مفتی محمد مجاہدبن حافظ محمد صادق اشاعتی پھلمبری /استاذ جامعہ اکل کوا
امت مسلمہ کے زوال کے اسبا ب میں سے ایک اہم سبب دنیا کے مقابلے میں آخرت کی فکرنہ کرنا ہے۔ انسان دنیا میں ایسا غرق ہوجاتا ہے کہ آخرت کو ہی بھلا بیٹھتا ہے؛ حالاں کہ قرآن وحدیث میں یہ بات بیان فرمائی گئی ہے کہ آدمی اپنی موت اور اس کے بعد پیش آنے والے برزخی واخروی حالات و آثار اور مناظر کا ہروقت استحضار رکھے۔ واقعہ یہ ہے کہ موت و آخرت کے استحضار سے عبادت کی طرف رغبت ، گناہوں سے ہر ممکن اجتناب کا جذبہ اور دنیا کی زندگی سے بے رغبتی جیسی اعلیٰ صفات وجود میں آتی ہیں۔
موت اٹل حقیقت ہے :
موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔دنیا میں ہرقسم کے اختلافات موجود ہیں ، بل کہ خدا اور رسول اور نظام کائنات کے منکرین موجود ہیں ، لیکن موت کا کوئی منکر نہیں ۔ سب جانتے ہیں کہ دنیا کی زندگی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔
قرآن میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :
﴿:فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ ﴾ (الاعراف: ۳۴)
ترجمہ : اور ہر قوم کے لیے ایک میعاد مقرر ہے؛ چناں چہ جب ان کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔
اورایک جگہ ارشاد ہے :
﴿اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍ ﴾(النساء : ۷۸)
ترجمہ: تم جہاں بھی ہوگے (ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جاپکڑے گی، چاہے تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ رہ رہے ہو۔
لیکن اس کے بالمقابل موت کا جتنا یقین ہے اتنا ہی اس سے غفلت اور لاپرواہی بھی برتی جاتی ہے ، اخروی زندگی کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ غفلت اور لاپرواہی ایمانی تقاضے کے بالکل برخلاف ہے ۔ مومن کو تو کثرت سے موت اور آخرت کی زندگی کو یاد رکھنا چاہیے ،اس لیے کہ دنیاوی زندگی کی آخرت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں۔
دنیوی زندگی کھیل کود ہے:
﴿اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُہ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا﴾ (الحدید:۲۰)
ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بارش ؛جس سے اگنے والی چیزیں کسانوں کو بہت اچھی لگتی ہیں، پھر وہ اپنا زور دکھاتی ہیں، پھر تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد پڑگئی ہے، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے۔
مذکورہ آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی کی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ یہ دنیا وی زندگی کھیل کود ہے ، زینت اور سجاوٹ کا سامان ہے ، آپس میں ایک دوسرے پرفخر کرنا ہے اور مال و دولت میں اور اولاد میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ، ساری دنیاوی زندگی کا حاصل ہے۔ مختلف زمانوں میں انسان مختلف چیزوں پر فریفتہ ہوجاتا ہے اور پھر خود اپنی زندگی پر ہنستابھی ہے کہ میں کس چیز کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش اتاری اور اس بارش کے نتیجے میں خشک پڑی ہوئی زمین پر سبزہ اگ آیا۔اور سبزیاں اورترکاریاں پیدا ہوگئیں اور کھیت ہرے بھرے ہوگئے ۔ وہ ہرے بھرے کھیت کسانوں کو بہت پسند آتے ہیں ، لیکن کچھ وقت کے بعد وہی ہرے بھرے کھیت زرد پڑجاتے ہیں اور پھر وہ کھیتی آخر میں بھوسہ بن جاتی ہے اور بے حقیقت ہوجاتی ہے۔
