دولمحے -دوصحبتیں

ڈاکٹر فخر الاسلام مظاہری

پہلا لمحہ-پہلی صحبت:

                بات ۱۹۹۹ء کی ہے۔ یہی کوئی نومبر کا مہینہ رہا ہو گا۔ اور مجھے اکل کوا آئے ہوے ڈیڑھ مہینے سے زیادہ نہیں ہوا تھا کہ وہ لمحہ پیش آیا جو عمر بھر کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں مدرسہ کے تعلیمی سال کا اِختتام تھا،اُس موقع پر مسجدِ میمنی میں مولانا عبد ا ﷲ کاپودروی رحمہ اﷲکابیا ن تھا۔بیان علمی تھااُس بیان کو میں نے سنا اور اُن کے علم سے متاثر ہوا؛لیکن ساتھ ہی ایک لطیفہ پیش آیا۔اُس لطیفے کا لطف لینے کے لیے ایک حکایت  سننا ضروری ہے:

                سلطانِ ہند جلال الدین محمد اکبر(اکبربا دشاہ) کے نو رتن مشہور ہیں۔یہ نورتن ابو الفضل، فیضی وغیرہ شاہی دربار میں کسی اور دوسرے ا ہل کمال کو نہیں آنے دیتے تھے۔ایک روز خاقانی جو نو وارد تھا بوسیدہ لباس پہنے،شکستہ حالت میں فیضی کو سڑک پر نظر آیا۔جس وقت سواری خاقانی کے سامنے آئی۔اُٹھ کر سلام کیا اور گاڑی کے روک لینے کا اشارہ کیااور مسافر سمجھ کر دریافت کیا کہ کون؟کہا کہ :ماعر ہستم(ہم ماعر ہیں)۔پوچھا:ماعر کدام باشد(ماعر کون ہوتا ہے)؟کہا:ہر کہ معر گوید(جو معر کہتا ہو)۔پوچھا :معر کرا می گویند(معر کس کو کہتے ہیں)؟جواب میںخاقانی کہتے ہیں:

رفتم  در  باز ار      خریدم      یک گنا 

قل اعوذ برب الناس ،ملک الناس، الٰہ الناس،من شر الوسواس الخناس،الذی یوسوس فی صدور الناس،من الجنۃ والنا           

                فیضی نے دیکھا کہ اِس نے تو عجب ردیف قافیہ ملایا۔اور ایسا گھال میل کیا کہ جس سے د وسرے مصرعے کا توازن بھی نہیں سنبھل رہا ہے۔پوری سورہ پڑھ ڈالی اور اُس پر طرہ یہ کہ پہلے مصرعے کے مقابلے میں و وسرے مصرعے کو بے تحاشا طول دینے کے بعد صرف ایک حرف چھوڑد یا۔ جب آیت ہی پڑھ رہا تھا،تودوسرے مصرعے کے اخیر کا حرف ’س‘کیوں چھوڑ دیا۔اُس سے وجہ پوچھی کہ ’س‘کیوں چھوڑ دی۔خاقانی نے کہا کہ شعر لنبا ہو جا نے کے خوف سے۔فیضی کو اور لطف آیا،وہ خوب ہنسا اور سمجھ گیا کہ کہ یہ کوئی مسخرہ ہے،اِسے دربار میں لے چلنا چا ہیے،نقلِ مجلس ہوگا،مجلس کا لطف اِس سے بنا رہے گا۔دربار میں ایسے ظریف و مسخرے کی وقت بے وقت ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ اُسی بوسیدہ لباس ،شکستہ حالت میں اُسے دربار میں حاضر کیا۔خاقانی بڑے درجے کے شاعر تھے۔ایران سے ہندوستان آئے تھے۔یہاں اُن کا کوئی جاننے والانہ تھا۔اُنہوں نے دربار تک رسائی حاصل کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ اپنے کو بہروپیا اور مسخرہ ظاہر کیا۔لیکن دربار میںجب یہ پہنچے ،تو اِن کی اِس حالت کو دیکھ کر کسی نے اِن کا مقام نہ پہچا نا،اس لیے اِن کی طرف اِلتفات بھی نہ کیا۔ خاقانی زمین پر بیٹھ گئے اور باقی سب درباری اپنے اپنے مقام پر بیٹھے ہوے تھے۔خاقانی  نے بے تکلف بادشاہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا    ؎

