکل بدعۃ ضلالہ وکل ضلالۃ فی النار‘‘ کہ جودین میں نئی بات پیداکرے وہ بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کاٹھکانہ جہنم ہے ۔

علمائے اسلام کے فتاوے:  

            علمائے اہل سنت والجماعت دیوبنداوربریلوی مکتبِ فکرکے ذی ہوش علمااِس پربالکل متفق ہیں کہ کونڈے کی یہ رسم پاکستان و ہندستان میں جس طرح مروج ہیں ،ان کاشریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم میںکوئی ثبوت نہیں یہ سراسربدعت وگمراہی ہے اِس سے بچنالازم اورضروری ہے ۔حسبِ ذیل بزرگانِ دین نے کونڈے بھرنے کی رسم کوبدعت وگمراہی قرار دیا ہے :

            (۱)مولانامحمدایوب فرنگی محلی لکھنؤ۱۳۴۶ھ (۲)مولاناابوالقاسم عتیق فرنگی محلی لکھنؤ۱۳۴۶ھ (۳)حکیم الامت حضرت تھانوی ۱۳۴۹ھ (۴)مولاناسیدمبارک مدرسہ مصباح العلوم بریلی ۴۹ ۱۳ھ (۵) مولانامحمد یٰسین دارالعلوم سرائے خام بریلی۱۳۴۹ھ (۶)مفتی محمدشفیع صاحب۱۳۷۰ھ (۷) مولانامحمودالحسن بدایونی ۱۳۹۰ھ

            اِن کے علاوہ بے شمارعلماومشائخ اہل سنت نے بالاتفاق کونڈوں کی رسم کو بدعت وضلالت قراردیاہے ۔           (۱)حکیم عبدالغفورآنولوی ثم بریلوی کی گواہی:  حکیم عبدالغفورآنولوی ثم بریلوی نے اپنے مضمون (رجب کے کونڈے) مندرجہ رسالہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی ،اشاعت ۱۴؍اگست ۱۹۶۴ء میں بیان کیاہے کہ ’’کونڈوں کی رسم بالکل جدید ہے اوراس کاشانِ نزول یہ ہے:‘‘

            والیٔ رامپورنواب حامدعلی خاںصاحب اپنی کسی’’ منظورِنظرفاحشہ‘‘سے کسی بات پر ناراض ہوگئے تواس چالاک کسبی نے نواب صاحب کے مذہبی عقائدسے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امام جعفرصادق کے نام سے ایک من گھڑت اور تراشیدہ افسانہ کے مطابق نواب صاحب کی دوبارہ خوش نودی اوررضا حاصل کرنے کے لیے ۲۲؍رجب کو کونڈے کیے۔

            یہ افسانہ اُس داشتہ کااپناتراشاہوانہیںہے،اس نے تو اس’’ داستان عجیب‘‘ کی اتباع میں کونڈے کیے تھے ۔ یہ داستان تو دراصل لکھنوی شاعر امیرمینائی مرحوم کے فرزندخورشیدمینائی نے اُس زمانہ میں طبع کراکراہل رامپورمیں مفت تقسیم کرادی تھی۔

            (۲)پیرجماعت علی شاہ کی گواہی:  اِن کے ایک مریدمصطفیٰ علی خان نے اپنے کتابچہ’’جواہرالمناقب‘‘ کے حاشیہ پر حامدحسن قادری مرحوم کایہ بیان درج کیاہے :احقرحامدحسن قادری کواِس (داستان عجیب یالکڑہارے کی کہانی) کی اشاعت اور۲۲؍ رجب والی پوریوں کی نیازکے متعلق یہ علم ہے کہ یہ کہانی اورنیاز سب سے پہلے ۱۹۰۶ء کوریاست رامپو(یوپی) میں امیرمینائی لکھنوی کے خاندان سے نکلی ہے۔ میں اُس زمانے میں مینائی صاحب کے مکان کے متصل ہی رہتاتھااورہم دونوںکے خاندان میںــبہت اچھے اورگہرے تعلقات تھے۔ گویا رامپورر وہیل کھنڈ میںاس رسم کاآغاز لکھنوی خاندان کی بدولت ہوا۔