یہی حال اس دنیاوی زندگی کا ہے ؛یہاں کی ہرچیز ابتدا میں بڑی خوب صورت لگتی ہے، بہت خوش نما نظر آتی ہے، کھیل بھی اچھا لگتا ہے ، مال و دولت بھی اچھا لگ رہا ہے ، لیکن آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچیں گے تو یہ سب بھوسہ نظرآئے گا۔
دنیا دھوکہ ہے:
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ”ان الدنیا حلوة خضرة “۔
(رواہ مسلم)
مذکورہ حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی حقیقت واضح فرمائی ہے کہ بے شک دنیا میٹھی اور سرسبز ہے ۔ یعنی ایک انسان کو دنیا کی شان و شوکت ، دنیا کی لذتیں اوردنیا کی خواہشات بڑی خوش نما معلوم ہوتی ہیں۔ گویا کہ یہ دنیا خوش نما ہے اور خوش ذائقہ بھی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہاری آزمائش کا ایک ذریعہ بنایا ہے اور تمہیں اس دنیا میں اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے؛ تاکہ وہ دیکھے کہ تم اس دنیا میں کیسا عمل کرتے ہو؟ کیا دنیا کی یہ ظاہری خوب صورتی اور خوش نمائی تمہیں دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اورتم اس دنیا کے پیچھے لگ جاتے ہو؟یا تم اللہ اور اللہ کی پیدا کی ہوئی جنت اور آخرت کو یاد کرتے ہو اور اس کی تیاری کرتے ہو۔
دنیا کی حیثیت ایک پانی کا قطرہ ہے :
عن المستورد بن شداد رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”واللہ ما الدنیا فی الآخرة الا مثل مایجعل احدکم اصبعہ فی الیم فلینظر بم ترجع “
(رواہ مسلم)
حضرت مستور دبن شداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے ،جیسے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے اور پھر وہ انگلی نکالے ۔ یعنی اس انگلی پر جتنا پانی لگاہوا ہوگا ، آخرت کے مقابلے میں دنیا کی اتنی بھی حیثیت نہیں ۔ اس لیے کہ سمندر پھر بھی متناہی ہے ، غیر متناہی نہیں اور آخرت کی نعمتیں تو غیر متناہی ہیں۔
دنیا ایک مردار بکری کے بچے کے مثل ہے :
مسلم شریف کی روایت ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک بازار میں گزرے اور آپ کے دونوں طرف لوگ چل رہے تھے، تو آپ بکری کے ایک مردار بچے کے پاس سے گزرے ،وہ بکری کا بچہ بھی عیب دار ، یعنی چھوٹے کانوں والا اور مردار بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مردار بچہ کو کان سے پکڑکر اٹھایا اور پھر فرمایا کہ تم میں کوئی شخص اِس بکری کے مردار بچہ کو ایک درہم میں خریدنے کے لیے تیارہے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ایک درہم تو کیا معمولی چیز کے بدلہ میں بھی اس کو کوئی لینے کو تیار نہیں ۔ ہم اس کو لے کر کیا کریں گے؟
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نے فرمایاکہ: ایک درہم میں نہ سہی ؛ کیا تم میں سے کوئی اس کو مفت لینے کو تیار ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا خدا کی قسم! اگر یہ بچہ زندہ بھی ہوتا تو عیب دار ہوتا ، اس لیے کہ اس کے کان چھوٹے ہیں ۔ تو جب زندہ لینے کو کوئی تیار نہیں تو مردار لینے کو کون تیار ہوگا؟