گر   فروتر   نشستِ   خاقانی

نے مرا ننگ و نے ترا ادب است

قل ہو ا ﷲ  کہ وصفِ خالقِ ما س          

زیر ِ  تبت  یدا  ابی  لہب  است

                خاقانی نے جب یہ دیکھا کہ نسبۃً کم اہلیت رکھنے والے اورعلم و مرتبے میںکم درجے کے لوگ اونچی اونچی نشستوں پربراجمان ہیں اور ہر طرح کے قالین گدے اور راحت رسانی کے سامان اُن کے لیے مہیا ہیں۔اور بادشاہ کی توجہ بھی اُنہی کی طرف ہے،تو اُس نے بادشاہ کو مخاطب کر کے مذکورہ با لا اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاقانی کی نشست نیچے رکھی گئی  ہے،تو اِس سے میرا مرتبہ اور قابلیت گھٹ نہیں گئی؛کیوں کہ قل ہو ا ﷲ کی سورہ جس میںخالقِ کائنات کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں،وہ سورہ لہب کے نیچے ہے۔یعنی اُس سورہ کے نیچے جس میں ابو لہب کے کفر اورخباثتِ نفس اور انجامِ بد کا بیان ہے۔تو جیسے نیچے ہو جانے سے خدا کے مرتبے میں کمی نہیں آئی ،ویسے زمین پر بیٹھ جانے سے میرا درجہ کچھ گھَٹ نہیں گیا؛ البتہ بادشاہ کے لیے ایک عار اور شرم کی بات ضرور ہو گئی کہ اُسے اہل اورقابل افراد کی قدر دانی نہیں آتی اور فرقِ مراتب سے واقفیت کے بغیر وہ بادشاہت کر رہا ہے۔

                مثال عجیب دی جو لوگ مسخرہ سمجھ کر لے گئے تھے،زرد پڑ گئے۔اُنہوں نے خاقانی شاعر کا نام تو سن رکھا ہوگا (مغل دور میں ہندوستان ،ایران کے تعلقات بہت گہرے تھے،اہلِ علم،اہلِ کمال بکثرت ایران سے آیا کرتے تھے)؛لیکن پہچانتے نہ تھے۔  بادشاہ قابلیت،برجستگی ،خوش بیانی اور اعلی درجے کے وصفِ شعر گوئی  اورشعری ذوق سے بڑا متاثر ہوا۔خاقانی کا بڑا احترام کیا اور اُسی وقت حمام بھیج کر غسل دلوا کر جو ڑا بدلوا یا اور دربار میں جگہ دی۔

                حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی رحمہ ا ﷲ نے لکھا ہے :’’یہ نشہ کمال ہی کا تھا۔‘‘

