یعنی
خادم القرآن حضرت وستانوی دامت برکاتہم کے فرزند اکبرحضرت مولانا محمدسعید صاحب وستانویؒ کی زندگی کے لمحاتِ سعیدہ کی چندجھلکیاں
از:غم گسارعبدالرحیم فلاحیؔ خادم جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
٭…ارتباط وتعلقات مع الاکابرین۔ ٭…ارتباط وتعلقات مع الاصاغرین۔
٭…ارتباط وتعلقات مع المعاصرین۔ ٭…ارتباط وتعلقات مع المدارس۔ ٭…ارتباط وتعلقات مع الاقرباء۔ ٭…ارتباط وتعلقات مع الاساتذہ۔
٭…ارتباط وتعلقات مع المصنفین والمؤلفین۔٭…ارتباط وتعلقات مع العوام والدعاۃ۔
غالباً۱۹۸۲ء کا اواخر ہے ،حضرت وستانوی دامت برکاتہم جامعہ اکل کوا کا آغاز محلہ مکرانی پھلی کے چھپرپوش کمروںمیںمولانامحمدیعقوب خان پوریؒ اوربراد رکبیر حافظ محمداسحاق صاحبان کی نگرانی میںکرچکے ہیں-اُس وقت حضرت وستانوی دارالعلوم کنتھاریہ میںوابستۂ تدریس تھے- اس دوران برطانیہ میں مقیم ضلع بھروچ کنتھاریہ کے زندہ دل اورعلماء نواز احباب نے خطیب عصر،ناموسِ رسالت اور سپاہِ صحابہ کے علم بردار اوراپنے وقت کے شاہ جی ثانی کہے جانے والے -جن کو سن کر حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کی یاد تازہ ہوجاتی۔ حضرت علامہ سیدعبدالمجید ندیمؒ کو ہندوستان بھارت میںبسلسلۂ تبلیغ دین اوروعظ وخطابت کی دعوت دی،حضرت تشر یف لائے اورحضرت کے خطابات،مدارس وجامعات میںشروع ہوگئے، لیکن دارالعلوم کنتھاریہ کا مہمان خانہ جو اُس دور میںراحت رساںاور آرام دہ دارالضیوف تھا،میں حضرت شاہ جی کا مستقل قیام رہا۔
جولوگ حضرت شاہ جی کی ضیافت کے لیے مقرر ہوئے،ان میں حضرت وستانوی بھی ایک تھے اور جابجا حسب ِموقع خطابات وغیرہ میں ہمرکاب بھی،بل کہ برادرانہ ودوستانہ تعلقات بھی حتی کہ بے تکلفانہ روابط بھی۔
ان دنوں حضرت وستانوی کے دوبیٹے لڑکپن اور بچپن کے مرحلے سے گزر رہے تھے،حضرت اپنے دونوںبیٹوںکوشاہ جی سے ملوانے لے گئے حضرت نے نام دریافت کیا ،ایک کا محمد سعید دوسرے کا حذیفہ بتلایا گیا،فوراً شاہ جی نے فرمایا:
’’سعیدالرحمن وحذیفۃبن الیمان ابنان وستان،فبای آلآی ربکما تکذّبٰن‘‘۔
اس طولانی تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ناموں کی تاثیر نام رکھنے والے کے جذبات مسمیٰ پر رونما ہوتے ہیں۔
حضرت مولانا سعید صاحب جن کو رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہوئے قلم لرزتااور ہاتھ کانپ رہا ہے،لیکن تقدیر پر ایمان ہر مؤمن کا خاصہ ہے۔ حضر ت مرحوم کی وہ خصوصیات وامتیازات جو طالب علمی کے زمانے سے لے کر تدریسی اور تنظیمی دور میں اخلاف کے لیے قابل ذکرہی نہیں بل کہ قابل تقلید بھی ہے۔مولانا سعید صاحب’’البذاذۃمن الایمان‘‘ کے پیکر تھے۔
٭…مولاناسعیدؒبچپن اورطالب علمی سے لے کرصاحب اولادہونے تک کھا نے پینے رہنے سہنے میںکبھی کوئی امتیازی شان،نہ تواپنائی نہ دکھلائی، درس گاہ اورامتحان حال میں،اپنی درس گاہ اوردرجہ کے عام طالب علم کی طرح،درس گاہ کی حاضری تکرا ر مطالعہ،انجمن مسابقات اورامتحانات میں کبھی کسی استاذکے سامنے صاحبزادگی کا احساس تک نہ ہونے دیتے،اُن کے اسی وصف نے ان کو دل کا دلارااورآنکھوں کا تارا بنادیا تھا۔