            (۳)مولوی مظہرعلی سندیلوی کی گواہی:  مولوی موصوف اپنے روزنامچہ ۱۹۱۱ء کی ایک نادریادداشت میںلکھتے ہیں کہ:آج مجھے ایک نئی رسم دریافت ہوئی ،جومیرے اورمیرے گھروالوں میںرائج ہوئی ،جواِس سے پہـلے میری جماعت میں نہیںآئی تھی اوروہ یہ ہے کہ ۲۱؍ رجب کوبوقتِ شام میدہ،شکر،گھی اوردودھ مکرکرٹکیاں پکائی جاتی ہیں اوراس پرامام جعفرصادق کافاتحہ ہوتاہے اور۲۲؍رجب کی صبح عزیزواقارب کوبلاکرکھلائی جاتی ہیں اوریہ ٹکیاں باہر نہیں نکلنے پاتیں۔جہاںتک مجھے علم ہواہے کہ اس کارواج ہرمقام پرہوتاہے ،میری یادمیںکبھی اس کا تذکرہ بھی سننے میں نہیںآیا۔اب یہ فاتحہ ہرگھرمیں عقیدت مندی کے ساتھ ہوتاہے اوریہ رسم برابربڑھتی ہی چلی جا رہی ہے ۔

            (۴)مولاناعبدالشکورمرحوم کی گواہی:  مرحوم نے اپنے رسالہ’’النجم‘‘لکھنؤکی اشاعت جمادی الاولیٰ ۱۳۴۸ھ میں لکھاتھاکہ’’ایک بدعت کونڈوں کے نام سے ابھی تھوڑے دنوںسے ہمارے اطراف میں شروع ہوئی ہے اورتین چارسال سے اس کارواج دن بہ دن بڑھتاجارہاہے۔اس کے متعلق ایک فتویٰ اشتہارکی صورت میں تین سال سے لکھنؤ میں شائع کیاجارہاہے۔ ‘‘

            اسی دورکے ایک شیعہ عالم محمدباقرشمسی کاقول ہے کہ:لکھنؤکے شیعوں میں ۲۲؍رجب کے کونڈوںکا رواج ۲۰؍۲۵؍ سال پہلے شروع ہواتھا۔

            مندرجہ بالاتفاصیل سے یہ بات بالکل صاف ہوگئی کہ کونڈوں کی رسم لکھنؤ اوراس کے اطراف میں تقریباً نصف صدی پہلے شروع ہوکرصوبہ جات متحدہ آگرہ اوراَودھ کے توہم پرست اورضعیف الاعتقادجاہل طبقوں میں پھیلی اوروہیں سے کھٹملوں اورمچھروںکی طرح دیگرمقامات میںرائج اورجاری ہوگئی۔

            محترم قارئین:  آپ بہت دیرسے ’’داستان عجیب ،داستان عجیب ‘‘پڑھتے آرہے ہیںاورسوچتے ہوں گے کہ یہ داستان عجیب ہے کون سی بلا،ابھی تک کچھ پتہ ہی نہیںچلا؟تولیجیے ہم اس کابھی کچھ تعارف پیش کرکے آپ کی تسلی کا سامان فراہم کیے دیتے ہیں ۔

داستان عجیب کیاہے؟ 

            یہ ایک لکڑہارے کی منظوم کہانی ہے ،جسے آج سے ۴۴؍ سال پہلے سلطان حسین تاجرکتب ،بھنڈی بازارممبئی نے ’’نیازنامہ امام جعفرصادق‘‘کے عنوان سے طبع کرایاتھا ،جس کاخلاصہ یہ ہے کہ:

            مدینہ منورہ کاایک لکڑہارا،قسمت کاماراروزی کمانے کسی دوسرے ملک کوگیا۔اس کی بیوی نے وزیراعظم کے گھر جھاڑو دینے کی نوکری کرلی۔ایک دن جب وہ صحنِ خانہ میں جھاڑو دے رہی تھی توامام جعفراُس راہ سے یہ فرماتے ہوئے گذرے کہ ’’کوئی شخص کیسی ہی مشکل حاجت رکھتاہو،آج ۲۲؍ رجب کوپوریاں پکاکر دو کونڈے بھر کر ہمارے نام فاتحہ دلائے تواس کی ہرمرادپوری ہوگی ۔اگرنہیں ہوگی توکل حشرکے دن اُس کاہاتھ اورہمارادامن ہوگا ۔    

            یہ سنتے ہی لکڑہارن نے اپنے دل میںمنت مان لی کہ میراشوہر؛جسے گئے ۱۲؍سال ہوچکے ہیں ،جیتا جاگتاکمائی کے ساتھ آئے گاتومیں امام کے نام کے کونڈے کروں گی۔جس وقت وہ یہ نیت کررہی تھی ٹھیک اُسی وقت اس کے خاوندنے دوسرے ملک کے جنگل میں جب سوکھی جھاڑی پر کلہاڑی چلائی توکسی سخت چیزپرلگ کر گری،اس نے وہاںکی زمین کھودی توایک دفینہ ملاوہ اسے لے کرمدینہ آگیااورایک عالی شان حویلی بنواکرٹھاٹھ سے رہنے لگا۔جب لکڑہارن نے اپنی مالکن سے یہ حال بیان کیاتواس نے کونڈوں کے اثرسے خزانہ ملنے کوجھوٹ سمجھا؛چناںچہ اِس بدعقیدگی کی پاداش میں اسی دن وزیراعظم پرعتابِ شاہی نازل ہوااورتمام مال ودولت ضبط کرکے شہربدرکردیاگیا۔

            جنگل کوجاتے ہوئے وزیرنے بیوی سے پیسے لے کرخربوزہ خریدااوررومال میں باندھ کرچل پڑے ۔ راستے میں شاہی پولیس نے قتلِ شہزادہ کے شک میں گرفتارکرلیا،جب رومال کھولاگیاتوخربوزے کی جگہ خون سے لتھڑاہواشہزادہ کاسرنکلا۔بادشاہ نے غضب ناک ہوکر حکم سنادیاکہ کل صبح اِس کوپھانسی پرلٹکادیاجائے ۔رات کو قید خانہ میں یہ دونوں میاںبیوی دل میںسوچ رہے تھے کہ ہم سے کون سی خطاہوگئی ،جس کی وجہ کراس حال کو پہنچے ۔ اچانک وزیر کی بیوی کوخیال آیاکہ میں امام کے کونڈے کرنے سے انکارکربیٹھی تھی اس نے اُسی وقت توبہ کی اور مصیبت سے نجات ملنے پر کونڈے بھرنے کی منت مان لی ۔

            منت کامانناتھاکہ حالات نے پلٹاکھایا اورگم شدہ شہزادہ صبح کو صحیح سلامت واپس آگیا۔ان دونوں کو قید سے رہائی ملی،وہ مدینہ واپس آئے اوربادشاہ نے وزیرکودوبارہ وزارتِ عظمیٰ پربحال کردیااوراس کی بیوی نے دھوم دھام سے امام کے کونڈے بھرے ۔لاحول ولاقوۃ الاباللہ العظیم۔

بے سرپاؤںکی کہانی:

            یہ بے سرپاؤں کی کہانی خودہی ظاہرکرتی ہے کہ اِس کاگھڑنے والالکھنؤ کاکوئی ایسا جاہل داستان گوتھا ، جس کواتنابھی پتانہیں تھاکہ:(۱) مدینہ منورہ میںنہ کبھی کوئی بادشاہ ہوانہ وزیراعظم۔(۲)عربوں میں میدے کی پوریاںگھی میں پکاکرکونڈوں میں بھرنے اورفاتحہ دلانے کارواج آج تک نہیں ہوااورنہ ہی کونڈے کابرتن وہاں استعمال ہوتاہے۔ (۳)حضرت جعفربن محمدکی عمرکے ۵۲؍ سال تک بنوامیہ کی حکومت رہی،جس کاہیڈکوارٹر دمشق (شام)تھا،مگران کی خلافت میں بھی وزیراعظم کاکوئی عہدہ نہیں تھا۔ (۴)بعدہ ۱۶؍ سال تک عباسی خلافت؛ جس کا دارالخلافہ بغدادتھا،وہاں بھی وزارت کاکوئی عہدہ نہیں تھا۔(۵)یہ بے پرکی کہانی سراسرخرافات ولغویات اور حضرت جعفربن محمدپرسخت بہتان ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میںاپنے نام کی فاتحہ دلاکرمنت پوری کرنے کی ذمہ داری لی،جوکھلم کھلاشرک ہے ۔آپ کادامن ایسی لغوباتوں سے پاک اوردینی علوم میں ان کامقام بہت بلندہے ۔ (۶)اس لکڑہارے کاقصہ اب تک نہ مدینہ کی گلیوں میں گونجانہ عرب ممالک میںکہیںسنائی دیااورنہ ہی مشرق ومغرب کے کسی اسلامی ملک میں پہنچا۔(۷)اس قصے میں جومنظرکشی کی گئی ہے وہ ہندستان کی کسی راجدھانی یا راجہ کی توہوسکتی ہے ،لیکن عربی قبیلے ،فردیاقوم کی ہرگزنہیں ہوسکتی،کیوںکہ عرب قوم اپنی گرم مزاجی کی بناپر بیوی کو ۱۲؍ سال تک اکیلے چھوڑکرکہیں جانے کے قائل نہیں اوروہ جدابھی نہیں رہ سکتی۔(۸)حضرت جعفربن محمد۸؍ رمضان ۸۰ھ یابروایتِ دیگر۱۷؍ ربیع الاول ۸۳ھ کومدینہ میں پیداہوئے اور۶۵؍ سال عمرپاکر۱۵؍ شوال ۱۴۸ھ،مطابق اگست۷۶۵ء کو وفات پائی ۔لہٰذا۲۲؍ رجب کی تاریخ کی تخصیص آپ کی ولادت یاوفات سے ہو ہی نہیں سکتی۔ (۹)جس طرح اسرائیلی قوم عجائب پرست تھی اورہرمدعیٔ نبوت سے ظہورِ معجزات کی آرزومندرہتی تھی،اسی طرح اودھ کی شیعی ریاست کے ماتحت رام لچھمن کے دیس کے خالص ہندومعاشرے میں رہنے والے عوام کالانعام بھی ہندودیومالاؤں اوررامائن کے من گھڑت قصے سن سن کرعجائب پرست بن گئے تھے۔اورلکھنؤکے داستان گویوںکو تو یہ فخرحاصل ہے کہ انہوں نے نوابوں کی سرپرستی میں’’طلسم ہوش ربا‘‘اور’’فسانۂ عجائب‘‘جیسی طویل داستانیں گھڑ کر ہندودیومالاؤں کوبھی پیچھے دھکیل دیا۔اس لیے لکھنوی معاشرے میںکسی بزرگانِ سلف کی طرف منسوب اور افترا کردہ حکایات کاقبول کر لینا کوئی مشکل نہیں ،کیوںکہ اِس کے لیے نہ تو کسی سندکی ضرورت ہوتی ہے اورنہ کسی ضابطے کی ۔ (۱۰)جس چیزکو دینی طورپرعوام میںپیش کیاجائے تواُس کے جوازکی سندبھی ضابطۂ دین ہی سے پیش کی جانی چاہیے نہ کہ لکھنوی یانوابی معاشرت سے۔(تلک عشـــــــــرۃ کامـــــــــــلۃ)

تویہ ہے رجب کے کونڈے کی حقیقت۔