                 کمال کے اِسی نشہ کا بیان کرتے ہوے کہ جس شخص میں کوئی کمال ہوتا ہے۔علم وسیع اور گہرا ہوتا ہے،کسی فن میں ماہر ہو تا ہے،تواُس میں ایک خاص قسم کااعتمادپیدا ہوجا تا ہے۔یہی اعتماد تھا جس نے خاقانی سے اپنی خستہ حالی کے باوجود بھرے دربار میں بادشاہ کو تقریباً للکارتے ہوے مذکورہ شعر کہلوائے۔اور ابتدا میں فیضی جیسے ذی وجاہت درباری کے سامنے خود کو ایک ایکٹر کی حیثیت سے اِس طرح پیش کیا کہ اُسے بھنک نہیں لگنے دی(حالاں کہ فیضی خودبڑا قادر الکلام شاعر تھا،نثرونظم کا ماہر تھا۔’’سواطع الالہام ‘‘بے نقط تفسیر اُسی کا شاہکار ہے۔نہ جانے کتنے ذہین لوگوں اور بہروپیوں سے اُسے روزانہ سابقہ پڑتا رہتا ہوگا،اگر ایسے ہی دھوکا کھا جایا کرتا رہتا،تو کارو بارِ سلطنت کی ذمے داری سے ،پہلے رخصت ہو چکا ہوتا ۔اور ہندوستان بھر کے چنیدہ ذہین ترین ۹ ،افراد میں اُس کا شمار ہی کیوں ہوتایہ نہایت حیرت انگیز بات تھی کہ جس کو اُس نے مسخرہ سمجھا ،وہ اُس کا بھی اُستاذ نکلا) ۔مولانائے مرحوم نے اختصار کے ساتھ اُس واقعہ کوبیان کیا جوہم نے اوپر ذکر کیا ۔اور اس پر تفریع کرتے ہوے مولانا علی میاں ندویؒ کی شخصیت کو مثال میں پیش کر کے ایک واقعہ اُن کے متعلق بیان کیا کہ ایک مقام پراہلِ عرب کا مجمع تھا،عرب ممالک کے بڑے بڑے مفکرین موجود تھے۔وہاں مولانا علی میاں ندویؒکے بیان کا موقع آیا،تو مولانا نے ابتدا میں ایک فقرہ پڑھاع = ردۃ لیس لہا ابا بکر۔ اِس فقرے کو سننے کے بعدایک بڑے فاضل نے مجمع کے بیچ سے یہ صدا بلند کی۔یا شیخ! قد غَیّرْتَ محاورۃَالعرب اور استدراک کرتے ہوے اصل محاورے کا اُس نے تلفظ کیا کہ قضیۃ لیس لہا ابا الحسن ہونا چاہیے۔مولانا نے فرمایاکہ محاورے کی اطلاع مجھے ہے ؛لیکن میں نے قصداً اِسے تبدیل کیا ہے۔اس زمانے میں جو فکری اور عملی ارتداد کی وبا پھیلی ہے ،اُس کے لیے ’’اَیُنْقص الدینُ و انا حیٌ ۔‘‘کہہ کر سینہ سپر ہو جانے والے ابو بکر کی ضرورت ہے ابو بکر کی ہی ضرورت ہے۔اور اِس بات کو اپنے بیان میں ثابت بھی کر دیا۔فصیح و بلیغ عربی زبان میں ایک غیر عرب کی تقریر سن کرپورا مجمع اُن مفکر اسلام کا لوہا مان گیاجنہیں تقریر سے قبل ایک ہلکے پھلکے جسم کا بے حقیقت معمولی مقرر سمجھے ہوے تھا۔