٭…مولانا سعید مرحوم اپنے ہم جماعتوں اور ہم عصروں میں ایسے گھل مل کر رہتے تھے کہ کبھی بھی اپنے ہم درس رفقاء،ہم منصب نظماء کو اس حیثیت سے شکوہ شکایت کا موقع نہ دیا کہ میں تم سب پر فائق یا لائق ہوں،بل کہ خوشی اورغمی کے موقع پران کے ساتھ مل کر اسفار طے کرتے۔
٭…مولانا مرحوم جہاں ہم عصروںکے مابین ہم عصر کی طرح رہتے وہیں اپنے چھوٹوں کے درمیان ایک مربی،مشفق،مہربان اور ہمدرد بن کر رہناپسندفرماتے چناں چہ یہ مشاہدہ اور معائنہ ہے کہ کسی طالب علم کو شروحات ِکتاب کی ضرورت ہوتی تو شروحات،کسی کوبیماری میںادویہ کی ضرورت ہوتی یاکسی ماہرڈاکٹرکی تشخیص کی ضرور ت ہوتی تو اس وقت اس کو دوا کی فراہمی یاڈاکٹر تک رسائی کابڑے اہتمام وانتظام کے ساتھ اس کی یہ ضرور ت پوری کرتے۔
کبھی کسی طالب علم کے پاس کرایہ نہ ہوتایاکپڑے،کمبل اورسوئٹرکی ضرور ت ہوتی تو اپنے متعلقین کے ذریعہ اس کو پورا کرواتے اور کمال کی بات تو یہ بھی ہے کہ کسی کے سامنے نہ اس کاتذکرہ کرتے نہ احسان جتلاتے،گویا کہ’’یایہاالذین اٰمنو لاتبطلواصدقٰتکم بالمن والاذیٰ‘‘کا پورا پورا لحاظ فرماتے۔
فراغت کے بعد،اگر کچھ فضلاء تخصصات یا تکمیلات کے لیے کہیں جانا چاہتے تومولانا مرحوم نہایت ہی سنجیدگی اور متانت کے ساتھ تصدیق نامہ،سفارش نامہ،مصارف سفر،مصارف تعلیم حتی کہ جس ادارے میں داخلہ ہوا،ان کے منتظمین سے طالب علم کاعلمی تعارف اور صلاحیت کا مذاکرہ کرکے ان کامقام اساتذہ کے د ل میں پیدا کرتے ،اور پھران فضلاء اورمتخصص فی الفنون کواپنے علاقہ یاکسی بھی مدر سہ میں تقرر کرواکر اس کی صلاحیت کو سنوارنے فکر فرماتے۔
بہرحال! قصہ مختصر یہ کہ اپنے عظیم باپ کی کثیر صفات حضرت مرحوم میں پائی جاتی تھیں،وہی سادگی وہی ترقی،وہی ہمدردی وہی غم گساری ، جو ان کے والد کا مزاج ہے؛اس کاوافر حصہ قدرت نے ان میں ودیعت فرمایا تھا۔
ارتباط مع الاکابر
حضرت مرحوم کا اپنے اکابرین سے نیاز مندانہ ،عاجزانہ ربط وتعلق،اسم بامسمیٰ حضرت سعید کی حیات باسعادت کاایک سعادت مند پہلو ارتباط مع الاکابرکا رہا ہے،بلاتعصب،بلاتفریق ِمسلک ومشرب،بلاتفریق علاقہ وخطہ،جس دورکے جو بزرگ جس خطے جس ادارہ اورجس شیخ کے متعلق علم ہوتا ان سے ربط کرتے وسائط تلاش کرتے ان تک رسائی ہوتی پھر اپنا ربط بڑھا کر ان کو وابستۂ جامعہ کرنے اور جا معہ سے متعارف کرانے کا حکمت بھرا کارنامہ انجام دیتے۔چناں چہ جامعہ میں جن مشائخ علماء کی تشریف آوری سالانہ جلسوںاور تکمیل حفظ کی مجالس کے موقع پر ہوئی اس میں فکر سعیدی اعلیٰ طور پر حاوی رہی ہے ۔