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری نظروں میں بکری کے اس مردار بچے کی لاش جتنی بے حقیقت اور ذلیل چیز ہے ۔ اس سے زیادہ بے حقیقت اور ذلیل چیز یہ دنیا ہے ، جو تمہارے سامنے ہے ۔ تم میں سے کوئی شخص بھی اس مردار بچے کو مفت لینے کو تیار نہیں اور وہ دنیا؛ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے زیادہ بے حقیقت اور ذلیل ہے تم اس کے پیچھے دن رات پڑے رہتے ہو۔
دنیا میں ایک اجنبی کی طرح رہو :
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں سے یہ بھی ہے کہ دنیا میں اس طرح رہو ، جیسے اجنبی ہو ۔ راستے کے راہی اور مسافر، یعنی جیسے مسافراپنے سفرکے دوران کہیں کسی منزل پر ٹھہرا ہوتا ہے ، تو وہ یہ نہیں کرتا کہ اس منزل ہی کی فکر میں لگ جائے اور جس مقصد کے لیے سفر کیا ، اس کوبھول جائے۔
حقیقی زندگی :
عن سہل بن سعد رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:” اللہم لا عیش الا عیش الآخرة “
(بخاری شریف)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے اللہ ! حقیقی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے؛ اسی لیے انسان کو اس کی حقیقی زندگی آخرت کی فکر کی ترغیب دی گئی اور موت کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
موت کی یاد کا حکم :
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” اکثروا ذکر ہاذم اللذات فانہ ما ذکرہ احد فی ضیق من العیش ، الا وسعہ علیہ ولافی سعة الا ضیقہ علیہ “۔
لذتوں کو توڑنے والی چیز؛ یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ اس لیے کہ جو بھی اسے تنگی کے زمانہ میں یاد کرے گا تو اس کو وسعت ہوگی (یعنی اس کو طبعی سکون حاصل ہوگا کہ موت کی سختی کے مقابلہ میں ہر سختی آسان ہے) اس کو یاد کرے گا تو یہ اس پر تنگی کا باعث ہوگا (یعنی موت کی یاد کی وجہ سے وہ خوشی کے زمانہ میں دنیا سے غافل ہوکر گناہوں کے ارتکاب سے بچا رہے گا۔)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایمان والوں میں کون سا شخص سب سے زیادہ عقل مند ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” اکثرہم للموت ذکرا و احسنہم لما بعدہ اسعدا اولئک الاکیاس “
ان میں جو سب سے زیادہ موت کو یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد جو سب سے عمدہ تیاری کرنے والا ہو ایسے ہی لوگ سب سے زیادہ عقل مند ہیں۔
حضرت شداد بن اوس فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت ، والعاجز من اتبع نفسہ ہواہ وتمنی علی اللہ “ (ترمذی)
عقل مند آدمی وہ ہے ، جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور مرنے کے بعد کے لیے عمل کرتاہے ؛جب کہ عاجز اوردرماندہ آدمی وہ ہے، جو اپنے آپ کو اپنی خواہش کے تابع بنالے اور پھر اللہ تعالیٰ سے امیدیں باندھے ۔
موت و آخرت کو یاد کرنے کے بعض فوائد:
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ بعض علما سے منقول ہے کہ جو شخص موت کو کثرت سے یاد رکھے، اس کو اللہ تعالیٰ تین باتوں کی توفیق مرحمت فرماتا ہے :
۱- تعجیل التوبة : یعنی اگر اس سے کوئی گناہ ہوجائے تو وہ جلد ازجلد توبہ کرکے گناہ معاف کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ تو بہ کے بغیر موت نہ آجائے ۔
۲- قناعة القلب : یعنی موت کو یاد رکھنے والا حرص و طمع میں مبتلا نہیں ہوتا، بل کہ جو کچھ بھی اسے میسر ہوتا ہے ، اسی پر راضی رہتا ہے ۔ اور یہ قناعت اسے طبعی سکون اور دلی راحت عطا کرتی ہے؛ وہ یہ سوچتا ہے کہ تھوڑی بہت زندگی ہے ، جس طرح بھی گزر جائے گزار لیں گے ، زیادہ فکر کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔
۳- نشاط العبادة : یعنی موت کا استحضار رکھنے والا شخص جب عبادت کرتا ہے تو پوری دل جمعی اور یکسوئی کی کوشش کرتا ہے ۔ اس دل جمعی کی دوو جوہات ہوتی ہیں اور یہ کہ اسے خطرہ رہتا ہے کہ پتا نہیں آئندہ اس کو عبادت کا موقع ملے کہ نہ ملے ؛لہٰذا ابھی اسے جتنا اچھا بنالیں، غنیمت ہی غنیمت ہے ۔ دوسرے یہ کہ آخرت کی یاد کی وجہ سے اسے عبادت پر ملنے والے عظیم اخروی بدلے کا کامل یقین ہوتا ہے ، جس کی بنا پر اسے عبادت میں وہ کیفیت وسرور نصیب ہوتا ہے ، جو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
موت کو بھول جانے کے نقصانات:
اس کی برخلاف جو شخص موت کو یاد نہیں رکھتا اور آخرت سے غافل رہتا ہے ، وہ تین طرح کی محرومیوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے ۔
۱- تسویف التوبة : یعنی اگر اس سے کوئی گناہ ہوجائے تو توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرتا رہتا ہے اور استغفار میں جلدی نہیں کرتا۔اوربسا اوقات اسی حالت میں اس کی موت آجاتی ہے۔
۲- ترک الرضا بالکفاف : جب موت کی یاد نہیں رہتی تو آدمی کی ہوس بڑھ جاتی ہے اور وہ ضرورت کے مطابق روزی پر راضی نہیں رہتا، بل کہ” ہل من مزید“ کی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔موت سے غفلت کی بنا پر منصوبے بنائے چلاجاتا ہے ، جس کا انجام یہ نکلتا ہے کہ آرزوئیں رہ جاتی ہیں اور موت آکر زندگی کا تسلسل ختم کردیتی ہے ۔
۴- التکاسل فی العبادة : جب آدمی موت سے غافل رہتا ہے ، تو عبادت کرنے میں قدرتی طور پر سستی ظاہر ہوتی ہے اور نشاط کافور ہوجاتا ہے ۔ اوّلاً تو عبادت کرتا ہی نہیں اور کرتا بھی ہے تو وہ طبیعت پر نہایت گراں گزرتی ہے ۔ یہ گرانی صرف اس بنا پر کہ آدمی کو یہ استحضار نہیں رہتاکہ ہم سے مرنے کے بعد ان ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ اور اگر خدا نہ خواستہ وہاں رضائے خداوندی کے مطابق جواب نہ ہو تو ایسی رسوائی ہوگی، جس کے مقابلے میں دنیا کی ساری رسوائیاں اوربے عزتیاں ہیچ ہیں۔
موت وآخرت کو یاد کرنے کے چند ذرائع :
احادیث طیبہ میں جہاں موت کو یاد رکھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، وہیں بعض ایسے اعمال کی ترغیب بھی وارد ہے ، جو موت کو یاد رکھنے میں موٴثر اورمعاون ہوتی ہے ۔ ان میں سب سے اہم عمل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عام قبرستان جاکر قبر کی زندگی اور قبر والوں کے متعلق غور کیا جائے ۔ اسی طرح موت کو یاد کرنے کے لیے دو اہم موٴثر اسباب بعض روایات میں بیان کیے گئے ہیں ۔
(۱) مردوں کو نہلانے میں شرکت کی جائے ۔ (۲) جنازوں میں بکثرت شریک ہواجائے۔
اگر ہم لوگ آج بھی انابت الی اللہ کی کیفیت ، سابقہ گناہوں پرندامت اور شرمندگی کا احساس پیدا کر لیں ، تو ان شاء اللہ؛خداوندقدوس ہمارے حال پرر حم فرمائے گا اور ہم سرخ رو ہوسکتے ہیں ۔
امت ِمسلمہ کے زوال کے اسباب میں مو ت وآخرت کا بھول جانا بہت ہی اہم سبب ہے ۔ اس لیے ہمیں موت و آخرت کا استحضار کرنے اور اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں موت وآخرت کا استحضار عطا فرمائے۔ آمین !
(مستفاد : اصلاحی خطبات / اللہ سے شرم کیجیے )