                خیر لطیفہ یہ پیش آیا مولانائے مرحوم نے خاقانی کا ’گنا‘والے شعر (رفتم در باز ار خریدم یک گنا) کے دوسرے مصرعے میں اخیر میں جس’س‘کو خاقانی نے حذف کیا تھا،مولانا نے اُسے بھی پڑھ دیا۔مجھے د ل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ’’الناس‘‘میں ’س‘چھوڑ کر اور صرف ’النا‘پڑھ کرخاقانی نے جوظرافت پیدا کی ہے،پڑھ دینے سے تووہ مقصود فوت ہوجاتا ہے۔تقریر کے بعد میں نے اپنے اِس خیال کا اِظہارمولانا سعید ابن مولانا غلام محمد وستانوی سے کیا،وہ بڑے محظوظ ہوے اور مجھے لے کرمولانا کے پاس گئے اور اُن سے ذکر کیا کہ آپ نے جو شعر پڑھا تھا،اُس کے متعلق یہ ڈاکٹر فخر الاسلام صاحب کچھ کہنا چا ہتے ہیں۔ مولانا موصوف نہایت خندہ پیشانی او ربشاشت کے ساتھ سننے کے لیے آمادہ ہوے اور مجھے اپنی پوری بات کہنے کا موقع دیا۔اور اُس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ میرے ایک خیال اور وسوسے کواُنہوں نے میرا تیقظ قراردیااور اُسے میرے علم اور مطالعے کی دلچسپی پر محمول کیا۔پھر بعد کے تجربے میں اُن کاایک خاص وصف خوب سے خوب تر حیثیت میں مجھ پرظاہرہوتا گیا،وہ یہ کہ اُن کے یہاں چھوٹے اور بڑے کا فاصلہ ،اوراجنبی اور مانوس کا فرق اُس وقت بالکل ناپید ہو جاتا تھا ،جب وہ کسی کے اندر بھی علم سے مناسبت کی خو،بو پاتے تھے۔

دوسرالمحہ- دوسری صحبت:

                 غالباً ۲۰۰۳ء یا اُس کے آس پاس کی بات ہے جب احمد غریب یونا نی میڈیکل کالج اکل کوا میں کالج کے پرنسپل آفس میںٹیچرس کے سامنے مولانا عبد اﷲ کاپودروی صاحب کا خطاب تھا۔اِس خطاب میںجس پوائنٹ کے حوالے سے مولانا کی توضع اور علم سے شغف،بلکہ حرص کا نمونہ دکھانا پیشِ نظر ہے،اُس کے لیے دو واقعے ذکر کرنا ضروری ہے۔ایک اپنا اور ایک مولانا کا۔اپنا واقعہ ایک سر گزشت ہے،وہ یہ کہ ۱۹۸۶ء میں سید حامد صاحب سے بہ حیثیت ایک مفکر (اورسابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ،تعلیم آباد انسٹی ٹیوشن کے سر براہ و ڈائریکٹر ،نیز ہمدرد یونیورسٹی کے چانسلرعلی الترتیب)سے واقفیت حاصل کی۔اُس کے بعد تسلسل کے ساتھ اُن کی تحریریں، تحریکیں نظر کے سامنے آتی رہیں،تہذیب الاخلاق میں اُن کے مضامین نظر سے گزرتے رہے اورمتعدد جرائد، اخبار میگزین،رسالے،مختلف کتابوں پر تقریظیں،وقت کے حساس اور گرم سماجی اور شرعی مسائل پراُن کے قلم کی سحربیانی بھی مطالعہ میں آتی رہیں ۔اِن سب سے صاف یہ نظر آتا تھا کہ سر سید احمد خاں اصلاحِ قوم کا جو بیڑا لے کر اٹھے تھے ،جن میںفقہی اصولوں سے بے زاری ،مذہب کی جدید تشکیل ،سلف پر بے اعتمادی ، مسلک پر حمیت کے ساتھ قائم رہنے کو تعصب قرار دینے ، علم کو ایک اکائی باور کرانے اوراصلاحِ نصاب تعلیم کی جن کاوشوں سے اُنہوں نے ملک کو آشنا کرایا تھا،اُن میں سے بعض بعض اجزاء کو نہایت دانشمند انہ اُسلوب میںاورفہمائشی طرز پرسید حامد صاحب بھی لے کر اُٹھے ہیں۔ اُن کے تعلیمی کارواں کی حیثیت بھی سامنے آئی جس کے لیے مولانا علی میاںؒ کی تائید اُن کو حاصل تھی ۔بلکہ حضرت علی میاں کی تائیدی سفارش کے ساتھ ملک کے موقر علماء کو اِس مضمون کے خطوط بھی ارسال کیے گئے تھے ،کہ اِس تعلیمی کارواں میں سید حامدکی اعانت کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو کارواں میں شرکت کی کوشش کی جائے۔حضرت الاستاذ مولانا صدیق احمد باندویؒ کے پاس بھی مولانا علی میاں کا ایک خط پہنچا تھا۔عین اُسی وقت مدرسہ مظاہر علوم کے قدیم فارغ مولانا صدیق احمد صاحب کے رفیقِ درس ،دینی تصنیفات کا شغف رکھنے والے ، افتا اورقضا کے منصب پر فائز ایک بزرگ نے مولانا باندویؒ کو توجہ دلائی کہ مولانا علی میاںؒ کی تحریر کا آپ اثر نہ لیجئے گا،تعلیم کے باب میںوہ ندوہ کے مسلک کے حامی ہیں(اوریہ معلوم ہے کہ تعلیم کااثر دین کے تمام ابواب تک پہنچتا ہے۔رہے سید حامد صاحب تواُن کی حیثیت اِس وقت چھوٹے سر سید کی ہے ) ۔اِس مکتوب کا اثر ہوا اور حضرت الاستاذ رحمہ ا ﷲ نے اُس کارواں کی تائید سے خود کوالگ رکھا۔پھر بعد میں کیا ہوا مجھے معلوم نہیں؛لیکن صاحب مکتوب سے واقعے کی تفصیل میں نے بلا واسطہ سنی تھی۔