چناںچہ حضرت قاری امیرحسن صاحبؒ،مولانابلال حسنی،حضرت مولانا سیدحبیب باندوی،حضرت مولاناشاہ جمال الرحمن حیدرآباد ی، حضرت مولاناڈاکٹر تقی الدین ندوی،حضرت مولانارابع حسنی،حضرت مولاناواضح رشیدحسنی ندوی، حضرت مولانا نوال الرحمن اوربہت سی شخصیات نے جامعہ کو قدوم میمنت سے سرفراز فرمایا،اوربہت سی شخصیتوںنے کئی کئی مرتبہ اعزازبخشاہے ،چناںچہ حضرت مولاناسید سلمان صاحب مظاہری (ناظم مظاہرعلوم سہارن پور)آج دوسری مرتبہ جامعہ تشریف لارہے ہیں ،اسی طرح مولانا ابوبکر جابر قاسمیؔ جن کا انتخاب حضرت مرحوم نے اپنے والد محترم سے موافقہ کے بعد کیا ہے۔یہ سب مولاناکی خاموش فکریںرہیں،جس سے اکابرین کی توجہات اور عنایات قلبیہ سے ادارہ کواستحکام ملا۔
فجزاہم اللہ احسن الجزاء
یہ تومشت نمونہ از خروارے کے طور پر ان کی وساطت سے تشریف لانے والوں کی ایک جھلک ہے اس کے علاوہ حضرت مولانا سید ذوالفقارؒ،حضرت مولاناسیدارشدمدنی،حضرت مولانانعمت اللہ صاحب اعظمی،حضرت مولاناقاری محمدعثمان صا حب منصورپوری،حضرت مولانا سلما ن صاحب منصورپوری،حضرت مولانامفتی احمد صاحب خانپوری،حضرت مولانامفتی ابوالقاسم نعمانی،حضرت مولانامفتی سعیداحمد صاحب پالن پوری حضرت حاجی شکیل احمد بمبئی والے،حضرت مولانامنیراحمد صاحب کالینہ وغیرہ مشائخ سے شخصی تعلقات قائم کرکے حسب موقع استفادہ کی راہ ہموار کرائی۔
ارتباط مع الاساتذہ :
صاحبزادگان میںاگرکوئی اپنے استاذکو استاذمان لے یاکہہ دے،یہی بہت بڑی نعمت ہواکرتی ہے ہمارے مولانائے مرحوم کایہ طرۂ امتیازرہاہے کہ اپنے دینیا ت کے اساتذہ کا احترام،حفظ کے استاذحضرت حافظ احمدکروڈیاکے احسانات کا استحضا ر اوران کے گھرانے سے ہمدردانہ تعلق،مزیدبراںاپنے ابتدائی عربی صرف ونحو ، منطق وبلاغت کے اساتذہ کی خدمات کااعتراف،حضرت سلیمان شمسیؒ جوآپ کے شیخ الحدیث رہے ان کے ساتھ تادم آخر تلمیذانہ آداب بجالائے۔
اسی طرح جامعہ کے موجودہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدرضوان الدین صاحب معروفی کے ساتھ ایسا رابطہ سلوک رہا کہ ان کی ہر کاوش اور جدوجہد میں اور ان کے ہر دکھ درد،خوشی اور مسرت میں دل وجان سے شرکت کی،حتی کہ موصوف تصنیف کیسے مقبول ہو،کیسے مفید بنے،اور کیسے اس کی پذیرائی ہو؛کے لیے قاری طاہر رحیمیؔ ؒسے تقریظ لکھوانے یا حضرت مولانا سید ذوالفقارؒسے رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آئے یا مدارس کے منتظمین سے رابطہ کرنا پڑے ہر ممکن سعی جمیل کرکے اپنی شاگردی اور علم پروری کا حق اداکردیاان کے علاوہ بھی ان کے اساتذہ کی ایک خاصی تعداد اس کے معترف ہے کہ سراپا سعید مرحوم نے اپنے اساتذہ کی قدردانی، علم نوازی میں کسی طرح کی کوئی کسرنہ اٹھارکھی ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کوآغوش رحمت میں لے کر ا س کا بہتر بدلہ نصیب فرمائے۔
ارتباط مع الاعزاء والاقارب:
بعض مرتبہ کوئی اپنوں کے علاوہ کے عزت میں یدطولیٰ رکھتا ہے اور اپنوںکو نظر انداز کرتاہے،تو کوئی اقربا پروری میں افراط سے کام لے کر دیگرباکمال اشخاص سے صرف نظر کرتا ہے لیکن ہمارے موصوف مرحوم اس افراط وتفریط سے نکل کر جہاں جس باکمال کا پتہ چلتا اس کے کمال کا اعتراف اور قدرافزائی کے ساتھ ساتھ اپنے خویش واقارب کے کمال اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے ان کی خوشی وغمی اور ہمدری میں شریک ہوکر اپنائیت اور صلہ رحمی کا مظاہرہ فرماتے چناں چہ اپنی بہنوں،بھانجوں،بھانجیوں سے خوش گوار تعلقات رکھتے وہیں اپنے بہنوئیوں – جس میں کوئی شیخ الحدیث تو کوئی مہتمم وناظم تو کوئی تاجر وکاروباری ہے -کے ساتھ، اسی طرح اپنے خالہ زاد،ماموں زاد اور چچا زاد بھائیوں کے ساتھ بھی اقربا نواز ی کے روابط قائم رکھ کر’’صل من قطعک واعف عن من ظلمک واحسن الٰی من اساء الیک‘‘کا مظاہرہ فرماتے کوئی بڑے ماموں سے پکارتا تو کوئی بڑے ابا سے پکارتا۔
ایام مرض میں عبداللہ بن مولوی اویس پہنچ کر کبھی بنیان کبھی گریبان کھینچ کھینچ کر بڑے ابابڑے ابا کی صدا دے کر اپنی طرف متوجہ کرتا تو کبھی حمزہ کبھی حنظلہ اپنے بڑے ابا کے پاس پہنچ کر ان کی بیمار پرسی کرتے۔
اسی پر بس نہیں بل کہ اپنی خالہ جان،ماموںجان اور نانی جان سب کے ساتھ اپنے لال پاپا،سلو پاپا،بلال پاپا،پھوپھیاں سب سے اپنائیت کا معاملہ رہا۔
اپنے بڑے ماموں جان کے آزمائشی مراحل میں شانہ بشانہ رہ کر موقع بموقع اپنے برادر صغیر مولوی اویس سلمہ اور اپنے گورا ماموں(راقم الحروف)کے واسطے سے پوری پوری خبر گیری رکھ کرآنسوؤں کی لڑی،کمزور ہاتھوں کے طاقتور اشاروں اور نحیف پلکوں کے ذریعہ اپنے ماموں جان کے علمی مقام اور قربانیوں کے مصداق بن کر ان کے لیے دعا گزار ہوتے ،اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔
اسی طرح مولانا سعید کی حیات سعید کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مولانا اپنے سے وابستہ اپنے ماتحتی میں کام کرنے والے مدرسین کا رشتہ کروانے،تقرر کروانے اور ان کے گھر بسانے اور ان کے قدم جمانے تک کی فکر کرتے۔
ان کے ایام مرض میں اس بات کا شدت سے احساس وادراک ہواکہ حضرت مولانا جن بے سہارا کو سہارادینے اور جن سے کسی بھی جہت سے کوئی ربط رہا،وہ غول درغول اور فوج درفوج دورودراز بل کہ ہزاروں کلومیٹر کی دوری سے عیادت کے عنوان سے حضرت مولانا کے لیے دعا کرتے۔
کبھی آپ کے ہم درس احباب کا وفد آرہاہے تو کبھی نظمائے مراٹھواڑہ کا تو کبھی مدرسین فروعات جامعہ کا،غرض یہ کہ جب وہ اپنے احسان شناسی کا اعتراف کرتے تو پتہ چلتا کہ کسی کے گھر میں فریج دلوایا تو کسی کو گیس سلنڈر،کسی کے گھر میں پنکھا،تو کسی کے یہاں چاول،کسی کو قربانی تو کسی کاعلاج کروایا،اسی لیے جب اس راقم نے راجستھان کے ایک لڑکیوں کے ادارے میں قرآن خوانی کی درخواست کی تو جواب ملا کہ ہمارے مدرسے کی طالبات کا قرآن،حضرت مرحوم کو بہت پسند تھا وفات کی خبر سن کر تین دن سے مسلسل قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کیا جارہا ہے ۔
رتلام کے ایک مدرسہ کے ناظم مولانا محسن نے بتلایا کہ جب میں نے حضرت خادم القرآن کے فرزند ارجمند کی رحلت کی اطلاع طالبات میں کی اور ان کے محاسن کا ذکر ہوا تو طالبات اتنا روئیں کہ گویا کسی نے اپنے مشفق باپ کو کھویا تو کسی کے بڑے بھیا کی وفات ہوئی،اور رات بارہ بجے تک مسلسل قرآن خوانی ہوتی رہی جب تک ان کو روکا نہ گیا وہاں تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
