دینی تعلیم ومکاتب ومدارس کے لیے تحریک:

معارفِ با ند وی

دینی تعلیم ومکاتب ومدارس کے لیے تحریک:

            طالب علمی سے حضرت کے ذہن میں تعلیمی کام کا منصوبہ وعزم تھا، فراغت کے ساتھ پڑھانا، علاقے کے بچوں کی فکر اورمدارس کے لیے بھی فکر شروع کردی ، لیکن ابتداء ً یہ فکر کچھ زیادہ گرمی کے ساتھ نہیں تھی۔

            مگر جب باندہ کے مخصوص حالات نے حضرت کو متوجہ کیا اورحضرت نے ان اسباب کا جائزہ لیااور حضرت نے دینی تعلیم کی جدوجہد وسعی کو ایک تحریک کے طور پر اپنایا تو اس کو اپنا مقصد زندگی بنالیا اور پھر ساری زندگی تعلیم اور اس کی اشاعت کی فکر ؛ نیز اس کے لیے سعی میں لگادی۔

باندہ میں ایک دینی مرکزکی تحریک:

             باندہ میں ارتداد کی جو فضابنی، اس کا بنیادی سبب جہالت اور دین سے ناواقفیت تھی اور اس کا باعث اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ پورے علاقے میں عوام کے لیے دین کے جاننے و سیکھنے کی کوئی شکل وسعی نہ تھی، نہ تبلیغی جد و جہد جو سن درازوں کو دین سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور نہ تعلیمی و تدریسی جد و جہد (مکاتب و مدارس کی صورت میں) جو بچوں کے لیے مفید ہوا کرتی ہے۔

            حضرت نے اس کو خوب اچھی طرح محسوس کیا، اس سے قبل بھی حضرت علاقے کے لوگوں کی تعلیم کے لیے فکر مند تھے، اس لیے فتحپور کا موقع آنے پر اس کو فورًا قبول کر لیا اور معاملہ میں اس کے علاوہ کوئی شرط نہ رکھی کہ گاؤں و علاقے کے بچوں کو داخل کرنا ہوگا۔

             مگر یہ فکر محدود پیمانے پر تھی، عمومی سطح پر کوئی بات حضرت کے نہ علم میں تھی، جو اس کی محرک بنتی، اور نہ پیش نظر تھی، مگر ارتداد کے قصہ نے حضرت کو کچھ اس طرح جھنجھوڑا کہ دیہی تعلیم کے لیے حضرت کا ذہنی افق بہت وسیع ہو گیا اور خصوصی فکر عمومی فکر سے بدل گئی اور ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔

            حضرت فتح پور سے باندہ آئے، تو اس داعیہ و خیال کے تحت آئے کہ عوام جو کفر وارتد اداور ایمان واسلام کے دوراہے پر کھڑے ہیں ،وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کو دین پر مضبوط کیا جائے، ان کو دین کی ضروری معلومات فراہم کی جائیں۔

            مگر کام کو شروع کرنے کے ساتھ احساس کیا کہ وعظ ونصیحت سے فی الحال کام چل جائے گا اور ان کا نفع ہو گا، جو سامنے ہے، لیکن آئندہ کا اور ان کی نسلوں کا کیا ہوگا؟ تو ضرورت محسوس ہوئی کہ کام میں استقلال پیدا کرنے کے لیے مرکز قائم کیا جائے اور مراکز بنائے جائیں۔

            ظاہر ہے کہ دین کی حفاظت اور نشر واشاعت کے لیے جو مرکز ہوگا۔ اس کی صورت مدرسہ سے بڑھ کر و برتر بہتر کیا ہوگی، چناں چہ ادارہ قائم کرنے کی کوش کی گئی، مگر ابتدائی عہد تھا، ابھی تو لوگوں کے قدم پچھلی جگہ پر لائے جارہے تھے یا اپنی جگہ پر جمائے جارہے تھے۔ ابھی زمین میں اتنی نرمی کہاں تھی کہ وہ کسی دینی مرکز کا بوجھ برداشت کرتی اس لیے کہ مرکز کے بہت سے تقاضے ہوتے ہیں اور تقاضے تھے۔

            بہر حال اس کی روداد تو دوسری جگہ آئے گی کہ کہاں کہاں تھی کی گئی اور پھر قرعہٴ فال بمصداق” قرعہٴ فال بنام این دیوانہ زدند“ نکلا تو بنام ”ہتورا“ کہ ہتو را کی ہی سرزمین اللہ والوں کے ہتھوڑوں کی ضرب سے اتنی نرم تھی کہ وہ اس انداز کے کسی کام کو قبول کر سکتی تھی۔

            بہر حال ابتدائی چند سالوں کی جدوجہد میں ہتورا میں مدرسہ قائم ہوا اور پورے ضلع وعلاقے میں یہی ایک مدرسہ اور دینی مرکز قائم ہو سکا۔

باندہ واطراف میں دینی تعلیم و مدارس کی تحریک:

             اور اس کے قیام سے پہلے ادھر ادھر جو سوچا گیا اور چاہا گیا اور مختلف بستیوں میں مکاتب و مدارس کا قیام جس کی ضرورت کا احساس دن بدن بڑھتا چلا جارہا تھا، اس کا موقع تو آیا جب ہتو را کے دینی مرکز کی شعائیں ضلع کے اطراف کو منور کرنے لگیں۔ اور مختلف بستیوں کے بچے یہاں آ کر پڑھنے اور رہنے لگے اور ہتو را سے اپنے گاؤں اور اپنے گاؤں سے ہتو را کی آمد ورفت شروع ہوئی ، تو عمومی لہر پیدا ہوتی گئی اور دوسری طرف خود حضرت علیہ الرحمہ کے اندر یہ طلب بڑھتی چلی گئی کہ ضلع میں جگہ جگہ، بل کہ گاؤں گاؤں مکاتب قائم کئے جائیں۔ چناں چہ جامعہ عربیہ ہتو را کے قیام کو تقریبا ًدس سال کا عرصہ گذرنے کے بعد پھر ضلع کے مختلف علاقوں میں بتدریج چھوٹے و بڑے پیمانے پر دینی تعلیم کے ادارے قائم ہونے لگے اور حضرت کی وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت کو ان کی جدو جہد و فکر کی کامیابی اس صورت میں دکھائی کہ باندہ شہر اور ضلع واطراف میں ایسے ادارے بھی قائم ہوگئے، جن کو ایک قسم کی مرکزیت حاصل ہے اور وہ پورے شہر یا اپنے اطراف کی کئی بستیوں کو مستفید کررہے ہیں۔