                 ۱۹۹۵ء سے ۱۹۹۹ تک میں دہلی میں رہا۔اِس دوران سید حامد صاحب کی ادارت میں انگریزی میں نکلنے والے پندرہ روزہ جریدہ پر بھی کبھی کبھی نظر پڑتی رہی ۔پھر غالباً ۱۹۹۸ء کے کسی مہینے میں یہ بات پیش آئی کہ انگریزی تعلیم یافتہ ایک ریسرچر- جو کہ میرے ریسرچ فیلو تھے -نے سید حامد کی ایڈیٹری میں نکلنے والے مذکورہ رسالے کے وہ صفحات میرے سامنے کھول کررکھ د ئے کہ دیکھئے سید حامد صاحب کی ایڈیتری میں یہ کیا کیا چیزیں چھپ رہی ہیں۔یہ دکھانے والے شخص دین کے باب میں آزاد تھے ؛لیکن میگزین میں شائع شدہ بات ایسی سخت تھی کہ اُنہیں بھی پڑھ کر وحشت ہوئی۔میں نے رسالہ دیکھا ۔در حقیقت وہ سید ہاشم علی سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا اِس عنوان کا ایک مضمون تھا:If Sir syed had migrated to North America ،اُس مضمون کے اندر علم کے باب میں دیوبندی اور قاسمی فکر کو ہدف بنا کر وہی سب باتیں کہی گئی تھیںجسے سوا سو سال سے طائفۂ علی گڑھ و ندوہ کہتا آیا تھا،جس کا اثر ’’دین کی تشکیلِ جدید ‘‘کے پیغام کی صورت میں رونما ہو چکا تھا۔اِسی پیغام کو انگریزی میں اِس طرح ادا کیا گیا تھا: ’’Shriyah should be changed to suit ever changig conditions‘‘(بدلتے حالات کے ساتھ شریعت کو بدلتے رہنا چاہیے)