جامعہ کے ایک فاضل مولانا مہرالدین ملے،کہنے لگے میرے ساتھ بڑا لگاؤ تھا اور فرمایا جب ملاقات فراغت کے بعد بھی ہوئی تو فورا دو چار سوروپیہ جیب میں ڈال دیتے اور شفقت فرماتے،ایک مرتبہ اپنے سسرال لے گئے میرا اور میرے مدرسہ کا تعارف کروایا اور کہا کہ اگر تیرے مدرسہ کی رسید بک ہوتی تومیں تجھ کو بہت لوگوں کے پاس لے جاکر تیرا تعارف کرواتا۔یہ ہے مولانا سعید کی خورد نوازی۔
ارتباط مع المدراس:
مدارس کے ساتھ آپ کا ربط وتعلق ایسا مستحکم تھاکہ کبھی کسی ادارہ کو استاذ کی ضرورت ہوتی تو استاذ کی اور طلبہ کی ضرورت ہوتی تو طلبہ کی،کسی ادارہ کو کتابوں کی ضروت ہوتی تو کتابوں کی فراہمی کرتے ،حتی کہ بہت سے مدارس کو جلسوں کے لیے مقررین کی ضرورت ہوتی تومقررعطاء فرما تے ۔
مولانا سلامت اللہ صاحب جو خیرالعلوم کھنڈوا کے ناظم اور حضرت باندوی ؒ کے معتمد شاگرد ہیں،انہوں نے جنازہ کے دن خود فرمایا کہ ’’مولانا ہم تو یتیم ہوگئے، مولانا ہمارے ادارے کا بہت خیال کرتے تھے‘‘۔
اسی طرح مولانا تصور صاحب فلاحی ناظم جامعہ اسلامیہ بنجاری چوپاٹی، فرمانے لگے’’ہمیں اچھے اساتذہ مولانا مرحوم کے ذریعہ دستیاب ہوتے تھے۔
علاقۂ ناندیڑ کی ایک بافیض دینی درسگاہ مدرسہ محمدیہ حمایت نگر کے ناظم جوجمعرات کو چل کر جمعہ کی صبح صبح پہنچے فرمانے لگے’’مولانا ہمارے بڑے محسن تھے کیا بتاؤ ںمولانا کی رحلت سے جتنا صدمہ آپ کو ہے اتنا ہی مجھے بھی ہے،ہمارے ادارے کے بڑے محسن تھے۔
الغرض یہ بطور نمونہ چند اداروں اور اشخاص کا ذکر کیا گیا ورنہ تو مولانا ارتباط مع المدراس کے باب میں بھی اپنے والد محترم کے قدم بہ قدم چلے ہیں۔
ارتباط مع الدعوہ والتبلیغ:
حضرت مرحوم کا تعلق بلاتفریق اکابرین دعوت وتبلیغ سے برابر رہا،خود بھی وقت لگایا ہے اور اکل کوا کے احباب کو بھی ان کے منشا کے مطابق دعوت سے وابستہ کیا ہے،مولانا ابراہیم صاحب دیولوی کی تشریف آوری ہوتی مولانا یونس پالن پور ی کی،یاحافظ منظور صاحب یا مفتی شاکر صاحب کی۔یا مولانا عبدالرشید پونہ والوں کو یا ڈاکٹر اشرف صاحب کی آمد ہوتی تو عصری تعلیم گاہوں،مساجد بستی میں مرکز پر کسی ترتیب سے ان کا بیان رکھا جائے کھانے پینے اور قیام سے کیسے راحت پہنچائی جا ئے۔
طلبہ میں دعوت کا شعور کیسے پیدا ہو نادر اور غریب طلبہ جو جماعت میں جانا چاہتے ہیں ان کے مصارف کی ترتیب بنا کر ان کو کیسے روانہ کیا جائے اپنے مخلص اور گم نام احباب سے مل کر انتظام فرماتے اور ان کو دعوت کی طرف راغب کرتے۔
الغرض اکابرین تبلیغ سے آپ کا گہرا ربط اورتعلق رہااور بہت سے لوگوں کو تبلیغ سے وابستہ کرنے میں آپ داعیانہ کردار بھی اداکیا ہے۔
اسی طرح حضرت مرحوم کا وہ وصف خاص جس کے پیش نظر بعضوں نے آپ کو صاحب سطور سے تعبیر کیا،حقیر اس کو تعبیر کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مؤلفین ومصنفین کے حوصلہ افزائی اور قدردانی میں اتنے پیش پیش تھے کہ کسی مصنف کی اچھی تصنیف کا پتہ چلتا تو آپ اس کی افادیت کے پیش نظر بلا تاخیرہرقیمت پر منگواتے کہیں کتابیں کسی مصنف کی مفت تقسیم ہونے کا پتہ چلتا تو ان سے بھی بلا تکلف رابطہ کرکے کتابیں منگواتے، بہت سے مؤلفین ومصنفین کواپنی کتابیں صحیح جگہ صحیح مصرف پر پہونچانی ہوتی تومولانا سے رابطہ قائم کرکے ایک خاص مقدار میں مولانا تک پہنچاتے پھر مولانا حسب صلاحیت ولیاقت اصحاب علم کی خدمت میں تحفۃ پیش فرماتے،یہ اتنی بڑی خدمت مولانا کی طرف سے علماء وطلباء کی ہوتی کہ علماء و طلباء آپ کی درس گا ہ اورآفس کے باہر لمبی قطار لگاکر علمی تحفہ حاصل کرنے کے لے بے قرار ہوجاتے اور حضرت مولانا خوش خوش ان کو کتابیں تقسیم کرکے تسلی پاتے ۔
نہ معلوم کتنے مفتیان کرام کی کتب فتاویٰ،کتنے شراح کی شروحاتِ کتب اور نہ معلوم کتنے مصلحین کے اصلاحی مواعظ اوراصلاحی مجالس اور نہ معلوم کتنے منتظمین کی انتظامی سلسلہ کی اور کتنے مفسرین ِکتب ِتفسیر اور کتنے محدثین کی ذخیرۂ احادیث کی تبلیغ کایہ خاموش اور پر اثرطریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کوگویاالہام ہوا ،تو گویا اس باب میں حضرت مولانا مرحوم موہوب من اللہ تھے اللہ کرے یہ جذبۂ ارتباط مع المصنفین والمؤلفین مزید پروان چڑھے اور نوخیز باکمال فضلاء کو تحقیق وتدقیق کے میدان میں مزید حوصلہ ملے اور یہ سنت ِسعیدی،سعید مرحوم کے لیے ذخیرۂ آخرت بنتی چلی جائے۔
ارتباط مع العوام:
اسی طرح حضرت مولانا کا عوام الناس سے ارتباط بالخصوص اہل نواپور، شولاپور،امراؤتی،شہادہ،جلگاؤں،اورنگ آباد،عنبڑ،نندورباراور ہردہ (ایم پی)سے ایسا ربط وتعلق رہا کہ کسی جامعہ کے لیے امدادفراہمی کرتے تو کسی جگہ مساجد بنواکر کہیں مدارس کی تعمیل کرواکے کہیں مدرس کی تنخواہ دے کر،کہیں مساجد میں خطبات رکھواکر،کہیں افطاری نظم کرکے،کہیں بیواؤں اور یتیم کی دیکھ بھال کرکے مخلوق خدا کی وہ خدمت کی کہ’’ارحموامن فی الارض یرحمکم فی السماء‘‘کسی عکاسی کرنے والے نے یوں تعبیر کیا ہے ؎
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
بہرحال!حضرت مولانا پر جب قلم چلا تو لکھتا ہی چلا گیا،باقی سچ بات تو یہ ہے کہ’’اذکرومحاسن موتاکم‘‘کے جذبہ کے تحت یہ چند تأثرات ِقلبیہ کو پیش کیا گیا ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ جس خانوادۂ وستانوی نے نہ معلوم کتنی بیواؤں کی کفالت اور کتنے یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھ کر اور کتنے بے سہارا لوگوں کا سہارا بن کر اور کتنے بے قراراور بے چین لوگوں کو قراردے کر رضائے رب کی فکر میں لگے ہوں،کیا پتہ تھا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ ہمارے گھرانے کو بھی ایک صالحہ عابدہ،بیوہ کا غم سہنا پڑے گا اور ہمیں بھی پانچ پانچ یتیموں کا چہرہ دیکھ دیکھ کر یتیمی کا احساس کرنا پڑے گا۔