                یہ فقرہ اگرچہ منسوب سر سید کی طرف تھا؛ لیکن ندوہ اور علی گڑھ اِس منشور سے روزِ اول سے متفق ہے۔اور ہنوز اِن دونوں تحریکوں کی یہی روش ہے، صرف تعبیر کا فرق ہے ۔جس بات کو علی گڑھ’’تبدیلیٔ شریعت ‘‘کہتا ہے،اُس کا ندوہ ’’تشکیلِ جدید ‘‘نام رکھتا ہے۔ ایک اِس کا نام ’’شریعت میں تبدیلی لانا‘‘رکھتا ہے ۔دوسرا اِ س کا نام شریعت کے اصولوں میں تبدیلی بتلاتا ہے ۔مقصود دونوں کا ایک ہی ہے کہ شریعت کے تمام ابواب میںعقائد سے لے کر معاشرت تک  اور فرد کی پسند و نا پسند (’’انفرادی آزادی‘‘)سے لے کر’’ بین مذہبی گفتگو ‘‘ میں،نیز قرآن کی تفسیر کے اصولوں سے لے کر’’ تاریخ ‘‘و ’’اثریات‘‘کے امور تک میں رائج الوقت ،فطری عوامل کے تحت دورِ جدید کے وضع کردہ اصول جا ری کیے جائیں۔حالاں کہ دوسری طرف یہ معلوم ہے کہ  یہ مذکورہ روش اور یہ جدیدیت زدہ اصول سلف کے اصولوں سے راست متصادم اور صحیح عقلی اصولوں کے ساتھ عین مزاحم ہیں۔اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد،میں وہ عبارت لے کر سید حامد صاحب سے وقت لے کر اُن کے دولت کدے پر پہنچا۔اور عرض کیا کہ آپ کا تہذیب الاخلاق ۱۹۹۴ء میں شائع شدہ مضمون’’ بنیاد پرستی‘‘پڑھ کرمیرا جی ایساخوش ہوا تھا کہ میں اِس اِنتظار میں تھا کہ کوئی موقع آئے کہ آپ کی زیارت کروں تاکہ دل اور نظر کو سرور و شادمانی حاصل ہو؛لیکن اِس مضمون کو پڑھ کر اُتنا ہی ؛بلکہ اُس سے زیادہ رنج ہوا۔میری گفتگو سید صاحب نے سن لی ۔اور آپ دل مضبوط کرکے مجھ سے یہ خبر بھی سن لیجئے کہ سید حامد صاحب نے جواب میں کسی طرح کے رنج یا افسوس یا تدارک کا اِظہار نہیں کیا ؛بلکہ ایک خاص انداز میں مسکراتے رہے۔

                اب مولانا عبد ا ﷲ کاپودروی رحمہ ا ﷲ کے علمی ذوق کا واقعہ سنئے!سفر نامہٗ امریکہ میںایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

                ’’حافظ حبیب الرحمن نے فرمایا!کہ اب ہم پرنسٹن یونیورسٹی جائیں گے۔اُن کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ  مجھے کتب خانوں کا شوق ہے۔ہم نے اسلامی لائبریری کے بارے میں معلومات حاصل کی اور اُس کی عمارت میں داخل ہوے۔یہ صرف شعبۂ اسلامیات کی لائبریری ہے۔ساڑھے چار لاکھ کتابیں موجود ہیں۔بڑے بڑے وسیع ہال ہیں اور اِس کتب خانے کے ممبر بننے کے لیے ۱۵ ڈالر فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔اِس لائبریری میں مخطوطات کی تعداد ۱۰ ہزار ہے۔ ہم نے اُس کمرے کا رخ کیا جہاں مخطوطات ہی رکھے ہوے ہیں۔پھر ہم اُس کمرے میں داخل ہوے جہاں میز پر عربی مخطوطاتکی تین جلدیں ہمارے لیے رکھ دی گئی تھیں۔پہلی جلد میں پانچ ہزار دو سو کتا بوں کے نام ہیں،دوسری جلد میں تین ہزار تین سو  نام ہیں اور تیسری میں بارہ سو ہیں۔اِس طرح مجموعی ۹۷۰۰ کتا بوں کی فہرست ہے۔ظاہر ہے ا،تنی ضخیم جلدوں کے مطالعے کے لیے چند گھنٹے کافی نہیں ہو سکتے۔مگر ہم نے تین گھنٹے تک پہلی جلد کا مطالعہ کیا۔صرف تفسیر اور حدیث شریف کی بعض کتابوں کے نام دیکھ سکے۔بہت ہی اہم اور نادر نسخے موجود ہیں۔حسرت کر رہا تھا کہ کاش یہ علمی خزانہ ہمارے ملکوں کی لائبریریوں میں ہوتا۔ ‘‘(چند طالب علمانہ تاثرات :مفکرِ ملت فخرِ گجرات حضرت مولانا عبد ا ﷲ کاپودروی،ص۱۳۴)

                یہ دونوں واقعات معلوم ہو جانے کے بعد اب سنئے !اپنے خطاب میں مولانا نے اپنے ایک سفر کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اُس سفر میں سید حامد صاحب کے ساتھ ایک ادارے میں جانا ہوااور اُس کی لائبریری دیکھنے کا موقع ملا،اسی طرح وہ سید صاحب کے ساتھ اپنی رفاقت کا تذکرہ کرتے  رہے،جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ سید صاحب  کے علمی ،فکری مذاق و رجحان اور تعلیمی ،سماجی اصلا حا ت کاہمارے مو لانا پرکافی اثر ہے۔پھر اُنہوں نے کہا کہ سید حامد صاحب بڑے عالی دماغ ،عالی خیالات کے آدمی ہیں،اُن کو اکل کوا بلانا چا ہیے۔میں نے عرض کیا کہ حضرت اُن کے افکار اچھے نہیں ہیں،اور وہ افکار اُن کے آسانی سے ظاہر نہیں ہوتے ۔اُن سے ملاقات کرنے والا اور معتد بہ مدت تک اُن سے ملنے ملانے والا علمی ذوق کا شخص بھی اُن سے متاثر ہی ہوتا ہے۔اُن کو یہاں نہ بلانا ہی ٹھیک ہے۔اب آپ اِس کو کیا کہیں گے کہ میری اِس بات کو مولانا عبد ا ﷲکاپودروی رحمہ اﷲ نے تسلیم کیا،خوشی کا اظہار کیا اور اپنی رائے پر اِصرار نہیں فرمایا۔مولاناکا یہ خطاب اور یہ مذاکرہ تو ختم ہوا۔پھر اُستاد سلیمان رندیرا اُن کو لے کرلائبریری کی طرف چلنے لگے  اور چوں کہ اُنہوں نے اپنے خطاب میں ایک بات اور کہی تھی،اس لیے اُس کے متعلق بھی کچھ سوال جواب کی صورت پیدا ہوگئی اور وہ چلتے چلتے ہوتی رہی ۔اُنہوں نے اپنے خطاب میں یہ بات کہی تھی کہ مصر کے فلاں فلاں مفکر ہیں اُنہوں نے تعلیم کے راز کو سمجھا ہے۔اُس لحاظ سے طٰہ حسین کی فلاں کتاب داخل ہو نی چاہیے ۔اور خیال ہوتاہے کہ احمد امین اور قاسم امین سے بھی اپنے تاثر کا اظہار کیا تھا اور صاف طور پر کہا تھا کہ درس نظامی کی فلاں فلاں کتاب داخلِ نصاب رکھنے سے اب کچھ فائدہ نہیں ہے۔اِس پر میں نے عرض کیا کہ حضرت جس جدید تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے آپ نے نصاب تعلیم کا نقص بیان کیا ہے،وہ طبقہ تو-نقص اگر دور کر دیا جائے تب بھی -معترض ہی رہے گا۔رہیں کتب معترض علیہا،تو اُن میں زیادہ حصہ معقولات کا ہے،سو اول تو جو کتابیں داخل رہنی چاہئیں تھیں اُن میں سے بھی بعضی خارج کر دی گئیں۔دوسرے جن بزرگوں کے فکری اصولوں سے ہم شریعت کے عقلی دفاع میں مدد لیتے ہیں،انہوں نے وہی اصول استعمال کیے ہیںجو اِن درسی کتابوں میں داخل ہیں۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اِن کے بجائے دوسرے صحیح اصول موجود ہوں کہ یہ نہیں تو وہ ۔