لیکن اللہ کے ہرفیصلہ پرراضی رہناایک مسلمان کاایمانی فریضہ ہے اور ’’ان للہ مااخذ ولہ مااعطٰی‘‘پر یقین رکھ کر پوری جامعہ برادر ی کو تسلی وتعزیت کرتے ہوئے ان کے نقشہ قدم پر چلنے کی ترغیب دیتے ہوئے صرف یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ؎
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
ان سب صفات کے ساتھ ساتھ حضرت مرحوم کی ایک صفت خودکواور اپنے معاملات کوخوش اسلوبی کے ساتھ خفیہ رکھنے اور چھپانے کا بھی رہاہے جوآج کے شہرت پسند دور میں عنقاء ہوچکا ہے ۔
صرف بطورنمونہ ان کے ایک خادم جنہوں نے مولاناموصوف کی بے لو ث خدمت کی ہے،میری مراد عزیزم مولوی نزاکت اللہ امراؤتی، استاذجامعہ ہیں انہو ں نے بتلایاکہ اڑیسہ میںحضرت مولانا فاروق صاحب دامت برکاتہم جواشرف العلو م فقیرہ آباد کیندرہ پاڑہ اڑیسہ کے ناظم ہیں اورحضرت رئیس ِجامعہ سے بھی بہت قریب اورحضرت قاری امیر حسن صاحب کے خلیفہ ہیں،نے آپ کوسلاسل اربعہ میں خلعت خلافت سے نوازا تھا،جس کا علم متعلقین ومتوسلین کو تو کجا اہل خانہ کو بھی نہ تھا،ان کے انہیں خادم مولوی نزاکت اور مولوی صابر راج باڑی کے ذریعہ انکشاف ہوا اور اس کی مزید تائید جامعہ قاسمیہ کھروڈ کے شیخ الحدیث مولانامحمدحنیف صاحب کے ذر یعہ ہوئی، آپ نے اپنے تعزیتی خطاب میں اس رازکو ظاہر فرمایا تھا، کہ اس سفر میں جس میں حضرت کو خلافت سے نوازاگیا میں بھی آپ کا ہمسفر تھا۔
الحاصل !مرنے والے میںبہت سی خوبیاں تھیں، میں تو اسی پر اپنی تحریرکو سمیٹ رہاہوں کہ ؎
جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گئے ہم خاک پر
اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرماکرجنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور وابستگان وپسماندگان کوصبر جمیل عطافرمائے۔آمین یارب العالمین ۔
حضرت مولانا محمد سعید صاحبؒ ایک نظر میں
پیدائش:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۲؍اپریل ۱۹۷۷ء
بمقام:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کنتھاریہ ضلع بھروچ
دینیات سے فراغت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۸۵ء
حفظ سے فراغت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۸۹ء
شعبۂ عا لمیت وتجویدسے فراغت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۷ء
جامعہ میں تدریس:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۷ء تا ۲۰۰۴ء
نظامت مدرسہ ابوبکر صدیق عنبڑ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴ء تا ۲۰۱۳ء
دوبارہ جامعہ میں صدارت دینیات وتدریس: ۲۰۱۳ء تا ۲۰۱۸ء
وفات:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹؍رجب المرجب ۱۴۴۰ھ ۲۷؍مارچ۲۰۱۹ء
بروز:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدھ
بوقت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعدمغرب
پس ماندگان:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیوہ،دوبیٹے،تین بیٹیاں،والدین، دوبھا ئی، چھ بہنیں۔