بلکہ عقلی اصول متعین ہیں ،اُن سے نہ انحراف ممکن ہے،نہ فرار درست ہے۔معقولات سے بے زار کرنے کی مسلسل روش نے آج اِ س درجے تک پہنچا دیا ہے کہ مثلابیان القرآن تفسیر کی ایک اکیلی کتاب ہے جس میںاہلِ زیغ کے تمام عقلی شبہات کااہتمام کے ساتھ اصولی رد کیا گیا ہے۔کسی اور تفسیر میں یہ اہتمام اور استیعاب نہیں ہے۔لیکن اُس کامطالعہ کرنے والے کا حال یہ ہے کہ جب وہ یہ پڑھتا ہے کہ یہ بات بطور منعِ خلو کے ثابت ہے،تو چوں کہ اُس کے ذہن کواِن اصطلاحات سے پہلے ہی بے زار کیا گیاہے،پھر جب سائنس اور علوم جدیدہ کا بھی رعب ہر چہار طرف سے اُس پر ڈالا گیا،تووہ اور اُلجھ جاتا ہے اور اِس تفسیر کو یہ سوچ کر چھوڑ بیٹھتا ہے کہ منع خلو کالفظ تو سائنس میں ہے ہی نہیں ،لہذا اِس سے کس سائنسی مسئلے کے جواب کا  یاتائید کاسرا ہاتھ آ نے والا نہیں۔پھر فائدہ کیا؟دوسری طرف وہ خود صحیح اصولوں کے استعمال پر قادر نہیںجب میں یہ گفتگو کر رہا تھا تو استاد سلیمان نے چلتے ہوے ذرا مجھے روک کرسمجھانے کے انداز میں کہاکہ سوال ،جواب کیا کرنا، ،بات سن لینے کا۔لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ مولانا نے میری ہر بات کو تائید و تقویت سے سہارا دیا۔افسوس!مولانا کو لوگوں نے نہ معلوم کس کس طرح سے دیکھا اور اب نہ معلوم کس کس طرح سے مولانا کے علوم و افکار کو پیش کر رہے ہیں  ۔بعض تو اپنے افکار تک درست نہ کر سکے جیسا کہ اُن کی تحریروں میں فکری التباسات کے نمونے دیکھنے سے معلوم ہوا۔دراںحالے کہ وہ شہرت کے بلند مرتبے تک پہنچ چکے ہیں اور کہنے کووہ مولانا کے محبوب شاگرد ہیں؛محبت کے باب میں مولانا کی کیفیت یہ تھی اُن کا ہر شاگرد اپنے کو محبوب ترین شاگرد سمجھتا تھا ۔بالکل مولانا صدیق احمد باندوی علیہ الرحمہ کا سا حال تھا۔ یا قدیم بزرگوں میں حضرت نانوتوی کا پرتو معلوم ہوتے تھے جیسا کہ اُن کے حالات پر اطلاع حاصل کر نے سے اندازہ ہوا ۔حضرت  نانوتویؒ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو مثل چشم و چراغ دیکھتے تھے۔ شاگرد بھی اُن پر جان چھڑکتے تھے۔مولانا کاپودرویؒ علوم و فنون سے محبت رکھتے تھے اور عبقری الدھر تھے۔

                یہ باتیں میں نے اِس طرح لکھ دیں جیسے معلوم ہوتا ہے سب واقعات بالکل تازہ تازہ پیش آئے ہوں۔حالاں کہ اِن پر عشرات گزر گئے جن کی حیثیت اب لمحات سے زیادہ تصور میں نہیںآتی۔غور سے دیکھئے ،تودنیوی تمام حالات کی یہی کیفیت ہے اور زندگی کی بھی ۔اسی لیے کسی بزرگ نے فرما یا: ’’نزلنا ساعۃً ثم ارتحلنا، کذا الدنیا رحال فارتحلنا‘‘